دین کی حقیقت پر غور کیجیے،یہ دو چیزوں کا مجموعہ ہے: ایک قانون، دوسرے حکمت۔ اس کی یہ تالیف لازمی طور پر تقاضا کرتی ہے کہ ہماری حیات اجتماعی میں یہ صرف نظریہ وعمل ہی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک تہذیب کی حیثیت سے نمایاں ہو۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اپنی تاریخ کے اس دور جدید میں یہ ام القریٰ سے نکل کر جب مدینہ میں اپنی پہلی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوا تو اس کے صدی، نصف صدی بعد ہی اس کے اثرات مسلمانوں کے پورے تمدن پر نمایاں ہونا شروع ہو گئے۔ لوگوں کا لباس، اُن کی طرزِ معاشرت، ان کی ثقافت، ان کی تقریبات، ان کی عمارتیں، ان کے معبد، ان کے شہر، ان کے قصبے، ان کے پیشے اور ان کے رہن سہن کے طریقے، یہ سب چیزیں اس کے غلبہ کے بعد بتدریج جن سانچوں میں ڈھلتی چلی گئیں، وہ یقینا ان سانچوں سے بہت کچھ مختلف تھے جن میں لوگ اس سے پہلے انھیں دیکھتے رہے تھے۔ یہ تو بے شک ہوا کہ عرب و عجم میں ہر جگہ اس تبدیلی کی صورتیں ایک دوسرے سے مختلف رہیں اور ہر قوم نے اپنی انفرادی شخصیت کے بطن ہی سے اس تبدیلی کو جنم دیا، لیکن مغرب اقصیٰ سے مشرق اقصیٰ تک سب قوموں میں دیکھ لیجیے، اس کی صورتوں کا تنوع ان خصائص سے کہیں محروم نہیں رہا جن کی بنیاد پر ہم انھیں تمدن کی اسلامی صورتیں قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ خصائص اُن کے لباس میں، ان کی طرز تعمیر میں، ان کی معاشرت میں، ان کی نشست و برخاست میں، ان کے شہروں، ان کے قصبوں، ان کے گھروں، یہاں تک کہ ان کے غسل خانوں اور باورچی خانوں کی تعمیر و تزئین میں بھی اس طرح نمایاں ہوئے کہ ان سب چیزوں کی وضع قطع ان کے پرانے سانچوں سے کچھ کم ہی مماثل رہ گئی۔
تمدن کے یہی مظاہر ہیں جنھیں ہم اپنی تہذیب سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ تہذیب اگرچہ پچھلے تین سو سال سے روبہ زوال ہے، اس کا فطری ارتقا بند ہو چکا ہے، اس پر مسلمانوں کی اسلام سے عملی بے پروائی کے اثرات بھی نمایاں ہیں، امتداد زمانہ سے جاہلیت کے بہت سے اجزا بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں اور یہ بلاشبہ بہت کچھ اصلاح کی متقاضی ہے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود، یہ بہرحال میری تہذیب ہے۔ میں اس میں ہر وقت اصلاح کے لیے تیار ہوں، لیکن اس کو چھوڑ کر میں مغربی تہذیب کو اختیار کر لوں، یہ میرے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مغربی تہذیب اس وقت دنیا کی غالب تہذیب ہے اور میری قوم کے کارفرما عناصر اس سے اس قدر مرعوب ہو چکے ہیں کہ ان کی ساری جدوجہد اب اس کو پوری طرح اپنا لینے ہی میں لگی ہوئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ انھیں یہ بات اب بہت آسانی کے ساتھ نہیں سمجھائی جا سکتی کہ دین اگر اپنی تہذیبی شناخت سے محروم ہوجائے تو اس کی حیثیت پھر اس آفتاب کی سی ہوتی ہے جو آسمان پر نمودار تو ہوا، لیکن گہرے بادلوں کے پیچھے سے اپنی شعاعیں ہماری زمین تک پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
میں اس صورتِ حال سے واقف ہوں اور مجھے اس پر کچھ تعجب نہیں ہوتا، لیکن میں جب یہ دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو اسلامی دعوت کے علم بردار ہیں، وہ بھی تہذیب مغرب کے خلاف حلت و حرمت کی فقہی اصطلاحوں سے آگے بڑھ کر اس طرح کی کوئی تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اس تہذیب کا مزاج اور اس کی طبیعت ہی اس تہذیبی رویے سے بالکل مختلف ہے جو اسلام اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ دل بیٹھ جاتا ہے۔
میں مانتا ہوں کہ اسلام کا کوئی لباس نہیں، لیکن مجھے اصرار ہے کہ اسلامی لباس صرف وہی ہے جس کا ارتقا اسلام کی آغوش میں ہوا ہو۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اسلام کا کوئی فن تعمیر نہیں، لیکن مجھے اصرار ہے کہ وہ فن تعمیر جو اسلام کے بطن سے تولد نہیں ہوا، وہ میرے لیے وہ ماحول اور وہ فضا کبھی میسر نہیں کر سکتا جس میں اسلام کی خوشبو میرے گردوپیش میں پھیلی ہوئی محسوس ہو۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اسلام کسی خاص سائنس اور ٹیکنالوجی کو لے کر اس دنیا میں نہیں آیا، لیکن مجھے اصرار ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی جو اسلام کے معمل میں پیدا ہو سکتی تھی، وہ اس سے بالکل مختلف ہوتی جو اس وقت تہذیب مغرب کی لیبارٹری میں جنم لے چکی، بلکہ پروان چڑھ کر اب اپنے عروج کے نتائج دیکھ رہی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ اسلام نے گھروں اور شہروں اور ان میں رہن سہن کا کوئی خاص نقشہ بنا کر ہمیں نہیں دیا ہے، لیکن مجھے اصرار ہے کہ وہ گھر اور وہ شہر جو اسلام کی فضا میں تعمیر ہوتے ہیں، اور وہ رہن سہن جو اسلام کے معاشرتی تصورات کے زیر اثر وجود میں آتا ہے، اس کی صورت یقینا وہ نہیں ہو سکتی جو میں اب جدہ، ریاض، قاہرہ، تہران، کوالالمپور، لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں پیدا ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ اسلام نے کوئی کھیل ایجاد نہیں کیے، لیکن مجھے اصرار ہے کہ اس کی تہذیبی اقدار کے سانچے میں ڈھل کر جو کھیل بھی پیدا ہوتے، وہ اس زمانے کے بعض کھیلوں کی طرح نہیں ہو سکتے تھے۔
مجھے ان سب باتوں پر اصرار ہے اور میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسلام کی جنگ اگر تہذیب کے میدان میں ہار دی گئی تو پھر اسے عقائد و نظریات کے میدان میں جیتنا بھی بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس وجہ سے میں اپنے ان دوستوں کی خدمت میں جو اُردو اور شلوارقمیص اور اس طرح کی دوسروں چیزوں پر میرے اصرار کو دیکھ کر چیں بہ جبیں ہوتے ہیں، بڑے ادب کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں صرف فکر مغرب ہی کو نہیں، اس کی تہذیب کو بھی اپنے وجود کے لیے زہر ہلاہل سمجھتا ہوں۔ چنانچہ میں جس طرح اس کے فکری غلبہ کے خلاف نبرد آزما ہوں، اسی طرح اس کے تہذیبی استیلا سے بھی برسر جنگ ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ اس معرکہ میں فتح کس کی ہو گی، لیکن یہ میرے ایمان کا تقاضا ہے کہ میں اسی طرح پوری قوت کے ساتھ اس سے لڑتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔ میں نے جب اپنے زمانۂ طالب علمی میں پہلی مرتبہ ‘‘ضرب کلیم’’ کی لوح پر یہ جملہ لکھا ہوا دیکھا کہ: ‘‘اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف’’ ـــــــ تو حقیقت یہ ہے کہ اس کی معنویت مجھ پر واضح نہیں ہوئی، لیکن اب میں جانتا ہوں کہ دورحاضر سے یہاں اقبال کی مراد کیا ہے، اور اس نے یہ کیوں ضروری سمجھا کہ وہ اس زمانے کے چند باطل نظریات ہی کے خلاف نہیں، بلکہ پورے دور حاضر کے خلاف اعلان جنگ کر دے۔ میں اپنے دوستوں کی خدمت میں بھی یہی عرض کروں گا کہ ہو سکے تو وہ بھی خلوت میں کبھی ‘‘ضرب کلیم’’ پڑھیں۔ اس لیے کہ: فغان نیم شبنی بے نواے راز نہیں [ ۱۹۸۹ء ]۔