جس طرح مغرب کے تاجر اور صنعت کار اپنے یہاں مضر صحت قرار پانے والی دوائیں اور اجناس تیسری دنیا کو برآمد کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنے یہاں علمی بنیادوں پر رد ہو جانے والے تخفیف آبادی کے ہولناک نظریے کو تیسری دنیا میں نہ صرف برآمد کر دیا، بلکہ تیسری دنیا کے لوگوں کو یہ بھی باور کرانا شروع کر دیا کہ تمھاری نجات اسی میں ہے۔
انگریزی ادب کے بے مثال ناول نویس، نقاد اور شاعر ڈی ایچ لارنس نے کہیں لکھا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ نے شادی کی ہوتی تو مغربی دنیا سگمنڈ فرائیڈ کے عذاب سے محفوظ رہتی اور اگر حضرت عیسیٰ نے تجارت کی ہوتی تو شاید کارل مارکس پیدا نہ ہوتا۔ اس پر کسی ستم ظرف نے یہ اضافہ کیا کہ اگر حضرت عیسیٰ نے جہاد کیا ہوتا تو شاید مغربی دنیا ہٹلر کا مزہ نہ چکھتی۔ اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ کے مصداق ہم بھی کہہ سکتے ہیں اگر حضرت عیسیٰؑ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہوتے تو شاید انگلستان میں مالتھس (Malthus) نہ پیدا ہوا ہوتا۔
مالتھس کے ذکر خیر کی وجہ یہ ہے کہ تخفیف آبادی کی بحث اسی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مالتھس سے ہزاروں سال پہلے بھی دنیا میں تخفیف آبادی کے مختلف طریقے رائج تھے۔ لیکن ان طریقوں کی نوعیت انفرادی رجحانات کی ہی تھی۔ مثال کے طور پر رومیوں کے بارے میں جو تاریخی شہادتیں دستیاب ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں وضع حمل سے بچنے کے مختلف طریقے رائج تھے۔ خود عرب دنیا میں حضور اکرمؐ کی بعثت سے قبل اور آپ ؐ کے زمانے میں بھی کچھ لوگ ‘‘عزل’’ کیا کرتے تھے، لیکن مالتھس انسانی تاریخ میں وہ پہلا شخص ہے جس نے آبادی کے تصور کو پیدا وار کے ساتھ مربوط کرکے ایک باضابطہ نظریے کی صورت دی۔ مالتھس کا خیال تھا کہ افزائش نسل کے امکانات لا محدود اور معاشی وسائل محدود ہیں۔ اس نے خیال ظاہر کیا کہ انسانی آبادی حسابی طریقے سے یعنی ایک، دو، چار ، آٹھ، سولہ کی صورت میں بڑھ رہی ہے اور انسانی وسائل عددی طریقے یعنی ایک ، دو ، تین، چار، پانچ کی صورت فروغ پا رہے ہیں۔ چنانچہ آبادی اور وسائل کا ایک ہولناک عدم توازن ہمارا منتظر ہے۔ مالتھس کے نظریہ آبادی نے اپنے زمانے میں ایک نوع کی علمی سنسنی تو ضرور پیدا کی، لیکن اسے مقبولیت تقریباً ۸۰ سال بعد حاصل ہوئی۔ تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغرب کے صنعتی و تکنیکی انقلاب نے مالتھس کے نظریے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا، لیکن تیسری دنیا میں مرُدوں کو پوجنے کی روایت ہے، چنانچہ ہمارے یہاں ابھی تک بہت سے لوگ ایٹمی دھماکے کے طرز پر آبادی کے دھماکے یا Population Explosionکی اصطلاح استعمال کرکے اپنے جہل کے ذریعے کم علم لوگوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ تاہم بیشتر صورتوں میں یہ معاملہ اتفاقی نہیں۔ اس کی پشت پر مغربی دنیا کا سازشی ذہن پوری شدت کے ساتھ کام کرتا دیکھا جا سکتا ہے۔
مغربی دنیا کا معاملہ عجیب ہے، مارٹن لوتھر پادری تھا اور وہ عیسائیت میں اصلاح کا خواہش مند تھا، لیکن اس کی اصلاحِ مذہب کی تحریک بالآخر مذہب کی تردید پر منتج ہوئی۔ مالتھس بھی ایک مذہبی شخص تھا اور وہ افزائش نسل کے خلاف بھی تھا، یہی وجہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کے بقول اس نے تخفیف آبادی کے لیے ایک طرح کے برہم چریے کا تصور پیش کیا، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا ،وہ یہ کہ مختلف وجوہ کی بنا پر یورپ کی آبادی کم ہوتی چلی گئی اور وسائل بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ یورپ میں سفید فاموں کی بقا کا سوال پیدا ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مغرب میں خاندان کا ادارہ شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔ اس سے اور باتوں کے علاوہ تخفیف آبادی اور خاندان کے ادارے کے ارتباط باہمی یعنی Corelationکی حقیقت عیاں ہو کر سامنے آتی ہے۔
مغرب میں تخفیف ِآبادی کا نظریہ بیسویں صدی کے وسط تک دلیل، منطق اور تجربے کی سطح پر ازکار رفتہ ثابت ہو کر رد ہو گیا تھا یہاں تک کہ وہاں آبادی میں اضافے کی آوازیں شدت سے بلند ہونے لگی تھیں۔ لیکن جس طرح مغرب کے تاجر اور صنعت کار اپنے یہاں مضر صحت قرار پانے والی دوائیں اور اجناس تیسری دنیا کو برآمد کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنے یہاں علمی بنیادوں پر رد ہو جانے والے تخفیف آبادی کے ہولناک نظریے کو تیسری دنیا میں نہ صرف برآمد کر دیا، بلکہ تیسری دنیا کے لوگوں کو یہ بھی باور کرانا شروع کر دیا کہ تمھاری نجات اسی میں ہے۔
تخفیف آبادی یعنی ضبطِ ولادت کا نظریہ اپنی اصل میں ایک معاشی اور پیداواری نظریہ ہے، لیکن مغرب نے تیسری دنیا میں یہ نظریہ سیاسی نظریے کے طور پر برآمد کیا۔ سفید فام اقوام غیر سفید فام اقوام کے سمندر میں ایک جزیرے کی حیثیت رکھتی ہیں اور سمندر اور جزیرے کا تناسبی رشتہ مسلسل بدل رہا ہے۔ اس لیے کہ سمندر کی حدود وسیع ہو رہی ہیں اور جزیرہ سکڑ رہا ہے۔ سفید فام اقوام کے لیے اس صورتِ حال کے عالمگیر تہذیبی، سیاسی اور معاشی مضمرات ہیں۔ یہ مضمرات عیاں تو ہمیشہ سے تھے، لیکن نو آبادیاتی دور کے خاتمے نے انھیں نمایاں کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا میں ضبط ولادت کی تحریک گزشتہ پچاس برسوں کے دوران زیادہ شدید ہوئی ہے۔ اس حوالے سے مغرب کے اندیشوں کی مختصر سی فہرست تیار کرنا دشوار نہیں۔
(۱) مغرب جمہوریت کا علمبردار ہے اور جمہوریت کا اصول اکثریتی ہے۔ اگرچہ مغرب نے عالمی ادارے یعنی اقوامِ متحدہ کی تشکیل تک میں اس جمہوری اصول کی سخت خلاف ورزی کی ہے اور سلامتی کونسل کے پانچ ارکان کی معمولی سی اقلیت کو پوری عالمی برادری پر مسلط کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس نوع کی چال بازی کب تک چل سکتی ہے؟ چنانچہ اقوامِ متحدہ میں اکثریتی رائے کی بنیاد پر فیصلوں کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ مغرب نے اقوامِ متحدہ کی تشکیل میں جمہوری اصول کو نظر انداز کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ جلد ہی ایسے حالات بھی پیدا کر دیے کہ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔ یہ تقسیم ختم ہوئی ہے تو تیسری دنیا نے کئی حوالوں سے اپنی خودی اور مفادات پر اصرار شروع کر دیا ہے۔
مغرب جمہوریت کا علمبردار ضرور ہے، لیکن اس نے گزشتہ پچاس سال کے دوران میں ہمیشہ تیسری دنیا کی اکثریتی آبادی کو فوجی اور نیم سول آمریتوں کے حوالے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
(۲) اہل مغرب جانتے تھے کہ تیسری دنیا میں آبادی کا دباؤ بڑھے گا تو اس کا اثر ان کے معاشروں پر بھی پڑے گا۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو گی اور اسے روکا نہیں جا سکے گا۔ اس سے ان کی معاشرت اور تہذیبی دائرے میں اجنبی عنصر کا اضافہ ہو گا جو بالآخر ان کے تہذیبی و ثقافتی سانچوں یہاں تک کہ ان کے سیاست پر بھی اثر ڈالے گا۔ یہ اگر کوئی سانحہ تھا تو یہ سانحہ بھی مغرب کے ساتھ ہو چکا ہے۔
(۳) مغرب تیسری دنیا کی آبادی کے استحکام کو اپنے منظور کردہ بین الاقوامی نظام کے لیے ایک خطرہ سمجھتا تھا اور خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ عدم استحکام ابھی تک سیاسی اور معاشی فکر میں تبدیل نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن بالفرض اگر کل کو تیسری دنیا کے صرف چار ملک مغرب کے ہولناک قرضوں کی ادائیگی سے انکار کرتے ہوئے خود کو دیوالیہ قرار دے دیں تو مغرب کا بین الاقوامی مالیاتی نظام دو ہفتوں میں زمین بوس ہو جائے گا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغربی دنیا نے تیسری دنیا میں صرف ضبط ولادت کے ذریعے ہی آبادی کو کم کرنے کی سازش نہیں کی، بلکہ اس نے علاقائی اور داخلی بحرانوں پر قابو پانے میں بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا۔ روانڈا میں ہوتو اور تتسی قبائل کے مابین ہونے والی خانہ جنگی چند ماہ میں بیس لاکھ افراد کو نگل گئی اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ امریکہ نے اس خانہ جنگی کو بند کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ بھی اس سلسلے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔
مغربی دنیا چیخ رہی ہے کہ ایڈز، افریقہ کو نگل رہا ہے، لیکن مغرب کے دوا ساز ادارے سستی دوائیں بنانے پر آمادہ نہیں، لیکن اس سلسلے میں تو صورتِ حال یہ ہے کہ ایڈز کے مرض کا پھیلاؤ بھی مغرب کی سازش سمجھا جا رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ افریقہ کے کئی ملکوں میں تیل اور قیمتی معدنی وسائل کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں اور خیال ہے کہ مغرب افریقہ کو ایڈز زدہ کرکے اسے معذوری میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے۔ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ تیسری دنیا میں تخفیف آبادی کا نعرہ مغرب کے سیاسی ایجنڈے کے سوا کچھ نہیں۔
جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے تو یہاں تخفیف آبادی کی سازش کا دائرہ مزید وسیع ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی حقائق کا تجزیہ دلچسپی اور معنی خیز صورتِ حال کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔
۱۹۴۰ء کے آس پاس مسلمانوں کی مجموعی عالمی آبادی صرف ۳۶ کروڑ تھی۔ آج ۶۳ سال بعد یہ آبادی ایک ارب ۳۰ کروڑ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سن ۲۰۵۰ء میں یہ آبادی دو ارب نفوس پر مشتمل ہو گی۔ اس وقت بساطِ عالم پر نہ صرف یہ کہ ۵۷ آزاد مسلم ریاستیں موجود ہیں، بلکہ ان کے پاس دنیا کے تیل کے ۴۰ فیصد ، قدرتی گیس کے تقریباً ۵۰ فیصد اور بعض اہم معدنیات کے ۲۵ فیصد ذخائر ہیں، مسلمان جہاں اقلیت میں ہیں وہاں ان کی حیثیت بڑی اقلیت کی ہے۔ یورپ میں مسلمانوں نے جڑیں پکڑ لی ہیں۔ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً پچاس لاکھ،برطانیہ اور جرمنی میں ۴۰ لاکھ کے آس پاس ہے اور ان ملکوں میں ان کی حیثیت دوسری بڑی اقلیت کی ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد چند برسوں میں یہودیوں سے بڑھنے والی ہے۔ خود اسرائیل کا یہ حال ہے کہ وہاں آئندہ دس سے پندرہ برسوں میں عرب آبادی اکثریت میں ہو گی اور یہودی اقلیت میں، یہ اور بات کہ اس عرب آبادی میں عیسائی بھی شامل ہیں۔ مغربی دنیا اس صورتِ حال سے خوفزدہ ہے۔
مسلم دنیا میں تخفیف آبادی کا نعرہ مغرب کا سیاسی ایجنڈا تو ہے ہی، لیکن اسے صرف سیاسی ایجنڈا سمجھنا غلط ہے۔ مثال کے طور پر کم بچے خوشحال گھرانہ کا نعرہ صرف ایک سیاسی یا معاشرتی نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ بجائے خود ایک مکمل تصورِ حیات ہے اور اس تصورِ حیات کو اختیار کرتے ہی خدا، کائنات اور معاشرے سے آپ کا تعلق بدل کر رہ جاتا ہے اور آپ کی اخلاقیات کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ہی رزق دینے والا ہے، بلاشبہ انسان کوشش کرتا ہے، لیکن انسان کوشش کے لیے بھی خدا کا محتاج ہے۔ کم بچے خوشحال گھرانہ کا نعرہ، اعلان کیے بغیر اس عقیدے کو چیلنج کرتا ہے اور بہت آہستگی کے ساتھ اسے بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اس نعرے کو اختیار کرکے انسان رزق پر کچھ نہ کچھ اپنا اختیار تسلیم کر لیتا ہے اور یہ شرک کی ایک صورت ہے۔
مغربی اصطلاحوں میں ترقی و خوشحالی بسا اوقات ہم معنی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے یہاں لوگوں کو اس کا اندازہ بھی نہیں کہ اہل مغرب ان الفاظ کو تقریباً انہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں، جن معنوں میں ہم ‘‘نجات’’ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جس کو نجات ملی اس کو سب کچھ مل گیا۔ مغرب بھی یہی کہتا ہے کہ جس نے ترقی کی اور خوشحال ہوا اس نے گویا نجات حاصل کر لی۔ بدقسمتی سے ہم بھی ان الفاظ کو لا شعوری طور پر سہی انہی معنوں میں استعمال کرنے لگے ہیں۔ شاندار گھر، نئے ماڈل کی کار، ٹی وی، ریفریجریٹر، وی سی ڈی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ چیزوں کے نام نہیں …… یہ نجات کے حصول کے ذرائع ہیں۔ مگر ہماری جعلی اور مصنوعی مذہبیت اس حقیقت کو آشکار نہیں ہونے دیتی۔
اسلام میں خاندان کے ادارے کی اہمیت بنیادی ہے۔ اسلام کے نزدیک پوری امت مسلمہ یہاں تک کہ پوری انسانیت ایک بڑا خاندان ہے اور خاندان ایک چھوٹا سا معاشرہ ہے۔ خاندان اسلام میں اصول توحید کا سماجی مظہر یا Social Menifestationہے۔ یہ معاشرے کی خشت اول اور بجائے خود ایک کائنات ہے۔ جس کا اپنا نظام شمسی، سورج، چاند اور ستارے ہیں اور اس ادارے کی کمزوری پورے معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
ہمارے یہاں مغربی فکر کی گمراہیوں کا تجزیہ تو بہت ہوا ہے، لیکن اس بات پر بہت کم توجہ دی گئی ہے کہ اس فکر کی پشت پر موجود لوگوں کی سماجیات یا Sociologyکیا تھی؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ انسان بڑی حد تک اپنے سماجی، جذباتی اور نفسیاتی تجربے کا اسیر ہوتا ہے اور مغرب میں ایسے بے شمار ادیب، شاعر اور مفکرین ہوئے ہیں جن کا سماجی تجربہ ‘‘نارمل’’ نہیں تھا، جن کو محبت سے لبریز خاندانی ماحول فراہم نہیں ہوا، جن کا بچپن خوشگوار نہیں تھا۔ فرانز کافکانے جدید مغربی فکشن کے زمین و آسمان بدل دیے اور اس کی حیثیت مغرب کے ادب پر بہت بڑے اثر کی ہے۔ کافکا کے یہاں زندگی رینگتے ہوئے کیڑوں کی سطح پر آجاتی ہے، لیکن یہ کافکا کا شخصی تجربہ تھا۔ ژاں پال سارتر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ میرے دادا اور دادی میں سے ایک کیتھولک اور دوسرا پروٹسٹنٹ تھا اور وہ ہر صبح ناشتے کی میز پر ایک دوسرے کے مسلک کو برا کہتے تھے۔ اس سے میرے سادہ ذہن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ دراصل دونوں ہی غلط ہیں۔ نٹشے جس کے انکارِ خدا نے مغربی فلسفے کو بدل کر رکھ دیا، اپنے بچپن کے بعض واقعات کو ساری زندگی شدت سے بیان کرتا رہا۔ اسلام میں اس حوالے سے بھی خاندان کے ادارے کی اہمیت بنیادی ہے۔ لیکن خاندان کا ادارہ شادی کے ادارے سے وجود میں آتا ہے اور شادی کی اسلام میں بنیادی اہمیت ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں شادی کے ادارے کو غیر معمولی اہمیت دی ہے اور اس کے سلسلے میں حد درجہ سنجیدگی برتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ہر شے کا جوڑا پیدا کیا، چنانچہ اسلام میں شادی محض کوئی سماجی ادارہ نہیں۔ اسلام میں شادی ایک کائناتی سطح کا ردِ عمل ہے جو پوری کائنات کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے کا عمل ہے۔ اس کے بغیر مرد اور عورت ادھورے ہیں اور شادی کا ادارہ مرد و عورت کے تعلق کے حوالے سے ایک تکمیلی دائرہ بناتا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو جدید مغربی تہذیب کا تجربہ اسلامی تہذیب کی ضد نظر آتا ہے۔ مغرب میں پھیلی ہوئی جنسی انارکی اور ان کے مجموعی تصورِ زندگی نے نہ صرف خاندان کے ادارے کو منہدم کیا ہے، بلکہ حقیقتاً مغرب میں جنس کی بھی تکذیب ہو گئی ہے۔ ہم جنس پرستی کا ہولناک رجحان جنس کی تردید نہیں تو اور کیا ہے۔
مغربی دنیا نے چھوٹے خاندان کے تصور اور تخفیف آبادی کو معاشی خوشحالی سے اس طرح منسلک کیا ہے کہ یہ تصورات لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہماری شرح نمو کو نگل جاتا ہے۔ لیکن چین نے ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی کے باوجود، ۱۱ فیصد سالانہ شرح نمو حاصل کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسئلہ آبادی کو Manage کرنے سے زیادہ اہلیت اور صلاحیت کا ہے۔ چین نے اپنی آبادی کو ایک بوجھ کے بجائے اپنا سب سے بڑا اثاثہ بھی ثابت کر دکھایا ہے۔
ہمارے ہاں دوچار برسوں سے چھوٹے خاندان اور کم آبادی کے حوالے سے اسلام کے تناظر میں ایک اور دلیل وضع ہوئی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسلام تعداد یا مقدار پر نہیں معیار پر Quality پر اصرار کرتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانی دائرے میں تعداد کو معیار سے مشروط کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس کا بہت کچھ انحصار بچوں پر والدین کی توجہ، خاندانی مراسم کی نوعیت اور والدین کی تربیتی صلاحیت پر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام Quality پر اصرار کرتا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تعداد زیادہ Quality پیدا کرنے کا امکان رکھتی ہے۔
مغرب میں تخفیف آبادی یا خاندانی منصوبہ بندی کا تصور تقدیر اور ارادۂ الٰہی کی یکسر تکذیب کرتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر خاندانی منصوبہ بندی پانچ سو سال سے پوری دنیا میں رائج ہوتی اور دنیا کے صرف ۱۰۰ جینئس اس کی نذر ہو کر پیدا نہ ہوئے ہوتے تو آج ہماری دنیا کیسی ہوتی۔ ایڈیسن ابتر ترین معاشی حالات میں پلا بڑھا، مگر اس نے دنیا کو تین ہزار سے زائد ایجادات دیں۔ شیکسپیئر اس زمانے کے زیریں متوسط طبقے کا شخص تھا اور وہ مغربی ادب کا سب سے بڑا نام ہے، آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں دنیا کے ۸۰ فیصد سے زائد تاریخ ساز لوگ ابتر معاشی حالات اور بڑے خاندانوں سے آئے ہیں۔
٭٭٭
ضبط ولادت اور مادری جبلت
‘‘ایک عام شادی شدہ جوڑے کو صاحب اولاد ہونا چاہیے۔ جو لوگ اولاد کو موخر کرتے ہیں بعد میں انھیں اس پر نادم ہونا پڑتا ہے۔ لاولد شادی نت نئے مسائل کو جنم دیتی ہے اور خواہ زوجین ایک دوسرے سے مطمئن ہی ہوں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان پر ایک شدید قسم کی بد مزگی اور بے کیفی مسلط ہو جاتی ہے۔ گویا کہ وہ اپنے سفر کے اختتام پر پہنچ گئے ہیں۔ ماہر عمرانیات ہمیں برابر متنبہ کر رہے ہیں کہ شرح طلاق ان گھروں میں سب سے زیادہ ہے جو اولاد سے محروم ہیں۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے۔ اس صورت میں ماں اور باپ بننے کی بنیادی فطری اور جبلی خواہش پوری نہیں ہوتی۔ یہ چیز عورت کے معاملے میں خصوصیت سے بڑی اہم ہے۔ ضبطِ اولاد سے اس کی مادری جبلت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، جس سے اس کا نظامِ اعصاب پراگندہ ہو سکتا ہے، اس کی صحت تباہ ہو سکتی ہے اور زندگی میں اس کی تمام خوشی اور دلچسپی خاک میں مل سکتی ہے’’۔
(Alexander, james N. The Psychologist Magazine, London, June 1968)
امریکی معاشرہ…… بوڑھا معاشرہ
۲۰۵۰ء میں پاکستان اور عالم اسلام کا مقابلہ تاریخ انسانی کے سب سے زیادہ بوڑھے معاشرے اور سب سے زیادہ بوڑھی تہذیب ، مغرب اور امریکہ سے ہو گا اور اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان اس تاریخی جنگ کی قیادت کا اہل ہو جائے اور جغرافیائی، نظریاتی اور تاریخی وجوہات کی بنیاد پر وہ ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک مخفی طاقت کو حرکی طاقت میں تبدیل کرنے والی کوئی شخصیت ، تحریک یا جماعت موجود نہیں، مگر امکانات مکمل طور پر موجود ہیں، مغرب اور امریکہ ان تمام امکانات کے باعث پاکستان کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں، ان کی نظر اس وقت کے بظاہر کمزور پاکستان اور کمزور مسلم امت پر نہیں ہے، بلکہ وہ مستقبل کے تناظر میں اس قوم اور اس امت کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ تاریخ نے یہ بتا دیا ہے کہ مسلم امت ہر مشکل مرحلے سے زندگی پا کر نکلی ہے۔ یہ اپنی خاکستر سے بار بار جی اٹھتی ہے، اس کی مٹی پر پانی کے چند چھینٹے بھی پڑجائیں تو یہ مٹی لہلہانے لگتی ہے۔ اس کی مثال اس کٹے پھٹے مضروب ، مجروح درخت جیسی ہے جس کے ہر حصہ زخم سے نئی کونپلیں، نئے شگوفے پھوٹتے ہیں، نئی کلیاں مسکراتی ہیں اور نئے پھولوں کی فصل بہار لہلہا اٹھتی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں یہ امت چوٹ کھا کر، زخم پا کر، مر کر بھی بار بار زندہ ہوتی رہی ہے۔
شرح پیدائش میں کمی اور قومی زندگی
‘‘ایک اور طریقہ جس سے ایک مسرف اور اوباش قوم کی زندگی کو کم کر دیا جاتا ہے، وہ شرح پیدائش کی کمی ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اقوام لذت پرستی اور جنسی آوارگی میں مبتلا ہوتی ہیں وہ افزائش اطفال سے غافل رہتی ہیں اور بچوں کو اپنی آزادی اور خوش فعلی کی راہ میں مانع تصور کرتی ہیں۔ یہ رویہ پرستارانِ جنس کو مانع ـحمل ذرائع کے استعمال، اسقاطِ حمل اور اسی نوع کی دوسری تدابیر کے اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قوم کی آبادی پہلے تو ساکن اور غیر متغیر ہو جاتی ہے اور پھر کم ہونے لگتی ہے حتیٰ کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں وہ اپنی بنیادی ضرورتیں تک پوری کرنے کی اہل نہیں رہتی۔ یعنی نہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کو قائم رکھ سکتی ہے اور نہ اپنے فطری (Natural)اور انسانی دشمنوں سے اپنے آپ کو بچا سکتی ہے۔ یہ خود کشی ہے اور اسے بانجھ پن سے مزید مدد ملتی ہے جو آوارہ گردی اور بد فعلی کا فطری نتیجہ ہے۔ پھر ان دونوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسی قوم کا عرصہ حیات مختصر ہوجاتا ہے۔ خود کشی کے اس طریقے نے تاریخ انسانی میں بہت سے شاہی خاندانوں ، دولت مند اور اونچے طبقوں اور اجتماعی گروہوں کو حیاتیاتی اور سماجی حیثیت سے نیست و نابود کر دیا ہے اور اسی کے ذریعے بہت سی قومیں زوال و انحطاط کا شکار ہوئی ہیں۔’’ (‘‘سوروکن’’Sorokin American Sexual Revolution)
جینیات میں سرمایہ کاری کا سبب
مغرب میں عیش و عشرت کے فلسفے کے ساتھ ساتھ کم آمدنی، مہنگی زندگی اور طلاق کے سلسلے میں نہایت سخت قوانین کے باعث مرد و عورت قانونی شادیوں سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ طلاق کی صورت میں مرد کے پاس سوائے حیرت، حسرت اور عبرت کے کچھ باقی نہیں بچتا۔ پھر بچے کی پیدائش بہت سی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے اور آوارہ گردی کی زندگی کے ساتھ ساتھ لذتِ آوارگی سے بھی نجات کی طالب ہوتی ہے، لہٰذا مغرب کی عورتیں بچے کی پیدائش کے عمل کو ایک بوجھ، عذاب اور آفت و مصیبت سمجھتی ہیں۔ آبادی میں مسلسل کمی کے خطرات سے گھبرا کر یہودی النسل سائنس دانوں اور مغربی دانشوروں نے ‘‘جینیات’’ کے شعبے میں اربوں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سرمایہ کاری کے دو مقاصد ہیں۔ پہلا یہ کہ مغربی فلسفہ مادیت، کی روحانی توجیہہ بیان کی جائے اور ایک ایسی مابعد الطبیعات تخلیق کی جائے جس کے ذریعے لوگوں کا مذہب پر اور خالق کائنات پر اعتماد و اعتبار مکمل طور پر مجروح کر دیا جائے۔ جینیات اس وقت مغربی فلسفے کی روحانی توجیہہ کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ مذہب کے متبادل ایک مادی روحانیت کی مابعد الطبیعاتی اساس مہیا کرنے میں کوشاں ہے۔ ڈولی کی صورت میں جرثوموں کے ذریعے ایک ہی قسم کے جانور و انسان تیار کرنے کا تجربہ دراصل ایسی اولاد اور نسل پیدا کرنے کی کوشش ہے جس کے ماں باپ بننے کے لیے کوئی انسان تیار نہیں ہے، مگر جس نسل کی مغرب کے بازار، کاروبار اور منڈیوں کو شدید ضرورت ہے۔ ‘‘جینوم’’ منصوبے کا اعلان جس کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہے کہ انسان نے خالق کائنات کی کتاب کے تمام اسباق پڑھنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے اور وہ اس زبان سے واقف ہو گیا ہے جس میں یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ ان بے بنیاد دعوؤں کی اساس یہ نقطۂ نظر ہے کہ خلق نے خالق ہونے کا اعلان کر دیا اور بتا دیا جائے کہ زندگی و موت ، تخلیق و افزائش، پیدائش و پرورش پر صرف خالق کائنات کی اجارہ داری کا مذہبی دعویٰ بے بنیاد ہے اور انسان دراصل خود اپنا خالق ہے اور وہی خالق کائنات بھی ہے، کیونکہ کائنات اس کے زیر نگیں ہے۔
آبادی کے اعداد و شمار کا تجزیہ
عالمی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت دنیا کی مجموعی آبادی ۶.۵ بلین ہے۔ مغربی ممالک کی کل آبادی صرف ۸۴ کروڑ ہے، یعنی دنیا کی کل آبادی کا صرف ۱۵ فیصد، اگر اس آبادی میں جاپان کے ۵.۱۲ کروڑ افراد کو بھی جذب کر لیا جائے تو مغرب کی کل آبادی پوری دنیا کی کل آبادی کا صرف ۱۷ فیصد بنتی ہے، اس کل آبادی میں سے اگر روس کی ۱۴ کروڑ آبادی کو نکال دیا جائے تو مغربی ممالک کی کل آبادی صرف ۵.۱۲ فی صد رہ جاتی ہے۔ بارہ اعشاریہ پانچ فی صد آبادی میں سے بھی اگر جاپان کی دو فی صد آبادی کو نکال دیا جائے تو مغرب کی کل اصل آبادی پوری دنیا کی آبادی کا صرف دس فی صد رہ جاتی ہے۔ کل دس فی صد مجموعی مغربی آبادی میں سے بھی اگر غیر گوری نسلوں سے متعلق آبادی کو نکال دیا جائے تو مغرب میں آباد گوری قوم کی کل آبادی پوری دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف پانچ فی صد بچتی ہے۔ آبادی کے اضافے کی رفتار مغربی ممالک میں سب سے کم ہے اور اب دنیا بھر میں نوے فی صد سے زیادہ بچے غیر مغربی ممالک میں پیدا ہو رہے ہیں۔ ۲۰۵۰ء تک مغرب کی گوری آبادی صرف ڈھائی فی صد رہ جائے گی، اس کے برعکس دنیا میں مسلمان قوم کی آبادی میں نہایت تیزی رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف مغرب میں اس وقت مسلمان کل مغربی آبادی کا اٹھارہ اور بیس فی صد ہو گئے ہیں۔ دنیا میں جینیاتی تنوع(Genetic Diversity)کے اعتبار سے مسلمان قوم سب سے آگے ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام نسل پرستی کے فلسفے کی نفی کرتا ہے۔ عالم اسلام کا سوادِ اعظم کسی نسل یا رنگ ، زبان، خطے اور ملک کی بنا پر عصبیت کا شکار نہیں ہے اس لیے دنیا بھر کے مسلمانوں میں ہر قوم کے لوگ موجود ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایک ہی قوم کی آپس میں شادیوں کے باعث گوری نسل کی ذہنی صلاحیت کم ہو گئی ہے، اس کی ایک مثال پارسی نسل ہے جو اب مائیکرو اسکوپ کمیونٹی کہلاتی ہے۔ اس صلاحیت میں اضافے کے لیے امریکہ ہر سال D.Vلاٹری کا اعلان کرتا ہے جس کے ذریعے دنیا بھر سے زرخیز نسلوں کا انتخاب کرکے انھیں امریکہ میں آباد کرنے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ Diversity D.Vکا مخفف ہے۔ جس کا مطلب تنوع ہے اور اس سے مراد جینیاتی تنوع ہے۔ امریکی ماہر جینیات کی رائے یہ ہے کہ اس طریقے سے جب ہم دنیا بھر کی نسلوں کو امریکہ میں جمع کریں گے تو آپس کی شادیوں کے باعث ان نقصانات کا ازالہ ہو گا جو گوری نسلوں کی آپس میں شادی بیاہ کے باعث خلقی اور فطری طور پر پیدا ہو چکی ہیں۔ مختلف النوع نسلوں سے گوری نسلوں کے آزادانہ اختلاط یا قانونی، اخلاقی اور کاغذی اختلاط کے نتیجے میں جو نسل پیدا ہو گی وہ ذہنی طور پر بہت تیز اور بلند ہو گی۔ اس کے نتیجے میں امریکیوں کا جینیاتی ذخیرہ (Genetic Pool) بہت وسیع ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر امریکہ کا جائزہ لیں تو وہاں تعلیم اور سائنس کے میدان میں چینی پہلے نمبر اور دیگر اقوام دوسرے تیسرے نمبر پر ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ امریکی قوم کے بچوں کی عام معلومات(General Knowledge) کی سطح دنیا کے تمام ممالک کے بچوں سے سب سے کم ہے۔امریکیوں کو اپنے ملک کے بارے میں بھی زیادہ معلومات نہیں، پھر یہ بھی ایک ہی زبان انگریزی بولنے کے باعث ان کی معلومات، احساسات ، جذبات اور تخلیقی صلاحیتوں میں وہ اپج، وہ نکھار، وہ تازگی اور زندگی نہیں پیدا ہوتی جو کئی زبانوں کے بولنے والوں میں قوت مخفی بن کر اچانک قوتِ حرکی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ (بشکریہ۔)