سوال آپ پہلے قارئین ارمغان سے اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟
جواب :میں ہریانہ کے کرنل ضلع کے ایک جاٹ پریوار (خاندان )کا ایک معمولی آدمی ہوں۔میرے پتاجی نے میرا نام راجندر ملک رکھا تھا ،میرا جنم ۲۲؍فروری ۱۹۷۴ء کو ہوا گاؤں کے اسکول میں پڑھائی ہوئی پھر ہریانہ بورڈ سے بارویں کلاس پاس کیا اور روہتک یونیورسٹی سے میں نے L.L.Bکیا پانی پت کورٹ میں وکالت شروع کی اور بعد میں یونیورسٹی سے ہی L.L.Mبھی کیا میری شادی کیتھل ضلع کے زمین دار خاندان میں اب سے دس سال پہلے ہوئی ،میری بیوی بھی B.Aاور L.L.Bہے دو بچے مجھے میرے مالک نے دئے ہیں۔
سوال :اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیے؟
جواب :ہمارے گاؤں میں میرا ایک بچپن کا دوست نریش آریہ تھا ،گریجویشن تک وہ اور میں ایک کلاس میں پڑھتے رہے ،بعد میں وہ MBAکرنے لگا میں نے L.L.Bمیں داخلہ لے لیا،مگر دوستی بہت پکی تھی۔ اس کے پانی پت کے ایک پنڈت خاندان کی لڑکی سے تعلقات ہو گئے ،دونوں ایک دوسرے کے دیوانے ہو گئے گھر والے شادی کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ کسی مسلم وکیل سے ان کی دہلی میں ملاقات ہوئی اس نے ان کو دھرم بدل کر شادی کر لینے کا مشورہ دیا۔کچھ روز پہلے چاند اور فضا کے معاملہ کا خوب چرچا تھا ،ان دونوں نے مسلمان ہوکر شادی کرنے کا ارادہ کر لیا مگر کوئی ان کو اس طرح مسلمان کرکے شادی کرانے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔نریش کا حال خراب ہوا جا رہا تھا مجھے ڈر ہوا کہیں پاگل نہ ہو جائے اس لئے میں اور میرے ساتھ دو وکیل اور تھے ان کو لے کر جامع مسجد دہلی گئے ۔امام صاحب سے ملاقات ہوئی انھوں نے کہا مسلمان تو ہم ان کو بنا لیں گے مگر شرط یہ ہے کہ علاقہ کے دو ذمہ دار مسلمانوں کو جو ان دونوں کو جانتے ہوں لے کر آئیں۔ ہم نے کہا ہم دو کے بدلے، تین وکیل گواہی دیتے ہیں انھوں نے کہا مسلمان کو لے کر آؤ۔ ہم لوگ واپس پانی پت گئے کئی روز کی کوشش کے بعد دو لوگوں کو لیکر دہلی گئے ۔امام صاحب نے ان کو کلمہ پڑھوایا اور لڑکے کا نام نریش عبداللہ اور لڑکی کا نام مریم فاطمہ رکھا ۔ہم نے نکاح کے لئے کہا تو انھوں نے منع کیا کہ نکاح قاضی سے پڑھوائیے۔ہمارا مقصد صرف شادی ہی تھا ہم اس سے مایوس واپس آ گئے دہلی میں شام تک قاضی تلاش کیا مگر کوئی قاضی نہیں ملا ۔پانی پت آکر بھی کئی مسجدوں میں گئے کہ کوئی ان کا نکاح پڑھا دے مگر کوئی تیار نہیں ہوا ۔کیرانہ کے ایک صاحب ملے، ان کے سامنے میں نے نریش کی بات رکھی ،انھوں نے کہا ،آپ ان کو لے کر کیرانہ آ جائیں ،ہمارے یہاں کے امام صاحب ان کا نکاح پڑھادیں گے ۔۱۵؍جنوری کو ہم تینوں وکیل ساتھی کیرانہ پہنچے ،امام صاحب سے ملے انھوں نے کہا کہ آپ کا یہ کام پھلت میں ہو جائے گا ،آپ پھلت چلے جائیں۔ہم نے ان سے کہا ہم بہت دھکے کھا چکے ہیں آپ ساتھ چلیں تو ہم پھلت کیا کلکتہ بھی جا سکتے ہیں ،وہ ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے ۔پھلت پہنچے سخت سردی ہو رہی تھی ،پھلت پہنچ کر مولانا کلیم صاحب (آپ کے والد صاحب )کے گھر پہنچے ۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مولانا صاحب پھلت میں ہی ہیں ،امام صاحب نے بتایا کہ آپ کی قسمت ہے کہ حضرت مل گئے ورنہ سفر میں رہتے ہیں۔بہت لوگ ملنے والے آئے ہوئے تھے،بڑی بھیڑ لگی تھی، بڑی مشکل سے وقت ملا الگ کمرے میں بات ہوئی۔ امام صاحب نے بتایا کہ یہ دونوں مسلمان ہونا چاہتے ہیں اور مسلمان ہو کر پھر شادی بھی کرنا چاہتے ہیں ۔حضرت صاحب نے کہا :جہاں تک مسلمان ہونے اور ایمان لانے کا سوال ہے تو ہر ایک کو جلد از جلد مسلمان ہونے کی ،اور ہر مسلمان کو اپنے ہر بھائی بہن تک ،جن سے ہمارا خون کا رشتہ ہے ہمیشہ کی نرک اور دوزخ سے بچانے کے لئے مسلمان بنانے اور کفر و شرک سے توبہ کرانے کی کوشش کرنی چاہئے ،اس لئے آپ کو کیرانہ میں ہی کلمہ پڑھوا دینا چاہئے تھا ۔جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو یہ کام تو وکیلوں کے ذریعہ ہوسکتا ہے ،اچھا تو یہ ہے کہ اپنے گھر جا کر ماں باپ کو تیار کرنا چاہئے ماں باپ اولاد سے بہت محبت کرتے ہیں ،اگر ان سے بغاوت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ان کی خوشامد کی جائے تو وہ سماج کے خلاف بھی اپنی اولاد کی خوشی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔میرا مشورہ ہے کہ آپ لوگ گھر جائیں بلکہ زور دے کر آپ سے درخواست ہے کہ ان کو ان کے گھر لے جا کر ان کے ماتا پتا کو راضی کر کے شادی کریں ،جب ہی وہ شادی ہوگی ۔میں نے کہا گھر والے تیار نہیں ہوئے بہت کوشش کرلی ،وہ کسی طرح تیار ہونے والے نہیں ۔ حضرت نے کہا تو شادی تو عدالت میں ہی ہونا ضروری ہے ،ہم لوگ اس طرح کے چکر میں نہیں پڑتے اور نا جائز ساتھ رہنے والوں کو اللہ کے قانون میں ساتھ رہنے کا قانونی حق دلانے اور گناہ سے بچانے کے لئے اگر ہم لوگ نکاح پڑھوا بھی دیتے ہیں تو ہمارے پاس نکاح نامہ کا غذات وغیرہ نہیں ہوتے یہ چیزیں جو لوگ نکاح پڑھاتے ہیں وہ دیتے ہیں ہم نے کہا آپ ان کو مسلمان تو کر لیں اور نکاح کردیں جب یہ مسلمان ہو جائیں گے تو آپ کو ہی یہ کام کرنا ہوگا۔ اگر یہ ہندو رہتے تو مندر میں پھرے ہوتے ،حضرت صاحب نے کہا بہت یہ ہے کہ کلمہ تو میں پڑھوادیتا ہوں ،اور آپ میرٹھ چلے جائیں وہاں پر وکیل ہیں وہ کسی سے نکاح بھی پڑھوا دیں گے اور قانونی کارروائی بھی کروادیں گے ۔ ہم نے کہا آپ مسلمان کر کے نکاح پڑھادیں قانونی کارروائی ہم خود کروالیں گے ہم تینوں وکیل ہیں مولانا صاحب نے کہا اصل میں نکاح نامہ تو آپ کو بھی چاہیئے ہوگا ، ایسا کرتے ہیں کہ کلمہ میں پڑھواتا ہوں اورہمارے یہاں حافظ عبداللہ صاحب ہیں وہ گاؤں میں نکاح پڑھواتے ہیں۔آپ جا کر وہاں نکاح پڑھوا لیں وہ نکاح نامہ بھی بنوا دیں گے ،آپ اس کو عدالت میں رجسٹرد کروا لیجئے ،میں نے کہا ٹھیک ہے آپ مسلمان تو بنا لیں۔
سوال :مسلمان تو وہ جامع مسجد دہلی میں بن گئے تھے آپ نے بتایا نہیں ؟
جواب :مولوی احمد صاحب مجھے ڈر ہوا کہ یہ سمجھیں گے کہ امام صاحب نے نکاح نہیں پڑھایا تو کوئی دال میں بڑا کالا ہے ،اس لئے میں نے نہیں بتایا۔
سوال :اس کے بعد کیا ہوا ،بتایئے؟
جواب :مولانا صاحب کو جلدی تھی ،جلدی میں مولانا صاحب نے ان دونوں کو سامنے بٹھا کر بتایا اور ہم تینوں سے بھی کہا کہ آپ بھی سنیں جس دیش میں آدمی رہتا ہو وہ اس کے حاکم مالک کو نہ مانے تو باغی اور غدار ہے،کسی باغی اور غدار کو دیش کی شہریت (نیشنلٹی )نہیں ہوتی ،اس کو دیش کی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل نہیں ہوتا وہ جب پکڑا جائے گا تو ہمیشہ کی جیل یا پھانسی کی سزا پائے گا ۔یہ پوری کائنات کا مالک اور حاکم اکیلا اللہ ہے ،اس کا فائنل اور اپ ٹو ڈیٹ موجودہ دستور کانسٹی ٹیوشن قرآن مجید ہے وید بھی مالک کی طرف سے بھیجا گیا قانون تھا وہ دستور کا قدیم ایڈیشن (آدی گرنتھ )تھے ۔فائنل اور مکمل شکل کا ایڈیشن قرآن ہے ۔اب جو آدمی اللہ کو نہ مانے اور اس کو اکیلا نہ مانے اور اس کے فائنل قانون قرآن کو نہ مانے وہ غدار اور باغی ہے اسے اللہ کی زمین میں رہنے ،یہاں کا پانی پینے اورہوا تک استعمال کرنے کا حق نہیں ہے اس لئے کسی ملک کا حق شہریت حاصل کرنے یا کوئی عہدہ قبول کرنے کے لئے دستورکی قسم اس کو دلائی جاتی ہے،اللہ کی کائنات میں رہنے کا حق حاصل کرنے کے لئے بغاوت اور غداری سے توبہ کر کے اس کا سچا وفادار رہنے کا عہد اور اس کے فائنل دستور قرآن کے مطابق زندگی گزارنے کی قسم لینا ضروری ہے ،اسی کو کلمہ پڑھنا کہتے ہیں اور اسی کو ایمان لانا کہتے ہیں ورنہ موت کے چیک پوسٹ پر امیگریشن اسٹاف اللہ کے فرشتے چیکنگ کریں گے اور ایمان نہ ہونے پر ہمیشہ کی جیل ،نرک میں ڈال دیں گے ،اس لئے سچے دل سے مالک کو حاضر ناظر جان کر دو لائن پہلے عربی میں کہہ لیں کہ مسلمان ہونے کے لئے میں حلف لے رہا ہوں اور عہد کر رہا ہوں کہ جیون قرآن کے مطابق گزاروں گا،حضرت نے کہا کہ ہم سبھی پڑھ لیں ہم تینوں سے کہا کہ وکیل صاحب آپ تو قانون کے آدمی ہیں ،آپ کے لئے ان سے زیادہ ضروری ہے کہ آپ ضرور قسم لیں ۔
مولانا صاحب نے ہم سب کو عربی میں کلمہ پڑھوایا اور پھر ہندی میں ذرا کھول کر مطلب کہلوایا ۔مولانا صاحب نے کہا اب آپ حافظ عبداللہ کے یہاں جائیں اور ان سے نکاح پڑھوا لیں البتہ یہ یاد رہے کہ یوں تو جو آدمی ایمان نہ لائے وہ کتے سے بھی گیا گزرا ہے کہ کتا بھی بھوکا پیاسا اپنے مالک کے در پر پڑا رہتا ہے در نہیں چھوڑتا ،پھر جو دردر بھٹکتا پھرے وہ کتے سے بھی گیا گزرا ہے مگر اصل میں ایمان کی ضرورت موت کے وقت پڑے گی ،اس لئے اس حلف پر موت تک جمنا ہے اور ایمان وہ معتبر ہے جو اس دلوں کے بھید جاننے والے کو قبول ہو جائے اس لئے بھی آتما سچے دل سے حلف لینے والااس مالک کے یہاں ایمان لانا ہے ۔حضرت صاحب نے ہم پانچوں کو اپنی کتاب ‘‘آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ’’منگا کر دی ماسٹر اکرم صاحب کو بلایا اور ہم سبھی لوگوں کو گرم اور اچھی چائے اور ناشتہ کرانے کو کہا اور ہمیں حافظ عبداللہ صاحب کے پاس ایک صاحب کے ذریعہ بھیج دیا۔ بعد میں اپنے نواسے مولانا محمد عمر صاحب کو ہمارے پاس بھیجا انھوں نے ہمیں اسلام اور ایمان کے بارے میں بتایا ۔ناشتے اور چائے سے فارغ ہو کر ہم لوگ حافظ عبداللہ صاحب کے پاس گئے ،انھوں نے نکاح پڑھانے سے منع کر دیا کہ پہلے آپ قبول اسلام کا ایفی ڈیوٹ (حلف نامہ )بنوائیں اس کی ایک کاپی ہمارے پاس ہونا چاہئے ۔میں نے کہا کہ ہمارے پاس دہلی کے امام بخاری کا سرٹیفکٹ ہے حافظ صاحب نے حضرت کو فون کیا حضرت صاحب نے کہا اس سر ٹیفکٹ کی ایک کاپی لے کر نکاح پڑھواؤ۔نکاح پڑھوا کر ہم لوگ رات کو لوٹ گئے اور گھر پہنچ گئے ۔
سوال :کیا آپ نے سچی آتما سے ان سب کے ساتھ کلمہ پڑھا تھا ؟
جواب :نہیں بلکہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کہہ رہے ہیں تو پڑھ لوں کہیں یہ نکاح کو منع نہ کر دیں ، البتہ جو بات مولانا صاحب نے بتائی وہ دماغ میں جم گئی دل بھی کہتا تھا کہ بات تو بالکل سولہ آنہ ٹھیک ہے ،حضرت نے یہ بھی کہا تھا کہ قرآن کے بارے میں یہ جانا اور سمجھا جاتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا دھارمک گرنتھ ہے حالانکہ قرآن مجید مالک کی طرف سے بھیجا ہوا پورے سنسار کے لئے مکمل اور آخری سنودھان ہے۔ اس کا جاننا اور ماننا جس طرح عبداللہ اور محمد عمر کے لئے ضروری ہے اسی طرح نریش اور راجیندرکے لئے بھی ضروری ہے ۔
سوال :ابی کو آپ نے اپنے نام بتا دیئے تھے ؟
جواب :نہیں بس وہ تو ایسی ہی مثال کے طور پر نام لے رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ صرف ہمیں کہہ رہے ہیں ،حضرت صاحب نے یہ بھی بتایا کہ یہ تو ٹھیک ہے ،مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کو اپنے خونی رشتہ کے غیر مسلم بھائیوں تک پہنچائیں اور اس کے نہ پہنچانے کے جرم میں وہ میدان محشر میں پھنسیں گے ،مگر آپ بھی اس پر بچ نہیں سکتے کہ ہمیں پہنچایا نہیں گیا تھا ،اس لئے کہ ساری دنیا کے قانون کے مطابق قانون کا نہ جاننا سب سے بڑا قانونی جرم ہے ۔مجھے لگا کہ بات بالکل ٹھیک ہے اور میں نے قرآن پڑھنے کا ارادہ وہیں کر لیا رات کو آکر سو گیا اگلے روز اپنے ایک مسلمان ساتھی وکیل سے میں نے قرآن مجید مانگا اس نے کہا منگوا دوں گااس نے کئی روز کے تقاضے کے بعد قرآن مجید کا ہندی ترجمہ لاکر دیا۔ میں نے پڑھنا شروع کیا ،مولوی احمد جیسے میں نے پڑھنا شروع کیا ،میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنی حالت بیان کر سکوں ،جیسے جیسے قرآن مجید پڑھتا گیا مجھے لگا کہ تونے کچھ بھی نہیں پڑھااورسارا جیون برباد کر لیا۔ لگاتار پڑھتا رہا دو روز تک کچہری بھی نہیں گیا منشی سے کہہ دیا تاریخیں لگا دے ۔حالانکہ بڑے مقدموں کی بحث کی تاریخ بھی تھی ،قرآن مجید ختم کر کے دوبارہ پڑھنا شروع کیا ،‘‘آپ کی امانت ’’بھی تلاش کی مالک کا کرم مل گئی اس کو پڑھا تو اندازہ ہوا کہ بالکل موٹے ذہن کو سامنے رکھ کر حضرت صاحب نے محبت کے شہدمیں قرآن مجید کے نسخہ کا خلاصہ پڑھنے والے کو پلایا ہے ،حضرت صاحب سے پھر ملنے اور اب سچے دل سے ایمان قبول کرنے کی خواہش ہوئی ،کیرانہ امام صاحب کے پاس گیا ،امام صاحب نے حضرت کا فون لگایا کئی بار فون کی گھنٹی بجی فون کٹتا رہا ۔امام صاحب نے کہا حضرت سفر میں ہوں گئے ۔ پھلت کسی صاحب کو فون کیا تو معلوم ہوا حضرت راجستھان کے سفر پر ہیں۔ بہت مایوسی اوربے چینی میں اچانک امام صاحب کے فون کی گھنٹی بجی ۔حضرت صاحب نے فون کیا تھا ،امام صاحب نے یہ کہہ کرکہ وہ وکیل صاحب جو پانی پت سے ہمارے ساتھ آئے تھے آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں مجھے فون دے دیا ۔حضرت صاحب نے کہا کہ میں مصروف تھا بار بار فون کاٹنے کے باوجود کئے جا رہے ہیں تو بہت ناگوار ہو رہا تھا،پھر اچانک خیال آیا کوئی پریشان حال دکھیارا نہ ہو کہ اس کو تسلی کی ضرورت ہو اس کو میرے کہنے سے تسلی ہو جائے اور میرا مالک مجھے معاف کردے۔ اس وجہ سے میں نے دل نہ چاہتے ہوئے بھی فون کیا میں نے کہا حضرت صاحب میں واقعی بہت دکھیارا اورتسلی کا محتاج ہوں L.L.Mمیں نے کیا L.Dکرنا چاہتا تھا، مگر آپ نے جو سنودھان پڑھوایا اس نے میری نیند اڑا دی ، کتنے بڑے مقدمہ میں کتنی بڑی عدلت میں ہمیں جانا ہے حضرت صاحب آپ نے مجھے بیمار تو کردیا اب علاج کون کرے گا۔حضرت نے کہا کہ وکیل صاحب آپ نے صرف وکیل کی حیثیت سے قرآن پڑھا ہے میں نے کہا نہیں حضرت میں نے ملزم کی حیثیت سے پڑھا ہے اور پڑھ کر خودطے کر لیا کہ میں ملزم نہیں مجرم ہوں اور میرے لئے نرک کی سزا طے ہے اور اگر یہ ہوگا تو ججمنٹ بالکل صحیح ہوگا۔ بس بچنے کی شکل مجھے بتایئے حضرت صاحب نے کہا اصل میں آپ نے وکیل ہو کر وکیل یا ملزم کی حیثیت سے قرآن مجید پڑھا ہے، ایک بار آپ قرآن مجید اس طرح پڑھئے کہ ایک ماں سے ستر گناممتا رکھنے والے سارے حسینوں کو اپنے جمال سے حسن و جمال دینے والے محبوب مالک کا محبت نامہ پڑھ رہے ،ہیں میں نے کہا میں ضرور پڑھوں گا،ہزاروں بار قرآن مجید پڑھو ں گا بلکہ جنم کے آخری سانس تک پڑھتا ہی رہوں گا مگر بغاوت کے جرم سے تو مجھے نکالئے۔ حضرت نے کہا آپ نے سچی آتما سے کلمہ نہیں پڑھا تھا ،میں نے کہا میں نے نریش کا نکاح پڑھوانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا ،اب سچے دل سے ایمان لانا چاہتا ہوں ۔ حضرت صاحب نے فون پر کلمہ پڑھنے کے لئے کہا حضرت صاحب نے مجھے فون پر دوبارہ کلمہ پڑھوایا،اور میرانام محمد اقبال رکھا پھر مجھ سے معلوم کیا ان دونوں کا کیا ہوامیں نے کہا چندی گڑھ ہائی کورٹ میں کار روائی کروانے کے لئے گئے ہیں ۔حضرت نے کہا ان کو بھی سچا مسلمان بنانے کی فکر کریں ،اور ان کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ گھر والوں پر کام کریں اور اپنے اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دیں اور مجھے یہ بھی بتایا کہ اپنے دونوں ساتھی وکیلوں کو بھی قرآن مجید پڑھوائیں میں نے کہا ، میں نے ان کو اپنے ساتھ ہی قرآن مجید کے دوران رکھا ہے ۔
سوال :یہ کب کی بات ہے؟
جواب :یہ کل کی بات ہے ،مجھے بہت بے چینی ہوئی کہ حضرت صاحب سے ملاقات ہو دہلی کا پتہ معلوم نہیں تھا ،پھلت فون کیا اطمینان نہ ہوا ،یہ تو معلوم ہو گیا کہ راجستھان سے پھلت آرہے ہیں ۔میں رک نہیں سکا آج پھلت آیا وہا ں اکرام بھائی نے بتایا کہ اگر دہلی میں آج ہوں گے تو خلیل اللہ مسجد میں نماز پڑھیں گے ،آپ کوشش کر لیجئے الحمد للہ ظہر کی نماز کے وقت تھوڑی دیر پہلے پہنچا اور فوراً میرے اللہ نے ملاقات کرا دی۔حضرت صاحب نے ہمارے دونوں ساتھیوں کو بھی دو بارہ کلمہ پڑھوایا ہم تینوں جنم مرن کے دوست ہیں مالک کا شکر ہے کہ یہ دوستی ہمارے بڑے کام آئی۔ حضرت صاحب نے کہا یہ دوستی ایمان کے بعد اب مرنے کے بعد کے لئے پکی اور رجسٹرڈ ہو گئی ہے حضرت صاحب نے کہا کہ آپ ارمغان کے لئے ایک انٹرویودیں دے ،میں نے کہا بھی کہ میں ایک دن کابھی ابھی مسلمان نہیں ہوں ،میں کیا بتاؤں گا ،مگر حضرت صاحب کو اپنا پیر مانا تو بات ماننا ہے اس لئے میں نے اپنی داستان آپ کو بتایا۔
سوال :اب آئندہ آپ کا کیا ارادہ ہے؟
جواب :میں نے ارادہ کیا ہے کہ قرآن مجید اور قرآن کے پیغام کو ساری دنیا میں پھیلاؤں گا میں دیکھتا ہوں کہ لوگ کس طرح اندھیرے کو پھیلا رہے ہیں۔ چوراہوں پر بڑے بورڈ لگا کر ایکسپائر دواؤں کو بیچ رہے ہیں اور جو سچائی ہے سچا پیغام ہے اس کی لوگوں کو خبر بھی نہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ میں خود قرآن مجید کے بارے میں یہ جانتا تھا کہ قرآن ایسی کتاب ہے جس میں کافروں کو قتل کرنے کی باتیں ہیں اور فتوے ہیں ۔
سوال :آپ اسلام قبول کر کے کیا محسوس کرتے ہیں ؟
جواب :مولانا صاحب بالکل ایسا جیسے ایک مجرم کوکال کوٹھری میں بند کر دیا جائے اور اس کے گلے میں پھانسی کا پھندہ لگا دیا گیا ہو،اور اچانک پھندا اس کے گلے سے نکال کر بری کرکے آزاد کر دیا جائے ،ایمان سچے دل سے قبول کرنے کے بعد کل سے میں ایسا محسوس کر رہا ہوں ۔
سوال :ماشاء اللہ ،اردو کا ایک شعر ہیـ
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کوجائیں اور پیمبری مل جائے
اللہ کے ایک نبی حضرت موسیٰ کو طور ایک پہاڑ پر آگ کی تلاش کرنے گئے تھے اور اللہ نے ان کو اپنا نبی بنا لیا تھا ،آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
جواب :آپ نے بالکل ٹھیک کہا ،اصل میں کسی انسان کے ساتھ بھلائی مالک کے یہاں ضرور قبول ہوتی ہے،اصل میں مجھے نریش کے حال پر ترس آیا ،مجھے خیال آیا اگر ایسے ہی یہ پاگل ہو گیا یا خود کشی کر کے مر جائے تو اس سے تو اچھا ہے کہ اس کی شادی ہو جائے ۔ادھرم ہو جائے جان تو بچ جائے ،میں نے ترس اور ہمدردی میں اس کا ساتھ دیا ،مارا مارا پھرا ،میرے مالک کو رحم آگیا ،کہ ہمارے بندہ پر ترس کھارہا ہے،بندہ گناہ گار سہی ،بس اللہ نے مجھ کمینے کو ایمان کے لئے قبول کر لیا ۔
سوال :ارمغان پڑھنے والوں کو کچھ پیغام آپ دیں گے ؟
جواب :بس دعا کریں کہ مالک موت تک ایمان پر جمائے رکھے ،اور قرآن کو دنیا کے کونے کونے میں رہنے والوں تک پہنچانے کے لئے میری مراد کو پورا کرا دیں ۔
راجند ر ملک (محمد اقبال)
بشکریہ : مستفاز از ماہ نامہ ‘‘ارمغان ’’فروری ۲۰۱۰ء