رمضان کے فلسفہ کی روشنی میں عیدالفطر کے معنی یہ ہیں کہ ایک ماہ کی ریاضت و مجاہدے نے ہمارے قلب و ضمیر میں تسلیم و رضا کا جو نیا شعور بیدار کر دیا ہے، اس پر ہم خوش، نازاں اور شادماں ہیں۔
عید دراصل ان عبادت گزاروں کا جشن تہنیت ہے، جنھوں نے رمضان میں بھوکا پیاسا رہ کر اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ جنھوں نے اطاعت کے اس انوکھے اور نئے معیار کا تجربہ کیا ہے اور جنھوں نے ذاتی طور پر تعلق باللہ کی برکتوں کو آزمایا ہے۔ کیااس جشن کے بارے میں ہمارے یہی احساسات ہیں؟یہ ہے وہ اہم سوال……!
عید الفطر مسرت و ابتہاج کی کن نوعیتوں کی حامل ہے اور آسمان کے افق پر ہلالِ عید کن اجالوں کا پیغام لے کر جلوہ افروز ہوا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے فلسفہ رمضان پر غور کرلیں، اور یہ دیکھ لیں کہ بھوک اور پیاس کی کلفتوں کو جھیلنے اور پورا مہینا ریاضت و مجاہدہ کی اس شکل کو روا رکھنے کے کیا معنی ہیں کہ اس اثنا میں ہمیں نہ صرف یہ کہ منکرات اور برائیوں سے ہی احتراز کرنا ہو گا، بلکہ ان فطری اور ضروری خواہشات کی تکمیل سے بھی دور رہنا ہو گا ، جن کی بدولت زندگی کا یہ کارخانہ قائم ہے، کیا یہ اسی رہبانیت کا اثر تو نہیں جس کی اسلام نے تردید کی ہے اور کیا اسلام اس فلسفہ حیات کو تسلیم کرتا ہے کہ تعذیب نفس کی کسی صورت سے فی الواقع روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے، یا کم خوری اور فاقہ سے باطن میں انوارو تجلیات کے سوتے پھوٹنے لگتے ہیں۔
اسلامیات کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اسلام کے نظامِ فکر میں اس طرح کی ‘‘رواقیت’’ کے لیے کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی، اسلام ایک زندہ مذہب ہے، ایک متحرک دین ہے اور زندگی کا ایسا بھر پور زاویہ نظر ہے، جو فکر و نظر کی اصلاح کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کے دبستان بھی سجاتا ہے اور قلب و روح کی تطہیر و تزکیہ کے پہلو بہ پہلو عنانِ توجہ کو اجتماعی زندگی کی طرفہ طرازیوں کی طرف بھی پھیرتا ہے۔
قلب و روح کی توانائیوں کا جسم و جسد کی توانائیوں سے گہرا رشتہ ہے، چناں چہ اگر جسم و جسد کے تقاضے کمزور پڑیں گے، تو فکر و تعمق کی صلاحتیں بھی اسی نسبت سے کمزور ہوں گی، یہی وجہ ہے کہ اسلام تربیت و اصلاح کے کسی مرحلہ میں بھی جسم و جسد کے تقاضوں کو نظر انداز کر دینے کا حامی نہیں، دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ یہی وہ روش احتیاط ہے جو اسلام کو رہبانی و رواقی تصورات سے جدا کرتی ہے اور امتیاز و انفرادیت عطا کرتی ہے۔
اس کے یہ معنی نہ سمجھ لیجیے گا کہ اسلام تن پروری کا حامی ہے، اور حسی خواہشات کی تکمیل و اتمام ہی کو زندگی کی غرض و غایت قرار دیتا ہے۔ نہیں اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ اسلام جسم و جاں دونوں کی عافیت کا خواہاں ہے اور ایک ایسا متوازن نظریہ حیات پیش کرتا ہے جس میں قلب و روح کے لطائف سے لے کر جسم و جسد کے تقاضوں تک ہر شے کا خیال رکھا گیا ہے۔
اس مرحلہ پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فاقہ کے شداید سے ، اور بھوک پیاس کی تلخیوں سے، قلب و روحانیت نہیں ابھرتی، باطن نہیں نکھرتا، اور ‘‘تقویٰ’’ کے دریچے وا نہیں ہوتے ، تو پھر لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کا مقصد روزہ سے کیوں کر پورا ہوتا ہے؟
جواب بہت سادہ اور آسان ہے۔رمضان خواہشات و حسیات کو ادنیٰ سطح سے اٹھا کر رضاے الٰہی کے فرازِ اعلیٰ تک اچھال دیتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ماہِ سعادت میں ہم اگر سحری سے لے کر غروبِ آفتاب تک نہیں کھاتے پیتے تو محض اس بناء پر کہ محبوب حقیقی کا حکم یہی ہے اور غروبِ آفتاب پر اگر ہمارا ہاتھ بے اختیار دسترخوان کی طرف لپکتا ہے تو اس لیے کہ اس جانِ جاں کا اشارہ اسی طرف ہے۔ گویا اس ماہ مبارک نے ہمارے محور اطاعت و تسلیم کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ پہلے اگر ہم اپنے جذبات کے تابع تھے، اپنی خواہشات کے غلام تھے، یا عقل و استدلال کی فرماں روائیوں کے قائل تھے، تو اب ہم نے ان سب سے رو گرداں ہو کر اپنے پیارے آقا و مولاسے اس ایک ماہ میں اس طرح کا تعلق خاطر پیدا کر لیا ہے کہ اسی کا حکم حرزِ جاں بن گیا ہے، اور اسی کی رضا، زندگی کے پورے نقشے کو ترتیب دینے کی مجاز ہوئی ہے۔
رمضان کے اس فلسفہ کی روشنی میں عیدالفطر کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ایک ماہ کی اس ریاضت و مجاہدے نے ہمارے قلب و ضمیر میں تسلیم و رضا کا جو نیا شعور بیدار کر دیا ہے، اس پر ہم خوش، نازاں اور شادماں ہیں۔اور یہ اجلا اجلا لباس، یہ متبسم چہرے، اور ناؤ نوش کا اہتمام ہماری اسی خوشی اور اسی مسرت کا غماز ہے۔
عید دراصل ان عبادت گزاروں کا جشن تہنیت ہے، جنھوں نے رمضان میں بھوکا پیاسا رہ کر اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ جنھوں نے اطاعت کے اس انوکھے اور نئے معیار کا تجربہ کیا ہے اور جنھوں نے ذاتی طور پر تعلق باللہ کی برکتوں کو آزمایا ہے۔ کیااس جشن کے بارے میں ہمارے یہی احساسات ہیں؟
یہ ہے وہ اہم سوال……!
(بشکریہ:ہفت روزہ اعتصام، لاہور)