ذیل میں ہم ان مقدس ستونوں کا مختصر تذکرہ کرتے ہیں۔
ستون حنانہ :
حنانہ کے معنی ہیں رونے والی اُونٹنی ،نرم دِل
منبر پاک کے تذکرے میں یہ ذکر ہو چکا ہے کہ منبر پاک کے استعمال کے پہلے ہی دن،کجھور کا ایک تنا ،حضور کی جدائی میں رونے لگ گیا تھا ،آپ نے اُس کو چپ کروایا تھا،اُس ستون کا نام حنانہ تھا۔بعد میں اُس خاص ستون کو نکال کر دفن کر دیا گیا اور اُس کی جگہ پر نیا تنا گاڑا گیا،پھر بعد کی کسی تعمیر میں یہ سنگ و خشت کاستون بنایا گیا،لیکن نام وہی رہا۔یہ ستون محراب نبوی کے ساتھ،دائیں جانب ،مسجد کی قبلہ والی دیوار میں گاڑا گیا تھا۔اب بھی وہیں دیکھا جا سکتا ہے۔نرم دلی کے حصول اور شقاوت قلبی کے خاتمے کے لیے یہاں نوافل پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
ستون عائشہ:
قبلہ کی تبدیلی کے بعد اورمحراب نبوی والی جگہ کو امام کے لیے مخصوص کرنے سے پہلے،چند یوم تک ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس ستون کے پاس کھڑے ہو کر نماز کی امامت فرمایا کرتے تھے۔یہ ستون محراب نبوی کے شمال میں اور مشرق میں پہلی صف میں گاڑا گیا ہے ۔روایات میں اس کے دو نام ہیں،اسطوانہ القرع اور اسطوانہ عائشہ۔ان دو ناموں کی وجہ تسمیہ کچھ یوں بیان کی جاتی ہے۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ،‘‘میری مسجد میں ایک ستون ایسا ہے کہ اگر لوگوں کو اُس کے قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا اجر معلوم ہو جائے تو وہ آپس میں قرعہ اندازی کر کے وہاں نماز کے لیے اپنی باری لیں۔’’صحابہ کرام ایک دوسرے سے اس ستون کا پوچھتے رہتے تھے لیکن معلوم نہ ہو سکا۔آخر کار انھوں نے حضور ﷺ کے انتقال فرما جانے کے بعد،سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت فرمایا ،تو آپ نے کافی اصرار کے بعد اُس ستون کی نشاندہی کی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تھی۔وہ یہی ستون ہے جسے ستون عائشہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی نشان دہی سیدہ عائشہ نے فرمائی اور ستون قرع اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی شان میں بیان کردہ فرمان نبوی میں لفظ قرع استعمال ہوا ہے۔
اس ستون پاک کو ستون مہاجرین بھی کہا جاتا ہے۔اس نام کے پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ مکہ سے ہجرت کر کے آنے والے اصحاب اکثر اِسی ستون کے پاس بیٹھ کراپنی مجلس منعقد کیا کرتے تھے۔
ستون توبہ:
یہ ستون روضہ انور کی مغربی دیوار اور ستون عائشہ کے درمیان واقع ہے۔اسے اسطوانہ ابو لبابہ بھی کہتے ہیں۔حضرت ابو لبابہ انصاری صحابی تھے۔یہود کے قبیلے بنو نظیر کی طرف،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کرگئے تھے۔وہاں جا کر اشارتاًانھیں حضور پاک ﷺ کے اُس منصوبے سے آگاہ کر بیٹھے جو آپ نے اُن کے بارے میں طے کر رکھا تھا۔اپنی غلطی کو محسوس کر کے ، خود ہی اپنی سزا تجویز کر کے ،اپنے آپ کو مسجد نبوی کے اس ستون سے باندھ لیا ۔ توبہ اور اپنی سزا تجویز کرنے کی یہ ادا، اللہ کریم کوایسی پسند آئی کہ ،اُن کی توبہ کی منظوری کا اعلان فرما دیا۔اس اعلان پر صحابہ کرام بہت خوش ہوئے اوروہ اُن کی طرف دوڑے اور انھیں کھولنا چاہا،وہ کہنے لگے ،نہیں نہیں،مجھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،اس سے نجات دلائیں گے۔ حضور ختمی المرتبت ﷺ اپنے جانثار کی اس خواہش کو پورا فرمایا اور انھیں اس خود اختیار کردہ قید سے ،خود ہی تشریف لے جاکرنجات دلائی۔اُس دِن سے آج تک ،اس ستون کو ،ستون لبابہ یا ستون توبہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سہ ستون ہائے پیوستہ:
تین ستون ایسے ہیں جو روضہ انور کی مغربی دیوار میں چن دیئے گئے ہیں۔
حضور کے دور سعید میں،تو یہ دیوار نہیں تھی،لہٰذا یہ ستون چھت کو سہارا دینے کے علاوہ مختلف دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔بعد کی کسی تعمیر میں ، جب روضہ انور کی چار دیواری کی توسیع ہوئی تو اِن ستونوں کو روضے کی مغربی دیوار میں چن دیا گیا۔ان میں جنوبی ستون،جو کہ ،ستون عائشہ اور ستون ابو لبابہ کی سیدھ میں واقع ہے ،کا نام اسطوانہ سریر ہے۔اس ستون کے پاس ،کبھی کبھی ،پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،دِن کے آرام کے لیے ،اپنی چارپائی بچھواتے تھے۔اس لیے اس ستون مبارک کا نام چارپائی والا ستون پڑ گیا۔اس سے شمال میں واقع ستون کو، ستون علی یا ستون حرس کہا جاتا ہے۔اس کے قریب ،حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے باڈی گارڈ ٹھیرا کرتے تھے۔ ان پہرہ داروں کے انچارج سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ،وہ بھی اکثر اس ستون کے قریب پائے جاتے تھے۔ ستون علی کے مزید شمال میں،روضہ انور کی دیوار میں پیوست تیسرا ستون،اسطوانہ وفود کہلاتا ہے۔بیرون مدینہ سے آنے والے عرب قبائل کے وفود کے لیے ،اس ستون کے پاس ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا انتظام ہوتا تھا۔
اسطوانہ جبرائیل اور تہجد:
ان مذکورہ بالا ستونوں کے علاوہ،دو اور ستون بھی تھے جنھوں نے شہرت پائی تھی،لیکن اب وہ روضہ انور کی چاردیواری کے اندر آجانے کے باعث ،ہمارے ایسے عام زائر کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔اُن میں سے ایک کو اسطوانہ جبرائیل اور دوسرے کو اسطوانہ تہجد کہتے ہیں۔ اسطوانہ جبرائیل کے آس پاس،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی جبرائیل امین سے ملاقات ہو تی تھی اور وہ عالم بالا کی خبریں لایا کرتے اور آپ کو پیغام الٰہی پہنچایا کرتے۔یہیں پردونوبزرگ اور نورانی ہستیاں ،قرآن مجید کا دور بھی کیا کرتے ۔
اسطوانہ تہجد اُس مقام پر تھا ،جہاں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔اس ستون پاک کے ساتھ ہی ، بعد کے کسی دور میں ،ایک شاندار محراب بھی بنا دی گئی تھی،جسے محراب تہجد کہا جاتا ہے۔
قدیمی مسجد کے ابواب:
قدیمی مسجد ،یعنی شاہ فہد بن عبدالعزیز کی تعمیر و توسیع سے قبل کی مسجد پاک،کی مشرقی دیوار میں تین دروازے ہیں۔ جنوبی دروازہ باب بقیع،اس کے بعد شمال میں جو دروازہ ہے اُس کا نام باب النساء ہے۔یہ سیدنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خصوصاً معزز خواتین کے لیے تعمیر کروایا تھا ، جہاں سے گزر کر وہ مسجد شریف کی پچھلی صفوں میں آجاتی تھیں۔اس دروازے کے مزید شمال کی طرف آئیں تو یہ دروازہ باب جبرائیل کہلا تا ہے۔اس سے آپ اندر ہو ں تو آپ اصحاب صفہ کے چبوترہ اور روضہ انور کے درمیان میں ہوتے ہیں، چبوترہ آپ کے دائیں طرف اور روضہ انور آپ کے بائیں ہاتھ پر ہوتا ہے۔
اسی قدیمی مسجد پاک کے مغرب میں آ جائیں ،تو اس دیوار میں بھی تین دروازے ہیں۔جنوب میں پہلا دروازہ مشہور باب السلام ہے ،جس سے گزر کر آپ مسجد کی پہلی صفوں میں آجاتے ہیں۔اس دروازے کے بعد باب صدیق اکبر ہے اور یہ دروازہ وہاں ہے جہاں سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر تھا جو بعد میں مسجد میں شامل کردیا گیا تھا،اس کے بعد مزید شمال میں باب الرحمت آتا ہے جس سے گزر کر آپ اِس قدیمی مسجد کی پچھلی صفوں میں آ جاتے ہیں۔
مقدس راستہ یاگزرگاہ:
باب السلام سے باب بقیع تک کا درمیانی حصہ ،مسجد نبوی کا قبلے والا حصہ ہے،جس کے درمیان میں مسجد کی محراب ہے جہاں موجودہ امام صاحب کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے ہیں۔اس حصے کو ہم نے مقدس گزرگاہ قرار دیا ہے ،اِس کی وجہ یہ ہے کہ،نماز کے بعد،اسی راستے سے گزر کر زائرین کرام،ادب و احترام سے مبارک جالیوں کی طرف جاتے ہیں اور راستے کے آخر میں تین مقدس جالیوں کے سامنے کھڑے ہو کر حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو سلام عقیدت و محبت پیش کرتے ہیں۔یہ پیاری گزرگاہ،مدینہ طیبہ کے ہر زائر کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔
اس گزرگاہ کی چوڑائی قریباً۲۰فٹ ہے۔ اس گزرگاہ کی جنوبی دیوار میں،جو قبلہ شریف والی دیوار ہے،محراب کے بائیں طرف ایک دروازہ ہے جو مسجد کے جنوبی ہال میں کھلتا ہے،جومسجد پاک کی مختلف ضروریات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔مسجد نبوی کے امام صاحب یا اگر کوئی وی آ ئی پی شخصیت تشریف لائی ہو تو،وہ بھی ،اس دروازے سے مسجد کے مرکزی ہال میں آتے اور جاتے ہیں۔
اس مقدس گزرگاہ کو شمالی سمت میں،روضہ انور کے جنوب مغربی کونے سے ،منبر پاک تک کے حصے پر پیتل کی ایک اُونچی گرل لگا کر ریاض الجنۃ اور سیدنا عثمان ؓ کی توسیع کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔
۳۰۔جولائی۱۹ء سوموار
سرزمینِ بقرہ و آل عمران:میں مدینہ طیبہ میں تھا۔سرزمین ِ بقرہ و آل عمران میں تھا۔
قیام مکہ کی طرح ،یہاں بھی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ دیر حرم میں ہی رہوں۔آج بھی حسب معمول صبح سویرے بیدار ہوا۔غسل کرکے اور کپڑے بدل کر نماز فجر کی ادائیگی کے لیے حرم میں حاضر ہوگیا۔ہمارے ساتھی قاری صاحب تو تہجد کے وقت سے ہی چلے جاتے تھے اور میرے دیگر رومیٹ بھی میرے بعد،یکے بعد دیگرے تیار ہوکر نماز فجر کے لیے مسجد میں آجاتے تھے۔
آج ایک بار پھر خاکسار مسجد نبوی میں تھا ۔ اللہ کریم کا بے پایاں فضل ، رحمت اور انعام تھا کہ بندہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں تھا۔زیادہ سے زیادہ اس مسجد میں ہونے اور رہنے کو یقینی بنانے کے لیے ،بندہ ناچیز نے تلاوت قرآن مجید شروع کر دی تھی ۔نماز فجر کے بعد تو یہ لازمی کام تھا۔
کہا جاتا ہے کہ موجودہ مسجد نبوی اتنی وسیع اور کشادہ ہے ،کہ اس کے اندر ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک کا سارا مدینہ شہر آگیا ہے۔گویا آپ مسجد نبوی میں جہاں بھی بیٹھے ہیں ،گویا آپ مدنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں بیٹھے ہیں۔وہ شہر مدینہ جسے دیکھنے کوہر مسلم تڑپتا ہے۔
وہ شہر مدینہ جہاں سورہ بقرہ اُتری،میں آج وہاں ہوں۔وہ مقدس سرزمین،جہاں آل عمران اُتری ،النساء اورالمائدہ اتریں۔ سبحان اللہ و بحمدہ،میں آج اس مقدس سرزمین میں ہوں اور قرآن پڑھ رہا ہوں۔
اور اس ہونے پر اور قرآن پڑھنے کی اِس سعادت پر جتنا ناز کروں کم ہے ۔
وہ سر زمین،جہاں،جنگ بدر کی تیاریاں ہوئیں،جہاں سے غزوہ احد کے لیے لشکرروانہ ہوا ،اور میں آج وہاں ہوں جہاں سے غزوہ احزاب کے لیے منصوبہ بندی ہوئی اور لشکر کشی ہوئی۔وہ سر زمین ،جہاں پر سورہ احزاب اُتری اور جہاں سورہ حشر نازل ہوئی۔کیسا وہ سہانا منظر ہو گا ،جب آسمانوں سے ، براہ راست قلب محمدی پر قرآن نازل ہو رہا تھا۔اِدھر سے سوال ہو رہے تھے اُدھر سے جواب آ رہا تھا۔انسان تشنہ لب تھے اور ساقی پیاس بجھا رہا تھا۔
سرزمین بقرہ و آل عمران میں بیٹھ کر،بقرہ و آل عمرا ن پڑھنا ،ایک الگ ہی لطف تھا،
وہ لذت جو ساری زندگی نہ مل سکی،یہاں حاصل ہورہی تھی۔
یہ سرزمین بقرہ ہے۔یہ مدینہ ہے۔اس شہر میں دوقبیلے تھے،اوس اور خزرج کے،یہ دولت ایمان سے فیض یاب ہوگئے اور انصار ِ مدینہ کہلائے۔اُن کی زرعی زمینیں اور باغات،یہیں کہیں تھے۔ان کے علاوہ اس شہر دل پذیر میں یہود کے تین قبائل بھی آباد تھے۔یہ قوم حامل وحی تھی اور آخری رسول کی آمد کی منتظر،لیکن اِن کی بد بختی ملاحظہ کریں ، جب آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،کھجورکے باغوں کے اس شہر میں ہجرت کر کے تشریف لے آئے ،تو یہ منتظر قوم ، سب سے پہلے اس رسول کی تکذیب پر اُتر آئی۔ یہ ساری کہانی ،اس بقرہ میں درج ہے جو قرآن کی پہلی اورطویل ترین سورہ ہے۔
سورہ بقرہ ہمیں ،مدینہ پاک میں ایک اور گروہ کی موجودگی کا پتہ بھی دیتی ہے۔یہ وہ بد بخت گروہ ہے جو دوغلے پن کا شکار ہو گیا ہے،جو اندر سے کچھ ہے اور باہر سے کچھ ، یہ گروہ منافقین کا گروہ ہے۔یہ دوست نما دشمن ہیں جواوپر سے اسلامی تحریک کے حامی بن کر،اندر سے اس کی جڑیں کاٹنے کی سکیمیں بناتے تھے اور اللہ پاک اُن کی ہر ایسی خفیہ سکیم کو ،قرآن اُتار کر طشت از بام کر رہے تھے۔
یہ سرزمین آل عمران ہے۔قرآن کی دوسری بڑی سورت اور بقرہ کی بہن،یہیں مدینہ پاک میں نازل ہوئی،جس میں یہود کے ساتھ ساتھ نصاریٰ کا بھی تذکرہ ہے۔
مسجد پاک کاکیسا نورانی ماحول ہے اور اُس وقت کی نورانی کیفیات کا کیا عالم ہوگاجب ایک سراپا نور پر،نورِ قرآنی اُتر رہا تھا۔کیسے خو بصورت مقدر ہیں اس سرزمین کے جس کو رب تعالیٰ نے اپنے محبوب کے قیام کے لیے اور اپنے کلام کے نزول کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ مدینہ، پیارا مدینہ ،جہاں رات دِن اللہ کریم کی رحمت برستی ہے۔
یہ دیکھئے !اِدھرپیاری انفال کی آیات آرہی ہیں،اُدھر اُس طرف،سورہ توبہ نازل ہورہی ہے۔انفال میں غزوہ بدر پر تبصرہ ہے تو سورہ توبہ میں کافرں سے اعلان برأت اور غزوہ تبوک کا ذکر۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،۹۔ہجری کو ، حج کا وفد لے کر مکہ روانہ ہو چکے ہیں،اِدھر یہ حکم نازل ہوتا ہے کہ اب مشرکین مکہ سے اعلان برأت اور تمام معاہدات سے علیحدگی کا وقت آن پہنچا ہے۔جبرائیل امین ،سورہ توبہ کی آیات لے کر حاضر ہو گئے ہیں ،حکم ربانی ہے ،
برآء ۃ من اللہ و رسولہ الی الذین عٰھدتم من المشرکین
اعلان برأ ت ہے اللہ اوراُس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوپیچھے روانہ کیا جاتا ہے کہ مکہ جا کر ،میدان عرفات میں خودیہ اعلان کریں کہ، اب بس،آج کے بعد قیامت تک ،کوئی مشرک مکہ کا حج نہیں کرسکتا۔تمام معاہدے منسوخ اورکوئی کافر حرم میں داخل نہیں ہو سکتا۔یہ احکامات اسی مسجد نبوی سے جاری ہوئے ،اور آج میں یہاں بیٹھا،سورہ توبہ کی تلاوت کر رہا ہوں۔
بعدمیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے،مدینہ طیبہ کو بھی حرم قرار دے دیا اور اُس میں بھی کسی کافر کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔مکہ بھی مقدس و مکرم و محترم اور مدینہ بھی مقدس و مکرم ومحترم!یہ میرے نبی کا فیصلہ ہے ،یہ میرے اللہ کا فیصلہ ہے۔
اور ہاں یہی مدینہ ہے ،جہاں سورہ نور نازل ہوئی جس میں،پیارے رسول کے پاکیزہ گھر کے پاکیزہ تذکرے ہیں ، ریاست مدینہ کے لیے قوانین و ضوابط کا نزول اورمدنی معاشرہ کے لیے معاشرتی اصول وضوابط کابیان۔
سورہ الاحزاب ،الحجرات کے نزول کی سرزمین۔سورہ محمد ،سورہ فتح اور سورہ مجادلہ اور سورہ حشر،غرض مدنی سورتوں کا ایک حسین گلدستہ ہے جو یہاں نازل ہوتا ہے۔
یہ بندہ عاجز ،عجیب لذت میں ہے۔قرآن کی تلاوت کی حلاوت اور آنکھوں میں اُترتی نمی۔کیا سہانا منظر ہے اور کیسے لذت آفرین لمحات ہیں۔
اپنی پوری زندگی کے ایک الگ ہی تجربے سے گزر رہا ہوں۔قرآن کی صحبت کا شرف ،ارض قرآن میں اور صاحب قرآن کی مسجد میں بیٹھ کر،اس پر جتنا بھی ناز کروں کم ہے مکہ مکرمہ کے قیام کے زمانے میں ،بفضل تعالیٰ ،دو دفعہ مکمل قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی سعادت ملی تھی اب یہ خواہش ہے کہ مسجد نبوی میں بیٹھ کر پورے قرآن مجید کا،کم از کم ، ایک دورہ ،ایک چکر مکمل کرلوں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ،مدینہ طیبہ میں سب سے بڑی زیارت مسجد نبوی شریف ہے ۔ اس دنیا کی کشادہ ترین اور خوبصورت ترین مسجدکا سب سے اہم حصہ وہی ہے جس کا تذکرہ ہم جنوب مشرقی کونہ کے عنوان سے کر چکے ہیں۔ اُس قدیمی مسجد کو سموئے ہوئے ،جدید مسجد نبوی بھی فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔مسجد نبوی کی موجودہ حسین و جمیل عمارت ،شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور حکومت میں تعمیر ہوئی۔
یہ شمالاً جنوباً، ایک مستطیل شکل کے ایک وسیع وعریض ہال پر مشتمل ہے۔جس کے باہر چاروں طرف کشادہ صحن ہے۔اس حال کا مرکزی دروازہ باب شاہ فہد کہلاتا ہے۔ جس کے پانچ ذیلی دروازے ہیں۔یہ مسجد کی شمالی دیوار کے درمیان میں واقع ہے۔ہمار آنا جانا،اکثرمسجد پاک کے جنوبی سمت میں ہوتا تھا کیونکہ ہمارا ہوٹل اُس طرف تھالیکن آج میں اِس مرکزی دروازے کے پاس آ کر بیٹھا تھا۔
جنت البقیع میں:
دوران تلاوت ،بھائی شکیل تشریف لے آئے کہنے لگے کیوں نہ آج جنت البقیع کی زیارت کی جائے۔ میں نے عرض کی ،ٹھیک ہے ابھی چلتے ہیں اور ہم اُٹھ کھڑے ہوئے۔راستے مجھے معلوم تھے۔ایک بار دربار اقدس میں حاضری دے کر درود سلام کے تحفے ارسال کر کے ہم ،باب البقیع سے باہر آ گئے اور جنت البقیع کی طرف روانہ ہو گئے۔یہ مسجد نبوی کے جنوب مشرق میں ایک وسیع احاطے کے اندرواقع ہے۔مسجد پاک کے جنوب مشرقی صحن میں آپ آئیں تو مسجد کی بیرونی چار دیواری اور قبرستان کی چار دیواری کے درمیان صرف ایک سڑک ہے ۔
‘‘آپ کو معلوم ہے جنت البقیع کیا ہے ؟’’چلتے چلتے میں نے پوچھا۔اُن کے جواب کا انتظار کئے بغیر ہی میں نے عرض کرنا شروع کر دیا،‘‘ یہ مدینہ طیبہ کا قدیمی قبرستان ہے۔اِس میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ،بنات الطاہرات اورہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی قبریں ہیں۔’’
یہ حج کا زمانہ ہے ،جدھر بھی ،جس وقت بھی آپ کہیں بھی جاتے ہیں آپ کو زائرین کا ہجوم اُدھر ہی جاتا نظر آتا ہے۔مسجد کے اندر بھی رش،ریاض الجنہ میں رش ،مسجد پاک کے بیرونی صحن بھی مومنین سے اٹے پڑے ،بازاروں میں رش ،مارکیٹوں میں رش، زیارتوں پہ رش اور اب ادھر قبرستان کی طرف آئے ہیں توایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب لوگ اِس قدیمی قبرستان ہی کی طرف گامزن ہیں۔ بہر حال ،ہم آہستہ آہستہ، لوگوں کے ساتھ ساتھ اِس قدیمی قبرستان میں داخل ہوگئے۔
ہمارے سامنے ایک وسیع وعریض ناہموار چٹیل میدان ہے،جس میں مختلف روشوں اور راستوں پر لوگوں کا ایک ہجوم ہے جو خاموشی سے چل رہا ہے۔ یہاں پرکوئی اُونچی قبر،کوئی مزار،کوئی گنبد اورکوئی قبہ نہیں ہے،بالکل نہیں ہے۔ہارڈ ٹائیل سے بنے ٹیڑھے میڑھے راستے ہیں اور اُن کے درمیان خشک بھوری مٹی والی زمین ہے جو مختلف احاطوں میں تقسیم ہے۔ اِن احاطوں کے اندرمٹی سے بنی اور بجری سے ڈھکی ،چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں ہیں جنھیں قبریں کہا جاتا ہے اور جن کی تہہ میں نہ جانے کون سا صحابی،کون سا ولی اور کون سامرد یا کوئی عورت یا کوئی بچہ آرام کر رہا ہے۔ قبروں پر کوئی کتبہ نہیں ،کوئی شناختی علامت نہیں اور نہ ہی اُن کے اُوپر کوئی پھول پتی ہے اور نہ ہی کوئی سبز ڈالی۔حتیٰ کہ پورے قبرستان میں کوئی سایہ داردرخت بھی نہیں ہے حتیٰ کہ غرقد کا درخت بھی نہیں ، جس کے نام پر یہ قبرستان ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اِس قبرستان کا اصل نام بقیع الغرقد تھا کیونکہ یہاں غرقد کی جھاڑیاں اور درخت بکثرت تھے جو کہ ایک سایہ دار صحرائی پودا ہے ،اب تو وہ بھی نہیں ہے۔
ہجوم کے باعث،ہم دونوں ساتھی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے،شکیل بھائی ،ہجوم کے ساتھ چلتے چلتے ایک اورپگڈنڈی پر ہو لیے اورمجھ سے دُور نکل گئے جبکہ میں دوسری پگڈنڈی پر چلتارہا۔لوگ گھوم رہے تھے اور بندہ بھی ،بس ،گھومے جارہا تھا، ایک دو مقام پر ،لوگ کسی بے نام سی قبر پر ،یا قبروں کے ایک بے نام سے احاطے پہ کھڑے ہوکرفاتحہ خوانی کر رہے تھے میں بھی اُن میں شامل ہو گیا،دو چار منٹ دعا کر کے ،آگے بڑھ گیا۔
احاطوں کے اندر بعض مقامات پر قبریں کھدی ہوئی تھیں اور عارضی طور پر ڈھکی ہوئی تھیں۔پچھلے کسی دورہ کے موقع پر میں نے اِس طرح کی پہلے سے کھودی گئی قبروں میں نئی لائی جانے والی میت کی تدفین ہوتے دیکھی تھی۔ایک جگہ پر ایک مولوی صاحب ،جو کہ لباس سے تو سعودی معلوم ہوتے تھے،لیکن اردو زبان میں بات کر رہے تھے۔،ایسے علما اور مبلغ ،یہاں قبرستان میں جگہ جگہ کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں کو دعوت و تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں، میں بھی اِس مجمع کے اندر پہنچ گیا،یہ شیخ فرما رہے تھے ،‘‘یہ قبرستان ہے۔مردوں کی تدفین کی جگہ،صدیوں سے یہاں تدفین جاری ہے کسی قبر کا تعین کرنا اور شناخت کرنااب ناممکن ہے۔آپ یہاں سیرو تفریح کے لیے نہ آئیں بلکہ عبرت اور فاتحہ خوانی کے لیے آئیں،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِس قبرستان میں تشریف لایا کرتے تھے اور اِس میں دفن لوگوں کے لیے دعائے مغفرت فرمایا کرتے تھے،آئیے ہم بھی دعا کریں۔’’
پھر اُن صاحب نے دعائے مغفرت فرمائی،زندوں مردوں سب کے لیے۔
سعودی علما کرام اور حکومت کا یہی موقف ہے جو یہ صاحب بیان کر رہے تھے اور اپنے اِسی موقف کے مطابق، اِن لوگوں نے شعوری کوشش کی ہے کہ اِس قبرستان میں دفن لوگوں کی بعد از مرگ شناخت قائم نہ رہے۔لیکن تاریخ کی کتابیں بیان کرتی ہیں کہ کس بزرگ ہستی کی قبر ،یہاں کس جگہ پر تھی۔
یہ محض نوے سال قبل کی بات ہے جب جنت البقیع کے مزاروں،گنبدوں،کتبوں اور دیگر شناختی نشانات کو حکومت وقت نے ،اپنے عقیدے کی پیروی میں مسمار کر دیا تھاوگرنہ نوے سال قبل تک تو عام لوگوں کو بھی معلوم ہی تھا کہ کس بزرگ ہستی کی قبر کہاں پر واقع ہے۔خاکسار ،بھی ،جب سن دو ہزار میں اور پھر سن دو ہزار چار میں یہاں حاضر ہوا تھا،تو خاصی تحقیق اور جستجو کے بعد،مختلف قبروں کی ڈھیریوں سے واقف ہو گیا تھا،لیکن ،اب سن دو ہزار انیس کی حاضری تو اِس حالت میں ہوئی ہے کہ شناخت کے جو چند نشانات،اُس وقت تک باقی رہ گئے تھے،وہ بھی اب باقی نہیں رہے۔کچھ رش بہت زیادہ ہے اورکچھ دھوپ کی شدت تھی کہ میں ،جنت البقیع میں زیادہ وقت نہیں دے پایا اور نہ ہی عمدہ طریقے سے کوئی دعا ہی کر سکا۔قریباًگھنٹہ بھر کی اِس پیدل چلت پھرت کے بعد ، خاکسار واپس مسجد نبوی میں آ گیا۔
اپنے قارئین کی معلومات کے لیے،میں،سطور ذیل میں، اُن چند ہستیوں کا تذکرہ کر دینا مناسب سمجھتا ہوں جو یہاں مدفون ہیں۔جی تو چاہتا ہے کہ اِن ہستیوں کی زندگی پر بھی کچھ لکھوں لیکن طوالت کے خوف سے اُن کے صرف ناموں کے تذکرہ پر ہی اکتفا کروں گا۔
اِس قبرستان میں سب سے پہلے دفن ہونے والے مہاجر صحابی سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزندسیدنا ابراہیمؓ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں بنات طاہرات ،سیدہ زینبؓ،سیدہ رقیہؓ ،سیدہ ام کلثومؓ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھن، بھی یہاں دفن ہیں۔سیدہ فاطمہ کی قبر مبارک بقیع کے جنوب مغربی کونے میں تھی،جس پر ایک قبہ اور گنبد بھی تعمیر کیا گیا تھا اور ایک عرصے تک یہ مزار مرجع خلائق تھااور کئی قسم کی رسومات وبدعات ،یہاں پر کی جاتی تھیں ۔ خصوصاً شیعہ حضرات و خواتین یہاں پر آ کر طرح طرح کی غیرشرعی حرکات کی مرتکب ہوتی تھیں لیکن اب موجودہ حکومت نے ، بجائے اِن غیر شرعی حرکات پر پابندی لگانے کے ،قبر و گنبد کا نام و نشان ہی باقی نہیں رہنے دیا۔
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ،سیدنا زین العابدین اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاسیدنا عباس بن عبدالمطلب بھی یہیں ،آرام فرما ہیں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات،سیدات امہات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنھن کی قبور مقدسہ بھی یہیں ،ایک احاطے میں ہیں۔اُن کے اسمائے گرامی یہ ہیں،
سیدہ عائشہ بنت ابی بکرؓ ،سیدہ زینبؓ ،سیدہ سودہؓ بنت زمعہ،سیدہ زینبؓ بنت جحش ، سیدہ ام سلمہؓ،سیدہ حفصہؓ بنت عمر،سیدہ ام حبیبہؓ بنت ابو سفیان،سیدہ صفیہؓ بنت حی اورسیدہ جویریہؓ بنت حارث۔
اِ ن تمام سے اللہ راضی ہوا اور ہمارا بہترین سلام ،اُن تک پہنچے۔
تیسرے خلیفہ راشد،سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ بھی یہیں آسودہ خاک ہیں۔
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ،سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ،سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورسیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی یہاں مدفون ہیں۔یہ سب ہستیاں آسمان رسالت کے درخشندہ ستارے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر بھی یہیں جنت البقیع میں ہے۔آ پ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ،بچپن میں بہترین خدمت کی تھی۔
امام مدینہ سیدناامام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے استاد امام نافع ؒکی قبور بھی بقیع میں ہیں۔اِن کے علاوہ بھی ہزاروں،صالحین اُمت اور اولیا ء اللہ یہاں دفن ہیں لیکن اُن کی کوئی نشانی اب باقی نہیں ہے۔
شاہی میت اور عوامی میتیں:
مسجد الحرام کی طرح ،یہاں مسجد نبوی میں بھی یہ معمول ہے کہ قریباً ہر نماز کے بعد میتوں پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔فرض نماز کے بعد،اگر کو ئی جنازہ ہوتا ،یہ بلا ناغہ ہوتا ہی تھا،تو موذن صاحب اعلان فرماتے تھے کہ ایک میت یا ایک سے زیادہ میتیں موجود ہیں اور اُن کی نماز ِجنازہ میں شریک ہوں۔پاکستان میں ،ایک دوست کو فون پر بتا رہا تھا کہ اِن دنوں میں ،جتنی نماز ہائے جنازہ میں شرکت کی ہے ،پوری زندگی میں وہاں نہیں کی ہوگی اور اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر فرض نماز کے بعد نماز جنازہ پڑھنی بھی ‘‘فرض ’’ہو گئی ہے۔ آج عشا کے بعد بھی ،مؤذن صاحب نے اعلان کرنا شروع کیا،یہ اعلان معمول سے کچھ زیادہ لمباہوگیا ،تو میں ذرا متوجہ ہوا،تو فوری طور پر یہ سمجھ آیا کہ حاضر میت ،شاہی خاندان کے کسی فرد کی ہے۔مجھے نام اور عہدہ کا پتہ نہ چلا ، اگرچہ اعلان کرنے والے نے پورے شاہی القابات کے ساتھ اعلان فرمایا تھا۔
امام صاحب نے نماز جنازہ پڑھا دی اور ہم نے معمول کے مطابق پڑھ لی۔جنازے کا سلام پھیرنے کے بعد،میں نے ،سنت نوافل کی نیت کی ہی تھی کہ مؤذن صاحب نے ایک اور اعلان شروع کر دیا۔میں پھر متوجہ ہوا تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ کچھ اور میتیں بھی ہیں،مردو خواتین اور اطفال کی ،اب اُن پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور ساتھ ہی امام صاحب کی اللہ اکبر کی صدا گونجی۔
اور پھر ساری دنیا سے آئے ،مسلمانوں نے اپنی آنکھوں سے یہ فرق و امتیاز دیکھاکہ شاہی میت کا جنازہ بھی الگ پڑھا گیا اور عام مسلمانوں کا جنازہ الگ پڑھا گیا حالانکہ ہر نماز میں روزانہ اجتماعی جنازے ہوتے ہیں یہ بھی اگر اجتماعی ہوتا تو کیا فرق پڑتا۔لیکن فرق پڑتا ہے۔
شاہی جنازہ ،عوامی جنازوں کے ساتھ تو نہیں پڑھا جا سکتا ناں!
ہائے افسوس!ساری دنیا کو مساوات انسانیت کا درس دینے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد پاک میں یہ فرق و امتیاز قائم کیا گیا۔وہ رسول جس نے اپنے آخری خطبے میں بھی یہی ارشاد فرمایا تھاکہ مسلمان سب برابر ہیں ،کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر ،کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پرکوئی تفوق و برتری حاصل نہیں اور یہ کہ تم میں سے ،اللہ کے ہاں،سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ پاک سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جنازہ شہزادہ بندربن عبدالعزیز کا جنازہ تھا جو کہ موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے بڑے بھائی تھے۔(جاری ہے)