میری اس سے پرانی ملاقات ہے ۔وہ صوم و صلوۃ کا پابند ، حلا ل و حرام کی تمیز کرنے والا اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کا مکمل خیا ل رکھنے والاہے ۔ اللہ پر بھروسے اور توکل میں بھی اس کی سطح اچھی خاصی بلندہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ چند سال قبل اُسے کہیں سے ‘‘ علم الاعداد’’ کی چندکتابیں مل گئیں۔ چونکہ کتب بینی اس کا شوق تھا ، لہذا اس نے یہ کتابیں پڑھ ڈالیں۔کتابیں پڑھ کر اُس کا شوق بڑھا، چنانچہ اس نے وہ سب کتابیں پھر بڑے غو ر سے پڑھیں۔اس کے بعد اس نے اپنا نمبر نکالنا شروع کیا ۔اس کا نمبر آٹھ نکلا ۔ اس نے اپنی تاریخ پیدایش کا نمبر نکالا ، وہ بھی آٹھ نکلا ، ماں کا نام لکھا وہ بھی آٹھ بنا۔ اپنی موٹر سائیکل کا نمبر بنایا تو آٹھ بنا ، گھر کا نمبر شمار کیا تو آٹھ نکلا۔ اب اس نے آٹھ نمبر کے خواص کی مطابقت خو د سے قائم کرنا شروع کی تو حیرت انگیز طور پر ان سب خواص کو خود سے مماثل پایا۔اب تو اس کا یقین بننا شروع ہو گیا کہ اعداد انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔حالانکہ وہ توحید اور تقدیر پہ کامل یقین رکھنے والا تھامگر خود کو موحد اور مسلمان کہلاتے ہوئے بھی علم الاعداد کی رو میں بہ نکلا۔ اب وہ ہر کا م سے پہلے اس کا نمبر نکالتا اور اگر موافق ہوتا تو کام کرتا ورنہ رک جاتا ۔ اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ وہ سمجھنے لگا کہ بجائے اللہ کے (نعوذ باللہ ) آٹھ نمبر کی اس پر حکمرانی ہے ۔ اب اس کی زندگی نمبروں کے گرد گھومنے لگی اور ہر کا م کا دارومدار نمبروں پر ہو کر رہ گیا۔اس نے بتایا کہ دو تین برس اسی طرح بیت گئے۔ ایک دن اللہ کو اس پر رحم آگیا ۔ اس نے سوچا کہ جب وہ نمبروں پہ یقین نہیں کیاکرتا تھا تو اس کے کام کو ن بنایاکرتا تھا ؟ اب بھی یقینا وہی ہستی کر رہی ہے مگر اسے شیطان نے اچک لیا ہے اور اس کی آنکھوں پر پردے پڑگئے ہیں۔وہ نادم ہوا کہ توحید، تقدیر اور اللہ کی قدرت کاملہ پر یقین رکھتے ہوئے بھی کس طرف چل نکلا ہے ؟ اس نے اپنی حالت پہ جوں جوں غور کرنا شروع کیا توں توں ندامت بڑھنا شروع ہوئی۔ایمان کی طاقت نے اپنا کام کیا اور وہ تو بہ کر کے لوٹ آیا۔ اس نے سب کتابیں ردی میں اٹھوا دیں اور از سر نو اللہ سے اپنا رابطہ بحال کر لیا۔ اس کے بعد اس نے حیرت انگیز طور پر دیکھا کہ اب اس کے کام آٹھ نمبر کے دائرہ کا ر سے نکل آئے ہیں اور اب حسب ِسابق دعا اور تقدیر نے اپنا عمل شروع کر دیا ہے ۔ اس نے اللہ کا شکرادا کیا اور نارمل زندگی کی طرف لوٹ آیا۔
اس نے بتا یا کہ اگرچہ یہ تجربہ بہت خوفنا ک تھا مگر اس سے اسے کچھ ایسے عملی سبق ملے کہ جو شاید اس کے بغیر نہ ملتے۔ اس نے کہا کہ اس تجربے کا پہلا سبق یہ تھا کہ انسان جہاں یقین وابستہ کر لیتا ہے اللہ اُ سی راستے سے اُس کو دینا شروع کر دیتا ہے ۔دوسرا سبق یہ تھاکہ جس درجے کا یقین ہوتا ہے اسی درجے میں اس کی خواہشات پوری ہوتی ہیں۔ تیسرا سبق یہ تھا کہ انسان کی آزمایشوں میں سے یہ آزمایش بہت سخت ہے اس سے اللہ کی پنا ہ مانگنی چاہیے کہ اللہ اسے کسی او رکے حوالے نہ کرے ۔
میں اس کے چہرے کی طرف حیرانی سے دیکھ رہا تھا اور اس کی روداد سن کر مجھے اس بات کا راز سمجھ آر ہا تھا کہ ہندو یا شرکیہ عمل کرنے والے مسلمان بتوں یا قبروں سے کیوں وابستہ ہیں؟ یہ یقینا پاگل نہیں بلکہ ان کو بتوں ، مزاروں ، قبروں ، سادھوؤں اور بابوں سے ہوتا نظر آرہا ہوتا ہے ۔ایک نماز ی مسلما ن نے بتایا کہ بارہ برس اللہ سے دعا مانگتا رہا ، بیٹا نہ ملا ، ایک بار فرید کے دربار پر جا کر مانگا ، بیٹا مل گیا۔ اسی لیے بیٹے کا نام فرید رکھاہے۔ یہ یقینا بہت سخت آزمایش ہوتی ہے ۔ دینا تواللہ ہی نے ہوتا ہے اور اس کی مشیت میں دینے کا وقت بھی مقرر ہوتا ہے مگر انسان اپنی عجلت سے اس آزمایش میں ناکام ہو جاتا ہے اور اللہ کا در چھوڑ کر کسی اور کے در جا پڑتا ہے ۔ انبیا کی دعوت کا مرکزی نقطہ ہی یہی ہوتا ہے کہ لوگو جہاں جہاں تمہارے یقین پھنسے او راٹکے ہوئے ہیں انہیں وہاں وہاں سے نکال کر ایک اللہ پر قائم کر لو جو سب کے بغیر سب کچھ کر سکتا ہے ۔ وہ اگرچہ اپنے قانون کے تحت کرتا اسبا ب کے ذریعے ہی ہے لیکن یہ سب پردے ہیں ، پردے کے پیچھے اُسی کا ہاتھ اور اُسی کی قدرت کار فرما ہوتی ہے ۔ اس لیے مومن کے لیے صراط مستقیم یہی ہے کہ اس کی نگاہ اور یقین پردے کے پیچھے رہے نہ کہ پردے ہی کے نقش و نگار میں اٹک کر رہ جائے ۔ انسانوں کی اکثریت اسی آزمایش میں ناکام ہوتی ہے ۔ میں نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا ۔ یقینا اس نے مجھے ایمانی زندگی کا ایک ناقابل فراموش سبق سکھایا تھا اس لیے اس دن کے بعد سے میں نے باقاعدہ یہ دعا مانگنا شروع کر دی ہے کہ یا اللہ تومجھے مخلوق کے اور اپنے غیر کے حوالے نہ کرنا ، نہ حالات کے ، نہ مسائل کے اور نہ ہی ہمیں ہماری تدبیروں کے حوالے کرنا ۔محض اپنے فضل و کرم کے حوالے کیے رکھنا۔