طویل زندگی کا نسخہ

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : نومبر 2018

اصلاح و دعوت
طویل زندگی کا نسخہ
ڈاکٹر طفیل ہاشمی 

                                                                                                                    انسانی فطرت ہے کہ وہ مرنا نہیں چاہتا۔جو لوگ ایسے موذی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں جن سے کوئی جانبر نہیں ہو سکتا وہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح ممکن ہو زندگی کے شجرہ نا تراشیدہ سے جس قدر لمحات کشید کر سکتے ہوں کر لیں۔ارباب وسائل لاکھوں اور کروڑوں خرچ کر کے کئی کئی فاضل پرزے لگوا کر طول عمر کا سامان کرتے ہیں حالانکہ ہر کسی کو پتا ہوتا ہے کہ اس کوشش کے آخری سرے پر ہرکارہ پیام اجل لے کر کھڑا ہے۔دنیا بھر کے انسان جس واحد حقیقت مطلقہ پر بالاتفاق یقین رکھتے ہیں وہ موت ہے کہ
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
اس حقیقت سے شناسا ہونے کا نتیجہ ہے کہ انسان نے زندہ رہنے کے ایک دوسرے طریقے کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور وہ ہے اولاد کا حصول ۔نہ معلوم کیوں لیکن سمجھا جاتا ہے کہ اولاد کسی انسان کی زندگی کے امتداد کی ضمانت ہے۔ بعض معاشروں میں اس کے لیے سکون و راحت، دولت، عزت اور ناموس تک داؤ پر لگا دئیے جاتے ہیں لیکن کیا واقعتاً اولاد انسان کی زندگی کی بقا کی ضامن ہے۔کسی فرد کے زندہ رہنے کا جو سب سے کمزور حوالہ ہے وہ یہ ہے کہ اس کا نام باقی رہے۔آپ تجربہ کر لیں، کسی ایسی جگہ جہاں سینکڑوں لوگ موجود ہوں، ان سب سے ایک سوال کریں کہ کون ہے جسے اپنے دادا کے پڑ دادا کا نام معلوم ہے؟؟ شاید ایک بھی نہ ہو جبکہ اس بیچارے نے بھی اپنا نام زندہ رکھنے کے لیے بے حد محنت کی تھی لیکن نام تک باقی نہیں رہا۔معلوم ہوا کہ یہ تصور کہ انسان اولاد کے ذریعے زندہ رہتا ہے درست نہیں۔لیکن انسان کے اندر زندہ اور باقی رہنے کی خواہش موجزن رہتی ہے اور کسی خواہش کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ خالق کائنات نے اس کی تکمیل کی کوئی راہ ضرور رکھی ہو گی۔
جی ہاں فطرت نے زندہ رہنے کی راہ نہ صرف رکھی ہے بلکہ افادہ عام کے لیے بتا بھی دی ہے۔قرآن حکیم میں سورہ الرعد اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں ''فلسفہ تقدیر، مسئلہ جبر و قدر، علم و عدل الوہی کی آویزش کا سوال، اور تقدیر کے بدل جانے کا نظریہ'' شرح و بسط کے ساتھ سمجھایا گیا ہے ۔ اسی سورہ میں بتایا ہے کہ اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (باقی وہی رہتا ہے جو خلق خدا کے لئے نفع بخش ہو)
اس کو سمجھانے کے لیے دومثالیں بھی دیں کہ جب بارش برستی ہے اور پانی نشیب میں بہنے لگتا ہے تو اس پر جھاگ آ جاتا ہے یا سونے کو آگ پر تپانے سے اس پر جھاگ آ جاتا ہے۔جھاگ بے مصرف شے ہے تھوڑی دیر بعد خشک ہو کر اڑ جاتا ہے لیکن پانی اور سونا جو نفع بخش ہیں باقی رہتے ہیں گویا جو باقی رہنا چاہتا ہے وہ پانی کی طرح نفع بخش اور سونے کی طرح قیمتی ہو جائے تو اسے کوئی مٹا نہیں سکے گا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب پہلی وحی کے حیرت زا تجربے کے بعد رسول اللہ ﷺگھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور سیدہ خدیجہ کو ساری روداد سنا کر پریشانی کا اظہار کیا توسیدہ خدیجہ نے، جو کسی دارالعلوم کی فاضلہ تھیں نہ کسی یونیورسٹی کی فلاسفر لیکن اس الوہی صداقت سے آگاہ تھیں کہ جو خلق خدا کے لیے نفع بخش ہے اللہ اسے تنہا نہیں چھوڑتا، جواب دیا ''ہرگز نہیں، بخدا، اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں، خود کماتے ہیں اور غریبوں کو کھلاتے ہیں، مہمانوں کی خاطر و مدارات کرتے ہیں اور ناگہانی آفات میں لوگوں کی مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں.'' اس موقع پر کسی عبادت و ریاضت، کسی چلے اور وظیفے کا حوالہ نہیں دیا گیا بلکہ پانچوں ایسے کام ذکر کئے جو خدمت خلق سے متعلق ہیں کیونکہ وہ جانتی تھیں:اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض۔
خدمت خلق ایک ایسا کام ہے کہ اس کی ہزارہا صورتیں ہیں اور ہر شخص اپنے شعبے سے وابستہ رہ کر اور اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے خدمت خلق کی سعادت حاصل کر سکتا ہے مثلاً اہل ثروت کو ہاتھ اور دستر خوان کھلا رکھنا چاہئے، اہل علم کی خدمت خلق تعلیم و تدریس ہے، اہل تجارت کی خدمت خلق مخلوقِ خدا کو وافر، عمدہ اور مناسب داموں پر ضروریات زندگی کی فراہمی ہے۔ ارباب سیاست کی عوام کی فلاح کی پالیسیاں بنانا اور انہیں دیانتداری سے مکمل کرنا ہے۔سیاست یا اقتدار کا تقاضا یہ نہیں
کہ ہنگامی حالت میں کسی ضرورت مند کی مدد کی جائے، ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ کسی کو ضرورت مند نہ ہونے دیا جائے۔ کسان کا کام زیادہ سے زیادہ غلہ پیدا کرنا ہے اور طلبہ کا حصول تعلیم ہے۔الغرض ہر شخص کسی نہ کسی پہلو سے خلق خدا کے لیے نفع بخش ہو کر طویل اور نیک نامی کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے اور دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد بھی اس کے ذکر خیر کی عطر بیزیاں فضا کو معطر کرتی رہیں گی۔
*** 
عبدالعزیز کی نعتیہ شہر آشوب
اعشیٰ پکارے تجھ کو اے ناموسِ ربّ
یا سید الناس و دیان العرب
اے شارعِ منہاج ناموس و شرف
اے شارحِ متن مقاماتِ ادب
***
مفقود ہے آزادی فکر و نظر
اے وائے بہ انجامِ ارث جد و اب
اسلام جو تسلیم جاں کا دین ہے
آلہ ہو استحصال کا یا للعجب
معنی خلافت کے ہوئے ذہنوں سے محو
بھولے مسلمان تیری بعثت کا سبب
وہ ملت بیضا کہ ہے خیر الامم
قاروں بنی یکدم جو بے رنج و تعب
تاریخ کے اوراق خوں آلود ہیں
قیمت کوئی انسان کی جب تھی نہ اب
ہم مہدی موعود کے ہیں منتظر
طالع ہوجانے ساعت دیدار کب
گردوں سے ہوگا کب مسیحا کا نزول
دجال کے غلبے کے ہیں آثار سب
پھر ہو کسی فاروقِ اعظم کا ظہور
دیتا ہے لو پھر سے شرارِ بولہب
میں نوحہ خواں ہوں اُمت مرحومہ کا
میری المناکی نہیں ہے بے سبب
***
فتور و مفسدہ برپا ہے ربع مسکوں میں
مچا ہے کارگہ شیشہ گر میں اِک اودھم
شرابِ ناب سے ارزاں ہے خونِ انسانی
لہو ترنگ سے سرخوش ہے مادرِ قشعم
نہ اہل مدرسہ میں استقامت حنبل ؒ 
نہ اہل میکدہ میں ہمت ابو الہیثم

***