مکھی شہد کی بھی ہوتی ہے اور غلاظت کی بھی’ مگر دونوں میں بہت فرق ہے ۔شہد کی مکھی جنگلی بوٹی کے عام سے پھول پر بیٹھے یا گلاب کے خوبصورت پھول پر’وہ صرف اور صرف میٹھا رس ہی اکٹھا کرتی ہے۔اس رس کوشہد میں بدلنے کے لئے اسے بڑے جتن کرنا پڑتے ہیں۔مثلا ایک پونڈ شہد بنانے کیلئے اسے بیس لاکھ پھولوں کارس حاصل کرنا پڑتا ہے۔اور مجموعی طور پر ۸۳ ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑ تا ہے۔ رس اکٹھاکرنے کے بعد شہد بنانے کا مرحلہ آتا ہے۔جس کے لئے سب سے پہلے رس کو گاڑھا کیا جاتا ہے۔یہ کام مکھیا ں اپنے پروں کا پنکھا چلا کر کرتی ہیں۔ اس کی ہوا سے رس میں موجود فالتو پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔ اب مکھیا ں اس رس کو چوس لیتی ہیں۔مکھیوں کے منہ میں اللہ نے خصوصی غدود بنائے ہیں۔ ان میں سے خاص قسم کی رطوبت خارج ہوتی ہے۔جو اس میٹھے شربت کو شہد میں تبدیل کر دیتی ہے۔اس شہد کو محفوظ رکھنے کیلئے مکھیاں اپنے چھتے میں موم کے چھوٹے چھوٹے ڈبے بناتی ہیں۔اور ان ڈبوں میں شہد بھر دیتی ہیں۔قدرتی ڈبوں میں بند یہ شہد اب انسانوں کے لئے بالکل تیار ہے ۔
دوسری طرف غلاظت کی مکھی ہے ۔اگر چہ اس کی آنکھیں بڑی طاقتور ہوتی ہیں وہ چاروں طرف دیکھ سکتی ہے۔مگر اس کے باوجو د وہ غلاظت پر بیٹھتی ہے اور اس غلاظت کو ہر جگہ پھیلا دیتی ہے۔وہ اس قد ر ضد ی اور ڈھیٹ ہوتی ہے کہ اسے دس مرتبہ اڑاؤپھر بھی وہیں بیٹھے گی جہاں سے اسے اڑایا جائے ۔ یہ ہے شہد کی مکھی اور عام مکھی میں فرق۔یہی وجہ ہے کہ شہد کی مکھی کو پالا جاتا ہے اور گندگی کی مکھی کومارا جاتا ہے۔گویا شہد کی مکھی کو انسان جینے کا حق دیتا ہے۔اور گند گی کی مکھی سے زندگی کا حق چھینتا ہے۔ شہد کی مکھی کو یہ‘‘ حق’’محض اس لئے ملتا ہے کہ وہ بے انتہا محنت سے اپنا یہ حق ثابت کرتی ہے۔
بس یہی بات ہمارے لئے بھی قابل غور ہے اگرہم کوئی حق حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی شہد کی مکھی کی طرح دوسروں کے لئے فائد ہ مند بننا پڑ ے گا’جیسا کہ ہم کبھی تھے۔یاد رکھیے حقوق اسی کو ملتے ہیں جو اس کا حق رکھتا ہے۔ بغیر حق کے کبھی حقوق نہیں ملتے ۔ حقوق کے مطالبے سے پہلے ہمیں بڑے تحمل سے اس بات کا جائزہ لے لینا چاہیے کہ آج اقوامِ عالم سے ہم جن حقوق کی توقع کر رہے ہیں کیا ہم ان کا حق رکھتے ہیں؟کیا اقوامِ عالم ہمارے قدموں پہ ہمارے حقوق محض اس لیے نچھاور کر دیں گی کہ ‘‘پدرم سلطان بود’’۔ یقینا ایسا نہیں ہوگا اگرسلطانئی پدرم ہی کام آنی ہوتی تو ڈیڑھ صد ی کاعرصہ اس کے لئے خاصا تھا۔مگر نہ گزرے وقت میں ایسا ہوا اور نہ ہی ’آئند ہ’ ایسا ہونے کی توقع ہے ۔ عافیت’ بلکہ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اس بات کا ادراک کر لیں کہ دنیا میں حقوق علم و فن کا تاجِ امامت سر پر رکھنے سے ملا کرتے ہیں اور اللہ کے ہاں سے رحمت وفضل کا مژدہ حقِ بند گی ادا کرنے اور اس کی مخلوق کے خیر خواہ بننے سے ملتا ہے ۔کیا ہم اس سب کے لئے تیار ہیں؟