آپ سب کا تجربہ اور مشاہدہ ہوگا کہ مختلف سکول آف تھاٹ کے لوگ ہیں مگر رویہ ایک جیسا ہوتا ہے کہ زچ کر دینے والے انداز میں لوگوں کو نصیحت کرنے لگ جاتے ہیں کہ اگلا بندہ بجائے نصیحت یا علم حاصل کرنے کے بیزار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
انداز کچھ یوں ہوتا ہے کہ تم مانو تم مانتے کیوں نہیں ۔ہم تو منوا کر ہی چھو ڑیں گے۔
جب کہ کسی سے کچھ بھی منوانا کسی بھی انسان حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذمہ داری ہے ہی نہیں۔توجہ کیجئے
لَیسَ عَلَیکَ ہُدٰہُم وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہدِی مَن یَّشَآءُ
انہیں ہدایت پر کھڑا کرنا آپ کے ذمہ نہیں بلکہ ہدایت اللہ تعالیٰ دیتا ہے جسے چاہتا ہے
القرآن - سورۃ 2 - البقرۃ - آیت 272
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بھی فرمایا
اِنَّکَ لَا تَہدِی مَن اَحبَبتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہدِی مَن یَّشَآءُ وَہُوَ اَعلَمُ بِالمُہتَدِینَ
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔
القرآن - سورۃ 28 - القصص - آیت 56
تو ذمہ داری کتنی ہے؟ اتنی ہی ہے جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس سے زیادہ تو نہیں ہو سکتی ناں اور وہ ہے '' الا البلاغ'' صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔
لفظ الاّ زور دے رہا ہے کہ '' صرف'' بیان کر دینا ہے
مَا عَلَی الرَّسُولِ اِلَّا البَلٰغُ وَاللّٰہُ یَعلَمُ مَا تُبدُونَ وَمَا تَکتُمُونَ
رسول کے ذمہ تو صرف پہنچانا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ پوشیدہ رکھتے ہوالقرآن - سورۃ 5 - المائدۃ - آیت 99
اور وہ بھی انتہائی خوش اخلاقی اور نرم مزاجی سے
فَبِمَا رَحمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنتَ لَہُم وَلَو کُنتَ فَظًّا غَلِیظَ القَلبِ لَانْفَضُّوا مِن حَولِکَ فَاعفُ عَنہُم وَاستَغفِر لَہُم وَشَاوِرہُم فِی الاَمر فَاِذَا عَزَمتَ فَتَوَکَّل عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ المُتَوَکِّلِینَ
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔القرآن - سورۃ 3 - آل عمران - آیت 159
مگر ہمیں لوگ قرآن کے اس حکم اور سنت سے بھی ہٹ کر چلتے نظر آتے ہیں اور جبر اور زبردستی اپنی تشریح اور نظریہ مسلط کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اس جبرا'' مسلط ہونے کے انداز سے رب تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی منع فرمایا ہے
نَحنُ اَعلَمُ بِمَا یَقُولُونَ وَمَا اَنتَ عَلَیہِم بِجَبَّارٍ فَذَکِّر بِالقُراٰنِ مَن یَّخَافُ وَعِیدِ
یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہم بخوبی جانتے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں، تو آپ قرآن کے ذریعے انہیں سمجھاتے رہیں جو میرے وعید (ڈرانے کے وعدوں) سے ڈرتے ہیں۔القرآن - سورۃ 50 - ق - آیت 45
اور یہ بد زبانی اور بد اخلاقی اور جبرا'' مسلط ہونے کا انداز لوگوں کو دین سے بیزار اور دور کر رہا ہے جیسا کہ آل عمران کی آیت 159 میں رب تعالی نے فرمایا کہ ایسا رویہ ہو گا تو لوگ دور ہو جائیں گے
آپ کا جو بھی سکول آف تھاٹ ہے
آپ نے اپنا انداز نہ بدلا تو پھر اس دین بیزاری کو بھی آپ نہیں روک سکتے کیونکہ آپ نے بنیادی سنت ترک کر دی انسان کی نفسیات رب کی حکمت اور حکومت کو نہ مانا ،نہ ہی سمجھا۔
٭٭٭