مردو عورت

مصنف : آفاق احمد

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : نومبر 2018

اصلاح و دعوت
مردو عورت 
آفاق احمد

                                                                                            میں ہر وہ کام کرسکتی ہوں جو مرد کرسکتا ہے۔خواتین کسی سے پیچھے نہیں۔مرد عورت کی ذمہ داریاں مساوی ہیں۔ہاتھیوں سے دوستی ہو تو دروازے اونچے رکھنے پڑتے ہیں۔ پڑھی لکھی اور با صلاحیت خواتین سے شادی کا معاملہ ہو تو اُن کے قد کے مطابق معاملہ برتنا چاہیے۔پہلے تین جملے تو ہم کئی سالوں سے تواتر سے سُنتے آرہے ہیں جبکہ آخری جملے سے ملتا جلتا جملہ کچھ عرصہ قبل ایک خاتون لکھاری کی تحریر میں پڑھا۔
مرد عورت اس دنیا کے نظام کی بنیاد ہیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔ایک کے بغیر دوسرا نامکمل ہے۔ہر مذہب نے انہیں ساتھی بنایا۔ہر معاشرتی نظام نے انہیں فرائض و حقوق سکھلائے جس کی بنیاد پر گھر کا نظام چلتا ہے جو کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ہر خطے میں یہ روش سکھائی گئی اور یہی روش سکون کا باعث بنتی رہی۔کچھ دہائیوں سے اوپر درج نئی آوازیں اُٹھنا شروع ہوئیں، نئے اسباق ذہنوں میں ڈالے جانے لگے اور آج یہ صورتحال ہوچلی کہیوں معلوم ہورہا ہے گویا
مرد عورت ساتھی نہیں بلکہ مخالف فریق ہیں۔ان کی ہم آہنگی سے نہیں بلکہ مقابلہ بازی سے معاشرہ ترقی کرے گا۔ان کے درمیان ہار جیت کا مقابلہ چل رہا ہے۔ایسا معلوم ہورہا ہے گویا ایک ڈیڈلاک پیدا ہوچکا ہو۔پوری دنیا کا نظام الٹ تلپٹ ہوچکا۔مغرب کا معاشرتی نظام درہم برہم ہوچکا، شادی کا نظام بکھر چکا، طلاق کا تناسب بڑھ چکا، مرد عورت کے درمیان بداعتمادی کی فضا قائم ہوچکی، بالا رشتوں کا احترام ختم ہوچکا۔
ایک مشہور مصنف کا اٹلی کا قصہ اب تک یاد ہے جس میں ایک مقامی اطالوی مرد اس لیے شادی کے معاملے سے دور تھا کہ اس کے کئی دوست یکطرفہ ملکی قوانین کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ایک عزیز نیوزی لینڈ کچھ عرصہ رہ کر آئے تو بتارہے تھے کہ وہاں کی خواتین رشک سے شادی شدہ جوڑوں کو دیکھا کرتی ہیں۔مغرب یہ بھگت چکا جبکہ مشرق اب اُسی راستے پر تیزی سے گامزن ہے، اگرچہ ابھی اس میں کشش معلوم ہو رہی ہے لیکن اس کے مضمرات اور بدبو دار تعفن معاشرے کو ضرور آلودہ کیے جارہا ہے۔آپ غور کیجیے کہ کچھ عرصہ سے مرد عورت کے فرائض تیزی سے اُلٹ ہو رہے ہیں۔جو کام مردوں کے کرنے کے تھے اُس میں عورتیں تیزی سے داخل ہورہی ہیں اور نہ صرف داخل ہورہی ہیں بلکہ کئی جگہ مردوں کا داخلہ بند ہورہا ہے۔اس کے نتیجے میں عورتوں کی ذمہ داریاں متاثر ہورہی ہیں اور مرد حضرات ان ذمہ داریوں پر طوعاً و کرہاً فائز کیے جارہے ہیں۔نتیجتاً معاشرتی نظام درہم برہم ہوئے جارہا ہے اور ہم سب خاموش تماشائی بنے، اِسے ترقی کی نوید تصور کررہے ہیں۔
جب تک یہ بات عملی طور پر باور نہیں کی جائے گی کہ کچھ ذمہ داریاں مردوں کی ہیں
کچھ ذمہ داریاں خواتین کی ہیں اورکچھ ذمہ داریاں دونوں کی مشترکہ ہیں۔کچھ میدان مردوں کے ہیں۔کچھ میدان عورتوں کے ہیں اورکچھ میدان دونوں کے مشترکہ ہیں۔
ہنگامی طور پر یہ ذمہ داریاں اِدھر اُدھر ہوسکتی ہیں لیکن عام حالات میں اِن میں توازن لازم ہے۔اسی میں معاشرتی توازن ہے، اسی میں گھر کے بنیادی نظام کی مضبوطی پنہاں ہے۔ بصورت دیگر ہر طرف انتشار بگاڑ‘ افراتفری‘ بے چینی اور بے سکونی ہو گی۔

*** 

                                                                       حقیقی استاد
کراچی یونیورسٹی میں 9 جولائی 1978ء کو شعبہ عربی سے خطاب کرتے ہوئے سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے فرمایا:’’ وہ بہت خوش نصیب انسان یا طالب علم ہے، جسے ایسا استاد مل جائے جو حقیقی معنوں میں استاد ہو۔ استاد کی بڑی تعریف یہ ہے کہ وہ اپنے طالب علم کو اپنے جیسا بنانے کیلئے حریص اور بے چین ہو، اور اس کو خوشی ہو اگر اس کا شاگرد صرف اس کی سرخروئی اور نیک نامی کا باعث نہ ہو بلکہ لوگ اس کا تعارف اس شاگرد کے ذریعے کرانے لگیں۔سچا استاد، فطری استاد، پیدائشی استاد، جسے انگریزی میں Born Teacher یا عربی میں استاد موہوب کہیں گے: وہ ماں کے پیٹ سے ہی استاد پیدا ہوتا ہے۔ اس کا اصل جوہر ہی یہ ہے کہ وہ علم گھول کر پلا دیتا ہے، پھر وہ اپنا علم ہی منتقل نہیں کرتا بلکہ اپنا ذوق بھی منتقل کر دیتا ہے اور اپنے شاگرد کو اپنے ذوق اور اپنی پسند و ناپسندیدگی کے پیمانے بھی مستقل طور پر دے دیتا ہے۔ یہی ایک استاد کی اصل تعریف ہے۔‘‘ (مرسلہ ، محمد افتخار تبسم)