مصعب اسکول سسٹم کا قیام 1994میں عمل میں لایا گیا ۔جدید تعلیم بہترین وسائل کے ساتھ مہیا کرنے والے اسکولوں کی موجودگی میں ایک نئے اسکول کا قیام بظاہر ایک درست اقدام معلوم نہیں ہوتا تھا ،لیکن مصعب کو قائم کرنے والوں کے پیش نظر یہ مقصد تھا کہ بچے مناسب دینی ماحول کے اندر رہ کر جدید تعلیم حاصل کریں تاکہ وہ جدید تعلیم کے ساتھ منسلک بے خدا تہذیب کے مفاسد سے محفوظ رہ سکیں اور ان کے اندر اسلامی اقدار سے وابستگی کا جذبہ نہ صرف زندہ رہے ،بلکہ پروان چڑھ سکے ۔اس مقصد کے حصول کیلئے دورانِ تدریس میں درج ِ ذیل پہلوؤں کو خاص طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے :
1۔ عربی زبان اور قرآن مجید کی تدریس اگرچہ او لیول کے نصاب حصہ نہیں ہے لیکن اس کی باقاعدہ تدریس جاری رہتی ہے اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ تیسری جماعت سے عربی زبان شروع کرنے والا بچہ او لیول تک پہنچتے پہنچتے اس قابل ہو چکا ہو کہ وہ قرآن مجید کو پڑھتے ہوئے عربی عبارت براہِ راست سمجھ رہا ہو۔
2۔ اسباق کو بغیر سمجھے یاد کرنے کی شدید حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ،اس کے بجائے طلبہ میں فہم و شعور کے ساتھ اپنی عملی استعداد کو بڑھانے کی عادت پختہ کی جاتی ہے
3۔ اسکول میں تدریس کا معیار اس قدر کڑا رکھا گیا ہے کہ عام طور پر کسی طالب علم کو اضافی ٹیوشن کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔
4۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں طلبہ کی شرکت کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔
5۔ طلبا و طالبات کے اند رآگے بڑھنے اور اعلیٰ نصب العین کے حصول کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے انہیں معاشرے میں نمایا ں مقام حاصل کرنے والے دانش وروں اور صاحب ِ علم لوگوں کی محافل میں لے جانے کا اہتما م بھی کیا جاتا ہے
چنانچہ اس نہج پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد مصعب اسکول سسٹم کا پہلا بیج والدین ، اساتذہ اور انتظامیہ کی دعاؤں کے ساتھ امتحانات میں شامل ہوا ۔جون 2004میں منقعد ہونے والے ان امتحانات کے نتائج کا اعلان اگست 2004 میں کیا گیا ۔ان نتائج کے مطابق تما م طلبہ امتحانات میں کامیاب قرار دیئے گئے ۔ تمام مضامین میں طلبہ نے 82.13%نمبر حاصل کیے جبکہ مختلف مضامین کے اعتبار سے طلبہ کی کار کردگی کا تناسب یہ رہا :
انگریزی 80%، اسلامیات 77.56%، مطالعہ پاکستان 76%، اردو91.67%، ریاضی 89.11%، ایڈوانس میتھ 91%، فزکس 82.22%، بیالوجی 83%۔
اول پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم خضر رشید شیخ نے 90.75% نمبر حاصل کئے ، جبکہ سب سے کم نمبر حاصل کرنے والے طالب علم کے نمبروں کا فی صد تناسب 69.88 رہا۔
یوں یہ نتائج ہر اعتبار سے بہت شان دار رہے ۔ تمام طلبہ و طالبات ، ان کے والدین ، اساتذہ اور اسکول انتظامیہ اس شاندار کار کردگی پر مبارک باد کی مستحق ہے ۔ اور یہ توقع رکھنی چاہئے کہ اسکول کی انتظامیہ بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے اس معیا ر کو برقرار رکھے گی تا کہ طلبہ اگلے مرحلے یعنی اے لیول میں اس سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں ۔