ہر برے خیال کے ساتھ فوراً ہی تبدیلی کا عمل کرنا چاہیے۔ اگر اس میں دیر ہوئی تو جلد ہی ایسا ہو گا کہ وہ آدمی کے تحت شعور میں چلاجائے گا۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ اس کے لا شعور میں داخل ہو جائے گا۔ اور جب ایسا ہو گا تو وہ آدمی کی شخصیت کا اس طرح لازمی حصہ بن جائے گا کہ آدمی چاہے بھی تو وہ اس کو اپنے سے جدا نہ کر سکے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۸۳ میں اہل تکذیب کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون (التطفیف۱۴) یعنی ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ اس آیت میں ایک نفسیاتی معاملے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو ان لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے جو ضد اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس معاملہ کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
‘مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا دھبہ پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے اور اس کو مٹا دے اور استغفار کرے تو اس کا دل دھبہ سے پاک ہو جاتا ہے۔ اور اگر دھبہ میں مزید اضافہ ہو تو وہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔’’ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، مسند احمد ، جلد۲، صفحہ ۲۹۷)
یہ تمثیل کی زبان میں ایک نفسیاتی معاملہ کو بتایا گیا ہے۔ جب کوئی انسان برائی کرے اور پھر وہ جلد ہی متنبہ ہو جائے۔ وہ برائی کے احساس کو اپنے دل سے نکال ڈالے تو اس کا دل پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ آدمی ایک کے بعد ایک برائی کرتا رہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنے دل سے اس کے اثر کو زائل نہ کرے تو دھیرے دھیرے اس کا پورا دل بے حسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اب وہ برائیوں ہی میں جینے لگتا ہے اور سچائی کی بات اس کو متاثر نہیں کرتی۔
جدید نفسیاتی مطالعہ نے اس معاملہ کو مزید واضح کیا ہے۔ اب یہ بات ایک پراسرار عقیدہ نہیں رہی، بلکہ وہ ایک معلوم حقیقت بن گئی ہے۔ اب وہ خالص علمی اعتبار سے انسان کے لیے قابل فہم ہے۔
جدید نفسیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کے دماغ کے تین بڑے حصے ہیں۔ یہ تینوں حصے ہر عورت اور ہر مرد کے دماغ میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پیدائشی طور پر ہر انسانی دماغ کا حصہ ہیں۔ وہ تین حصے یہ ہیں:
۱۔ شعوری ذہن (Conscious mind)
۲۔ تحت شعور (Sub-Conscious mind)
۳۔ لاشعور (Unconscious mind)
تجربہ و تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوئی بھی خیال جب وہ ایک بار دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسانی دماغ کا حصہ بن جاتا ہے، اور جیسا کہ معلوم ہے، انسانی دماغ ہی دراصل انسانی شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی خیال انسان کے دماغ میں آجائے تو وہ ہمیشہ کے لیے انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ اس کو اپنی شخصیت سے الگ کرنا چاہے تو وہ اس کو الگ کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
جب کوئی بات انسان کے دماغ میں آتی ہے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت تو وہ سب سے پہلے دماغ کے شعوری حصہ میں آتی ہے۔ اس کو زندہ حافظہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد آدمی جب رات کو سوتا ہے تو فطری عمل کے تحت اپنے آپ ایسا ہوتا ہے کہ وہ بات شعوری ذہن سے چل کر ذہن کے تحت الشعور میں پہنچ جاتی ہے ۔جب ایسا ہوتا ہے تو اس خیال کے اوپر آدمی کا شعوری کنٹرول صرف پچاس فیصد رہ جاتا ہے۔ پچاس فیصد وہ اس کے شعوری کنٹرول سے باہر ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ اگلی رات کو سوتا ہے تو یہ خیال مزید سفر کرکے ذہن کے لاشعور حصہ میں پہنچ جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد یہ خیال اس کے شعوری کنٹرول سے پوری طرح باہر ہوجاتا ہے۔
انسانی ذہن کے یہ تینوں حصے شعور کے اعتبار سے ذہن کی تین حالتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مگر جہاں تک انسانی شخصیت کا تعلق ہے، وہ ہر حال میں یکساں طور پر اس کا معمول بنی رہتی ہے۔ کوئی خیال جب تک زندہ حافظہ میں ہو تو وہ انسانی شخصیت کا معلوم حصہ ہوتا ہے۔ مگر جب وہ تحت شعور میں پہنچ جائے تو اگرچہ اب بھی وہ مکمل طور پر انسانی شخصیت کا حصہ ہوتاہے مگر عام حالات میں وہ انسان کے علم میں تازہ نہیں ہوتا۔
یہی روزمرہ کے افکار جو انسان کے ذہن میں آتے ہیں وہی اس کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ جیسے افکار ویسی شخصیت۔ مثبت افکار سے مثبت شخصیت بنے گی۔ لیکن اگر یہ افکار منفی افکار ہوں تو انسان کی شخصیت بھی منفی بنتی چلی جائے گی۔
آج کل یہ حال ہے کہ آپ جس عورت یا مرد سے ملیے ہر ایک کو آپ منفی سوچ میں مبتلا پائیں گے۔ اگر کوئی شخص بظاہر باتیں کرتا ہوا نظر آئے تب بھی اس کی یہ بات صرف اوپری طور پر ہو گی۔ اگر آپ مزید گفتگو کرکے اس کی اندرونی شخصیت کو جاننے کی کوشش کریں تو آپ پائیں گے کہ اس کی اندرونی شخصیت بھی اتنی ہی منفی تھی جتنی کہ دوسروں کی شخصیت۔ اس طرح موجودہ زمانہ کا ہر آدمی اپنے آپ کو منفی قبرستان میں دفن کیے ہوئے ہے، اگرچہ اس کو خود بھی اس ہلاکت خیز واقعہ کی خبر نہیں ۔ اس میں غالباً مذہبی انسان اور سیکولر انسان میں کوئی فرق نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سب سے بری شخصیت منفی شخصیت ہے اور سب سے زیادہ اچھی شخصیت وہ ہے جو مثبت شخصیت ہو۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ مثبت شخصیت کی تعمیر کس طرح کی جائے۔ مذکورہ اسلامی تعلیم اور مذکورہ نفسیاتی تحقیق دونوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو اس کی ایک واضح عملی صورت بنتی ہے۔ اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے۔
اس عمل کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی منفی خیال آدمی کے ذہن میں آجائے تو وہ اس کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کر دے۔ خصوصی تدبیر کے ذریعہ اس کے منفی پہلو کو مثبت پہلو میں تبدیل کر لے۔مثلاً وہ غصہ کو فوراً معاف کر دے تاکہ اس کا غصہ انتقام کی صورت اختیار نہ کرنے پائے کسی کی ترقی اس کو پسند نہ آئے تو اسی وقت وہ اس کو نظر انداز کر دے تاکہ وہ اس کی شخصیت میں حسد بن کر شامل نہ ہو سکے، وغیرہ۔
ہر برے خیال کے ساتھ فوراً ہی تبدیلی کا یہ عمل کرنا چاہیے۔ اگر اس میں دیر ہوئی تو جلد ہی ایسا ہو گا کہ وہ آدمی کے تحت شعور میں چلاجائے گا۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ اس کے لا شعور میں داخل ہو جائے گا۔ اور جب ایسا ہو گا تو وہ آدمی کی شخصیت کا اس طرح لازمی حصہ بن جائے گا کہ آدمی چاہے بھی تو وہ اس کو اپنے سے جدا نہ کر سکے۔
لوگ عام طور پرایسا نہیں کرتے اور اس کی یہ بھیانک قیمت ادا کر رہے ہیں کہ ہر ایک خوب صورت کپڑوں کے پیچھے ایک منفی شخصیت کی لاش لیے ہوتا ہے۔ منفی شخصیت دراصل جہنمی شخصیت ہے جو عورت یا مرد اس ہلاکت خیز انجام سے بچنا چاہتے ہوں ان کو چاہیے کہ وہ مذکورہ عمل تصحیح کو اپنی روزانہ زندگی میں شامل کر لیں۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی اور حل موجود نہیں ہے۔
٭٭٭