وہ روشن خیالی جو ہمیں اپنے دین کی بنیادی اقدار اور اپنی تہذیب کے تاریخی تسلسل سے محروم کر دے اس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اپنی تاریخ اور اپنی بنیاد ی اقدار سے محروم قوم و افراد کھوکھلی جڑ کے شجر سے بھی زیادہ کمزو ر ہوتے ہیں اور ہمیں بہر حال جیتے جی ایسی کمزوری منظور نہیں۔
ہر دور اور ہر زمانے کے مخصوص مسائل و افکار کی تفہیم کے لیے چند الفاظ رواج پا جاتے ہیں جو اسی دور سے خاص اور اسی دور کا محاورہ ہوتے ہیں۔بسا اوقات ان الفاظ کی تعریف بھی متعین نہیں کی جاتی،بس وہ استعمال ہوتے رہتے ہیں اور اقوام و قبائل کا اجتماعی شعور انھیں معنی کا ایک لباد ہ پہنا دیتا ہے ۔
نائن الیون کے بعد کی دنیا میں شہرت پانے والے بعض الفاظ مثلا دہشت گردی،بنیاد پرستی اور انتہا پسندی بھی کچھ اسی قبیل سے ہیں۔ دنیا بھر کے پریس میں ان الفاظ کی بھر مار ہے۔ہر چھوٹا، ہر بڑا یہ لفظ بول رہا ہے ، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ان الفاظ کی ابھی تک کوئی ایک تعریف متعین نہیں کی جا سکی۔ان مسائل کے پس منظر میں اورانھی کے حل کے ضمن میں ایک اور اصطلاح اور محاو رہ یعنی،‘‘روشن خیال اعتدال پسندی’’ بھی بڑا معروف ہو رہا ہے ۔پہلے تو روشن خیالی اور اعتدال پسند ی الگ الگ اصطلاحیں ہوا کر تی تھیں، اب ان کو جوڑ کر ایک کرنااصل میں ان میں ایک نیا مفہوم پیدا کرنا ہے اور اس نئے مفہوم کے بانی جنرل پرویز مشرف صاحب ہیں۔جنرل صاحب ان الفاظ کو عموما ًدہشت گردی،بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے مقابل میں پیش کرتے ہیں۔ان کے نزدیک مسلمانوں کے اندر سے بنیاد پرستی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی دہشت گردی کے رجحانات کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے کہ امت کے اندر روشن خیال اعتدال پسندی کے نظریے کو پروان چڑھایا جائے۔صدر محترم،دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے اس نظریے کو پیش کرتے ہیں۔دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ،انھوں نے بارہا ،اس کے بنیادی اسباب یعنی محکومی،ظلم و جبر اور سیاسی و معاشی احساسِ محرومی کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیاہے۔
اس سارے پس منظر میں اس سوال کا پیدا ہونا فطری امر ہے کہ آخر صد ر صاحب کی روشن خیال اعتدال پسندی ہے کیا ؟اس کے حدود اور اس کے مشمولات کیا ہیں ؟کن مفاہیم کی ادائیگی کے لیے اس اصطلاح کو استعمال کیا جارہا ہے اور اس نظریے کو رائج کرنے کے کیا مقاصد ہیں؟اس پر ملک بھرمیں بحث جاری ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ جنرل صاحب ان الفاظ کو عموما ًدہشت گردی،بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے مقابل میں پیش کرتے ہیں لیکن ان کے مخالفین کا خیال ہے کہ وہ اس نظریے کو سیکو لرازم،لبرل ازم اور مغربیت کے پھیلاؤ کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔اگرچہ وہ اس تائثر کی بارہا تردید کر چکے ہیں اور کئی بار وضا حت کر چکے ہیں کہ روشن خیالی کے نظریے سے ان کی مراد لبرل ا زم اور مغربیت ہر گز نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ان کے معاملات مروج مذہبی پیمانوں پرپورا نہیں اترتے اس لیے مذہبی دنیا میں انھیں مغربی تہذیب و تمدن کے نما ئندہ کے طور پر سمجھا جانے لگا ہے بہر حال ہمارے نزدیک یہ صدر صاحب اور ان کے سیاسی مخالفین کا ذاتی معا ملہ ہے ۔صد ر صاحب یا ان کے سیاسی رقیب اسے کیا معنی پہناتے ہیں اس سے قطع نظر ہم سمجھتے ہیں کہ ایک اچھی اصطلا ح وجو دمیں آ گئی ہے اور ہمارے خیال میں اس کامطلب و مفہوم درج ذیل ہونا چاہیے اور اسی مفہوم کے تناظر میں ہم روشن خیال اعتدال پسند ی کے حامی و موید ہیں ورنہ وہ روشن خیالی جو ہمیں اپنے دین کی بنیاد ی اقدار اور اپنی تہذیب کے تاریخی تسلسل سے محروم کر دے اس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اپنی تاریخ اور اپنی بنیاد ی اقدار سے محروم قوم و افراد کھوکھلی جڑ کے شجر سے بھی زیادہ کمزو ر ہوتے ہیں اور ہمیں بہر حال جیتے جی ایسی کمزوری منظور نہیں۔
دین اسلام اعتدال پسند دین بھی ہے اور روشن خیال بھی ۔تہذیب اسلامی کی بنیاد توحید پر قائم ہے۔ ہمارے نزدیک توحید سے زیادہ روشن خیال نظریہ اور کوئی نہیں ہے۔اس کے مقابلے میں شرک ہے جسے صاف الفاظ میں قرآن مجید نے ظلم ،گمراہی اوراندھیرا قرار دیا ہے۔۔ماضی ،حال یا مستقبل کا کوئی بھی دانشور،بڑے سے بڑا سیاستدان اور کوئی بھی جابرو قاہر حکمران ، ہمارے نزدیک اندھیروں میں ڈوبا ، تاریک خیالی میں پھنسا اور ذہنی پسماندگی کا شکارہے ، اگر وہ موحد نہیں ہے۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر ، ایک اللہ کی غلامی میں لانے سے بڑا بھی کوئی انقلاب ہو سکتا ہے؟ اس سے بھی زیادہ ،کوئی خیال ،روشن خیال ہو سکتا ہے ؟قرآن جب یہ کہتا ہے کہ ‘‘اللہ کی عبادت کرو اورطاغوت کا انکار کرو ’’ ،تو کیا وہ اُس وقت تاریک خیالی کی دعوت دے رہا ہوتا ہے ؟؟ہر گز نہیں ،تو پھر حیرت ہے کہ قرآن کے علمبردار روشن خیال اعتدال پسندی کے نظریے سے کیوں گھبرا اُٹھے ہیں بجائے گھبرانے کے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اس کا صحیح اطلاق واضح کریں۔
توحید ایک ایسا روشن خیال اور ہر دم جدیدنظریہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں دعوت توحید بلند کی گئی،ہمیشہ اس کے جواب میں یہ کہا گیا کہ،ہم اس دعوت کو کیسے مانیں ، یہ تو نئی بات ہے ، ہمارے باپ دادا سے تو ایسا نقل نہیں کیا گیا۔آج بھی اگر آپ موجودہ معاشرے میں خالص اللہ کی عبادت اور اس کی تو حید کا اعلان کرتے ہیں تو آبا پرست،تاریک خیال ،اہل جموداور پرستاران تقلید کی طرف سے آپ کو یہی جواب ملتا ہے۔
روشن خیال اعتدال پسندی کے نظریے کے حاملین احترام آدمیت کی قد رکو سب سے زیاد ہ نمایاں کرتے ہیں۔ یہ چیز بھی ،کوئی نئی ایجاد نہیں ،بلکہ خود ہمارا دین ، تکریمِ انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ دین اسلام ، انسان اور انسان کے درمیان ،رنگ ،نسل،زبان ، وطن،ذات پات اور پیشہ کی بنیاد پر تفریق کرنے کو تاریکی،ظلمت اور گمراہی قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک تمام انسان سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولادہیں۔کسی آدمی کو کسی دوسرے آ دمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔قبیلے،ذاتیں اور برادریاں محض شنا خت اور تعارف کے لیے بنائے گئے ہیں۔اللہ کے ہاں فضیلت و اکرام محض تقویٰ اور خدا ترسی کو حا صل ہے۔وہ آدمی جو ذات پات اور برادری قبیلے کی بنیاد پر تفا خر کا رویہ اپناتا اور دوسروں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے،ہمارے نزدیک تاریک خیال اور گمراہ ہے ،چاہے وہ کتنا بڑا لیڈر ہو یا چاہے کتنا ہی تعلیم یا فتہ ۔
اسی طرح احترام انسانیت میں انسانی جان کی قدرو قیمت بھی شامل ہے، جسے نا حق تلف کرنے کو ،قرآن ، پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔اسلام سے قبل تو انسانی جان کی کوئی بھی قدرو قیمت نہ تھی۔قتل و غارت گری زور آوروں کا من پسند مشغلہ تھا۔آج بھی اللہ کریم کے خوف سے عاری تہذیب کے علمبرداروں نے انسانیت پر قتل و غارت گری مسلط کر رکھی ہے۔لوگوں پر جنگیں مسلط کرنا اور انھیں گولیوں سے بھون ڈالنا ،اسلامی تہذیب کا شعار ہر گز نہیں ہے۔اسلام آیا تو اس نے لوگوں کونفس ِ انسانی کی قدرو قیمت سے آ گا ہ کیا۔یہ اسلام ہی تھا جس نے لوگوں کو انسانیت کے رشتے میں پرویا ۔یہ اسلام ہی تھا جس نے نفرتوں ، عداوتوں اور بغض و عناد کو ختم کیا اور اللہ کے بندوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ اور یہ اسلام ہی تھا جس نے باہمی خون ریزیوں کو ختم کیا،لیکن افسوس ، آج چند نا عاقبت اندیش لوگوں کے غلط اقدامات اور من پسند کی تعبیرات کے باعث اسلام ہی کو تشدد پسند دین اور مسلمان کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ دنیا کے کسی فورم پر جب بھی اسلام کی ان محبت بھری تعلیمات کو اجاگر کیا جاتا ہے اور تکریم ِ آ دمیت کا درس دیا جاتا ہے اور انسانی جان کے احترام کی بات کی جاتی ہے تو اس کی مخالفت میں جہاد کے نام پر سب سے بڑی آواز ہمارے واعظ ہی کی ہوتی ہے۔
ہم پوری ذمہ داری سے یہ عرض کرتے ہیں کہ خود کش حملوں کی تربیت اسلام نہیں دیتا اور نہ ہی کسی بے گناہ اور میدان جنگ سے دور رہنے ولے عام شہری کو قتل کرنے کی اسلام اجازت دیتا ہے۔یہ اقدامات غیر مسلم مقتدر طاقتوں کے خلاف مایوس مسلم نوجوانوں کے تہورانہ حملے ہیں جن کی جائز آواز پر دنیا گوش ہوش دینے کو تیار نہیں ہے۔خود کش حملے کرنے والوں کو بھی زند گی اتنی ہی عزیز ہوتی ہے جتنی کسی اور کو لیکن اس لمحے ان کے نزدیک اس اقدام کے علاوہ کوئی اور چارہ کا ر نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جس طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے جان بچانے کے لیے بعض لوگوں نے چھلانگیں لگا دی تھیں کیا ان کامقصد مرنا تھایا کچھ اور؟اور پھر یہ کہ اپنے مختلف مقاصد کے حصول کے لیے ،اس طرح کے خود کش حملے ،دنیا کی دیگر اقوام میں بھی ہوتے رہے ہیں ،انھیں تو اسلام نے یہ طریقے نہیں سکھلائے، پھرآ خر صرف مسلمان ہی اس پرکیوں مورد الزام ٹھیرائے جاتے ہیں۔جب ایک طاقت والا پوری ڈھٹائی سے ظلم و جور روا رکھے ہو ،جب حق و انصاف کے حصول کو نا ممکن بنا دیا جائے تو پھر ،جس عمل کووہ طاقتور دہشت گر دی کہتا ہے اس کی گنجائش اصل میں وہ خود پید ا کرتا ہے ۔آ خر ایک کمزور کے پاس اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جان دینے کے علاوہ اور ذریعہ ہو بھی کیا سکتا ہے۔اس طرح کے کسی ایک ہی اقدام پر، دانشوران ِ عالم کو سر جوڑ کر بیٹھ جا نا چاہیے تھا اور دہشت گردی کے اسباب پر غورو فکر کر کے اس کا سد باب کر نا چاہیے تھا۔لیکن طاقت کے غرور نے ،افسوس، ایسا نہ ہونے دیا اوریوں دنیا میں خوف و دہشت کا ایک شیطانی چکر چل پڑا۔
اس میں اسلام یا مسلمانوں کا کیا قصور؟ دنیا میں جس بھی قوم کو دیوار سے لگا دیا جائے گا یہی رد عمل جنم لے گا۔
عورت کے مقام و مرتبے کی تعین کے معاملے میں بھی ،اسلام کو تاریک خیالی کا طعنہ دیا جاتا ہے۔یہ بھی محض لا علمی اور کم فہمی ہے ۔اسلام نے شرف ِ آدمیت اور تکریم ِ انسانیت کے اعتبار سے ،عورت اور مرد میں کو ئی فرق نہیں رکھا۔البتہ حقوق و فرائض کے اعتبار سے ضرور فرق قائم کیا ہے ،یہ فرق بھی اس بنا پر ہے کہ دونوں جسمانی فرق کے ساتھ پیدا کیے گئے ہیں لہٰذا اس پرکسی دین کو کوئی طعنہ نہیں دیا جا سکتا ۔حقوق و فرائض کے ضمن میں ،اسلام نے صرف دو مقامات پر عورت پر مرد کو فوقیت دی ہے۔اور وہ بھی عورت کے تخلیقی و مزاجی فرق کی بنا پر ، اس کے خالق نے ،اس پر دو قسم کی ذمہ داریا ں نہیں ڈالیں۔ایک تو خاندان کے یونٹ میں ، مرد کو ترجیح دیتے ہوئے،گھر کا سربراہ بنا یا ہے اور کفالت کی ذمہ داری اس کے سر ڈالی ہے اور اسی لحاظ سے اسے قوام قرار دیا ہے۔دوسرے ،نبوت و رسالت کے لیے اللہ کریم نے مرد کو منتخب کیا ،عورت کو نہیں۔ان دو کے علاوہ، زندگی کے باقی سب میدانوں میں ،عورت اور مرد کو برا بر رکھا گیا ہے۔زندگی کی دوڑ میں عورت پوری طرح شامل کی گئی ہے۔تمام حقوق انسانی اسے حا صل ہیں۔ہاں البتہ ،مغربی معا شرے میں ،عورت کو جس طرح مرد کے لیے دل لبھانے کا ذریعہ اور ایک اشتہاری چیز بنا کر پیش کیا گیا ہے ،اسلام اس کو عورت کی توہین اور استحصال تصور کرتا ہے۔ عورت کو جنسی کھلونا بنانا ہر گز روشن خیالی یا اعتدال پسندی نہیں ہے بلکہ.اعتدال پسندی یہی ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے دائرے کے اندر رہ کر حق ِ آ زادی کو استعمال کرے ۔دو انتہاؤں کا درمیانی راستہ ہی اسلام کا راستہ ہے۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم معا شروں میں ،بعض مقامات پر ،عورت کے ساتھ ظلم روا رکھا جا رہا ہے ،اُسے گھروں کی چار دیواری میں مقید کر دیا گیا ہے، اُسے حقوق ِ ملکیت و وراثت سے محروم رکھا گیاہے اور یہ کہ علم و آ گہی کے دروازے اس پر وا نہیں کیے گئے اور یہ کہ اسے مرد کی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔ کسی بات پر احتجاج تو کجا ، اُسے اپنی جائز خواہش کے اظہار سے بھی روک دیا گیا ہے۔ ہم پو ری ذمہ داری سے عرض کرتے ہیں ، یہ سب کچھ اسلام کی تعلیمات ہر گز نہیں ہیں ۔یہ محض سماجی اور معاشرتی رویے ہیں جو صدیوں سے مختلف قبائل میں یو ں ہی چلے آ رہے ہیں ۔اور یہ صرف مسلم معاشروں ہی سے خاص نہیں ، بلکہ بعض دیگر،غیر مسلم معاشروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔اسلام ہمیشہ سے ان رویوں میں تبدیلی کی دعوت دیتا رہا ہے اور جس جس دما غ میں یہ دعوت را سخ ہو جاتی رہی ہے عورت کے معا ملے میں اس کے رویے میں یقیناً تبدیلی آ جا تی رہی ہے۔
روشن خیال اعتدال پسندی کے نظریے کا ایک اہم ستون جمہوریت بھی ہے۔جمہوریت کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ کسی ملک کے شہریوں کو بلا امتیازاپنے حکمرانوں کو آزادانہ رائے سے منتخب کرنے کا حق حا صل ہو۔دستور کی حکمرانی،قانون کی بالا دستی اور انصاف کی بے لاگ فراہمی،جمہوریت کے نمایا ں اصول ہیں۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ سب با تیں اسلام کے نظام ِ سیا ست کی بنیاد ہیں۔بد قسمتی سے جمہوریت کو ،مذہبی دنیا میں ،مغربی نظریہ سمجھا جا تا ہے اور اس بنا پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلطا نی جمہور کے اس زما نے میں ،مسلم دنیا کو تاریک خیال اور رجعت پسند کہا جا تا ہے ۔ اگرماضی میں، چندبادشا ہوں، بعض طا لع آ زما سیا ست دانوں ، اور اقتدار پر ست جرنیلوں کی ہوس اقتدار کے با عث ، مسلم عوام کو کہیں بھی حق حکمرا نی حا صل نہیں ہو سکا اور مسلم ممالک میں ابھی تک جمہوری اقدار جڑ نہیں پکڑ سکیں ،تو اس میں دین ِ اسلام کا نہیں بلکہ مفاد پرست ٹولوں کا قصور ہے۔ جمہوریت ، آزادی اظہار،مساوات ،رواداری ،عدل اور احسان کے رویوں پر مبنی تعلیمات ،ہمارے دین کا طرۂ امتیاز ہیں۔یہی روشن خیا لی ہے اور یہی ترقی پسندی ہے
کسی سر زمین میں ،یہ وہاں کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے کو ئی نظا م و ضع کریں ۔وطن ِ عزیز میں خا لص پا رلیمانی نظام کے قیام کا مطا لبہ اور جمہوری اقدار کا احیا ہی روشن خیا لی ہے۔اس نظریے کے علمبرداروں کو اپنے اندر جھا نکنا چا ہیے کہ انھو ں نے پچھلے اٹھاون برسوں میں ،ہم پر جو نظا مِ جبر و اکرا ہ مسلط کر رکھا ہے ،وطن عزیز میں تا ریک خیا لی ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے جذبات پیدا کر نے میں ،اس کا کتنا کردار ہے؟یہ جبر و اکراہ بذات خود تاریک خیالی ہے۔جہا لت ، غربت بے روز گا ری ،تشدد پسندی اور عدم روا دا ری ایسے بڑے بڑے نا سور اس نظام سیا ست کے پیدا کردہ ہیں جو ہم پر پچھلے اٹھاون برسوں سے مسلط ہے،جس کا عنوان یہ ضرب المثل ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔دنیا ئے عالم کے سامنے ہمیں جس بنا پر تاریک خیال اورانتہا پسند قرار دیا جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ، ہمارے ہاں آئے دِن فو جی حکومتوں کا قیام اورجمہوری اقدار کا پروان نہ چڑھنا ہے ۔ہمارے اس image کی بڑی وجہ ہمارا مقتدر طبقہ ہے خواہ وہ سیا سی حکمران ہوں یا فوجی حکمران ،نہ کہ مذہب ۔وطن عزیز میں ،مذہبی منا فرت ،انتہا پسندی ، عدم بردا شت اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو نہ سمجھنے کے جو جذبات پروان چڑھے ہیں ،اس میں اہم کردار ہما رے مقتد ر طبقوں کا ہے نہ کہ ہما رے مذہب کا ۔بڑا ہی غلط تجزیہ ہے ان لوگوں کا، جو، ان برائیوں کا ذمہ دار ہمارے مذہبی نظام تعلیم کو قرار دیتے ہیں۔یقیناً ،نا قص مذہبی تعلیم کا بھی اس میں حصہ ہے ،لیکن ہمارے نزدیک سب سے اہم کردار،ہمارے ان حکمرانوں کا ہے جنھوں نے divide and rule کے شیطا نی اصول کے تحت ،ہمارے معا شرے کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا اور اُن کے اندر منا فرت اور تعصب کے بیج بوئے۔پچھلے چند سالوں میں ، نو جوانوں کے اندر milliltency کے جو جذبات develop ہو ئے ہیں ، جس کے نتیجے میں نوجوان ہمیں ہر جگہ اسلحہ لہراتے نظر آ تے ہیں اور جگہ جگہ پرائیویٹ آ رمی کے جو تربیتی مرا کز قا ئم ہو چکے ہیں ،یہ سب کچھ ہمارے حکمرا نوں اور ان کے مغربی آ قاؤں کا کیا دھرا ہے۔ اہل مذہب کو تو ان لو گوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعما ل کیا ہے۔اس لیے ،آج اگر ، روشن خیال اعتدا ل پسندی کے نظریے کے تحت ، ہمارے حکمرا ن، رجو ع اور تلافی مافات کر رہے ہیں تو ہم انھیں welcome کہتے ہیں۔آج اگر زما نے کا جبر انھیں مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے بچھا ئے ہو ئے کانٹے، اپنی پلکوں سے چنیں ، تو اس پر مذہبی دا نش وروں کو ہر گز سیخ پا نہیں ہو نا چا ہیے۔جنھوں نے یہ درد دیا تھا اب اگروہی دوا دینے پر آ ما دہ ہیں تو ہم نا را ض کیوں ہوں۔
جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ ہم اصولی طور پر اس نظریے کے حا می ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے،جب سے صدر ِ محترم ، ایم ایم اے سے ، وردی پر کیے جانے والے مبینہ وعدے سے منحرف ہوئے ہیں ،وہ اس نظریے کے سیا سی استعمال کی طرف را غب ہو رہے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگلا انتخا بی معرکہ وہ اس خوش کن نعرے کے تحت لڑنا چا ہتے ہیں۔اُن کی یہ خوا ہش معلوم ہو تی ہے کہ وہ جن لوگوں کو بزعم خود ،روشن خیال اور اعتدال پسند سمجھتے ہیں ،ان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں اور مبینہ طور پر انتہا پسند قرار دیے جا نے وا لے لوگوں کا مقا بلہ کریں۔اور نتیجتاً عصائے سلطانی کے حق دار ٹھیریں۔روشن خیال اعتدال پسندی ایسے خوبصورت نظریے کا بہر حال یہ ایک بد صورت استعمال ہو گا۔
قوم کی اکثریت اعتدال پسند اور روشن خیال ہے۔اس طرز ِ عمل سے قوم کے اند ر ایک ناپسندیدہ تقسیم رواج پائے گی ۔قومی سیاسی جماعتوں کو اپنے تیئیں تاریک خیال اور انتہا پسند قرار دے لینا کسی طور مستحسن نہیں ہے بلکہ حالات تو اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام سیاسی اور غیر سیا سی قوتوں کو،وقتی سیاسی مفادات سے بالاترہوکر،تشدد،فرقہ بندی،انتہا پسندی، عدم برداشت اور تعصب کے خلاف مجتمع کیا جائے اوردہشت پسند اقلیت کے خلاف قوم کو منظم کیا جائے ۔ وطن عزیز میں جومذ ہبی عنا صر سیاسی پلیٹ فارم پر فعال ہیں وہ نہ تو انتہا پسند ہیں اور نہ ہی دہشت گرد۔اس لیے صدر محترم کو چاہیے کہ اپنے سیاسی مخالفین کو یہ عنوان دے کرمت رگیدیں کیو نکہ اس کا سب سے زیادہ نقصان اسی روشن خیال اعتدال پسندی کے نظریے کا ہو گا۔ جس کے وہ بانی ہیں۔