مسجد نبوی شریف،ریاست مدینہ کاپبلک سیکرٹریٹ:
جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ مدینہ طیبہ کی سب سے بڑی زیارت تو مسجد نبوی ہی ہے۔عصر کی نماز کے لیے ہم دونوں بھائی اکٹھے مسجد میں حاضر ہوگئے۔آئیے ،شکیل بھائی !،میں نے عرض کی ،مسجد نبوی کی تفصیل سے زیارت کرتے ہیں۔نماز کے بعد کے وقفے میں ہم نے اس اثرنبوی کی خوب زیارت کی۔
مسجدنبوی نہایت شانداراور وسیع و عریض مسجد ہے۔حج کے زمانے میں کم از کم دس لاکھ نمازی اس میں سما جاتے ہیں اور دنیا بھرمیں یہ غالباًسب سے بڑی تعدادہے جو کسی مسجد میں ایک وقت میں نماز پڑھتی ہے۔اس کی موجودہ عظیم الشان عمارت شاہ فہد بن عبدالعزیزکے دور کی تعمیر کردہ ہے۔ اپنے آغازتعمیر سے موجودہ شاندار ہیت تک ،اس مسجد نے کئی تعمیراتی ادوار دیکھے ہیں۔توسیع و تعمیر کی یہ دلچسپ تاریخ ،کسی نہ کسی حد تک،محفوظ نشانات کے ذریعے آپ مسجد میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
پہلی تعمیر،یعنی آنحضور ﷺ کے مبارک دور کی تعمیر، کے نشانات باقی ہیں،سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہماکی توسیعات کی نشانیاں بھی موجود ہیں،عثمانی سلاطین کی تعمیرات کی باقیات بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
اِس وقت جس ستون کے پاس میں بیٹھا ہواہوں ، یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی مسجدکی حدودکوظاہر کر رہا ہے، یہ ایک پوری لائن ہے ستونوں کی،جن کے اوپر لکھا گیا ہے ، ھذاحد مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
جیساکہ پہلے عرض کیا اس مسجد کی پہلی تعمیر حضور پاک ﷺکے زمانے میں ہوئی تھی۔جس وقت پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ،مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ میں تشریف لے آئے تو پہلاکام مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ کی تعمیرتھا۔اس کے لیے حضور ﷺ نے زمین کا ایک قطعہ پسندفرمایا وہ زمین دو یتیم بھائیوں ،سہیل اور سہل انصاری کی ملکیت تھی۔وہ مسلمان ہو چکے تھے،انھیں جب یہ معلوم ہوا کہ پیارے نبی کریم نے اس خطے کو مسجد کے لیے پسند فرما یا ہے،انھوں نے ہدیتاًدینے کی پیش کش کی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قیمتاًلینے پر اصرار کیا اور مقامی شرح کے حساب سے وہ خطہ خرید فرمایا۔ زمین کو ہموار کر کے ، بنیادیں کھودی گئیں ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نقشہ ترتیب دیا اور اپنی نگرانی میں تعمیر شروع کروا دی۔وہ بھی کیا شاندار منظر ہو گا اور کیسی یہ عدیم النظیر تعمیر ہے کہ جس میں سلطان کائنات ﷺایک ماہر معماراور ابو بکرؓ و عمرؓ بطور مزدور کام کر رہے ہیں۔روایات میں پوری تفصیل موجود ہے کہ گارا کون بنا رہا تھا،پتھر اور اینٹیں کون کون لا رہا تھا اور انھیں دیوار میں کون چن رہا تھا،حتیٰ کہ روایات میں تووہ اشعاربھی نقل ہوئے ہیں جو اس دوران میں صحابہ کرام گنگنایا کرتے تھے ۔ یہ مسجد نبوی تعمیر ہو رہی تھی۔پتھر ،مٹی ،گارا،وہ تعمیراتی میٹریل تھا جو یہاں استعمال ہو رہاتھا ۔ کجھور کے تنے بطور ستون گاڑے گئے تھے اور کجھور کی شاخوں اور پتوں سے ہی مسجد کی چھت بنا دی گئی۔اُس دور کے حساب سے ،یہ مسجد بھی خاصی کشادہ تھی ،طول قریباً۷۰ ہاتھ اور عرض قریباً۵۶ ہاتھ(ایک ہاتھ قریباًڈیڑھ فٹ کے برابر ہوتا ہے۔ ) شروع میں ایک دروازہ جنوب میں تھا ،بعد میں قبلے کی تبدیلی کے حکم کے بعد قبلہ چونکہ تبدیل ہو کر جنوب کو کعبۃاللہ کی طرف ہو گیا،اس لیئے یہ دروازہ شمال کو چلا گیا۔ (روایات کے مطابق،ہجرت کے بعد قریباً۱۷ ماہ تک قبلہ یروشلم کی طرف تھاجس کا رخ مدینہ سے شمال کو تھا۔)ایک دروازہ مغرب میں اور ایک مشرق میں رکھا گیا۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں یہ مسجد صرف عبادت گاہ ہی نہیں تھی بلکہ ریاست مدینہ کا پبلک سیکرٹریٹ بھی تھی۔تمام حکومتی ،سماجی ،معاشرتی اور سیاسی تقریبات یہیں منعقدہوتی تھیں،سپریم عدالت بھی یہیں لگتی،جنگوں کے لیے لشکر بھی یہیں سے تیار ہو کر جاتے،حتیٰ کہ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس بھی یہی عمارت تھی یونیورسٹی بھی یہی تھی اور مریض بھی یہیں سے دوا لیتے اور شفا پاتے تھے۔ قرآن بھی یہیں نازل ہورہا تھا اور اُس کی شرح بھی یہیں کی جا رہی تھی۔ خبریں بھی یہیں سے نشرہوتی تھیں اور اطلاعات بھی ساری یہاں جمع ہوتی تھیں۔قبائل سے آنے والے وفود سے بھی یہیں ملاقات ہوتی اور بادشاہوں کو خطوط بھی یہیں سے سربمہر کر کے روانہ کیے جاتے۔گویا تمام داخلی اور خارجی امور یہیں انجام دیئے جاتے۔غرض یہ مسجد اہل مدینہ اورباہر سے آنے والے مسلمانوں کا مرکز دِل و نگاہ تھی۔اپنی محبوب ہستی کے دیدار کو جس نے بھی آنا ہوتا تھا ،وہ اسی مسجد میں آتا تھا۔
ہم بھی تو اسی مقصد کے لیے پاکستان سے سفر کر کے،اس مسجد میں آئے ہیں۔ہم بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کو ہی آئے ہیں۔اوہ ! نہیں ہم تو چودہ صدیاں لیٹ ہیں۔وہ میل ملاقاتیں اور دیدار ،اب کہاں؟ لوٹ لے گئے میلے لوٹنے والے،خوش قسمت لوگ !ہم تو اب صرف سنہری جالیوں ہی کو دیکھ سکتے ہیں۔ہم تو مسجد کی زیارت کر سکتے ہیں اور وہ ہم بخوبی کر رہے تھے۔ ہمارے لیے یہ نعمت کیا کم ہیں ،ہم حضور کی مسجد میں سانسیں لیتے تھے،ہم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور کو تکے جاتے تھے۔!ہم مدینہ میں تھے ،حضور ﷺ کے شہر دِلپذیر میں تھے۔
مسجد نبوی کاجنوب مشرقی کونا:
ہم نے نماز مغرب اور نماز عشاء،مسجد کے جنوب مشرق کے باہر والے صحن میں ادا کیں اور پھر ہوٹل میں واپس آ ٓگئے۔ ہم جس جگہ بیٹھے رہے ہیں یہ وسیع و عریض مسجد نبوی کا ایک کونا ہے ،جنوب مشرقی باہری کونا۔قدیم مسجد نبوی کی مشرق والی دیوار اور اُس کے ابواب ہمارے سامنے تھے۔قدیم مسجدنبوی کا جنوب مشرقی کوناانتہائی اہمیت کا حا مل کونا ہے۔روضہ اطہراسی کونے میں رونق افروز ہے ، زائرین کی تمام ترچاہتوں کا مرکزیہی کونا ہوتا ہے۔ حضورکے زمانے والی مسجدمیں جو توسیعات ہوئیں وہ شمال اور مغرب کی سمت میں ہوئیں،بہت ہی قلیل توسیع جنوب میں اور مشرق میں ہوئیں،اس وجہ سے،جنوب مشرقی کونا دراصل وہ جگہ ہے جہاں قدیم مسجد تھی،سیدہ عائشہ کا حجرہ،جس میں ، بعدمیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوئی اورپھراُس پرسبز گنبدکی تعمیر ہوئی،اسی کونے میں ہے۔حجرہ عائشہ کے ساتھ ہی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا گھربھی تھا ،وہ بھی اب مسجدکے اندرآگیاہے۔اگرچہ شرعی حکم اور درجات اور فضیلت کے اعتبار سے،توسیع شدہ ساری مسجد ہی، مسجد نبوی کے حکم میں آتی ہے لیکن اپنی تاریخ کے باعث ،حضور پاک سے خصوصی تعلق کے باعث اور روضہ انور اور سبز گنبد کے وقوع کے باعث،یہی جنوب مشرقی کونا ہی امت کے لیے باعث دلچسپی اور مرکز ِ کشش ہوتا ہے ۔ پوری مسجدمیں نماز تو کہیں بھی ، آپ ، پڑھ لیں ،درجات اور فضیلت حاصل ہو جاتی ہے لیکن،نماز پڑھتے ہی، ہر زائراس جنوب مشرقی کونے کی طرف ہی رش کرتا ہے،تاکہ ریاض الجنۃ میں نوافل ادا کر سکے، یاحضور کے دور کی مسجد کے آثار و نشانیوں کی زیارت کرسکے یا پھر ،سب سے بڑھ کر ، حضور کے روضہ انور کی جالیوں کے سامنے کھڑا ہوکر ، آپ کی خدمت عالیہ میں درودو سلام پیش کر سکے ۔حرمین میں،چونکہ آجکل ،روز بروز زائرین کا رش بڑھتا جا رہا ہے،اس لیئے اس کونے میں ہر لمحے ایک جمگھٹا اور اژدہام ہوتا ہے جس کے باعث خاصی دقت اور پریشانی کا عالم رہتا ہے،خاص طور پر جن اوقات میں خواتین کے لیے ریاض الجنۃ میں آنے کے لیے طے شدہ وقت ہوتا ہے ۔ اگرچہ انتظامیہ اُس وقت نظم و ضبط کوقائم تو رکھ رہی ہوتی ہے لیکن زائرین کی طرف سے سرکار کے دربار کاادب و احترام،کما حقہ، ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا ،خصوصاً ،قناتوں کے پیچھے سے معزز خواتین کی طرف سے ایسا شور بپا ہوتا ہے جس سے مردانہ حصے میں بھی بد مزگی پیدا ہوجاتی ہے اور مسجد نبوی کا ادب بھی زائل ہورہا ہوتا ہے۔کئی سال قبل ، سن دو ہزارمیں،عمرہ کے موقع پر جب، یہاں آنا ہوا تھا،تو ہجوم کا یہ عالم نہ تھا ،ریاض الجنۃ میں آسانی سے رسائی ہو جاتی تھی اور سکون سے نوافل ادا ہوجاتے تھے۔روزانہ ایسا ممکن ہوتا اور دِن میں کئی کئی بار یہاں حاضری نصیب ہوجاتی لیکن پچھلے سال سن ۱۸ء میں ،مسجد نبوی کی زیارت ہوئی تو رش کا یہ عالم تھا کہ ریاض الجنۃ تک رسائی جان جوکھوں میں لانا تھا ، لیکن اب ،حج کے موقع پر رش کا جو عالم ہے،الامان والحفیظ۔ناقابل ِبیان حد تک ہجومِ عاشقاں ہے۔گھنٹوں لائنوں میں منتظرکھڑا رہنا پڑتا ہے اور جب داخلے کی اجازت ملتی ہے توبمشکل دو رکعت نفل ادا ہو پاتے ہیں کہ پولیس والے اُٹھا دیتے ہیں۔
کل تو حد ہوگئی،ہمارے ساتھی ،شکیل بھائی، ہوٹل میں واپس آئے تو دیکھا کہ،اُن کی بری حالت،،چہرہ اُترا ہوا،بازو سے اُوپر کندھے سے قمیص پھٹی ہوئی اورکندھے کی جلدپر خراشیں،ہم سب ساتھی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے،حاجی صاحب نے تشویش سے کہا ،‘‘ کیا ہوا بھائی ،کیا کوئی لڑائی ہوئی ہے۔ ؟’’کہنے لگے کہ،‘‘ ریاض الجنۃ میں داخلے کی سعادت کے حصول کے دوران میں یہ حالت ہوئی ہے۔شدید ہجوم میں پھنس گیا تھا،ایک بہت ہی بوڑھے بابے کو،نہ جانے وہ کہاں کا تھا،کو،‘‘کالے پہلوانوں ’’سے بچاتے بچاتے ،یہ چوٹیں لے آیاہوں۔’’میں نے کہا ،‘‘ بھائی پریشان نہ ہوں ،یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار ِعالی سے ،آپ کو تمغہ ملا ہے۔’’
قبۃالبیضا سے گنبدِخضریٰ تک:
مسجد کے ہال کے مذکورہ جنوب مشرقی کونے کے،گویا دو حصے ہیں،ایک روضہ اطہر والا حصہ اور دوسرا حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی مسجد والا حصہ ۔آیئے!حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انورکاپہلے ذکر کرتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۲۔ربیع الاول گیارہ ہجری یعنی ۸جون ۶۳۲ ء کو بروز سومواراِس دار فانی سے کوچ فرمایا اورسیدہ عائشہ ؓ کے حجرہ میں ہی تدفین عمل میں لائی گئی کیونکہ حضور پاک کا اپنا فرمان مبارک موجود تھا کہ جہاں انبیا فوت ہوتے ہیں وہی اُن کا مدفن ہوتا ہے۔دو سال بعد ، (۸۔اگست ۶۳۴ء) پہلے خلیفہ راشد،سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے تو اُن کو بھی اسی حجرے میں دفن کیا گیا اورپھر قریباًدس سال بعد ۳۔نومبر۶۴۴ء دوسرے خلیفہ راشد سیدنا عمرؓ بن خطاب کو بھی شہادت کے بعد اسی حجرے میں دفن کیا گیا۔ شروع شروع میں یہ قبور مبارکہ ،کچی مٹی کی،بغیرچھت کے اور سادہ شکل میں تھیں۔بعد کے مختلف ادوار میں،اس حجرہ شریف کے گرد،چاردیواری اوراُوپر چھت کی تعمیر کی گئی،اورپھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شکل تبدیل ہوتی رہی ۔ مختلف حکمرانوں اور بادشاہوں نے ، زائرین کی ضروریات کے پیش نظر اور عمارت کی شکستگی اور قدامت کے باعث ، تعمیر و تزئین و آرائش کا عمل جاری رکھا۔اس تعمیر و تزئین میں ہر صاحب امر کی کوشش رہی کہ وہ اس کے لیے دِل کھول کر خرچ کرے اور دوسرے یہ کہ تعمیرکے عمل میں صاحب مزار کے ادب و احترام میں بھی کوئی کمی نہ آنے دی جائے۔جس جذبے اور آداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر یہ تعمیرات کی جاتی رہیں، ایک لمبی کہانی ہے لیکن بڑی فرحت آمیز اور دلربا کہانی ہے جس سے اُمت کی حضور ﷺ کے ساتھ بے پایاں محبت و الفت جھلکتی ہے۔ ان قبور ثلاثہ کا جو احاطہ ہے وہ پہلے دِن سے ہی اُمت کے لیے مرکزِکشش وچاہت ہے۔شروع میں ،جب صرف حضور پاک کی قبر مبارک تھی ،سیدہ عائشہ کی رہائش بھی اُدھر ہی رہی اور قبر شریف اور سیدہ کے رہائشی کمرے کے درمیان ایک پردہ لٹکا رہتا تھا،تاکہ دِن میں جو حضرات قبر پر حاضر ہونا چاہیں تو سیدہ عائشہ کو تکلیف نہ ہو۔جب حضرت ابوبکر ؓ دفن کیے گئے تو بھی یہی صورتحال رہی،لیکن جب سیدنا عمر ؓ کی تدفین یہاں عمل میں آئی تو باقاعدہ ایک چوطرفہ دیوارکے ذریعے اس حصے کو سیدہ عائشہ سلام اللہ علیہا کی رہائش سے الگ کر کے ایک احاطہ بنا دیا گیا۔ ولید بن عبدلملک کے زمانے میں ،جب حضرت عمر بن عبدالعزیز ،مدینہ کے گورنر تھے ،تو انھوں نے مسجد نبوی کی جہاں ازسر نو تعمیر و تزئین و آرائش کی،وہاں اس احاطہ قبور کوبھی شایان شان طریقے سے، از سر ِنو ،نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار کر کے ،قد آدم سے اونچی دیواریں بنا دیں۔بعد کے ادوار میں اس کی مرمت اور آرائش کا کام ہوتا رہااور اس چاردیواری پر سادہ سی چھت بھی ڈال دی گئی۔اِ س احاطہ کے اُوپر، گنبدوالی چھت ، سب سے پہلے،۶۷۸ھ۱۲۷۹ء میں، مصر کے مملوک سلطان المنصور قلادون نے تعمیر کروائی۔یہ گنبد لکڑی کا تھا اور اُس کوسیسے کی پلیٹیں لگا کر مضبوط کیاگیا تھا۔شروع میں یہ گنبد بے رنگ تھا بعد میں سفید پینٹ کیا گیا اور ایک عرصے تک قبۃ البیضاء کے نام سے پکارا جاتا رہا۔۱۳۔رمضان ۸۸۶ھ(۱۴۸۱ء)میں آسمانی بجلی گرنے سے مسجد نبوی کی چھت میں آگ لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس آگ نے اس قبۃالبیضاء کو بھی پکڑ لیا،اور لکڑی کا ڈھانچہ جل گیا۔مسجد مقدس کی دیواریں اور بہت سے ستون زمین بوس ہو گئے۔کئی کتابیں اور قرآن مجید تک جل گئے۔ اس وقت مصر میں مملوک سلطان سیف الدین الاشرف قائت بائی(۱۴۶۸ء تا۱۴۹۶ء) کی حکومت تھی۔اُس نے وسیع اخراجات کر کے،از سر نو مسجداور روضہ انور کی تعمیر و تزئین کی۔اس نے بھی قبہ شریف پر سفید رنگ ہی پینٹ کروایا اور قبۃ البیضاء ہی نام کہلایا۔اُس کے بعد ترک خلفا کا زمانہ آتا ہے،انھوں نے بھی وقتاًفوقتاً حرمین شریفین کی تعمیر وترقی اور تزئین و آرائش کابے پناہ کام کیا۔روضہ انور کی یہ جو موجودہ عمارت ہے اور اِس پر جو سبز گنبد مزین ہے، یہ بھی ترک سلاطین کا تعمیر کردہ ہے۔قریباًدو سو سال قبل(۱۸۱۷ء) کی یہ تعمیر ہے۔ترک سلطان محمود المصلح کے دور میں، یہ گنبد شریف تعمیر ہوااور اس پر پہلی بار سبز پینٹ ۱۹۳۷ء۱۲۵۵ھ میں کروایا گیااورپھرتب سے یہ گنبدپاکقبۃالخضریٰ کہلاتا ہے اورآج تک یہ سبز رنگ ہی ہمارے زیب نظر اوریہ گنبدخضریٰ اُمت کے لیے راحت جاں ہے۔
جنوب مشرقی کونہ میں مسجد والا حصہ:
سیدی حضورانور ﷺ کے مبارک دور میں جتنا کچھ مدینہ شہر تھا ،وہ سارے کا سارا ،آج کی مسجد نبوی کے اندر آگیا ہے۔آج کے دور کی وسیع و عریض مسجد نبوی کے مین ہال کا جنوب مشرقی کونا وہ حصہ ہے جس میں حضور ﷺ کے دور مبارک کی مسجد نبوی کی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ روضہ انور سیدہ عائشہ کے حجرہ شریف میں بنا تھا اور حجرہ مسجد نبوی کے مشرق میں تعمیر کیا گیا تھا۔روضہ انور کی مغربی دیوار سے،مغرب کی طرف چلنا شروع کریں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور کی مسجدنبوی شروع ہوتی ہے۔ ہجرت کے فوراً بعد ،اس مسجد کی تعمیر کی گئی،غزوہ خیبر کے بعد ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،نے خود اس میں توسیع فرمائی اور یہ ایک مربع شکل میں بنائی گئی ،جس کا ہر ضلع قریباً ۱۰۵فٹ لمبا تھا۔اور ساڑھے دس فٹ پر چھت ڈالی گئی جو کہ کجھور کے تنوں ،اور کجھور کی شاخوں اور پتوں اور مٹی سے بنائی گئی اورکجھور کے تنوں کو ہی بطور ستون گاڑا گیا۔مٹی کا ہی فرش بچھا یا گیا۔بعد کے ادوار میں بیسیوں بار ،اس مسجد کی توسیع ہوئی۔تزئین و آرائش ہوئی ،حتیٰ کہ شاہ فہد بن عبدالعزیزکے زمانے میں موجودہ کشادہ اور خوبصورت مسجد وجود میں آئی۔اس جدید اور عالیشان تعمیر میں،پیارے آقا علیہ السلام کے مبارک دور کی مسجد کی کچھ نشانیاں محفوظ رکھی گئی ہیں ، ذیل میں ہم اُن کا تذکرہ کرتے ہیں۔
ریاض الجنۃ:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ما بین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ‘‘میرے گھراور میرے منبر کے درمیان میں جو جگہ ہے ،وہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔’’
آپ کا گھر اور مسجد متصل تھے۔گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر ،تو ظاہرہے ،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا جانا لگا رہتا تھا،آپ کے قدم مبارک جس جگہ اس کثیر تعداد میں پڑے ہوں وہ جگہ یقیناجنت ہے۔منبر اور گھر کے درمیانی جگہ ،اب بھی موجود ہے۔مسجد نبوی کے اس حصے میں سبز رنگ کا قالین بچھا کر ،اُسے باقی مسجد سے ممیز کر دیا گیا ہے۔ منبرپاک اوردولت کدہ نبوی کی اس درمیانی جگہ کوعرف عام میں ‘‘ریاض الجنت ’’یعنی جنت کا باغ کہا جاتا ہے۔ اس جگہ پر ہو نے کو گویا جنت میں ہونا قرار دیا جاتا ہے اور جو اُمتی بھی مدینہ طیبہ جاتا ہے ،اس جگہ کی زیارت کرنے ،وہاں ہونے اور دو رکعت نفل ادا کرنے کو اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتا ہے۔
ریاض الجنۃ کا یہ حصہ قریباً ۲۲ میٹرلمبا اور ۱۵میٹر چوڑاہے۔
حدیث پاک میں موجود لفظ‘‘بیتی’’ سے عام طور پر سیدہ عائشہ سلام اللہ علیہا والا حجرہ مبارک لیا جاتا ہے،اور اس کے اور منبر والی جگہ کے درمیانی حصے کو ریاض الجنت مانا جاتا ہے ،لیکن اگر اس کو(لفظبیتی کو)حضور کی باقی ازواج والے حجروں تک پھیلا لیا جائے ،جس میں بظاہر کوئی امر مانع نہیں ہے،کیونکہ حضور ﷺکی بقیہ ازواج مطہرات کے گھر بھی توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت کدے ہی ہیں اور یہ سب بھی ،اُس وقت کی مسجد نبوی کے ارد گرد ہی واقع تھے ، لہٰذا ایک وسیع مفہوم میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک والی ساری مسجد نبوی بھی ریاض الجنۃ کہلائے جانے کے لائق ہے اور‘‘ ما بین بیتی ومنبری’’کے ذیل میں آ جاتی ہے۔
اگر اِس تعبیر کو صحیح مان لیا جائے توآجکل کے بڑھتے ہوئے رش میں ، اُمت کے لیے سہولت کا امکان پیداہو سکتا ہے۔ جتنا کچھ رش ،آجکل وہاں ہوتا ہے اور دھکم پیل اور شور شرابہ ہوتا ہے ،اُس سب سے بچنا ممکن ہو سکتا ہے ۔
منبر شریف:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلی بار مسجد بنائی تھی تو اُس میں،امام صاحب کے کھڑے ہونے کے لیے نہ روایتی محراب تھی اورنہ ہی خطبہ کے لیے کوئی روایتی منبر تھا۔نماز کی امامت کے لیے آپ ویسے ہی درمیان میں کھڑے ہو جاتے اورصحابہ کرام ؓپیچھے صفیں بنانے کی سعادت حاصل کرتے ، اور تقریر کے لیے ،حضور ﷺ ایک درمیان والے کھجورکے تنے کے پاس ویسے ہی یاکبھی اُس کی ٹیک لگا کر کھڑے ہو جایاکرتے اور صحابہ کرام کو خطاب فرمایاکرتے۔ایک عرصے کے بعد،جب پیارے آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر بڑھاپے کے اثرات نمایاں دِکھائی دینے لگے تو صحابہ کرام نے،آپ ؐسے ایک منبر بنانے کی خواہش کا اظہا ر کیا ،جس پر تشریف فرما ہو کرآپ خطبہ ارشاد فرمایا کریں۔ حضور عالی کو یہ مشورہ پسند آیا، جس پر صحابہ کرام نے ایک ماہر ترکھان کو آرڈر دے کر ایک تین سیڑھیوں والا منبر بنوا کر مسجد نبوی میں سجا دیا۔ممبر بنانے کے اِس مشورے میں،اور بعد میں اس کے ڈیزائن کرنے اوردوران تیاری ترکھان کو ہدایات دینے میں ، حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیش پیش تھے،کیونکہ اُن کا روم و ایران کے درباروں میں آنا جانا تھا اور وہاں وہ اس قسم کے منبر بادشاہوں کے درباروں میں ملاحظہ فرما چکے تھے۔ یہ منبر سن ۸ یا ۹ ہجری میں بنایا گیاتھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،جب پہلے دِن اس منبر پر تشریف فرما ہوئے ، جمعہ کا دِن تھا،جب خطبہ مبارک شروع فرمایا، تو صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے مسجد میں رونے کی آواز سنی،جیسے ایک بچہ روتا ہے،لیکن بچہ وہاں کوئی نہیں تھا،وہ کہتے ہیں کہ ہم نے غور کیا تو ،رونے کی یہ آواز،اُس کجھور کے ستون سے آ رہی تھی جس کا سہارا لے کر ،پاک رسولؐ اب تک خطبہ دیتے آ رہے تھے۔گویا وہ خشک تنا ،پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی اور فراق میں رو رہا تھا، اتنے میں حضور پاک ؐ نے بھی یہ محسوس فرما لیا اورمنبرشریف سے اُتر کر اُس ستون کے پاس تشریف لائے ،اُس پردست ِ شفقت پھیرا ، اُسے گلے لگایا،تسلی دی اور اُسے خاموش کروایا، صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ اس تسلی سے وہ کھجور کا تنا ،تسلی یافتہ ہو کر چپ ہو رہا ،لیکن چپ ہوتے ہوئے بھی اُس کی ‘‘سسکیاں’’ کافی دیرتک ہمیں سنائی دیتی رہیں۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد،اسی منبر کو،امیر المومنین سیدنا ابوبکرؓ نے استعمال فرمایا،لیکن آپ ایک سیڑھیstepنیچے بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایاکرتے تھے۔اس مقام پر حضور پاک ﷺ اپنے قدم مبارک رکھتے تھے۔اُن کی وفات کے بعد سیدناعمر اور سید عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما،مزید نیچے اُتر کر،پہلی سیڑھی پر،جہاں سیدنا ابو بکر ؐاپنے پاؤں رکھا کرتے، بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے۔سیدنا عثمان ؓ نے ،اپنی حکومت کے چھ سال بعد اس روایت کو ،ضرورتاًبدل دیا اور اُوپر،تیسری سیڑھی پر ہی بیٹھ کرخطبہ دینے لگے ،کیونکہ اب لوگوں کا مجمع دور دورتک ہوتا تھا اور خطیب کو اُونچا ہو کر بیٹھنا پڑتاتھا۔امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ضروری مرمت اور تزئین و آرائش بھی فرمائی اور اس کے نیچے سنگ مرمر کی چوکی بھی تعمیر کروا دی تاکہ دیمک سے محفوظ رہے اور اس منبر پاک کے اوپر ایک قیمتی غلاف بھی چڑھایا۔
بنو اُمیہ کے دور میں ایک بار اس منبر شریف کو دارالحکومت دمشق لے جانے کی تجویز آئی،جسے سن کر اہل مدینہ رنجیدہ ہو گئے اور مزاحمت پر آمادہ ہو گئے،جس پر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن لیے اوراپنا فیصلہ تبدیل کردیا۔حضرت امیر معاویہ نے اپنے دور میں ایک کام اور کیا کہ اس منبر شریف کے تقدس اور احترام کے پیش نظر ،اس کے نیچے چھ درجے یا چھ سیڑھیاں مزید بنوا کراِسے بہت اُونچا کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفا راشدین کی نشست گاہ پر،خطیب کا بیٹھنا ممنوع قرار دے دیا۔ اب خطیب صاحب ساتویں سیڑھی پر بیٹھتے ہیں۔ سن۶۵۴ھ میں ،مسجد نبوی میں لگنے والی آگ سے جہاں اور بہت سا نقصان ہوا ،وہاں یہ منبر شریف بھی،اپنے اضافے سمیت، نذر آتش ہو گیا۔اس کے بدل میں ،مختلف اوقات میں ،مختلف حکمران ،اعلیٰ سے اعلیٰ منبربنو اکر رکھتے رہے۔ آج کل جوانتہائی نفیس اور شاندار منبر شریف مسجد نبوی میں باعث زیبائش ہے اور زیارت گاہ خاص و عام ہے ،وہ ،ترکی کے عثمانی سلطان مراد ولد سلطان سلیم خان کا تیار کردہ ہے جو ۹۹۸ھ میں یہاں لایا گیا تھا۔یہ دلکش منبر ،روضہ پاک کی جنوبی دیوار سے قریباً۲۵ میٹر مغرب میں زیب نظر ہے۔منبر کی سیڑھیوں کے آگے ایک نہایت خوبصورت ،منقش اور دیدہ زیب دروازہ ہے۔
محراب نبوی:
جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ مسجد نبوی کی پہلی تعمیر میں،وہ باقاعدہ ،روایتی محراب نہیں تھی جوہماری مساجد کی پہچان بن چکی ہے اورجس میں امام صاحب کھڑے ہو کر نماز کی امامت کرتے ہیں۔ایک مخصوص جگہ پر،حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، کھڑے ہوکر نماز کی امامت فرمایا کرتے ،بعدمیں اُس جگہ پر ایک محراب بنا دی گئی،چونکہ وہ اُسی جگہ پر تھی جہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرمایا کرتے ،اس لیے اُسے محراب نبوی کا نام دے دیا گیا۔یہ محراب ،اگرچہ ، وقتاً فوقتاًدوبارہ تعمیروتزئین و آرائش سے گزرتی رہی ،لیکن اس کی جگہ وہی قائم رہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے قیام وسجودتھی۔ سن ۹۱ہجری میں،سب سے پہلے، محراب نبوی عمر بن عبدالعزیز ؒ نے تعمیر کی جب وہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے ،اس کے علاوہ بھی ، انھوں نے مسجد میں کافی زیادہ توسیع وتعمیرکروائی اور تزئین و آرائش کا بھی بے پناہ کام کیا۔ مسجد نبوی کے چاروں کونوں میں بلند و بالا مینار بھی پہلی بار حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے زمانے میں بنائے گئے۔اس محراب نبوی کو اس طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ اس کے سامنے کھڑے ہوکر جب آپ نماز پڑھتے ہیں ،تو جس جگہ پر جا کر سجدہ کرتے ہیں ،وہ مقام دراصل ،وہ با برکت جگہ ہیں جہاں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ،نماز میں قدم مبارک ہوتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ والی جگہ کو،ادب و احترام کے حوالے سے ،ایک موٹی سی دیوار بنا کر چھپا لیا گیا ہے۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کیا تھا۔گویا اُمت اب حضور ﷺ کے قدمین والی جگہ پر اپنا ماتھا رگڑناسعادت سمجھتی ہے اور وہاں سجدہ کر رہی ہے۔یہ مقدس محراب ،سلطان شرف ابو النصر کی تیار کردہ ہے جو ایک ہی ،۹ فٹ لمبے سنگ مرمر سے تراشیدہ ہے، جس پر نہایت نفاست سے مینا کاری اور خوبصورت خطاطی کی گئی ہے۔اِس پر تاریخ ِتعمیر۱۸۲ہجری کندہ ہے۔
ستون ہائے خاص:
سیدی خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسجد پاک تعمیر کی اس میں چھت کے سہارے کے لیے کھجور کے تنوں کو بطور ستون گاڑا گیا تھا۔یہ تعداد میں بہت زیادہ تھے ۔عام طور پر ،ان ستونون کے پیچھے صحابہ کرام انفرادی نمازیں ادا فرماتے تھے۔ان ستونوں میں سے چندستون ،آہستہ آہستہ مختلف کاموں کے لیے مخصوص ہو کررہ گئے اور ان کے نام پڑ گئے۔کوئی ستون اگر خراب ہوتا اُسے تبدیل کرنا مقصود ہوتا ،تو دوسرا اُسی جگہ پر گاڑا جاتا،جہاں پہلا تھا اوراُس کا نام بھی وہی قائم رہتا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ،مسجد پاک کی تعمیروتوسیع ہوتی رہی اورفن تعمیر بھی بدلتا رہا،لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے ستونوں کی جگہ اور ناموں کو تبدیل نہ کیا گیااور وہی نام ،اور وہی جگہیں آج تک موجود ہیں۔جب کوئی زائر مسجد نبوی میں حاضر ہوتا ہے تو،وہ اگرچہ کھجور کے وہ ستون تو نہیں دیکھ سکتا جو حضور انور ﷺ نے گاڑے تھے لیکن اُسے یہ یقین ہوتا ہے کہ جس جگہ پر کوئی ستون بنایا گیا ہے وہ وہی جگہ ہے جہاں میرے آقا کے دست مبارک سے ستون گاڑا گیا تھا۔سنگ و خشت کے بنے اِن ستونوں کی کوئی اہمیت نہیں ،اصل اہمیت اُس نسبت کی ہے جو اِن کی جگہ کو پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے حاصل ہے یا آپ کے قول و عمل سے ہے جو اِ ن ستونوں کے بارے میں ہے۔
ذیل میں ہم ان مقدس ستونوں کا مختصر تذکرہ کرتے ہیں۔(جاری ہے )