گزشتہ دنوں ایک عزیز کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے لاہور سے باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے لاری اڈے سے ویگن پر سوار ہونا تھا۔ میرے ساتھ میری اہلیہ بھی تھیں۔ میں نے ویگن والے سے درخواست کی کہ ہمیں فرنٹ سیٹ دے دی جائے۔ اس نے کہا کہ فرنٹ سیٹ پر اگرچہ دو سواریاں بیٹھتی ہیں مگر آپ کو کرایہ تین سواریوں کا ادا کرنا پڑے گا۔ جن لوگوں کو ٹرانسپورٹ کے طبقے سے واسطہ پڑتا ہے وہ جانتے ہیں کہ مسافروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر انھیں بلیک میل کرنا اور زیادہ کرایہ وصول کرنا ان کے نزدیک باقاعدہ کاروبار کا حصہ ہے اور وہ اسے بے جا بھی نہیں سمجھتے۔
میری اہلیہ کے گھٹنوں میں تکلیف تھی لہٰذا کم و بیش تین گھنٹے تک ویگن کی پچھلی تنگ سیٹوں پر بیٹھنا ان کے لیے ممکن نہ تھا لہٰذا بغیر کسی حیل و حجت کے ویگن مالک کی اس عنایت کو قبول کرکے ہم اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ جن لوگوں نے ویگن میں سفر کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ فرنٹ سیٹ اصلاً ایک مسافر کی جگہ ہے۔ دوسری سیٹ انجن کے عین اوپر بنائی گئی ہے جس پر بیٹھنے والا مسافر نہ ٹانگیں سیدھی کر سکتا ہے اور نہ صحیح طریقے سے بیٹھ سکتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ سیٹ انجن کی حرارت کے باعث گرم ہو جاتی ہے لہٰذا خاص طور پر گرم موسم میں اس پر سفر کرنے والے شخص کو ہر چند منٹوں کے بعد پہلو بدلنا پڑتا ہے۔ خیر! ویگن روانہ ہوئی اور میں نے اپنی مشکلات اور میری ہم نشین نے اپنے سکون کے ساتھ سفر کا آغاز کیا۔
کچھ دور چل کر ویگن جب ایک اشارے سے گزری تو ٹریفک سارجنٹ نے اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ڈرائیور نے ویگن روکی، ایک اوٹ میں وہ اپنے کنڈکٹر کے ساتھ سرکار کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ دیر کے بعد واپس آگیا۔ دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور ویگن سٹارٹ کرکے اسے راستے پر ڈال دیا جو کچھ ڈرائیور کے ساتھ ہواہو گا وہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے مخاطب کرکے گفتگو شروع کر دی:
ڈرائیور: دیکھیے جی کتنا ظلم اور زیادتی ہے۔ ہم ان پولیس والوں کو باقاعدہ ماہانہ بھتہ دیتے ہیں پھر بھی یہ لوگ ہمیں معاف نہیں کرتے۔
میں: آپ انھیں بھتہ کیوں دیتے ہیں؟
ڈرائیور: صاحب دیکھیے ہماری ویگن ۱۸ سیٹوں کے لیے منظور ہوئی ہے ہم قانونی طور پر اتنی ہی سواریاں بٹھا سکتے ہیں مگر ہم پھٹہ لگاتے ہیں (یہ ان کی خاص اصطلاح ہے۔ اس سے مراد ان چار سواریوں کی جگہ ہے جو وہ ڈرائیور اور فرنٹ سیٹ کے بالکل پیچھے تنگ سی جگہ پر بٹھا لیتے ہیں) اور ہم فرنٹ سیٹ پر بھی دو کے بجائے تین سواریاں بٹھا لیتے ہیں۔
ڈرائیور نے اپنی یہ حکمت عملی اتنے اعتماد کے ساتھ بیان کی کہ میں اس پر کوئی تبصرہ نہ کر سکا۔ کچھ دیر کے بعد شاید اسے احساس ہوا کہ اس نے زاید کرایہ وصول کرکے ہمارے ساتھ بھی تو زیادتی کی ہے شاید اس کے ضمیر میں ابھی زندگی کی کوئی رمق باقی تھی لہٰذا اس نے یہ وضاحت ضروری سمجھی۔
‘‘دیکھیے صاحب جی! کسی کو کہہ کر اور بتا کر لے لینا جائز اور حرام نہیں ہے۔ دیکھیے ہم نے آپ کو پہلے بتا دیا تھا کہ ہم آپ سے تین سواریوں کا کرایہ لیں گے۔ اس لیے یہ ہمارے لیے جائز ہے۔ مگر یہ پولیس والا کتنا ظالم ہے۔ حرام کھاتا ہے۔
ڈرائیور جس جگہ سے بول رہا تھا وہاں اس کی بات کا تجزیہ کرنا اور اسے کوئی بات سمجھانا یا نصیحت کرنا فضول تھا مگر میں نے سوچا کہ دیکھو اس نے جو استدلال کیا ہے وہ کتنا بودا اور بے اصل ہے۔ یہ کہتا ہے کہ کسی کو بتا کر اور کہہ کر اس سے زیادتی کی جا سکتی ہے اور اس زیادتی کو ظلم نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیا یہ بات واقعی اس کی سمجھ میں نہیں آئی؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ڈرائیور خوب سمجھتا ہے کہ اس نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے مگر اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے اس نے ظلم اور عدل کی خود ساختہ تعریف تراش لی ہے۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ ظلم بہرحال ظلم ہے وہ خواہ کہہ کر کیا جائے اور خواہ بے کہے۔ اس نے ہم سے پینتالیس روپے ناجائز وصول کیے مگر چند ہی لمحوں بعد اسے (کم از کم ) سو ؍ دو سو روپے پولیس والے کو دینے پڑے۔
یہ قانونِ مکافات ہے۔ مگر انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے وہ معاملات مسائل کو سمجھنے کے لیے عقل استعمال کرنے کے بجائے پیٹ اور جذبات سے سوچتا ہے۔ وہ عدل و انصاف اور ظلم و زیادتی کے خود ساختہ معیارات تراش کر ظالم ہونے کے باوجود خودکو مظلوم اور اپنے ظالمانہ رویے کو عین انصاف کا تقاضا سمجھتا ہے۔
مکافات عمل کا یہ سلسلہ دنیا میں پوری توانائی کے ساتھ جاری ہے مگر انسان اپنے انجام سے غافل ہو کر بھول جاتا ہے کہ ایک روز اسے عالم کے پروردگار کی بارگاہ میں حساب کے لیے پیش ہونا ہے۔
‘‘اس دن لوگ الگ الگ ہوں گے جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ بھی اس کو دیکھے گا اور جن نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھے گا۔’’
اس میں کوئی شک نہیں جب انسان خیانت اور ظلم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا ضمیر اسے برملا طور پر بتا دیتا ہے کہ وہ چور ہے چوری کر رہا ہے۔ کیونکہ گناہ، ظلم اور زیادتی اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ وہ یہ جرائم اس وقت کرتا ہے جب وہ شیطان کے بھرے میں آکر خلافِ فطرت طرزِ عمل اختیار کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔انسان کی فطرت کی اس صالحیت اور کجروی کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
‘‘برا ہوناپ تول میں کمی کرنے والوں کا! جو دوسروں سے نپوائیں تو پورا نپوائیں اور جب ان کے لیے ناپیں یا تولیں تو اس میں کمی کریں۔’’
اللہ تعالیٰ نے بطور مثال یہ بات بیان کی ہے کہ کوئی شخص جب گھر سے سودا لینے کے لیے نکلتا ہے تو کبھی یہ نہیں کہتا کہ اللہ کرے ایسا ہو کہ جس سے مجھے سودا لینا ہے وہ مجھے سیر کا تین پاؤ یا ایک گز کا چودہ گرہ دے بلکہ اس کی آخری درجے میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ چیز پوری لے بلکہ پوری سے زیادہ لے مگر وہی چیزجب وہ دوسروں کو دیتا ہے تو ناپ تول میں کمی کرتا ہے۔