دائروں کے قیدی نہ بنو
دائروں کی قید سب سے بری قید ہوتی ہے
دائروں کے قیدی سوچنے سمجھنے کے لیے بھی آزاد نہیں رہتے۔
٭٭٭
اپنے گرد دائرے نہ کھینچو
یہ لاتعلق ہونے کا عمل ہوتا ہے۔
اپنوں میں غیر نہ بنو۔
اس سے غیروں کی بن آتی ہے
٭٭٭
جو چیز جان پہچان کے لیے بنائی گئی ہے
اسے فاصلے پیدا کرنے کی بنیاد نہ بناؤ۔
وہ طوق نہ پہنو، جو اس امت کے لیے نہیں بنا۔
وہ راہ نہ چلو، جس پر ہمارا چلنا صرف عدو کو پسند ہے۔
٭٭٭
ایک ہی کشتی کے مسافر ایک ہی ساحل کے مسافر ہوتے ہیں
ان کا سفر ایک ہوتا ہے، ان کے بھنور ایک ہوتے ہیں
کشتی تھپیڑے کھاتی ہے تو یہ تھپیڑے سب کے لیے ہوتے ہیں
کشتی ڈولتی ہے تو سب ڈولتے ہیں
اور وہ پار لگتی ہے تو سب پار لگتے ہیں
وہ آزمائشوں میں ایک ہوتے ہیں، وہ ابتلاؤں میں ایک ہوتے ہیں
اور خوش نصیب ہوتے ہیں کہ ایک ہوتے ہیں
ان کا ساحل ایک ہوتا ہے، ان کی منزل ایک ہوتی ہے۔
٭٭٭
نہ کل اجنبی تھے، نہ آج اجنبی ہو
ایک عظیم ملت میں شامل ہو۔ بے کراں وحدت رکھتے ہو
سمندر ہو۔ جوہڑ بننے پر کیوں مصر ہو۔
٭٭٭
وسعتوں کے مالک ہو
یوں کیوں سمٹ رہے ہو جیسے پاؤں تلے زمین نہیں رکھتے
٭٭٭
اپنائیت کا راستہ کبھی نفرتوں کے درمیان سے ہوکر نہیں گزرتا
اور جس سے نفرت کی آگ بھڑک اٹھے وہ اپنائیت کا راستہ ہی کب ہے
اس کے سقم کو سمجھو، اس کے سقم کو جانو
متضاد راستوں کی کوئی منزل نہیں ہوتی
متحارب راہیوں کا کوئی قافلہ نہیں ہوتا
متصادم انسانوں کے لیے کوئی حق نہیں رہتا۔
٭٭٭
ذی شعور ہو
مالِ غنیمت نہیں ہو
پھر دائروں کے قیدی کیوں بن رہے ہو
اس سے صرف قیدیوں کے سوداگر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مظفر بیگ
۱۵،جون ۱۹۸۸
بشکریہ ماہنامہ آئین لاہور