اردگان کے دیس میں
ڈاکٹر خالد عاربی
چھٹا دِن
منگل ۔۲۵ ستمبر ۱۹۱۷ء
آج کی صبح استنبول میں ہماری پہلی صبح تھی۔ ہوٹل میں آنکھ کھلی اور ہوٹل میں ہی نماز فجر ادا کی ۔افسوس کہ میں اپنے ہوٹل کے قریب کوئی مسجد ،تلاش کے باوجودنہ پا سکا ۔ نماز کے بعداستنبول کی پہلی صبح کا نظارہ کرنے لیے باہر نکل آیا ۔ باہر ہلکی پھلکی پھوار پڑ رہی تھی جس سے موسم بہت ہی پر لطف ہو گیا تھا میں تقسیم اسکوائر تک گیا ،جہاں تک رات گئے تھے ،لیکن ایک اور راستے سے۔جیسا کہ پہلے کہا یہ سارا علاقہ تاکسم کہلاتا ہے ۔ ضلع تاکسم یا تقسیم ،کچھ کہہ نہیں سکتا،اصل املا کیا ہے ۔ یہاں پر ہوٹل ہی ہوٹل تھے ، صاف ستھرے اور چمکتے ہو ئے۔ سڑکیں دھلی ہو ئیں تھیں اور ماحول نتھرا ہوا۔ چوک تاکسم سے مختلف اطراف میں بہت سی سڑکیں نکل رہی تھیں اور یہ سب بازار اورشاپنگ پلازے تھے جیسا کہ ہمارے فیصل آباد کا گھنٹا گھر چوک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ فیصل آباد کا گھنٹا گھرچوک تنگ اور ٹریفک کے دباؤ کا شکار رہتا ہے،جب کہ یہ زیادہ کشادہ،صاف ستھرا اورٹریفک سے پاک ہے۔ صفائی اتنی کہ نیچے والا فرش جو چمکتی ہوئی گرینائٹ کی ٹائیلوں سے بنا تھا ، آئینے کی طرح شفاف تھا۔رات بھی ہم یہاں آئے تھے اور کچھ مشاہدات پہلے لکھ بھی چکا ہوں۔ صبح کا وقت تھا آمد و رفت بہت کم تھی ،سا رے بازار بند تھے البتہ ناشتے اور چائے کے ہوٹل کھلے تھے ۔ چوک کے ایک طرف پبلک ٹرانسپورٹ کا اڈا تھا اور غالباً نیچے تہ خانے میں میٹرو بس کا سٹاپ ہو گا ۔میں گھنٹہ بھرکی واک کے بعد واپس کمرے میں آگیا۔
ہمارے آج کے پروگرام میں احمد اسکوائر کی طرف جانا شامل تھا ۔ اس کے لیے دس بجے کاوقت مقرر تھا۔غسل کیا، کپڑے تبدیل کیے اور ناشتے کے لیے ہوٹل کے اندر بنے ہو ئے ڈائنگ ہال میں آگیا ۔ جہاں انواع و اقسام کے بیسیوں کھانے سجے دعوت طعام دے رہے تھے ۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق ناشتہ کے لیے دہی ،ابلا ہوا انڈا اور چائے کا کپ لیا اور ساتھ ساتھ تربوز کی قاشیں بھی پلیٹ میں رکھ لیں اور کھانے کی میز پر آگیا۔ ناشتے کے بعد لابی میں آگیا۔آہستہ آہستہ کر کے میرے دیگر ساتھی بھی لابی میں پہنچ گئے اور اتنے میں،ہماری آج کی سیاحت کے لیے گاڑی اور ہماری گائیڈ بھی آ گئیں۔ ان سے باہمی تعارف ہوا اور پھر ہم گاڑی میں بیٹھنے کے لئے ہوٹل سے باہر آ گئے۔ اس دفعہ بھی ہماری گائیڈ ایک خاتون تھی تاہم وہ انطالیہ والی گائیڈ سے زیادہ سوبر اور باوقارلگ رہی تھی اور پیشہ ورانہ طور پہ انتہائی لائق معلوم ہو رہی تھی ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی گائیڈ نے ایک بار پھر اپنا تعارف کرایا اور ہمیں آج کے پروگرام سے آگاہ کیا ۔ استنبول میں ایک بھر پور دن ہمارا منتظر تھا۔ مختلف شاہراہوں ،سڑکوں اور چوکوں سے گزرتے ہو ئے ہم نے دیکھا کہ استنبول شہر، عمارتوں کے لحاظ سے بڑا ہی گنجان شہر ہے ۔ عمارت پر عمارت چڑھی ہو ئی معلوم ہو تی تھی،اور عمارتیں بھی دس دس منزلہ، تاہم شہر میں بے پناہ سبزہ تھا، خوبصورت درخت اور صاف ستھری تازہ ہوا اور انتہائی صفائی ۔
انطالیہ کے مقابلے میں اس شہر پر آبادی اور ٹریفک کا دباؤ بہت زیادہ ہے ۔ گائیڈ سے معلوم ہوا کہ استنبول میں پونے دو کروڑ لوگ بستے ہیں اور انطالیہ میں صرف بائیس لاکھ ۔ ’’یہ گولڈن ہارن ہے۔‘‘ ایک پل پر سے گزرتے ہو ئے گائیڈ نے ہمیں بتایا ۔
میرے کان کھڑے ہوئے ،گو لڈن ہارن ،یعنی شاخ زریں ۔اس کا نام توپہلے ہی پڑھ رکھا تھا اوراب اسے دیکھنے کاشدید اشتیاق تھا،اور جب گائیڈ کی زبان سے یہ لفظ سماعت سے ٹکرایا،تو میرے کان کھڑے ہوئے اور پورے انہماک سے اس کو دیکھنے لگا۔ میں نے اس کا ذکر قسطنطنیہ کی فتح کے ذکر میں پڑھا تھا اور اب یہ سنہری شاخ میرے سامنے تھی ۔گولڈن ہارن دراصل ابنائے باسفورس سے نکلی ہوئی ایک سمندری نہر ہے جو کچھ دور تک خشکی کے اندر چلی گئی ہے ۔گولڈن ہارن کا پانی شفاف اور نیلگوں تھا اور اس کے اطراف کثیر المنزلہ عمارات پھیلی ہوئی تھیں ۔نہر کے اندر دلکش رنگوں والی کشتیاں رواں تھیں پل کراس کرنے کے بعد بھی ہم کافی دیر تک اس سمندر کے کنارے چلتے رہے، یہ سمندر آبنائے باسفورس کہلاتا ہے ۔اس کا تفصیلی تذکرہ آگے آتا ہے۔یہ بہت خوبصورت منظر تھا سڑک کے ایک طرف سمندر اور دوسری طرف بلند عمارتوں کا جنگل ۔ سمندر کے دوسری طرف بھی بلند اور چمکیلی عمارتیں نظر آرہی تھیں۔جس پہ ہمیں حیرت ہو رہی تھی کہ ہم نے تو سن رکھا تھا کہ سمندر کا دوسرا کنارہ نہیں ہوتا مگر یہاں سمندر کے دوسرے کنارے پر بلند عمارتیں نظر آرہی تھیں ۔ یہ کیا ماجرا ہے ؟۔ گائیڈ بتا رہی تھی ،’’یہ آبنائے باسفورس ہے، یہ وہ قدرتی دریا ہے جو دو سمندروں کو آپس میں ملاتا ہے اور دو بر اعظموں کو جدا کرتا ہے ۔قدرت کا یہ عظیم الشان شاہکار،یہ دریا نما سمندرہی ،دراصل پہچان ہے استنبول کی۔گویا یہ ہے تو سمندر لیکن دریا ایسی چوڑائی رکھتا ہے اس لیے اس کا دوسرا کنارہ اور وہاں کی عمارات ہمیں نظر آرہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھی،کہ یہ عمارتیں ہیں تو استنبول کی ،مگر یہ بر اعظم ایشیا میں واقع ہیں اورہم اس وقت بر اعظم یورپ میں ہیں ۔‘‘یہی وہ بے مثل بات ہے جو استنبول کو جغرافیائی اعتبار سے بے نظیر بناتی ہے۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو دو بر اعظموں کے سنگم پہ واقع ہے ۔ آدھا استنبول ایشیا میں اور آدھا یورپ میں ہے،اور دونوں حصوں کے درمیان یہ آبنائے باسفورس ہے۔ہم جس سڑک پر رواں دواں تھے اُس کے ایک طرف توآبنائے باسفورس تھی اور دوسری طرف عمارتیں نظر آ رہی تھیں۔ایک دیوار ،جو کہ قدیمی دکھائی دے رہی تھی،کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گائیڈ نے بتایا کہ یہ’’ توپ کپے محل‘‘ کی دیوار ہے اور ہم ابھی اسی محل کی طرف جا رہے ہیں۔اتنے میں سٹاپ آگیا اورہم لوگ گاڑی سے اتر آئے اورایک طرف کو پیدل چل پڑے ۔ یہ ایک چڑھائی والا راستہ تھا بڑا وسیع و فراخ ، چڑھائی چڑھتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ ایک بڑی عمارت ہے جس کے گنبد اور مینار واضح ہونے شروع ہو ئے تھے ۔ بتایا گیا کہ یہ آیا صوفیا ہے ۔راستہ چڑھتے ہو ئے دائیں جانب کو ایک بڑا سیاہ گیٹ نظر آیا یہ’’ توپ کپے محل‘‘ کا صدردروازہ تھا ۔ہماری گائیڈ دروازے کی طرف بڑھی اور واپس آکر مایوسی سے ہمیں بتایا کہ ’’یہ محل تو آج بند ہے ۔‘‘
ہمیں اس بات کا دکھ تھا کہ ہم اس تاریخی محل کو اندر سے نہ دیکھ سکے کیونکہ ہم نے اس کے بارے میں بہت کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا جس پر گائیڈ نے ہمیں یہ خوشخبری سنائی کہ’’ آج تو ہم اس علاقے کے دوسرے تاریخی مقامات کی سیر کرلیتے ہیں اور کل دوبارہ آ کر اس محل کو دیکھیں گے ۔ چلو ہم چرچ کی طرف چلتے ہیں جو یہاں قریب ہی ہے، وہ سامنے ۔‘‘ہم پیدل ہی اس طرف کو چل پڑے ،اب ہماری اگلی منزل آیا صوفیا تھی ۔ یہ وہ قدیمی چرچ تھا جو صدیوں تک عیسائیت کا مرکز رہا تھا اور مدتوں نا قابل تسخیر ۔ یہ چرچ تھا جس کو سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد مسجد میں تبدیل کر دیا تھا اور آج ہمارے قدم اُس عظیم الشان عمارت کی طرف اُٹھ رہے تھے ۔
آیا صوفیا چرچ
استنبول کے پرانے شہر میں سب سے زیادہ جس جگہ کا دورہ کیا جاتا ہے،وہ عظیم چرچ ہے جو بازنطینی دور حکومت کی یادگار اور سلطان محمد فاتح کی فتح قسطنطنیہ کی پہلی نشانی ہے ۔ یہ عمارت بازنطینی سلطنت کا ہیرہ ہے یہ شاندار عمارت یونانی ارتھو ڈکس عیسائی عقیدے کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد فاتح مجاہد نے اس کو مسجد میں تبدیل کیا اور پھر صدیوں تک یہاں اذانیں گونجتی
ر ہیں اور اللہ کے حضور لوگ سجدہ ریز ہوتے رہے۔۱۹۲۳ء میں کمال اتاترک نے جب جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھی اور خلافت اسلامیہ سے اپنا ناطہ توڑ کر،یہاں خالص سیکولرزم کا پرچارشروع کیا اورکمال ازم کابالجبر نفاذ کیا تو ترکی میں مساجد کو یا تو بند کر دیا گیا یا وہ عمارتیں کسی اور مقصدکے لئے استعمال کی جانے لگیں، تواُس دورمیں اس مسجد کوبھی،مسجدسے میوزیم میں بدل دیا گیا اذانیں اور نمازیں ممنوع قرار دے دی گئیں۔ اُس دن سے آج تک ،یہ عمارت میوزیم ہی کا درجہ رکھتی ہے اور کل جہاں مسلمانوں کی پیشانیاں سجدے کرتی تھیں آج وہاں سیاحوں کے بوٹ دھمکتے ہیں۔ ہم۲۶۔ ستمبر۲۰۱۷ء کی صبح اس میوزیم میں حاضر ہوئے تھے۔مجھے دور سے ایک بڑا گنبد اور مینار نظر آیا،تو گائیڈ سے پوچھا کہ یہ کونسی مسجد ہے؟اس نے بتایا کہِ ’’یہ مسجد نہیں بلکہ میوزیم ہے جس کی طرف ہم آئے ہیں۔ ماضی بعید میں یہ عظیم عمارت عیسائی دنیا کی نہ صرف عبادت گاہ تھی بلکہ صدیوں تک اُن کا سیاسی ہیڈ کوارٹر کا درجہ بھی رکھتی تھی۔‘‘
یہ وہ عمارت ہے جو دنیا بھر میں آیا صوفیا چرچ کے نام سے مشہور ہے۔یہ بازنطینی فن تعمیر کا شاہکار ہے، جو۵۳۷ء میں تعمیر ہوا تھا ۔اس کو آج پندرہ صدیاں گزر گئیں ہیں،لیکن عمارت کے شکوہ اور شوکت میں فرق نہیں آیا ۔وہ کیا کاریگر تھے اوروہ کیا آرکیٹیکٹ تھے !!اور کیا وہ بلڈنگ میٹیریل تھا!!انسان حیرت زدہ رہ جاتاہے۔
آیا صوفیا کے اندر جب آپ داخل ہوتے ہیں تو ایک بہت وسیع و عریض ہال آپ کا استقبال کرتا ہے ۔بہت اونچا روشن اور ہوادارہال ،نہ جانے کہاں کہاں سے سنگ مر مر لایا گیا ہوگا ۔سنگ احمر اور سنگ اسود اور کئی قسم کے پتھر ،بڑے بڑے،ماربل کے ستون (یعنی محیط میں بھی اور اونچائی میں بھی بڑے ) ، فرش کے پتھر اور نقش و نگار کاڈیزائن ،رنگا رنگ باریک باریک سنگریزے ، ایک شاہکار عمارت،سنگ و خشت کا حسین امتزاج۔بڑے بڑے دروازے، قیمتی لکڑی اور ان پر کندہ کاری ، اُن خوبصورت کاریگروں کی انگلیوں پہ میں قربان جاؤں جنھوں نے یہ فن پارے تراشے۔دیواروں پر جا بجا تصاویر کندہ کی گئی ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جناب عیسیٰ علیہ ا لسلام اور اُن کی والدہ محترمہ سیدہ مریم ؑ کی اور اُن کے اصحاب اور دیگر اولیاءِ کرام اور فرشتوں کی اور کئی حکمرانوں کی تصویریں ہیں۔ اپنے ڈیزائن اور فن کے اعتبار سے بلاشبہ یہ فن مصوری کے اعلیٰ نمونے ہیں۔میں تو اُن رنگوں پر حیران ہوں جو صدیاں گزرنے کے بعدبھی پھیکے نہیں پڑے۔گائیڈ کے مطابق جن سالوں میں یہ عمارت مسجد کے طور پہ استعمال ہو تی تھی ،تب ان تصاویر پر کپڑے کے غلاف چڑھا دئیے گئے تھے ،یعنی عثمانی ترکوں نے ان فن پاروں کو تباہ و برباد کرنے کی بجائے ان کو چھپا دیا تھا تاکہ عمارت کے اندر ،عبادت میں خلل نہ آئے اور جب۱۹۳۵ء میں اس عمارت کو مسجد سے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا تو پھر ان تصویروں سے غلاف اُتار دئیے گئے تاکہ یہ فن پارے اپنی داد پا سکیں۔ یہ عمارت ایک قسم کا تعمیراتی معجزہ ہے اس کو کماحقہVisit کرنے اور اس کے ایک ایک گوشے کی تفصیل معلوم کرنے اور اس کو ملاحظہ کرنے کے لیے بہت طویل وقت درکار تھا لیکن وہ ہمارے پاس کہاں؟اتنے قلیل وقت میں توصرف اس پر ایک طائرانہ نگاہ ہی ڈالی جا سکتی ہے سو وہ ہم نے ڈالی۔ہم لوگوں نے کچھ تفصیلات اپنے کیمروں میں بھی منتقل کیں اور کچھ سیلفیاں بنائیں۔جب اس عمارت کو بطورمسجد استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہوگا تو لازم تھا کہ امام صاحب کے مصلیٰ کی جگہ تعمیر کی جاتی ، موذن کی نشست گاہ اورخطیب کے لیے چبوترہ بنایا جاتا،سو یہ الگ سے بنائے گئے،جو ہمیں نظربھی آرہے تھے ،لیکن یہ سب عمارت کے مجموعی مزاج کے مطابق ،کچھ اس طرح سے تعمیر کیے گئے کہ بجائے اضافی تعمیرات کے اوریجنل تعمیر کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ گنبد تو اصلی تھے کیونکہ اس دور میں بڑی بڑی عمارتوں کی چھتیں گنبدوں سے بنائی جاتی تھی البتہ اس عمارت کے بلند وبالا مینار وں کے بارے میں بھی ،یہی بتایا گیا ہے کہ یہ اوریجنل چرچ کاحصہ نہ تھے بلکہ بعد میں عثمانی حکمرانوں کا اضافہ ہیں کیونکہ انھوں نے اس کو مسجد قرار دیا تھا اور مسجد کی نشانی تو پھر مینار ہی ہو سکتے تھے ۔چرچ کے اندر ایک طرف لائبریری بھی تھی جو سلاطین کے دور میں استعمال ہوتی تھی،لیکن اس وقت تعمیرو مرمت کے باعث،سیاحوں کے لیے بند تھی۔ چرچ کی عمارت میں ہی،ایک کونے میں ایک گفٹ شاپ بھی قائم تھی،جس میں مختلف اشیاءِ سجاوٹ وآرائش بیچی جا رہی تھیں۔ہم ایسے شائقین کتب کے لیے ،اُس دکان میں ایک طرف کو گوشہ کتب بھی موجود تھا جس میں سیاحوں کے لیے معلوماتی کتابیں اور کتابچے برائے فروخت موجود تھے۔ایک کتاب مابدولت نے بھی خرید فرمائی جو استنبول کے بارے میں معلوماتی کتاب ہے۔چرچ کی وسعت،اُس کی غیر معمولی اونچائی اور اُس کی اندرونی تزئین و آرائش حیرت انگیز تھی۔واقعتاً یہ عمارت ،اپنے دور میں عمارتوں کی بادشاہ تھی۔کہا جاتا ہے کہ جب یہ عمارت مکمل ہوئی تو اس کو دیکھ کرشہنشاہ کانسٹائن نے کہا’’ او! سلیمان،یہ ہے عمارت ،اب کرو مقابلہ میرا۔‘‘اس کا اشارہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی طرف تھا جو ایک طرف تو اللہ کے نبی تھے اور دوسری طرف ایک عظیم الشان بادشاہ۔انھوں نے ہی بیت المقدس تعمیر کیا تھا،اور یہ بادشاہ اپنے آپ کو ان سے زیادہ عظیم ثابت کر رہا تھا۔ اور واقعتاً یہ عمار ت ہے بھی معجزہ ،اس کو تعمیر کرنے والے اگر غرورکا مظاہرہ کریں تو وہ حق بجانب ہیں لیکن ظاہر ہے نبوت کا مقابلہ تو نہیں کیا جا سکتا۔اس عمارت کی دیگرہم عصر سب عمارتیں تو مٹ گئیں ہیں لیکن یہ ابھی تک پوری شان و شوکت سے قائم ہے تو کوئی وجہ تو ہے نا۔
قدیمی چرچ سے نکل کر اب ہمارا رُخ نیلی مسجد کی طرف تھا،جو کہ آیا صوفیہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھی۔لہٰذاہم پیدل ہی اس کی طرف چل پڑے۔ہمارے سامنے ایک کشادہ میدا ن نما علاقہ تھا جوکہ سیمنٹ سے پختہ بنایا گیا تھا،میں اس کو محض ایک گزرگاہ اور ایک کھلی تفریح گاہ سمجھ رہا تھا کہ ہماری گائیڈ نے بتایا،کہ مسجد اور چرچ کے درمیان یہ وسیع وعریض علاقہ بھی ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے،تو میرے کان کھڑے ہوئے،پوچھا ،’’میڈم کیا بتایا آپ نے،کیا یہ کھلی زمین بھی تاریخ ہے‘‘ وہ ہنس پڑی ،کہنے لگی ،’’جہاں ہم پھر رہے ہیں ،اس علاقے کا چپہ چپہ اپنی ایک تاریخ رکھتا ہے۔یہ وسیع وعریض میدان جو آپ دیکھ رہے ہیں اس کو ہپوڈرم کہتے ہیں ۔ یہ یونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں گھڑ دوڑ کا راستہ ۔ ترکش زبان میں اس کو’’ ات میدانی‘‘ کہتے ہیں۔کئی یورپی فلمیں ہیں، جو یہاں اس تاریخی میدان میں فلمائی گئی ہیں۔اصل گھڑ دوڑ تو نیچے کہیں دب گئی ہے۔‘‘گھڑ دوڑ ایک بہت قدیمی کھیل ہے آج بھی یہ دنیا بھر میں ایک مقبول کھیل ہے لیکن زمانہ قدیم میں تو یہ بہت ہی مقبول کھیل تھا۔اُس دور میں گھوڑاانسانی زندگی میں ایک اہم رول ادا کرتا تھا،خاص طورپر جنگوں میں توگھوڑے کا اہم ترین کردار ہوتا تھا۔یہ کسی بادشاہ یا سپاہ کی قوت کا پیمانہ ہوتا تھا۔اس لئے زمانہ قدیم میں گھوڑے کو پالنا اور اس کی خدمت کرنا اور اس کو مختلف مقاصد کے لیے تیار کرنا، بڑے بڑے اور معزز پیشوں میں سے ایک معززپیشہ تھا۔ گھڑ دوڑ کا انعقاد بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہوتا تھا۔ اس لیے ہم جا بجا ،مختلف قدیمی شہروں میں، گھڑدوڑکے میدان دیکھتے ہیں اورتو اورہمارے اپنے پنجاب کے دیہاتوں میں، آبادی کے ارد گرد جو بڑی گلی ہوتی تھی اُسے بھی گھڑدوڑ کہا جاتاتھا۔اور آج استنبول میں ہم اسی قسم کے ایک میدان میں تھے،جسے ریس کورس گراؤنڈ کے طور پہ بنایا گیا تھا۔ گو اب یہ اس قسم کے کسی مقصد کے لئے تو استعمال نہیں ہوتا لیکن اس کی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے۔ یہ میدان کبھی سماجی، سیاسی ، ثقافتی اور معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز ہواکرتاتھا۔ استنبول شہر کے قیام کے ساتھ ہی یہ میدان بھی تعمیر ہو گیااور مختلف ادوار میں اس میدان نے ترقی کے مختلف مدارج طے کیے۔ شہنشاہ کانسٹائن نے اس میدان کو وسیع کیا، ترقی دی اور اس کو ایک بڑا مرکز بنا دیا اس کی لمبائی۴۵۰ میٹر اور چوڑائی۱۳۰ میٹر تھی۔مختلف قسم کے کھیل یہاں ہوتے تھے۔ اس میدان میں ایک لاکھ سے زائد تماشائی کھیل کو دیکھ سکتے تھے ۔اس کے ایک طرف کو شہنشاہ کے لیے تخت تعمیر کیا گیا تھا جو اس میدان کے مشرقی سمت میں واقع ہے ۔ شاہی خاندان کے لیے محل سے میدان تک پہنچنے کا ایک مخصوص راستہ تھا ۔
ہمارے سامنے ایک وسیع میدان تھا جس کے فرش پر ہارڈ ٹائیل لگی تھی۔ اب یہ محض ایک نشانی یا راستے کے طور پہ باقی تھا ۔ اب یہ میدان ،کسی کھیل تماشے کے لیے تو استعمال نہیں ہوتا البتہ کئی چھوٹے چھوٹے ثقافتی شو،یہاں منعقد کیے جاتے ہیں۔ میدان میں چہل پہل تھی۔بچے بڑے ،بوڑھے جوان اور مرد عورتیں ،تفریحی موڈ میں اِدھر اُدھرگھوم رہے تھے۔ریڑھی والے ،خوانچے والے اوراشیائے فروخت ہاتھوں میں پکڑے نوجوان ،جو ایسی تفریح گاہوں کا لازمی حصہ ہوتے ہیں،یہاں بھی موجود تھے۔ایک طرف کو ایک بازی گر بھی اپنا کھیل تماشا دکھانے کے لیے پر تول رہا تھا۔ہم نیلی مسجد کی طرف چل رہے تھے۔
اس میدان کے ایک طرف دو ستون گاڑے ہوئے نظر آئے جو مختلف شہنشاہوں نے اپنے دارالحکومت کی شان بڑھانے کے لیے اور اپنے نام کو زندہ رکھنے کے لیے تعمیر کرائے تھے ۔دور سے ہمیں دومینار نظر آرہے تھے جن کے بارے میں ہماری گائیڈ نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ مینار مصر سے لائے گئے تھے کسی فرعون نے تعمیر کرا ئے تھے یہ مینار۳۹۰ء میں ترکی میں لائے گئے اور یہاں نصب کیے گئے ۔ ایک مینار اس طرح کا تھا جیسے رسا ہو تا ہے یہ سانپ مینار تھا جن کے سر اڑا دئیے گئے تھے ، یہ مینار بھی تقریباً ۴۷۹ء سے یہیں تھا ۔ ایک مینار کے بارے میں بتایا گیا کہ اسے کانسٹائن کا مینار کہتے ہیں ، یہ رومن دور کی یادگار ہے۔ یہ۳۵ میٹر لمبا مینار ہے اس پر لمبائی کے رخ لوہے کے بریکٹس لگائے گئے ہیں شاید کوئی تعمیری نقص پیدا ہو گیا ہو گا۔ان میناروں کو دیکھتے ہو ئے کاریگروں اور ہنر مندوں کو داد دیتے ہوئے ہم آگے بڑھ گئے ۔
ات میدانی والا سارا راستہ صاف ستھرا اورآراستہ تھا۔حالانکہ یہ پبلک مقام تھا لیکن مجال ہے کہ آپ کوراستے پر پڑا کوئی کاغذ کا ٹکڑا،سگریٹ کا کوئی ٹوٹا،جوس کا کوئی خالی ڈبہ،کیلے کاکوئی چھلکا ،چپس کا خالی پیکٹ اورآدھ کھایاسموسہ،نظر آجائے،نہیں ایسا ممکن نہیں،یہ استنبول ہے۔ اور ذرا اپنے ہاں کے کسی تفریحی پارک کا تصور کریں ، میں وہاں کیا کچھ گند پھیلاتا ہوں ،اس پراب مزید کیا لکھوں، اپنے ہی پیٹ پر سے کپڑا اُٹھانا ہے۔
مسجد سلطان احمد:
اب ہم مسجد سلطا ن احمد کے دروازہ پر پہنچ گئے،سنا ہے اس کے کئی داخلی دروازے ہیں ،مجھے نہیں معلوم کہ یہ کونسا دروازہ اور کونسی سمت ہے۔عیسائیوں کے قدیمی مرکز آیا صوفیہ کے بازنطینی اور یونانی طرز تعمیر کے شاہکار کا دورہ کر لینے کے بعد ضروری تھا کہ خالص عثمانی طرز تعمیرکو بھی ملاحظہ کیا جائے ۔ اس کے لیے ہم عثمانی طرز تعمیر کی نمائندہ، مسجد سلطان احمد کی زیارت کے لیے آگئے تھے۔یہ وہ تاریخی مسجد ہے جہاں آج بھی (آیا صوفیہ کے بر عکس)مسلمان اپنے اللہ کریم کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں۔ سلطان احمد اول (۱۶۰۳ء تا۱۶۱۷)نے اپنے مایہ ناز کاریگروں کو حکم دیا تھا کہ ایک ایسی نادر مسجد تعمیر کرو جو کسی صورت بھی آیا صوفیا سے کم تر نہ ہو اور اُن لوگوں نے بادشاہ کے اس حکم کی لاج رکھی اور چند ہی سالوں میں فن تعمیر کا ایک ایسا معجزہ کھڑا کر لیا جو کسی طور بھی آیا صوفیہ سے کم نہیں تھا۔چار صدیاں گزر گئیں لیکن مسجد کی آن بان اور شان اسی طرح قائم ہے۔یہ مسجد آج بھی آباد ہے اور اس میں اذانیں گونجتی اور نمازیں ادا کی جاتی ہیں ۔ یہ علاقہ جہاں یہ ساری یادگاریں قائم ہیں یہ سیاحوں کی دلچسپی کا معروف علاقہ ہے اور اس کو سلطان احمد اسکوائر کہا جاتا ہے ۔ سلطان احمد اسکوائر میں ایک ایک اینٹ اورایک ایک پتھر اپنی الگ تاریخ اور اپنا الگ تشخص اورپہچان رکھتا ہے ۔ ہماری گائیڈ یہاں پر موجود تاریخی آثار کے متعلق ہم کو مسلسل آگاہ کرتی آر ہی تھی اور اس بارے میں اُس کی معلومات بیش بہا تھیں ۔یہی وہ سارا علاقہ تھا جو قسطنطنیہ کہلاتاتھا۔ مسجد سلطان احمد اول کی تعمیر۱۶۱۶ء میں مکمل ہو ئی اور ہم چار صدیوں بعد اُس کو دیکھ رہے تھے ۔مسجد کی زیارت کے دوران ان چار صدیوں کی تاریخ ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں کسی فلم کی طرح چلتی رہی تھی ۔اس مسجد کو عرف عام میں نیلی مسجد کہا جاتا ہے،اس لئے میں نیلے رنگ کی عمارت کی تلاش میں تھا، لیکن دور سے ہمیں جو مسجدنظر آرہی تھی وہ توسفید ماربل کی چادر اوڑھے ہوئے تھی اور اُسی کو ہماری گائیڈ نیلی مسجد قرار دے رہی تھی۔اور میں سوچ رہا تھاکہ یہ نیلی مسجد کن معنوں میں کہلاتی ہے ۔ابھی میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرے ایک ساتھی نے اُس سے یہی بات پوچھ لی تو میڈم نے بتایا،’’ چونکہ اس مسجد کے اندرون کی آرائش اورسجاوٹ ہاتھوں سے بنی نیلی سرامک ٹائلز سے کی گئی ہے ،اس لیے اس کو نیلی مسجد کہتے ہیں اوراس نام کی دوسری وجہ یہ ہے کہ رات کو اس مسجد کو نیلی روشنیوں سے آراستہ کیا جاتا ہے اس کے گنبدوں اور میناروں سے نیلی روشنی پھوٹتی ہے اور ایک سماں باندھ دیتی ہے۔ ‘‘دور سے دیکھا تو ایک بڑا گنبد نظر آیا جس کے گرد دائرہ بناتے ہوئے کئی چھوٹے چھوٹے دل رباگنبد تھے ۔اونچے اونچے اور بلندوبالا، پنسل کی نوک کی طرح تراشے ہوئے چند مینار بھی نظروں کو دعوت نظارہ دے رہے تھے ۔یہ سب عثمانی طرزِتعمیرتھا۔لیجیے جناب ہم مسجد کے اندر آ گئے۔مسجد کا صحن بہت وسیع تھا جس کے چاروں طرف کمرے بنے ہو ئے تھے اور برآمدے تھے ، دروازے اور کھڑکیاں تھیں زائرین کا رش تو تھا مگر کوئی اژدھام نہ تھا مین ہال کے گیٹ کے باہر زائرین کی قطار لگی تھی۔ہماری گائیڈ خواتین والے حصے کی طرف بڑھ گئی اور ہم مردانہ لائن میں آگے بڑھتے رہے۔لائن میں لگے ، میں نے نوٹ کیا کہ جوتوں کو سنبھالنے کے لیے،ہر زائر،گیٹ پر موجود ایک بڑے سے رول سے پلاسٹک کا شاپر لیتا ہے اور اُس میں اپنے جوتے ڈال کر اندر لے جا رہاہے۔ میں حسنِ انتظام پر عش عش کر اُٹھا۔اپنی باری پر،ہم بھی دوسرے لوگوں کے طرح،جوتے شاپر میں ڈالتے،اندر داخل ہو گئے ۔دوسری طرف سے ہماری گائیڈ بھی مسجد کے اندر ہمارے ساتھ آ ملی،اُس نے گاؤن اورسکارف اوڑھا ہوا تھا جو خواتین کے گیٹ سے ہی مہیاکیا جا رہا تھا۔انتظامیہ کی یہ بات قابل تعریف تھی کہ خواتین زائرات کو با حجاب اندر آنے کے لیے سہولیات مہیا کر رہے تھے۔ما شا اللہ،یہ بڑی پسندیدہ بات تھی۔ایک ساتھی کہنے لگے ، ہمارے ہاں تو اس طرح کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔میں نے عرض کی،’’ ہمارے ہاں اس کی ضرورت بھی نہیں پڑتی کیونکہ وطن عزیز میں یہاں کی نسبت ، خواتین میں حجاب و نقاب کی روایت کہیں زیادہ پختہ ہے۔الحمد للہ۔‘‘
مسجدکے اندر داخل ہو تے ہی،دور ،سامنے انتہائی دلکش محراب و منبر نظر آئے ۔فرش پر بچھا دیدہ زیب سرخ قالین فوراً ہی آپ کی توجہ مبذول کر لیتا ہے۔فرش کے بعد آپ کی نظر چھت کی طرف اُٹھتی ہے تو وہاں حیرتوں کا ایک جہاں آباد ہے۔ مسجد کے اندر گنبدوں کا ایک پورا سسٹم ایستادہ تھا جس سے مسجد کے وسیع و عریض ہال کو چھت مہیا کی گئی ہے ، یعنی پورے ہال کی چھت گنبدوں پر مشتمل ہے۔تکنیکی طور پر تو کوئی ماہر ارکیٹیکٹ ہی بتا سکتا ہے کہ اتنے زیادہ گنبدوں کا کیا مقصد ہوسکتاہے لیکن میں جو اندازہ لگا پایا ہوں وہ یہ ہے کہ ایسا ،وسیع ہال کو چھت مہیا کرنے کے لیے تھا اور آواز کی گونج کے ذریعے پورے ہال تک آوازبھی پہنچانامقصودتھا اور یہ دونوں مقاصدانتہا درجے کی مہارت کے متقاضی تھی،اور اُس دور میں اس حد تک ترقی، بہت بڑی بات ہے۔مجھے سب سے زیادہ اِن گنبدوں کی اندرونی آرائش نے متائثر کیا ۔ گنبدوں کی اندرونی آرائش و زیبائش قابل دید اور قابل ستائش ہے۔ بیل بوٹوں کے علاوہ اسلامی خطاطی کے بھی اعلیٰ نمونے یہاں موجود تھے ۔ گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ مسجد میں ۰۰۰،۳۰نیلی ٹائیلوں کو استعمال کیا گیا ہے ان ٹائیلوں کو بجائے پوری دیوار پر لگانے کے، اوپر سے آدھی یا شاید دو تہائی دیوار کی اونچائی تک لگایا گیا ہے ،یہ ٹائلیں خاص طور پر ہاتھوں سے تیار کی گئیں ہیں اور ان پر نیلے رنگ سے نقاشی کی گئی ہے ۔ ٹائیلوں سے نیچے فرش تک صرف پینٹ کیا گیا ہے۔
مسجد کے ایک حصے کو رسی لگا کر زائرین کو آگے جانے سے روک دیا گیا تھا تاہم اگر کوئی نفل پڑھنا چاہے تو اُس کو اجازت ہے ہم بھی رسی اٹھا کر آگے نکل گئے اور خطیب صاحب کے ممبر کے قریب ہی دو رکعت نماز نفل اداکی۔ہال کے اندر،ایک اور نمایاں چیز، بڑے قطر کے وہ دیوہیکل ستون تھے جن پر عمارت کا ڈھانچہ قائم کیا گیا تھا۔یہ ستون ہاتھی کی ٹانگوں کی مانندجسامت رکھتے تھے۔اندر کھڑے ہو کر عمارت کی خوبصورتی اُس کے حسن ، اور اس تعمیراتی عجوبہ کی عظمت ورفعت جو ہم ملاحظہ کر رہے تھے ،اُس کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔ نیلی ٹائلیں واقعی نہایت دیدہ زیب اور اعلیٰ نفیس نقش و نگار سے مزین اور دل موہ لینے والی تھیں ۔ گنبدوں اور اُن پر کندہ قرآنی آیات اور خطاطی کے اعلیٰ نمونے اپنی الگ شان دکھا رہے تھے۔ ہال کی وسعت بے پناہ تھی ،ہال کی اونچائی بھی کافی ہے۔ روشنی کے لیے اور ہوا کے لیے چاروں طرف گنبدوں میں دو سو کے قریب چھوٹی بڑی کھڑکیاں بنائی گئیں تھیں جن کو رنگین شیشوں سے مزین کیا گیا تھا ۔ محراب اور منبر بھی دیدہ زیب تھے، منبر خاصا اونچا ہے جہاں کھڑے ہو کر امام صاحب خطبہ دیتے ہیں اس اونچائی کے باعث وہ سب نمازیوں کو نظر آتے ہیں۔ بتایا گیا کہ اس عمارت کی طرز تعمیر میں ایسا انداز اختیار کیا گیا ہے جس کے باعث امام صاحب کی آواز پورے ہال میں سنائی دیتی ہے ۔مسجد کے محراب کے اوپر خوبصورت رنگوں اور دلکش انداز میں ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ (مزدور اللہ کا دوست ہے۔)لکھا ہوا تھا۔میں نے آج تک کسی مسجد کے کسی مرکزی مقام پر ایسا لکھا ہو ا نہیں دیکھا ۔ ترکی میں جتنی مساجد بھی ہم نے دیکھیں بڑی ہوں یا چھوٹی ، محلے اور مارکیٹ کی مسجد ہو یا کوئی مرکزی جامع مسجد ہو سب میں نماز کے لیے اندرونی ہال ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ اکثر مساجد میں تو صحن ہی نہیں ہوتا تاہم مسجد کے ہال کے باہر مسجد کے ارد گرد ایک مختصر باغیچہ اور آرام دہ نشستیں ضرور موجود ہوتی ہیں۔ قدیمی مساجد میں اگرچہ صحن ہوتا ہے لیکن نماز کے لیے وہاں بھی صفیں نہیں بچھائی جاتیں۔ مسجدسلطان احمد کا بھی ایک وسیع و عریض صحن ہے جس کے تمام اطراف برآمدے اور کمرے بنے ہوئے ہیں ۔ وضو اور غسل خانوں کا الگ سے انتظام تھا ۔ بتایا گیا کہ یہ کمرے مدرسے کے لیے استعمال ہو تے تھے اور بعض کمروں کو ہسپتال کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔گائیڈ نے اشارہ کیا کہ اُدھر جو عمارت ہے جو مسجد کے صحن کے ساتھ متصل ہے وہاں مختلف سلاطین اور اُن کے وزرا اور علما کی قبریں ہیں۔ مگر ہم اُس طرف نہ جا سکے۔ سلطان احمداول کا مقبرہ بھی یہیں تھا ۔ نیلی مسجد کے چھ مینار ہیں اس سے قبل صرف مسجدحرام مکہ کے چھ مینار تھے ۔ اہل مکہ نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اس سے مسجد حرام کا تشخص مجروح ہوا ہے تب سلطان احمداول نے مسجد الحرام میں ایک مینار کا اضافہ کر دیا اب دنیا میں مسجدالحرام ہی وہ واحد مسجد ہے جس کے سات مینار ہیں۔ مورخ بیان کرتا ہے کہ سلطان احمد نے جب معمار کو مسجد بنا نے حکم دیا تو اُس سے کہا کہ مسجد کے مینار سونے سے بنائے جائیں۔ترکی زبان میں سونے goldکیلئے جو لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی سے ملتا جلتا لفظ ہے جس کے معنی چھ ہوتے ہیں،معمار نے چھ عالیشان مینار بنا دیئے۔ بادشاہ نے جب معمار سے پوچھا کہ اُس نے ایسا کیوں کیا ہے اور اُس نے کہا ، مجھے آپ کے لفظ نے مغالطے میں ڈال دیا تھا ،بہرحال وجہ جو بھی ہو یہ مینار بہت خوبصورت اور نہایت دیدہ زیب ہیں ۔ چار مینار تو مسجد کے چاروں کونوں پر ہیں اور دو مینار سامنے والے کونوں پر ہیں جن کی دود و بالکونیاں بھی ہیں۔(جاری ہے )