شخصيات
ڈاکٹر جاوید اقبال: دلِ ناصبور
ڈاکٹر ساجد علی
ایک شخص اس دنیا میں طویل عمر بسر کرتا ہے۔ اس دوران میں وہ اعلیٰ ترین تعلیمی اسناد حاصل کرتا ہے، تحریر و تصنیف میں نام پیدا کرتا ہے، ہائی کورٹ کا جج بنتا ہے، چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوتا ہے، سپریم کورٹ کا جج بننے کا اعزاز حاصل کرتا ہے، ریٹائرمنٹ کے بعد سینٹ کا رکن بھی رہتا ہے،دنیا بھر میں لیکچر دیتا ہے۔ آسودہ اور کامیاب و کامران زندگی گزارنے کے بعد91 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو سب ٹیلی وژن چینل ایک ہی خبر چلاتے ہیں کہ علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال انتقال کر گئے ہیں۔ڈاکٹر جاوید اقبال کو اس بات پر گلہ تھا کہ لوگ ان کی اپنی علیحدہ حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ کچھ لوگ تو علامہ اقبال سے عقیدت کی بنا پر ایسا کرتے تھے لیکن ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو جاوید اقبال کے خیالات کو قبول کرنے سے انکاری تھے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال تمام تر شہرت اور ناموری کے باوجود ایک سادہ دل اور منکسر المزاج انسان تھے۔ مگر اپنی بات بے دھڑک اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہہ گزرتے تھے۔ ایسا وہ نجی محفلوں میں ہی نہیں بلکہ برسرعام بھی کیا کرتے تھے۔ ہمارے ہاں غیر رواداری اور عدم برداشت کا ماحول پیدا ہو چکا ہے، بالخصوص مذہبی معاملات میں۔ ان حالات میں نازک معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے ہر شخص کو بہت محتاط ہونا پڑتا ہے مگر ڈاکٹر صاحب بلا خوف اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ مجھے ان کے چند جملے یاد ہیں مگر خوف فساد خلق سے انہیں لکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ میرا خیال ہے کہ جہاں انہیں یہ گلہ تھا کہ لوگ انہیں صرف فرزند اقبال سمجھتے ہیں، وہاں انہیں اس نسبت کا بہت فائدہ بھی ہوا کہ فرزند اقبال ہونے کے ناتے لوگ ان کی وہ باتیں بھی برداشت کر لیتے تھے جو اگر کسی اور کی زبان سے ادا ہوتیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ شخص اکانوے برس کی عمر کو کبھی نہ پہنچتا۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب’ اپنا گریباں چاک‘ ان کی اسی صاف گوئی اور بیباکی کی علامت ہے۔ اس میں انہوں نے نہ تو خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے نہ اپنے خاندان کے بارے میں کوئی داستان طرازی کی ہے، بلکہ ددھیال اور ننھیال دونوں خاندانوں کی معاشرتی، معاشی اور تعلیمی حیثیت کو کسی رنگ آمیزی کے بغیر لکھا ہے۔ انہوں نے اپنے والد کی جو تصویر پیش کی ہے وہ اقبال کے عقیدت مندوں کے لیے شاید بہت خوش کن نہ ہو۔
جاوید اقبال کی پیدائش پر علامہ نے اپنے ہندو دوست، راجہ سر نریندر ناتھ، کے کہنے پر ایک پنڈت سے جنم پتری بھی بنوائی حالانکہ علامہ کا ان باتوں پر کوئی اعتقاد نہیں تھا۔ اس پر ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک بہت بلیغ تبصرہ کیا ہے جو ان کی نفسیاتی ژرف نگاہی پر بھی دلالت کرتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ جنم پتری بنانے پر ماننے کی ایک وجہ ’شاید یہ ہو کہ اپنے بڑے بیٹے …. سے ان کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ اس لیے ممکن ہے وہ جاننا چاہتے ہوں کہ مستقبل میں کہیں میرا چھوٹا بیٹا بھی نافرمان نہ نکلے…. بعض اوقات ذاتی محرومیاں ایک خود اعتماد انسان کو ضعیف الاعتقاد بنا دیتی ہیں-
علامہ اقبال کو حکیم الامت قرار دے کر ان کی شخصیت کے گرد تقدس کا ہالہ کھینچا جا چکا ہے۔ مگر ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے والد کو ویسا ہی بیان کیا ہے جیسا انہوں نے دیکھا تھا۔ ”میرے والد شاذ و نادر ہی روزہ رکھتے تھے اور جب رکھتے تو ہر چند گھنٹوں بعد علی بخش کو بلوا کر پوچھتے کہ افطاری میں کتنا وقت باقی ہے…. جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے ماں باپ نے کبھی نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے پر مجبور نہیں کیا۔“ علامہ اقبال نے کہا تھا:طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم--ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی
ایسا لگتا ہے کہ جاوید اقبال کی فطرت میں آزاد روی اور فکری حریت کے جراثیم موجود تھے۔ اپنی طبع جدت پسند کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:”میں ترقی پسند تحریک کی سیاست سے تو متاثر نہ ہوا مگر ادب میں اظہار کی نئی راہوں کی تلاش تک میں نے ترقی پسندی قبول کی۔ چونکہ میں فطرتاً جدت پسند تھا اس لیے ادب، فکر یا زندگی کے کسی بھی شعبہ میں فرسودگی کو قبول کرلینا میرے لیے ناممکن تھا۔“
جاوید اقبال نے عمل اور فکر دونوں میں فرسودہ طور طریقوں کو چھوڑ کر اپنے من پسند راستوں پر سفر کو ترجیح دی۔ اس میں نقصان یہ ہوتا ہے کہ بھٹکنا بہت پڑتا ہے مگر ان کی افتاد طبع نے کسی تجربے سے گریز نہیں کیا۔ انہوں نے اداکاری، صدا کاری، ڈرامہ نگاری، افسانہ نگاری، رقص و عیش کوشی سمیت ہر کوچے میں جھانکا مگر ان کے دل ناصبور کو قرار فکر و فلسفہ ہی میں میسر آیا۔ اس کوچہ نوردی کا ذکر کس درد مندی اور من موہنے انداز میں کیا ہے: ” یہی وجہ ہے کہ روحانی تجربہ سے محروم ایک عامی انسان کی طرح میں کبھی کفر اور کبھی ایمان، کبھی نیکی اور کبھی بدی کی سیڑھیاں چڑھتا اترتا رہا ہوں اور شاید یہی نشیب و فراز کی راہ میری راہِ حیات ہے۔“
ان کی شخصیت کے تمام تر تنوع کے علی الرغم جو کام انہیں زندہ رکھے گا وہ ہے اقبال کی سوانح اور فکر کی تشریح و تفہیم پر ان کا گراں قدر تصنیفی سرمایہ۔ انہوں نے سوانح اقبال پر ’زندہ رود‘ جیسی مبسوط کتاب ہی نہیں لکھی بلکہ فکر اقبال کو روایتی مذہبی طبقے کی یلغار سے بچانے میں بھی اہم کردار کیا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد حادثہ یہ ہوا کہ فکر اقبال کی تفہیم و تشریح کا کام آہستہ آہستہ ان لوگوں نے سنبھال لیا جن کے خلاف اقبال زندگی بھر مورچہ زن رہے، یعنی روایتی مذہبی طبقہ اور ان میں بالخصوص کانگرس کے حامی اور احراری ۔ ان لوگوں نے اپنی مرضی سے اقبال کے اشعار کا انتخاب کرکے اور اقبال کی نثر کو رد کرکے اقبال کو روایتی مذہبی فکر کے ایک علم بردار کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔
علامہ اقبال ہوں یا قائد اعظم، جاوید اقبال کے نزدیک، ان دونوں کا مطمح نظر ایک جدید جمہوری ریاست کا قیام تھا۔ ایک ایسی ریاست جس میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں، جہاں عورتیں بھی تعلیم و معیشت کے میدانوں میں سرگرم عمل ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد عورتوں کو حقوق دلوانے اور انہیں معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے لیے اپوا کا قیام عمل میں لایا گیا جسے ہمارے مولوی حضرات نے نشانے پر دھر لیا تھا۔ڈاکٹر جاوید اقبال کا موقف تھا کہ پاکستان کا قیام اصلاحی اور اجتہادی اسلام کا ثمرہ تھا۔ روایتی مذہبی فکر کے حامل علما کی اکثریت تو مسلم لیگ کے مقابلے پر کانگرس کی ہم نوا تھی۔ آج کتنے ہی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ قائد اعظم اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے۔ یہ دعویٰ دو مفروضوں پر مبنی ہے۔ یعنی جب اسلامی ریاست کا لفظ بولا جائے گا تو بولنے والے کو اس کے معنی معلوم ہوں گے اور سننے والا بھی وہی معنی مراد لے گا جو قائل کا منشا ہوں گے۔ افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑتا ہے کہ یہ دونوں ہی مفروضے غلط ہیں۔ اسلامی ریاست کی ترکیب کسی واحد اور متفق علیہ معنی تک رسائی میں ہرگز ممد و معاون نہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود جیسے بلند پایہ محقق اور مورخ تکرار کے ساتھ یہ بات لکھ رہے ہیں کہ قائد اعظم اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے مگر اس کے ساتھ یہ اضافہ بھی کر دیتے ہیں کہ ان کی مراد مذہبی ریاست نہیں تھی۔ آج تک ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے اسلامی اور مذہبی ریاست کا فرق بیان کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
اس تنازعہ کو اس ایک مثال سے سمجھ لیجیے کہ روایتی تصور کے مطابق اسلامی ریاست میں مسلم اور غیر مسلم برابر کے شہری نہیں ہو سکتے اور نہ عورتوں کا غیر خانگی امور میں کوئی کردار ہو سکتا ہے۔ مگر قائد اعظم نے قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران بھی اور اپنی11 اگست کی تقریر میں صراحت کے ساتھ بیان کیا کہ مملکت پاکستان کے تمام شہری مساوی حقوق کے حامل ہوں گے۔ ریاست عقیدے اور جنس کی بنا پر اپنے شہریوں کے مابین کسی قسم کا فرق و امتیاز قائم نہیں کرے گی۔
مسلم لیگی قیادت جدید تعلیم یافتہ روشن خیال لوگوں پر مشتمل تھی۔ ان میں سردار عبد الرب نشتر اس اعتبار سے نمایاں تھے کہ وہ پابند صوم و صلوٰة مسلمان تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال بیان کرتے ہیں کہ جب وہ حصول تعلیم کے بعد انگلستان سے واپس آئے تو کراچی میں یوم اقبال کے حوالے سے منعقد ہ تقریب میں انہوں نے اپنا مقالہ ’جدید اسلام میں لبرل ازم کی تحریک اور اقبال‘ پیش کیا۔ ’مقالہ میں میرا موقف یہ تھا کہ اسلام میں لبرل ازم کی تحریک ہی پاکستان کی نظریاتی اساس فراہم کرتی ہے۔سردار عبد الرب نشتر کو اصطلاح ’لبرل ازم‘ کے معانی سمجھنے میں دقت پیش آئی اور اس غرض کے لیے شام کو مجھے اپنی رہائش گاہ پر بلایا۔ ملاقات پر میں نے عرض کیا کہ اصطلاح سے مراد وسیع النظری، رواداری، اور کسی مخصوص فرقہ یا فقہی مکتبہ فکر کے خیالات سے بالاتر ہو کر سوچنا اور بذریعہ اجتہاد وقت کی ضروریات کے مطابق شریعت اسلامی کی تعبیر کرتے ہوئے قانون سازی میں نئے رستے تلاش کرنا ہے…. وہ میری بات سمجھ تو گئے مگر فرمایا کہ اس تحریک کو ’لبرل ازم‘ کے نام سے منسوب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی تو اصل اسلام ہے۔‘ کیا زمانہ تھا جب ہمارے سیاست دانوں اور ارباب اختیار میں وہ لوگ شامل تھے جو الفاظ اور اصطلاحوں کے درست استعمال کو اہمیت دیتے تھے اور ان کے غلط استعمال کے مضر اثرات سے واقف تھے۔سردار نشتر کا رد عمل واضح کرتا ہے کہ ان جیسے باعمل مسلمان کا اسلام کا تصور مولویوں سے کتنا مختلف تھا۔ مولویانہ ذہن کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ1946 میں الیکشن کی مہم کے دوران راولپنڈی کے علاقے میں پیر صاحب گولڑہ شریف پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ جزیہ ادا کرکے ذمی کی حیثیت سے رہ سکیں گے۔(Ishtiaq Ahmed. Punjab: Bloodied, Partitioned and Cleansed. p.87)
ایک زمانہ تھا جب مرکزیہ مجلس اقبال کے تحت یوم اقبال بہت تزک و احتشام سے منایا جاتا تھا۔یونیورسٹی ہال میں بہت بھرپور اجلاس ہوتا تھا۔ ان اجلاسوں میں ڈاکٹر صاحب کا مقالہ خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا تھا۔ ان دنوں وہ اس بات کو بالاصرار بیان کیا کرتے تھے کہ ایک اسلامی ریاست ہی صحیح معنوں میں سیکولر ریاست ہو سکتی ہے۔ ان کے نزدیک سیکولر ریاست انسانوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی فراہم کرتی ہے۔ایک حقیقی اسلامی ریاست بھی ’لا اکراہ فی الدین‘ پر عمل کرتے ہوئے اپنے تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ اس لیے اسلامی اور سیکولر ریاست کے معنیٰ میں کوئی تضاد و تناقض نہیں اور یہی مسلم لیگ کے قائدین کا منشا تھا۔مگر تاریخ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ریاست مذہبی طبقات کے سامنے رفتہ رفتہ پسپائی اختیار کرتی رہی۔ یہاں تک کہ بھٹو صاحب جیسے مقبول اور طاقتور لیڈر نے بھی کئی معاملات میں مولویوں کی خوشنودی حاصل کر نے کی کوشش کی ۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں فرقہ وارانہ اسلام کو باقاعدہ نافذ کرنے کی سعی کی گئی اور افغان جہاد کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کا تہذیبی اور ثقافتی تار و پود بکھر کررہ گیا۔ پھر وہ وقت آیا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے دوست پروفیسر حفیظ ملک کی معیت میں افغانستان کا دورہ کیا۔ واپسی پر انہوں نے کچھ اس قسم کے بیانات دیے جیسے طالبان نے خلافت راشدہ کو بحال کر دیا ہے۔ان بیانات پر ڈاکٹر صاحب کے مداحوں کو مایوسی ہوئی مگر مولویوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ نتیجتاً انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ہاں حاضری دینا شروع کر دی جیسے انہوں نے از سر نو اسلام قبول کر لیا ہو۔ ان ملاقاتوں کے تاثر کو انہوں نے بہت موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ کاش حکومت اور سوسائٹی کے افراد نے اس پر غور کیا ہوتا: ”پاکستانی علما حضرات کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے مجھے فوری طور پر احساس ہواکہ وہ ”طالبان“ کی طرز سیاست کو صحیح سنی اسلامیت سمجھتے ہوئے اب کسی نہ کسی انقلاب کے ذریعہ پاکستان میں رائج دیکھنا چاہتے ہیں۔ان کے جذبات کی شدت سے گمان ہوتا تھا کہ جس طرح سید احمد بریلوی اور شاہ اسمٰعیل کی انقلابی جہادی تحریک یا خلافت کے زمانہ کے جوش و خروش نے بر صغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو تہہ و بالا کیا اسی طرح اب ’طالبان‘ کے اسلامی ’ماڈل ‘ کو اپنا کر وہ یہاں کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو یکسر بدل دینے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں اور اس مقصد کی تحصیل کے لیے وہ کسی بھی بیرونی یا اندرونی قوت سے نبرد آزما ہونے کو تیار ہیں۔ “۔اور وہ ہم سے نبرد آزما ہیں۔ مگر افسوس کہ ارباب اقتدار ابھی تک اس مسئلے سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے سات برس کی عمر میں اپنے والد کو خط لکھا تھا جس میں انگلستان سے گراموفون باجا لانے کی فرمائش کی تھی۔ باجا تو نہ آیا مگر ایک یادگار نظم وجود میں آ گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے تقریباً 78 برس کی عمر میں اپنے والد کو دوسرا خط تحریر کیا جس میں بہت اہم فکری سوالات اٹھائے ہیں جن سے اعتنا کیے بغیر چارہ نہیں مگر اس بحث کو کسی آئندہ موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔