‘‘امرتسر مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری میرا نور سعید محمود ہاتھی دروازے کے پاس کھڑے تھے کہ دو سکھ لڑکیاں اس علاقے کے مسلمانوں کے نرغے میں پھنس گئیں۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا کرفیو کے نفاذ کا سائرن بج رہا تھا۔ چنانچہ میر صاحب مشتعل مسلمانوں کو سمجھانے بجھانے کے بعد ان دونوں لڑکیوں کو اپنے گھر لے گئے اور رات بھر انھیں اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز رکھا۔میر صاحب کے بیان کے مطابق ان لڑکیوں نے میر صاحب اور ان کے گھر کی مستورات کے اصرار کے باوجود اپنا صحیح نام، پتا اور ولدیت بتانے سے گریز کیا۔ اگلے روز کرفیو کا وقفہ شروع ہوا تو میر صاحب مختلف فرقوں کے مجوزہ اجلاس میں جاتے وقت ان لڑکیوں کو اپنے ساتھ کوتوالی میں لے گئے۔ میر صاحب کوتوالی پہنچے تو ان لڑکیوں کا باپ ٹھاکر گیان سنگھ (بینکر) اپنی بیٹیوں کو دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑا۔ٹھاکر گیان سنگھ میر صاحب کی احسان مندی کا شکریہ ادا کر ہی رہا تھا کہ ماسٹر تارا سنگھ بھی اس اجلاس میں شرکت کرنے کوتوالی پہنچ گیا۔ تارا سنگھ نے ٹھاکر گیان سنگھ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھے تو اس نے معنی خیز انداز میں ان لڑکیوں سے ان کی خیریت دریافت کی۔ چنانچہ ان لڑکیوں نے میر صاحب کے شریفانہ سلوک کی تعریف کرتے ہوئے ماسٹر تارا سنگھ کی بدگمانی دور کر دی۔’’ (جب امرتسر جل رہا تھا، ص ۱۲۱)