‘‘چچی جی رخصت ہو کر جب اپنے گھر آئیں تو روایتی دلہنوں والی کوئی بات ان میں نہیں تھی۔ نہ شوخ اور رنگین کپڑے نہ مہندی او رنہ کوئی میک اپ۔ وہ سادہ سے کپڑوں میں ملبوس تھیں۔ گھر والوں سے آ کر بڑے تپاک سے ملیں ۔ سارے سسرال والے حیران رہ گئے کہ یہ کیسی انوکھی دلہن ہے ۔ دلہن کی آمد کی خبر سن کر عزیز رشتہ دار اور محلہ کی عورتیں آنے لگیں۔انہوں نے جو اتنی عورتوں کو اپنے آس پاس دیکھا تو خوش ہو گئیں اور ان کے دل کی مراد بر آئی اور یہ بھول کر کہ وہ نئی نویلی دلہن ہیں ،ابھی چند گھڑی پہلے رخصت ہو کر اس گھر میں آئی ہیں، ابھی دلہا سے ملاقات بھی نہیں ہوئی، فورا بولیں قرآن مجید تو ہوگا ذرا لے آئیے ، وقت کا بہترین مصرف یہی ہے کہ اللہ کی کتاب پڑھی جائے ۔ساری عورتیں مودب ہو کر بیٹھ گئیں اور چچی حمید ہ نے قرآن مجید کادرس دینا شروع کیا ۔ مردانہ کمرے میں جب کلام پاک کی آوازپہنچی تو چچا جی بھی درس میں شریک ہو گئے ۔ چچا نے گھونگٹ میں چھپی ہوئی ،شرمائی لجائی دلہن کے بجائے اپنی اہلیہ کو پہلی مرتبہ اس طرح دیکھا کہ ایک باوقار خاتون بڑے سے دوپٹے میں لپٹی ، ماتھے تک پلولپیٹے قرآن کا درس دے رہی تھیں۔ ان کے چہرے سے نور برس رہاتھا او رآنکھوں سے اپنے مقصد کی لگن روشنی بن کر پھوٹ رہی تھی۔ چچا جی خود بھی اسی راستے کے مسافر تھے ۔ اپنی ہم سفر کے اس جذبے سے بہت متاثراور خوش ہوئے۔’’ْ
(آپا جی حمیدہ بیگم کا تذکرہ بحوالہ اوصاف حمیدہ از ڈاکٹر عبدالغنی فاروق)