انسانی غلطی کا امکان ہر جگہ ہر لمحے موجود ہوتا ہے.... حالات کے پیش نظر درگزر کا جذبہ ہونا چاہیے.... ہاں غفلت اور غیر ذمہ داری کا احتساب ہونا ضروری ہے... . جو جوان اپنے لختِ جگر کی تدفین کے دو گھنٹے بعد یونیفارم میں ملبوس اپنی ذمہ داریوں میں مصروف ہو.... جو جانیں بچانے کے لیے.... جان دے دے وہ پوری قوم کے سیلوٹ کا مستحق ہے....
آزاد کشمیر او رصوبہ سرحد میں متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کا منصوبے کاآغاز ہو گیا ہے... ابھی موسم نا مہرباں ہے.... جو نہی صعوبتوں اور آزمائشوں کے بادل صاف ہوں گے.... کا م شروع ہوجائے گا پاک فوج میں..... سپہ سالار سے لے کر سپاہی تک ہر فرد اپنے محاذ پر ڈٹا ہوا ہے.... جان ہتھیلی پر رکھ کر جانیں بچانے کی کوشش میں ہی یہ المناک واقعہ پیش آیا کہ ...... آزاد کشمیر میں باغ کے قریب ایک فوجی ہیلی کاپٹر جو متاثرین تک پہنچنے کے لیے خطرناک پہاڑوں میں انتہائی نیچی پرواز کر رہا تھا.... تاکہ مصیبت زدہ لوگوں تک پہنچا جا سکے.... گر کر تباہ ہوگیا.... اور اس میں سوار افواجِ پاکستان کے تمام افراد شہید ہوگئے.... اس سے قبل بھی پاک فوج کے جوانوں کی شہادتوں کے حوالے سے خبریں آتی رہی ہیں..... اس کڑی گھڑی میں .... فوج عوام کے .....اور عوام فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے......
چالیس سال قبل 1965ء میں بھی عوامی سطح پر جوش و خروش کا ایک عالم تھا... فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت جوش و جذبے میں دشمن سے ٹکرا جانے کی خواہش تھی.... اپنے حریف کو .... مقابل کو ..... مسمار اور ہمیشہ کے لیے ختم کردینے کا جذبہ تھا.... لیکن آج بے بسی اور دکھ ہے.... اس وقت ہمارے سپاہی دشمن کی لاشیں گرا رہے تھے.... لیکن آج ہمارے جوان اپنوں ہی کے جسم سمیٹنے میں مصروف ہیں.... کہا جاتا ہے کہ امدادی سرگرمیاں تاخیر سے شروع کی گئیں ’ امدادی ٹیموں کے جوان ابھی تک کئی متاثرہ علاقوں میں نہیں پہنچے... .ہزاروں افراد آج بھی بے سرو سامانی کے عالم میں سردی اور بارشوں میں کھلے آسمان تلے اب بھی غیبی امداد کے منتظر ہیں.... یہ تمام باتیں درست ہیں.... لیکن اب تک جو کچھ ان جوانوں نے کیا.... کیا کوئی دوسری انسانی طاقت یہ سب کچھ کر سکتی تھی؟ ہمیں تو دشمن سے نمٹنے کی تربیت حاصل تھی... . ہمیں کیا معلوم تھا کہ آفات ِسماوی سے بھی نبرد آزما ہونا پڑے گا.... انسانی غلطی کا امکان ہر جگہ ہر لمحے موجود ہوتا ہے.... حالات کے پیش نظر اسے درگزر کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے.... ہاں غفلت اور غیر ذمہ داری کا احتساب ہونا ضروری ہے... . جو جوان اپنے لخت ِ جگر کی تدفین کے دو گھنٹے بعد یونیفارم میں ملبوس اپنی ذمہ داریوں میں مصروف ہو.... جو جانیں بچانے کے لیے.... جان دے دے وہ پوری قوم کے سیلوٹ کا مستحق ہے....
پاکستان کو بنے 58سال ہوگئے ہیں.... انسانی زندگی کے لیے یہ عرصہ عمر کے آخری حصے میں شمار ہوتا ہے... .لیکن قوموں کی تاریخ میں یہ عرصہ محض ایک لمحے کے مترادف ہے.... محقق اور دانشور کہتے ہیں کہ جو لوگ قوم بننے سے پہلے ہی ملک حاصل کرلیں... . وہ یاتو کبھی قوم نہیں بنتے ہجوم ہی رہتے ہیں .... یا پھر انہیں ایک مثالی قوم بننے کے لیے طویل عرصہ .... کئی صدیاں درکار ہوتی ہیں ۔ انہیں اپنی سرزمین کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا....انہیں گھر ’مکانوں ’دکانوں’فیکٹریوں’ کارخانوں سے تو محبت ہوتی ہے... . لیکن ملک کے بارے میں ان کا احساس ملکیت کبھی بھر پور نہیں ہوتا.... وہ ‘‘شارٹ کٹ’’ کے انتظار میں رہتے ہیں ۔آگے بڑھنے کے لیے ہمیشہ عقبی راستے استعمال کرتے ہیں....محنت پر یقین رکھنے کے بجائے‘‘مواقعوں’’ کے منتظر رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہ ہی طرز عمل ان کا طرز ِزندگی بن جاتا ہے.... کوٹھیوں اور بنگلوں کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ کر دیں گے لیکن گھر کے سامنے ٹوٹی سڑک کے لیے پھوٹی کوڑی بھی خرچ نہیں کریں گے.... گھر میں پانی کی فراوانی ہے تو.... بیشک کھیت بنجر ہو جائیں....فصلیں ویران ہوجائیں ،نہریں سوکھ جائیں.... ڈیم بنیں یا نہ بنیں... . کوئی سروکار نہیں.... کوئی تعلق نہیں.... ذاتی وسائل بھر پور ہیں.... تو یہ ملک مقدس ہے.... خطہ جنت ہے اس جیسا چین اور سکون کہیں نہیں.... زندگی کی تمام آسائشیں میسر ہیں تو.... وطن سے محبت کی قصیدہ گوئی میں سب سے آگے.... لیکن عارضی طور پر ہی سہی اگر بجلی چلی جائے،اے سی بند ہوجائے،گیس کی فراہمی نہ ہو، چھوٹی چھوٹی پریشانیوں اوروقتی مشکلات پر ہی شکوے شکایتیں اس شدت کے ساتھ کہ .... اس ملک میں سوائے پریشانیوں کے رکھا ہی کیا ہے.... ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم تضادات سے بھرے ہوئے لوگ ہیں.... ہمارے اجتماعی طرز عمل کے بارے میں کوئی پیشینگوئی نہیں کی جاسکتی ہے....
8،اکتوبر ہمارے رویوں کے تضاد کے حوالے سے بھی یاد رہے گا....راولپنڈی ،اسلام آباد کے ہسپتال صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر میں آنے والی قیامت کے زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں... ڈاکٹروں نے ہسپتالوں کے وارڈوں ،کمروں اور برآمدوں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے....اپنے پرائیویٹ کلینک بند کر دیے ہیں نہ کھانے کی ہوش... . نہ گھر کی پرواہ.... بس ایک ہی لگن کہ کسی طرح زخمی بچے کو کم از کم طبی امداد مل جائے.... زخموں سے چور دم توڑتے جسم کسی کی لاپروائی کی شکایت لیے رخصت نہ ہوجائیں.... سرکاری ہسپتالوں میں حاضری لگا کر جانے والے چوبیس چوبیس گھنٹوں کی ڈیوٹی میں مصروف ہیں۔ ہسپتال کا عملہ ہاتھ جوڑ کر درخواست کر رہا ہے کہ ....ہمارے پاس مزید خون محفوظ کرنے کی گنجائش نہیں.... لیکن نوجوان لڑکے لڑکیاں آستینیں اوپر کیے قطار در قطار کھڑے ہیں.... ایک چھوٹا بچہ انتہائی معصومیت سے ڈاکٹر سے استفسار کر رہا ہے.... جو چھوٹے بچے زخمی ہوئے ہیں جو میرے ہم عمر ہیں اُنہیں تو میرا خون ہی لگے گا ناں.... بس آپ میرا خون لے لیں.... ٹی وی ڈراموں میں مصنوعی آنسو بہانے والے اداکار دور دراز پہاڑوں اور بیابانوں میں بسنے اور اجڑنے والے.... اپنے اجنبی بہن بھائیوں کی ہولناک موت کے مناظر دیکھ کر ہچکیوں سے رو رہے ہیں.... پاپ موسیقی پر بظاہر بے ہنگم انداز میں اچھل کود کرنے والے.... مضحکہ خیز وضع قطع کے یہ کردار.... سڑکوں اور دکانوں پر انتہائی رنجیدگی کے عالم میں متاثرین کے لیے چندہ جمع کر رہے ہیں.... عید کی خریداری اور تیاری بھی ماند رہی۔ شاپنگ سنٹرز سر شام ویران ہوجاتے رہے.... جہاں کفن نایاب ہوجائے وہاں عید کے کپڑے کون بناتا.... جہاں بکھرے ہوئے اعضا چادروں میں سمیٹ کراجتماعی قبروں میں دفنانے کے منظر آنکھوں میں موجود ہوں ان آنکھوں سے عید کی خوشی کون دیکھے .... اپنے گھروں سے دور نوجوان والنٹئیر منہدم ہوجانے والے گھروں سے ملبہ اور انسانی جسم نکالنے کے لیے دیوانہ وار امدادی ٹیموں کے ساتھ کام کرنے میں مصروف ہیں....
انفرادی کردار کے مثبت اقدام کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے لیکن کسی گروہ کے منفی رویے کو ‘‘اجتماعی سوچ’’ قرار دینا بذاتِ خود ایک منفی سوچ اور بیمار ذہن کی علامت ہے.... مارگلہ ٹاورز کے انہدام کے بعد ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ چند افراد نے قیمتی سامان کی لوٹ مار اور لاشوں سے زیور،گھڑیاں اتارنے کی وارداتیں شروع کر دیں.... اور کہا جاتا ہے کہ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کے فرائض منصبی میں ایسے واقعات کی روک تھام ہے.... امدادی سامان کے قافلے لوٹنے کے واقعات اتنے ہوگئے کہ اب امدادی سامان پولیس اور مسلح افراد کی نگرانی میں جارہا ہے.... کراچی میں پولیس نے ایسے افراد کو گرفتار کر کے مقدمات بھی درج کر لیے ہیں.... جنہوں نے امدادی سامان کے ٹرک فروخت کیے .... متاثرہ علاقوں سے آنے والے معصوم بچوں اور نوجون لڑکیوں کی تلاش میں سرگرداں کچھ ایسی بیگمات بھی نظر آتی ہیں.... جنہیں اپنے گھروں میں ایک ایسی ملازمہ یا ملازم کی ضرورت ہے جس کا آگے پیچھے کوئی نہ ہو.... تاکہ وہ چھٹیوں پر گھر جانے کے لیے اصرار نہ کریں۔پلاسٹر آف پیرس انسانوں کے ٹوٹے ہوئے اعضا کو جوڑنے کے لیے استعمال ہوتا ہے.... خیمے لاشوں کو متعفن ہونے سے بچانے اور بچ جانے والوں کو زندہ رکھنے کے لیے چاہیں.... کمبل اور ادویات متاثرین کے لیے ناگزیر ہیں.... لیکن ایک طرف تو لوگ اور تاجر تنظیموں نے ان اشیا سے ٹرک بھر دیے ہیں.... اور دوسری طرف ان چیزوں کی بلیک ہورہی ہے.... یہ سب لوگ....یہ تمام کردار ہمارے اسی معاشرے کا حصہ ہیں.... کہ ہمارے اجتماعی طرزِ عمل کے بارے میں کوئی پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی............!