مجھے اپنی اولاد سے شدید محبت ہے ۔ میں ان کا مستقبل تابناک دیکھنا چاہتا ہوں ۔میری خواہش ہے کہ ان کی زندگیا ں آرام اور عزت و وقار کے ساتھ گزریں۔ اس مقصد کے پیشِ نظر میں اپنے تمام وسائل صرف کرنے پر آمادہ ہوں ۔بلکہ اگر یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا کہ اس کے لئے میری جان بھی حاضر ہے۔
پچھلے دنوں ایک مسجد میں نماز پڑھی ۔ محراب کے پاس ایک تختی آویزاں ہے ۔اس پر ایک عبارت درج ہے ۔عبارت پڑھنے پردل پر چوٹ سی پڑتی ہے ۔لکھا ہے: ‘‘سب کو یہ فکر ہے کہ ان کے مرنے کے ان کی اولاد کا کیا ہوگا ۔لیکن کسی کو یہ فکر نہیں کہ اولاد کے مرنے کے بعد اولاد کا کیا ہوگا؟’’
دنیا کی چندر وزہ زندگی کا مستقبل میرا ایک مستقل مسئلہ ہے ۔میری اولاد کا مستقبل میری ساری تمناؤں کا محور و مرکز بنا رہتا ہے ۔لیکن ان کی آخرت کی فلاح مجھے بے چین کر دے ،یہ مرحلہ کم ہی آتا ہے ۔تختی پر درج ان جملوں نے میری دنیا کو زیرو زبر کر دیا ۔اس لئے کہ اگر حقیقی مستقبل کوئی چیز ہے تو وہ آخرت ہے ۔آخرت ، جو ابدی زندگی ہے ۔آخرت کی کامیابی ،ابدی کامیابی ہے ۔اس کا انحصار، اعلیٰ کردار اور سچے ایمان و اسلام پر ہے ۔
میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانا چاہتا ہوں۔ لیکن انہیں دینی مدرسے میں داخل کروں تو وہ نہ حقیقی دین سے واقف ہو سکتے ہیں اور نہ ، چندروزہ ہی سہی ، دنیوی زندگی کی دوڑ میں شریک ہو سکتے ہیں ۔اور اگر انہیں جدید تعلیم کی کسی درس گاہ میں بھیجوں تو شاید دنیا تو سیکھ جائیں لیکن سچے دین سے بے بہرہ رہتے ہیں ۔کوئی ایسا اسکول ہو، جو میرے دونوں مسئلے حل کر دے جو میرے بچوں کے حقیقی اور دنیوی مستقبل کی تعمیر میں میرا ہاتھ بٹا سکے ۔یہ صرف میری پریشانی نہیں ہر وہ مسلمان جس کا ایمان زندہ ہے ’جسے دین کی نعمت حاصل ہے اور وہ اپنا دین شعور کی سطح پر اپنائے ہوئے ہے ’ اس پریشانی میں مبتلا ہے ۔
ہمارے بعض احباب نے ایسے سب لوگوں کی ضرورت کو اپنی ضرورت بنا لیا ہے ۔ انہوں نے ہمت کی اور ایک ایسے اسکول کی بنیا د رکھ دی جو اس مقصد کو پورا کر سکے ۔یہ اسکول مصعب اسکول سسٹم کے نام سے قائم ہے ۔انہوں نے اس کے تعارف میں لکھا ہے :
‘‘مصعب اسکول سسٹم ،محض ایک اسکول نہیں ، بلکہ قومی سطح پر ایک تعلیمی مشن کا آغاز ہے ۔ہم نے اس تعلیمی مشن کا نام حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے نام پر ‘مصعب اسکول سسٹم ’ رکھا ہے ۔(یہ وہ صحابی ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے یثرب بھیجا تھا سرزمین عرب کی یہ بستی انہی کی جدوجہد سے اسلامی دعوت کے لئے مفتوح ہوئی ، اوراس کے اکابرین نے اسلام کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ) مصعب اسکول سسٹم کے نام سے یہ ادارہ اعلیٰ سے اعلیٰ معیار پر عام تعلیم ہی کے لئے قائم کیا گیا ہے ۔اس کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس سے پڑھ کر نکلنے والے ڈاکٹر ،انجینئر، وکیل، سیاست دان ،سائنس دان اور دوسرے علوم عالیہ کے عالم ،محقق جو جی چاہے بنیں مگر اپنے شعبوں میں مہارت کے ساتھ وہ نہ صرف یہ کہ اچھے محنتی اور دیانت دار انسان ہوں بلکہ اپنے دین’ اپنی ملت اور اپنی تہذیبی روایات سے بھی پوری طرح واقف ہوں ۔
‘‘مصعب ’’ کا تعلیمی نظام ہم ان اساسات پر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ خدا گواہ ہے کہ ہمارے پیش ِ نظر صرف اور صرف قوم و ملت کی خدمت اور آخرت کی کامیابی ہے ۔حصول زر، ہر گز ہمارے پیش نظر نہیں ہے ۔’’
اس ادارے کی ابتدا جنوری 1994 میں ہوئی آغاز میں نرسری ،روضہ (kindergarten)پہلی اور دوسری جماعت میں طلبہ کو داخل کیا گیا ۔اب الحمد اللہ اس ادارہ کے کے طالب علم او لیول کا امتحان دے کر شاندار کامیابی حاصل کر چکے ہیں ۔
یہ کام خدا ہی کے بھروسے پر شرو ع کیا گیا ہے ’اوروہی اسے پایہ ِ تکمیل تک پہنچائے گا ۔ بہرحال ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ جس قوم میں ہم نے یہ کام شروع کیا ہے ’ وہ اس سے ناواقف نہ رہے اور اس کے قدر شناس اس کے ساتھ تعاون سے محروم نہ رہیں ، وہ آگے بڑھیں اور قوم و ملت کی اس خدمت میں ہمارے ساتھ شریک ہوں ۔
اللہ تعالیٰ کی کتاب ہمیں کہتی ہے : تعاونوا علی البر والتقویٰ(المائدۃ 5:2 )
‘‘ایمان والو ،نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔’’
ہمارے ان احباب نے ایک عظیم کام کا بیڑا اٹھا یا ہے۔ اللہ کی مدد سے ’ یہ منزل یقینا سر ہوگی۔ ہر بڑی جدو جہد ،بڑی مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ان احباب کو ثبات قدم عطا کریں ۔ان کی سعی کامیابی سے ہمکنار ہو ۔وہ بچے جو اس اسکول میں پڑھنے آئیں اچھے مسلمان بنیں ۔اچھے شہری ہوں ۔اور سب سے بڑھ کر یہ اخروی فلاح ان کا نصیب بنے ۔
‘‘وما توفیقنا الا باللہ’’