کھجور جسے عروس صحرا بھی کہاجاتا ہے کے درخت جزیرۂ عرب میں صدیوں سے پائے جاتے ہیں۔ کھجویرں صحرائے عرب میں نعمت سے کم نہیں۔ انسانی تاریخ کی ابتداء سے ہی انسان کھجوروں کے درختوں کی کاشت کرتا رہا ہے زمانہ قدیم سے ہی اس کی کاشت مرغوب رہی ہے۔ Babylonکے قدیم باشندے جنھیں تاریخ کی کتابوں میں سمدین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 5ہزار سال قبل کھجوروں کی کاشت کرتے تھے۔
کھجور کا درخت عام طور پر 60فٹ تا 80 فٹ بلند ہوتا ہے۔ اس کا اوپری حصہ جس کا تاج کہا جاتا ہے تقریباً20فٹ لمبے پتوں سے مزین ہوتا ہے۔ اس کے پھول زری مائل ہوتے ہیں اور حجم میں چھوٹے ہوتے ہیں جن کے چاروں طرف پتوں کا جال جیسا ہوتا ہے۔ اس کے نر اور مادہ پھول علیحدہ علیحدہ درختوں میں پائے جاتے ہیں۔
کھجور نہ صرف خوش ذائقہ اور میٹھی ہوتی ہے اس سے حیاتین کا ایک خزانہ بھی بھرا ہوتا ہے۔ تازہ کھجور میں 20 فیصد پانی، 60سے 65 فیصد تک شکر اور 2فیصد پروٹین پایا جاتا ہے۔ جبکہ خشک کھجور میں 75سے 80فیصد شکر ہوتی ہے۔ اس کے درخت خشک موسم میں نشوونما پاتے ہیں۔ ان کے لیے انتہائی گرم اور خشک آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ موسمی حالات ، آب و ہوا، درخت کی قسم، درخت کی عمر کے لحاظ سے کھجور کے درخت کو 160 تا 250گیلن سالانہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
گلف میں پٹرول کی دریافت سے قبل ملکی معیشت کا دارومدار کھجوروں کی تجارت پر ہی تھا اور دنیا بھر میں کھجوریں ان ممالک سے درآمد کی جاتی تھیں۔ زمانہ قدیم میں بصرہ کے باغات کی کھجوریں بہت ہی مشہور تھیں اور اپنی خوش ذائقہ ہونے کی بدولت خصوصی شہرت کی حامل تھیں۔ خلیجی ممالک میں ماحولیاتی صفائی اور معیشت کے استحکام کے لیے آج بھی کھجوریں کاشت کی جاتی ہیں۔ کھجور کے درخت لگانے کے تین طریقے اپنائے جاتے ہیں۔
(1) بیج کے ذریعے (2) آف شوٹ طریقہ (3) قلم لگا کر۔
بیج بونے کے طریقے سے لگائے گئے درخت مقامی درخت کہلاتے ہیں۔ بیج عام طور پر اکتوبر اور نومبر کے مہینے میں بوئے جاتے ہیں۔ یہ مہینے قلم لگانے کے لیے بھی بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ آف شوٹ طریقہ سے پسندیدہ اقسام کی کھجوریں پیدا کی جاتی ہیں۔ اس طریقہ سے نر درختوں کی نشوونما کو روک دیا جاتا ہے۔ Al-Bahila کھجوریں اسی طریقہ سے اگائی جاتی ہیں۔ اس طریقہ سے سال کے کسی بھی مہینے میں درخت لگائے جاتے ہیں۔ تاہم سردی کا موسم اس طرح کی کاشت کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے۔ قلمی طریقہ جدید ترین ہے۔ اس طریقہ کو اپنانے سے قبل ضروری موسمی حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ خلیجی ممالک میں کھجوروں کی مختلف اقسام کے درختوں کی قلمیں درآمد کی جاتی ہیں اور بہترین قسم کی کھجور پیدا کرنے کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ کھجور ایک ایسا پھل ہے جس کے درخت کے تمام حصوں کو کسی نہ کسی کام میں لایا جاتا ہے۔
خلیج میں کھجور پر پہلی عرب کانفرنس 1981ء میں ہوئی۔ اس میں فیصلہ کیا گیا کہ18ستمبر کا دن ہر سالArab Palm Day کی حیثیت سے منایا جائے گا۔ ایسوسی ایشن آف ایگریکلچرل انجینئرز اس موقع پر خصوصی ضمیمہ شائع کرتی ہے۔ سائٹیفک اور ایگری کلچرل انسٹی ٹیوشن کھجور پر سیمینار بھی منعقد کرتے ہیں۔ یوں تو کھجور کی سینکڑوں اقسام پائی جاتی ہیں تاہم درج ذیل کھجوریں زیادہ مشہور ہیں۔ ال بزہا، خادردی، خالاص، سمدان، زہدی، محیول سلطانی، عنبری، بیلسوی، حبیب، وحلیۃ النور، سکرہ، الجور، نوراوج۔
برازیل میں کھجور کے درخت کے پتوں سے موم بھی حاصل کیا جاتا ہے جبکہ افریقی کھجور کے درختوں سے تیل بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ تیل وٹامن سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ تیل صابن، موم بتی، کاسمیٹک اور لبریکنٹ بنانے کے کام آتا ہے۔ کولمبیا میں پائے جانے والے کھجور کے درخت کا بیج اتنا سخت ہوتا ہے کہ اس کو ٹین بنانے کے کام میں لایا جاتاہے۔