گفتگو۔ ڈاکٹر خالد ظہیر
معروف دانشور ، عالم دین اور لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز کے استاد جناب خالد ظہیر، مئی ۰۵ کے وسط میں، مطالعاتی دورے پر ملائشیا اور انڈونیشیا تشریف لے گئے ۔ واپسی پر انہوں نے المورد ، ادارہ علم و تحقیق لاہور میں اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا ۔ اس موقع پر ان کی گفتگو ہدیہ قارئین ہے۔
اس وقت اسلام کے حوالے سے خود عالم اسلام میں بھی دو ہی امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بالکل روایتی نقطہ نظر اختیار کریں جو کہ بہت سے گوشوں میں خود بے شمار مسلمانوں کے لیے بھی ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہے یا یہ ہے کہ وہ بالکل دوسری انتہا پر نکل جائیں یعنی مکمل آزاد ہو جائیں ۔کوئی دوسرا متبادل لوگوں کے سامنے موجود ہی نہیں ہے ۔
عالم اسلام میں یہ لہر عام ہو رہی ہے کہ اب تک دین کی تعبیر و تشریح کا جو بھی کام ہوا ہے چونکہ وہ مردوں نے کیا ہے اس لیے اس میں مردانہ تعصب موجود ہے ۔اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ عورتیں خود اس پر غور کریں اور دین کی نئی تعبیرپیش کریں اور مردوعورت کے حقوق میں جو تفاوت اسلام میں ہے اسے کم کرنے یا دور کرنے کی سعی کریں۔
عورتوں پر ظلم کے حوالے سے دین دار طبقے کی خاموشی نے آزادی نسواں کی اُس تحریک کو بہت تقویت پہنچائی ہے جو بالآخر عورتوں کو دین سے ہی آزاد کر دیتی ہے۔
بعض مسلمان علما کا خیال ہے کہ دین کے ماخذوں میں قرآن و سنت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ترتیب میں مصلحت عامہ کو اول نمبر پر رکھا جائے اور اس کے مطابق سارے احکام کی تعبیر کی جائے ۔مصلحت کا تقاضاہو تو شریعت کے ابدی احکامات کو بھی آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے۔
دین کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کی حرکتیں دین سے دوری کا باعث بن رہی ہیں
ہمارا یہ مطالعاتی دورہ ایشیا فاؤنڈیشن کے تحت تھا۔یہ ادارہ غالباً یو۔ایس ایڈ کے تحت وجود میں آیا ہے۔مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گیا رہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ نے اپنی پالیسیوں پر سنجیدگی سے غور کیا ہے اور اس حوالے سے اپنی بعض کوششوں کا رخ بدلا ہے ۔ انہی میں سے ایک کوشش یہ محسو س ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں جو معتدل مزاج عناصر ہیں انہیں شدت پسند گروہوں کے مقابلے میں نمایاں کیا جائے ۔ چنانچہ دنیا میں جہاں جہاں اس طرح کے لوگ کوئی علمی یا عملی کام کر رہے ہیں دوسرے مسلمانوں کو اس کے مطالعے کے دعوت دی جاتی ہے تا کہ ان کے نزدیک ایسی کاوشوں کے جو مثبت اثرات معاشرے پر ہو رہے ہیں ان کاجائز ہ لیا جائے اور نتیجتا دوسرے مسلمان بھی اپنے اپنے معاشروں میں ایسی کاوشوں کو متعارف کرانے کی سعی کریں ۔ یہ بہر حال میرا تاثر ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے ۔
ہمارا trip اپنی نوعیت کا دوسرا Tripتھا۔پہلے جو گروپ یہاں سے گیا تھا اس میں پاکستان،انڈیا، افغانستان،سری لنکا اور نیپال کے لوگ شامل تھے۔ہمار ا گروپ ۹، افراد پر مشتمل تھااور اس میں بھی تقریباً انہیں ممالک کے لوگ تھے جو پہلے گروپ میں تھے البتہ اس میں بنگلہ دیش کا اضافہ تھا۔
پہلے ہم ملائشیا گئے اور وہاں ہم نے چار دن گزارے وہاں ہم کو sisters in islam(ایک ادارہ ہے) کے تحت ان کا ٹریننگ پروگرام دکھایا گیا ۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ کس قسم کا کام کر رہے ہیں۔ sisters in islam والوں کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے میں اسلام کی تعلیمات کے نام پر خواتین پرجو مظالم ہورہے تھے ان کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا۔(یہ اصلا ۸ خواتین تھیں)کہ ہم مل کر خود یہ جاننے کی کوشش کریں گی کہ دین اسلام کی تعلیمات حقیقتاً ہیں کیا؟ان کا خیال ہے کہ اب تک امت میں دین کی تعبیر اور تشریح کا جو بھی کام ہوا ہے وہ سارے کا سارا مردوں نے کیا ہے۔ الاماشاء اللہ۔ اوران کی تعبیرات اور تشریحات میں ایک قسم کا مردانہ تعصب بہر حال موجود ہے۔اس لیے ہم ان کے کام کو غیر جانبدار نہیں سمجھتیں۔ چنانچہ انہوں نے جب دین پر غور کیا تو ان کی اپنی آرا وجود میں آئیں جو کہ ان سے بہت کچھ مختلف ہیں جو امت میں معروف اور رائج ہیں۔ ان کا خیا ل ہے کہ لوگوں کو تقابلی مطالعے کے طریقے پر educate کیا جائے۔ چونکہ یہ پروگرام ملائشیا میں ہورہا تھا اس لیے بعض باتیں اس میں ملائشیا کے اپنے حالات اور تاریخ وغیر ہ کے تناظر میں بھی تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملائشیا میں چودہ statesہیں اور ان میں سے ہر stateکا اپناشرعی قانون ہے۔ آپ ایک stateسے دوسری stateمیں جارہے ہوں توآپ کو معلوم ہوگا کہ پچھلی stateمیں سگریٹ پینا جائز تھا یہاں ناجائز ہے۔اور ایک جگہ اگر دوسری شادی کرنی بغیر کسی شرط کے ممکن ہے تو دوسری stateمیں مشروط طور پر ممکن ہے۔ اوراسطرح کے بہت سارے اختلافات۔
سسٹرز ان اسلام کے ہاں ہمیں جو ٹریننگ کروائی گئی وہ بہت effectiveتھی ۔ایک خاتون تھیں اور ایک مرد جو مل کے ہمیں بتا رہے تھے اور ان کا ماحول، گفتگو ڈائیلاگ اور open debate،کا تھا۔ہم نے جو سوالات کیے اس کے جوابات بہت تحمل سے دیے گئے ۔ اس کا امکان تو نہیں تھا کہ وہ ہم میں سے ہر ایک کو علمی طور پرپوری طرح مطمئن کر لیتے ۔ تاہم سمجھنے سمجھانے اور باہمی گفتگو میں کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ کوئی رکاوٹ یا مشکل پیدا ہو رہی ہے ۔البتہ انگریزی زبان بولنے کے حوالے سے ان کے ہاں خاصا مسئلہ ہے ۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ مشرق بعید کے لوگوں کو انگریزی بولنے کے حوالے سے مشکل ہوتی ہے اس لیے ان کی انگریزی بالعموم سمجھنا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے ۔ لیکن اس تنظیم کے دونوں ترجمان بہت clear تھے اور بہت اچھی communicationکی صلاحیت رکھتے تھے۔
سسٹرز ان اسلام کی جو آٹھ خواتین تھیں،ان کے بقول ان میں سے ایک عالمہ تھیں جنہوں نے باقی سب کو اس حوالے سے روشنی کی راہ دکھائی اور بعد میں یہ معلوم ہوا کہ وہ عالمہ خاتون اصل میں امینہ ودود تھیں جو کافی عرصہ قبل امریکہ چلی گئیں ۔
یہ خواتین بہت agressive اور confidentہیں۔ ان کے پاس مظالم کی طویل داستانیں ہیں۔جو ان کے تجربے میں آئیں۔اب یہ خواتین کو guideکرتی ہیں۔انہیں قانونی امداد فراہم کرتی ہیں، ان کوتربیت دیتی ہیں اور ان کے پاس جا کے ان کی مدد بھی کرتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے اندر تعصب تو تھا ہی۔ ہر آدمی جو جذبے کے ساتھ کام کرتا ہے وہ نہ کچھ تو کچھ متعصب تو ہوتا ہی ہے۔لیکن اگر آپ ان کے ساتھ ڈھنگ کے ساتھ گفتگو کریں تو آپ یہ محسوس کریں گے کہ وہ آپ کی بات، کم از کم سننے کی حدتک تو ،پوری طرح تیارہوتی ہیں ۔اب ان خواتین کی تعداد پچاس ہے اور یہ اپنی تعداد بڑہانے میں بہت محتاط ہیں۔ البتہ ان کا نیٹ ورک اب خاصا پھیلا ہوا ہے اب انہوں نے علما کو بھی ٹریننگ دینی شروع کر دی ہے۔
اصل میں مختلف مسلم معاشروں میں جب لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہمارا دین ہے کیا اور کہاں سے حاصل ہوتا ہے تو روایتی مولوی حضرات اسے سمجھا نہیں پاتے اور ان کی تعبیرات کے حوالے سے دو قسم کے رد عمل پیدا ہوتے ہیں ایک تو لوگ یہ کہہ کر فارغ ہو جاتے ہیں کہ اب یہ چیزیں قابل عمل نہیں اور وہ دین ہی سے ناتا توڑ لیتے ہیں البتہ دوسر ی قسم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے دین کو خود سمجھیں گے اور جو سمجھ میں آیا تو اس پر عمل کریں گے ۔ یہ خواتین بھی اسی قسم سے ہیں اور اپنی اس کاوش کی نتیجے میں انہوں نے دین کی بعض محکم چیزوں کو بھی نیا رنگ دینے کی کوشش کی ہے جو کہ محل نظر ہے ۔
یہ خواتین عربی زبان سے نا بلد ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ کوئی ایسا ضروری بھی نہیں ہے۔تراجم اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ کوئی مشکل نہیں۔ لوگوں سے گفتگو کے نتیجے میں مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آ جاتے ہیں آپ ان کا تقابلی جائزہ لے کر صحیح بات تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں اصل چیز یہ ہے کہ آپ صحیح بات کوrationalطریقے سے معلوم کریں اور پھر اسے صحیح طریقے سے communicateکریں۔جب ہم نے ان سے یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا آپ کا دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و سنت تک بواسطہ عربی زبان تک رسائی بھی ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے کچھ reaction کا اظہا رکیا۔ اور کہاکہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے ،اگر چہ ہم اس کے لیے بھی کوشش کر رہے ہیں ۔
انڈونیشیا میں صورتحال اس سے مختلف ہے۔وہاں ہم کو جس ادارے کے تحت لے جایا گیاوہ بالکل مختلف ادارہ ہے۔ان کا سسٹرز ان اسلام سے زیادہ ربط بھی نہیں ہے۔یہ چند intellectuals ہیں جس میں مردبھی ہیں اور عورتیں بھی۔ انہوں نے ہم کو سیمینارز کرائے۔ایک سیمینار جکارتہ میں ہوا۔ایک دو سیمینارز نسبتاً چھوٹے شہر چیری بون میں ہوئے اور ایک پھر ان کا ایک اور بڑا شہر ہے جوگیا کارتا وہاں ہوا۔جکارتہ میں جو سمینار ہوا ، اس میں تین خواتین تھیں جنہوں نے اپنی اپنی presentationکی۔اس میں جن مسائل کو زیادہ highlight کیا گیاوہ تھے تعدد ازواج، شوہر کا بیوی کو مارنے کا حق،شوہر کا بیوی کو طلاق دینے کا حق ،جو بیوی کو حاصل نہیں ہے۔اس کے علاوہ وراثت میں لڑکے کا لڑکی سے زیادہ حق ہونا۔ غرض یہ کہ انہوں نے جہاں کہیں بھی اسلامی تعلیمات میں مرد و عو رت کے بارے میں رویوں میں تفاوت محسوس کیااس کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے یا کم کرنے کی۔
انڈونیشیا میں جو بات میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ وہاں ان کوپرانے سسٹم میں سے کچھ علما ایسے مل گئے ہیں کہ جو باقاعدہ دین کے دلائل پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موجودہ آزادی نسواں کی روش عین دین کی روح کے مطابق ہے۔۔مثال کے طور پر ایک ان کے بڑے عالم جن سے ملاقات ہوئی حسین محمد صاحب ہیں۔ انہوں نے تعد د ازواج کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے اور ثابت کر نے کی کوشش کی ہے کہ اسلام میں تعد دازواج اس طرح نہیں ہے جس طرح لوگ سمجھ رہے ہیں اسی طرح مذکورہ باقی موضوعات پربھی وہ لکھ رہے ہیں۔
جو پریزنٹیشن میرے لیے سب سے زیادہ پریشان کن تھی ۔ وہ ایک نوجوان عالم کی تھی کہ جس میں انہوں نے یہ بتایا کہ ہمارے ہاں دین سے استنباط کرنے کا کیا طریقہ ہے ۔(ان کی گفتگو اپنی زبان میں ہوتی تھی پھر ہمیں ترجمان بتاتے تھے البتہ سلائیڈز پر بھی ساری چیز سامنے آ جاتی تھی) انہوں نے بتایا کہ اب تک تو یہ ہوتا رہاہے کہ امت دین کے ماخذوں میں قرآن ، سنت ، حدیث، اجماع ، اجتہاد ، قیاس و مصلحت عامہ کو مانتی رہی ہے ۔لیکن انہوں نے کہاکہ اب حالات کے بدلنے کے بعد ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ تمام کے تمام مختلف ذرائع تو اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن اب ان کی ترتیب بدلنی چاہیے اور اس بدلی ہوئی ترتیب کے مطابق ان سے دین کو اخذ کرنا چاہیے۔ اب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے پہلے مصلحت عامہ کو رکھا جائے چنانچہ اب مصلحت عامہ کو دیکھ کر دین کے باقی احکام کو اس کے مطابق ایڈ جسٹ کیا جائے گا۔ان کا اصرار ہے کہ دین کا اب تقاضا یہ ہی ہے ۔ ان کے خیال میں اب آپ کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو آپ اپنے اس دین اور اس کی کتاب کو کسی میوزیم میں رکھ دیں اور وہاں کبھی کبھار اس کا مشاہدہ کر لیا کریں یا اگر آپ نے اس کو دورِحاضر سے relevantبنانا ہے تو آپ کو پھر یہ کام لازما کرنا ہوگایعنی حالات کا تقاضا اور مصلحت عامہ دیکھ کر دین کی تشریح و تعبیر کرنا ہو گی۔ان کے خیال میں اب دین کی حفاظت کا یہ لازمی تقاضا ہے ۔
ہمیں ایک روایتی مدرسے میں لے جایا گیا۔اس میں یوں سمجھیے کہ پہلی جماعت سے میٹرک تک کی عمروں کے بچے ہوں گے۔ پانچ سو لڑکے اور پانچ سو لڑکیاں وہاں پڑھ رہے ہیں اور بالکل روایتی انداز میں ۔ا س طرح کے مدرسوں کا جال بھی پورے انڈونیشیا میں پھیلا ہوا ہے ۔اوریہ ادارے، جہاں ہمیں لے جایا گیاتھاانکے اثرات اب مدرسوں تک بھی پھیلنا شروع ہوگئے ہیں۔اس سے قبل میں نے جن علما کی بات کی یہ اصل میں یہیں سے نکلے ہوئے لوگ ہیں۔
ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ماحول کے لحاظ سے ایک بڑی اجنبی چیز یہ تھی کہ مسجد بھی تھی اورمسجد کے باہر زوردار طریقے سے ڈھول بھی بج رہا تھا، بچے شور بھی مچارہے تھے۔ ہم سب سے کہا گیا کہ آپ اپنے اپنے تاثرات بیان کریں۔ہمارے وفد کی چاروں خواتین نے ایک تبصرہ کیا کہ بہت ریفریشنگ ماحول لگ رہا ہے ۔ مدرسہ بھی ہے لڑکیاں بھی ہیں اور لڑکے بھی ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ اب اس دور کا trend ہے ۔ جس میں ایک عام دینی ذہن کا آدمی بھی اس چیز کو پسند کرتا ہے ۔
اگلے دن ہم ایک ایسے ادارے میں گئے جس کو وہ crisis centre کہتے ہیں۔ اس میں کچھ خواتین کام کرتی ہیں اور ان کا کام یہ ہے کہ معاشرے میں خواتین کے اوپر جوزیادتیاں ہوتی ہیں وہ اس میں ان کی مد د کرتی ہیں ۔ایک بڑی خوفناک چیز انہوں نے یہ بتائی کہ ایک مدرسہ میں اس کے ایک عالم استاد نے اپنی چالیس طالب علم لڑکیوں کو Rape کیا،وقتاً فوقتاً،اور اکثر بچیوں کو پتا بھی نہ چلا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کیونکہ اس نے یہ بھیانک فعل دین کے نام پر اور گویا روحانی تربیت کے بہانے کیا ۔ہم نے پوچھا کہ اس پر شور کیوں نہیں مچا؟انہوں نے کہا کہ یہ علما جنہیں کیا ئی کہا جاتا ہے اپنے معاشرے کے بڑے اہم اور معزز فرد ہوتے ہیں ان کے خلاف آواز بلند کرنا آسان نہیں ۔اصل میں دین کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کی اس طرح کی حرکتیں ہیں جو پھر دین کے خلاف ردعمل کا باعث بن جاتی ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ اس میں لوگ یا تو دین کو با لکل چھوڑ جاتے ہیں اور یا پھر اپنے طور پر جو سمجھ آئے اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم معاشروں میں خواتین پر بہت مظالم ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر دین دار طبقہ خاموش رہتا ہے اور اس کی مذمت نہیں کرتا۔ان کے نزدیک میراتھن ریس اور اس طرح کے معاملات زیادہ seriousہیں۔لیکن ایک بیچاری بیوی جس کو مارمار کے ادھ موا کر دیا جاتا ہے اس کا پرسان حال کم از کم دین دار طبقے میں کوئی نہیں ہوتا ۔ملائشیامیں ایک ایسی مظلوم عورت نے اپنی stateکے علماسے یہ کہا کہ مجھے صرف طلاق دلوا دو۔تو انہوں نے کہا کہ نہیں خاوند کومارنے کا حق حاصل ہے تمہیں اس کے گھر جانا ہوگا۔طلاق لینے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے ۔ اس نے اپنے وکیل سے مشورہ کیا تو وکیل نے یہ کہا کہ تمہارے پاس اپنے میاں سے جان چھڑانے کا صرف ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے وہ یہ کہ تم اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دے دو۔تمہارانکاح فسخ ہو جائے گا۔چنانچہ اس نے ایسا کیا اور اپنے خاوند سے جان چھڑائی۔
جو ظلم آپ معاشرے میں کریں گے ۔ اگر آپ اس کے بارے میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کا نوٹس نہیں لیاجارہا ہے اور لوگ اس کے خلاف بظاہرreactنہیں کر رہے ۔تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ وہ ظلم اپنے نتائج پیدا نہیں کرے گا۔
پاکستان سے جو خاتون ہمارے وفد میں ساتھ گئی تھیں انہوں نے بتایا کہ میں ایک این جی او چلا رہی ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ چولھا پھٹنے کے نتیجے یا بہانے بہت سی خواتین اور نئی دلہنیں جلا دی جاتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیا وجہ ہے کہ اتنی رپورٹس آتی ہیں خواتین کے خلاف تشدد اور زیادتی کی لیکن دین دار لوگ اس پہ کوئی آواز نہیں اٹھاتے اس کے علاوہ اخبارات میں ان لوگوں کے مختلف موضوعات پر بہت سے بیانات ہوتے ہیں کہ یہ کام شریعت کے خلاف ہو رہا ہے ،یہ ہو رہا ہے، وہ ہو رہا ہے۔ اگر واقعتا دین کی روشنی میں خواتین کے حقوق ہیں اورا ن حقوق کی بازیابی کی جدوجہد یہ دین دار طبقہ کرے، تو دین کا امیج زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔اصل میں دین دار طبقے کے کام نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جسے اب اس قسم کی خواتین پر کر رہی ہیں۔
ہمارے ساتھ ایک افغانی ساتھی تھے ان کے خیال میں ان اداروں کے لوگ ایمان ،دین سے بالکل محروم ہو چکے ہیں، میں نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمیں ان کی بات سننی چاہیے اور اپنی بات احسن طریقے سے بیان کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور ہوا بھی یہی کہ جہاں کہیں میں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا لوگوں نے بڑی توجہ سے اسے سنا لیکن ہمارے یہ ساتھی اس سے متفق نہ تھے ۔میں نے ان سے کہا کہ آپ کے افغانستان کا کیا حال ہے؟میڈیا کی کیا صورت حال ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ کچھ خواتین ہیں جنہوں نے کچھ بیہودگی شروع کی تھی ان میں سے ایک دو کو ختم کر دیا ۔بعض دین دار افغانیوں کے نزدیک یہ حل ہے مسئلے کا۔ اس حل پر بظاہر لوگ بہت خوش ہوتے ہیں لیکن یہ اتنا بھیانک حل ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک طویل المیعاد اور بہت گہرا رد عمل وجود میں آتا ہے جس کے دوررس نتائج کا لوگوں کو بالکل بھی احساس نہیں ہے۔یہ ردعمل اصل دین پر بھی حملہ آور ہوتا ہے اور معاشرے کی ہر اچھی روایت پر بھی۔اس لیے اس طرح کے حل سے اجتناب کرنا اور مثبت طریقے سے مثبت باتوں کو پھیلانے کی تربیت دینا وقت کی ضرورت ہے۔
اس سفر میں میرا ایک یہ تاثر قائم ہوا کہ المورد کی سطح پر دین کی تحقیق کاجو کام ہو رہاہے اس کی بڑی اہمیت ہے، اس کو ہمیں مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں اور اسلامی معاشر وں تک پہنچانا چاہیے۔ اس وقت اسلام کے حوالے سے دنیا کے سامنے دو ہی possibilitiesہیں ۔ ایک یہ کہ وہ بالکل conservative اورorthodox نقطہ نظر اختیار کریں جو کہ بہت سے گوشوں میں خود بے شمار مسلمانوں کے لیے ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہے یا یہ ہے کہ بالکل دوسری انتہا پر نکل جائیں یعنی مکمل آزاد ہو جائیں ۔کوئی دوسرا alternativeلوگوں کے سامنے موجود ہی نہیں ہے ۔