وہ صحبت نشینانِ ختم الرسل وہ تیرہ شبوں میں دلیل ِسبل
وہی جن سے ہر شاخ ِہستی میں نم ہر اک مزرعِ دل پہ ابرِ کرم
وہ دنیا میں انساں کی حدِّ کمال زمیں پر خدا کا جلال و جمال
یگانہ تھے اپنی روایات میں جہاں سے الگ اپنی ہر بات میں
کبھی نرم تھے پرنیاں کی طرح کبھی گرم تیغ و سناں کی طرح
کبھی خلوتوں میں سراپا نیاز جبینوں سے روشن دلوں کا گداز
کبھی اہل ِ باطل پہ برق تپاں کہ ہوں خار وخس جس سے کوہِ گراں
وہ علم و ہدایت میں ‘ہل من مزید’ حمیت ، حمایت میں فرد ِ فرید
نمازوں میں وہ چشم پر نم تمام حضور ِ رسالت میں شبنم تمام
مگر استقامت میں چرخِ بریں پہاڑوں سے محکم تھا ان کا یقیں
وہ شب خیزیوں میں تھی راحت جنھیں وہ سجدوں میں ملتی تھی لذت جنھیں
وہی خندہ دل نشیں کا نمک وہ ہستی کا جو ہر ، زمیں کا نمک
کہ نکلے تو گویا کہ اسپند تھے اٹھے تو ہمالہ تھے، الوند تھے
شب و روز حق کے لیے بے قرار وہ راتوں کے راہب، دنوں کے سوار
وہ حق کی ، صداقت کی تصویر تھے
وہ انساں کے خوابوں کی تعبیرتھے