کاندھلہ (ہند وستان )میں ایک مرتبہ زمین کے ایک ٹکڑے پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین جھگڑا کھڑا ہو گیا۔دونوں فریق اسے اپنی ملکیت بتاتے تھے۔اور کوئی بھی اپنے دعوے سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھا۔مقدمہ عدالت میں پہنچا اور بالآخر ثالثی پہ معاملہ ٹھہرا۔ مولانا مظفر حسین کاندھلوی ثالث مقرر ہوئے اور ان کے تقرر پر ہندو بھی بخوشی راضی ہو گئے۔عدالت نے مولانا کو طلب کیا۔ مولانا علما کے اس گروہ سے متعلق تھے جنہیں انگریزوں سے سخت نفرت تھی ۔ وہ اس شرط پر عدالت میں آنے کے لیے تیار ہوئے کہ وہ انگریز جج کا چہر ہ نہیں دیکھیں گے ۔ جج نے شرط تسلیم کر لی چنانچہ وہ آئے اور جج کی طرف پشت کر کے کھڑ ے ہو گئے ۔ دونوں فریق ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے ۔ مولانا نے سب کے روبر و اعلان کیا کہ ‘‘زمین کا متنازعہ ٹکڑا در اصل ہندوؤں کا ہے مسلمانوں کا اس پر دعوی بے جا ہے’’۔ آپ کی اس گواہی اور فیصلے پر یہ زمین ہندوؤں کے حوالے کر دی گئی۔
کاندھلہ میں اس دن مسلمان ہار گئے لیکن اسلام جیت گیا وہ اس طرح کہ شام ہونے سے پہلے پہلے ہندوؤں کے چوبیس گھرانے اسلام قبول کر چکے تھے۔
کچھ ایسا ہی تصادم ذرا بڑ ے پیمانے پر آ ج مسلمانوں اور اقوام ِ عالم کے مابین برپا ہے زمینوں کے کچھ ٹکڑ ے ہیں ’ دولت کے چند سکے ہیں اورمفادات کے بعض سرچشمے ہیں جن پہ اپنا اپنا حق ثابت کرنے کی جنگ جاری ہے۔اور چونکہ حق ‘‘لاٹھی’گولی’’سے ثابت کیا جارہا ہے اس لئے ظاہرہے کہ اس جنگ میں زیادہ ‘‘لاٹھیوں اور گولیوں ’’والے جیت رہے ہیں اور کم‘‘ لاٹھیوں’’ والے ہار رہے ہیں۔ راستے دو ہی ہیں یا تو زیاد ہ سے زیادہ ‘‘لاٹھیا ں’’ اکٹھی کرنے کی سعی کی جائے جو کہ مسلمانوں کے موجودہ حالات کے پس منظر میں ایک سعی لاحاصل نظر آرہی ہے اور یا پھر میدانِ جنگ ہی تبدیل کر لیا جائے ۔بہترین جرنیل وہی ہوتا ہے جو دشمن کو اپنی پسند کے میدان میں لڑ نے پر مجبور کر دے۔ مسلمانوں کے پاس بھی ایک ایسا میدانِ جنگ بہر حال موجو دہے اور یہ اگر حکمت عملی سے کام لے کر‘‘دشمن ’’کو اس مید ان میں اترنے پر مجبور کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کا‘‘دشمن’’شکست سے دوچار نہ ہو کیونکہ اس میدان کا مطلوب اسلحہ‘‘ دشمن ’’کے پاس پہلے بھی مفقود تھا اور آج بھی عنقا ہے ۔اور یہ میدان ،دعوت ِ دین کا میدان ہے لیکن اس میدان میں اترنے سے پہلے مسلمانوں کو شعور ی طور پر ایک فیصلہ کرنا پڑ ے گا وہ یہ کہ آیا انہیں اپنی جیت مطلوب ہے یا کہ اسلام کی۔ عین ممکن ہے کہ بظاہر مسلمان ہار رہے ہوں لیکن اسلام جیت رہا ہو ۔ جیسا کہ کاندھلہ کے شہر میں ہو چکا ہے ۔
کاش کہ آج کے مسلمان کو اس حقیقت کا ادراک ہو جائے کہ آج ہر لاٹھی’ ہر گولی’ہر پتھر’ہر بم اور ہر خود کش دھماکے کے ساتھ مسلمان بظاہرتو’ وقتی اورمقامی طور پر’ جیت رہا ہے لیکن اسلام ہار رہا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے گھروں’ہمارے دفتروں ’ ہماری دکانوں اورہمارے بازاروں میں بھی اسلام ہر گھڑی اور ہر آن ہا ر رھاہے۔اور مسلمان جیت رہا ہے ۔رشوت کے ہر سکے کے ساتھ مسلمان جیت رہا ہے لیکن اسلام ہار رھا ہے ۔ملاو ٹ کی ہر قسم کے ساتھ مسلمان جیت رہا ہے لیکن اسلام ہار رھا ہے۔ ناپ تول میں ہر کمی کے ساتھ مسلمان جیت رہاہے لیکن اسلام ہار رھاہے۔ اسی طرح ہرقتل اور ہر اغوا کے ساتھ’ ہر بددیانتی اور ہر دھوکے کے ساتھ ’ ہر جھوٹ اور ہر فراڈ کے ساتھ مسلمان جیت رہا ہے اور اسلام ہار رھا ہے۔کاش کہ ہم اسلام کی جیت کا فیصلہ اور منصوبہ بند ی کر لیں۔اگر ہم ایساکرتے ہیں تو اصل میں، ہم اللہ کی مشیت سے ہم آہنگی کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ اللہ کو اسلام سے پیار ہے نہ کہ مسلمان کے نام سے ۔ اس نے تمام انبیا کا مذہب اسلام ہی رکھا ہے اور یہ قرار دیا ہے کہ اس کے نزدیک مذہب بس اسلام ہی ہے ‘‘ان الدین عند اللہ الاسلام’’ تو جو اسلام کا بن جائے گا وہ اصل میں اللہ کا بن جائے گا اور جو اللہ کا بن جائے گا وہ ناقابل شکست بن جائے گا۔یہ ایک ایسا کلیہ ہے جس کی صداقت پہ تاریخ بھی شاہد ہے ۔ یہود بھی جب تک ‘‘اسلام ’’ کے لئے جیے اس دنیا کی امامت انہی کا مقدر رہی اور مسلمان بھی جب تک اسلام کے تھے سیادت و امامت انہی کی باند ی تھی اور جب مسلمان ‘‘اپنے ’’ بن گئے توحقیقت میں وہ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے ۔
مسلمانو!واپسی کا راستہ ابھی بند نہیں ہوا۔ لیکن وقت بہر حال بیت رہا ہے اور دروازے کسی بھی لمحے بند ہو ا چاہتے ہیں۔بند دروازوں سے پھر’ سر ٹکر انے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ شوکتِ اسلام کے لیے رونے والے مسلمانو !اسلام کے لیے رونا سیکھواور حضرت عمر ؓ کے اس فرمان کو پلے باند ھ لو کہ اسلام نے تمہیں چمکایا ہے نہ کہ تم نے اسلام کو ۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہماری ساری عزتیں ’ ہمارے سارے وقار ’ ہمارے سارے مان اسلام ہی سے وابستہ ہیں۔آؤ مسلمانو ! اسلام کے بن جاؤ ۔ اپنی جیت کی فکر چھوڑ کر اسلام کی جیت کی فکر کرو ۔ لیکن اس جیت میں اپنے لئے کتنی ہی ‘‘ہاروں’’ کو برد اشت کر نا ہو گا لیکن انہی ‘‘ہاروں ’’میں ،اصل میں ،تمہاری جیت ہو گی۔