کتاب: سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ
مصنف: شورش کاشمیری
شاہ جی ان لوگوں میں سے ہیں ’ جن کی زندگی ماضی میں بسر ہوتی ہے اور جو اپنی متنوع زندگی کے باعث مجموعۂ اضداد ہوتے ہیں ان شخصیتوں کا صحیح تاثر ان کے قریب ہی سے مرتّب ہوتا ہے ۔
شاہ جی کے چہرے مہرے سے عنان خیال معاً ان یونانی فلسفیوں کی طرف مڑ جاتی جی کے فکر و نظر کی بہت سی راہیں صدیوں کی شب کاری کے باوجود روشن چلی آتی ہیں اور جن کے تصویری پیراہن ’ ان شہ دماغوں کی یاد دلاتے ہیں جن کی صورتوں سے ایک ساحرانہ شکوہ کا اظہار ہوتا ہے ۔ شاہ جی کا نک سک قرون وسطٰی کے ان حکما و فقہا اور علما و خطبا سے مشابہ تھا جو طلوع تاریخ سے پہلے یونان و روما میں اور طلوع تاریخ کے بعد بغداد و دہلی میں پائے جاتے تھے ۔
اتفاق کہیے کہ بعض داعی شخصیتیں آپس میں ایک گونہ مماثلت ضرور رکھتی ہیں ’ مثلاً فیثا غورث ’ کارل مارکس ’ رابندر ناتھ ٹیگور اور شاہ جی میں فکرو نظر ’ عقیدہ و ایمان اور علم و عمل کی کوئی راہ بھی مشترک نہ تھی لیکن کچھ ایسا بانکپن ضرور تھا کہ ان کا چہرہ مہرہ ہر صفائی بُعد کے باوجود ایک ساتھ تھا ۔ بہرحال یہ ایک شاعرانہ چیز ہے ان بڑوں کی زندگی ایک خاص طرز رکھتی ہے جی سانچے میں بھی ڈھلیں ’ ہمیشہ ابھرے ہوئے ملیں گے یہ کسی کے نقشِ پا نہیں ڈھونڈتے بلکہ لوگ ان کے نقشِ پا کی تلاش میں رہتے ہیں ۔
شاہ جی کی زندگی جس نہج پر استوار ہوئی اس میں ادب و سیاست کا ایک رومانی امتزاج تھا ’ ظاہر ہے کہ ایک رومانی زندگی کی کھلی کتاب ہوتی ہے اس میں سرے سے ادق عبارتیں ہوتی ہی نہیں ’ ایسا شخص جذبات پر جیتا اور جذبات پر مرتا ہے ۔ اس میں احساس کی شّدت او راستغنا کی شرافت تا حد کمال ہوتی ہے ۔ اس کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس کے بارے میں کون کیا سوچتا ہے اس کی ذات ہی اس کا پیمانہ ہے وہ گردو پیش سے متاثر ہوتا اور چاہتا ہے کہ گردو پیش اس سے متاثر ہوں اس کی روح اس وقت معراج پر ہوتی ہے جب وہ عام چہروں میں اپنا ہی عکس دیکھتاہے
یک چراغ است دریں خانہ کہ ازپر توِ آں
ہر کجامی نگری انجمنے ساختہ اند