رائے ونڈ کی ایک تبلیغی جماعت روم کے ایر پورٹ پر اتری تو نماز کا وقت ہو رہا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ باقی کاموں سے قبل نماز ادا کر لینی چاہیے۔ ایر پورٹ کے لاؤنج میں ہی وہ ایک طرف کپڑا بچھانے لگے تو ایک شخص ان کی طرف لپکا اور کہا، غالبا آپ نماز اد ا کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی بالکل ،یہی بات ہے ۔ اس شخص نے ،جو کہ خود بھی مسلمان تھا، کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ یہ روم کا ایر پورٹ ہے ۔ آپ یہاں نماز پڑھیں گے تو لوگ کیا کہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آپ تو یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اگر نماز پڑھی تو لوگ کیا کہیں گے ۔ لیکن ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے اگر نماز نہ پڑھی تو اللہ کیا کہے گا۔
‘‘لوگ کیا کہیں گے’’ اور‘‘ اللہ کیا کہے گا ’’بظاہر یہ دو ملتے جلتے جملے ہیں لیکن دونوں کے مفہوم ، اطلاقات اور نتائج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ صرف چار چار الفاظ کا مرکب نہیں بلکہ الگ الگ نظریہ حیات، مقصد زندگی،طرز زندگی اور رخِ زند گی کے نمائند ہ ہیں۔ یہ انسان کا طرز ِ عمل، طو ر و اطوار اور رنگ ڈھنگ متعین کرتے ہیں۔ انسان ،چونکہ اپنی فطر ت کے اعتبار سے اعمال کو سر انجام دینے میں محرکات کا محتاج ہے اس لیے محرک بدلنے سے اعما ل کا رخ اور ڈھب کا بدل جانا بھی فطر ی ہے اور نتیجتا معاشرے پراس کے اثرات کا مختلف ظہور بھی منطقی امر ہے۔
اسی بات کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ جملے ایک مسلم اور غیر مسلم کی زندگی میں بھی خط فارق کی حیثیت رکھتے ہیں۔تاریخ بھی اور لمحہ حاضر بھی اس بات پر گواہ ہے کہ بڑے بڑے فلاحی کاموں کے پس منظر میں عموما غیر مسلم نام ہی نظر آتے ہیں اور ان کے ہاں عام طور پر مقصد ،انسانیت کی بہتری ہوتا ہے۔(مستثنیات کے علاوہ )یہی وجہ ہے کہ انہیں ستائش بھی مطلوب ہوتی ہے اور صلہ بھی، کیونکہ کام انسان کی بہتری اور خوشی کے لیے کیا جار ہا ہوتا ہے اور انسانوں کو پھرتسلیم کرنا ہی چاہیے ۔ لیکن اگر کام اللہ کے لیے کیا گیا ہو تو نتیجے کے اعتبار سے اس سے انسانیت کی بہتری ہوتا تو لازمی امر ہے لیکن کام کرنے والے کو انسانوں سے نہ صلے کی تمنا ہوتی ہے نہ انعام کی ۔ کوئی اسے جانے ، نہ جانے ، مانے ، نہ مانے ، انعام ملے ، نہ ملے ، اخبارات میں نام چھپے ، نہ چھپے ، ٹیلیویژن میں ذکر آئے نہ آئے وہ ہر چیز سے بے نیاز کام کیے جاتا ہے کیونکہ یہ یقین اس کی رگ رگ میں بسا ہوتا ہے کہ وہ جس کے لیے یہ کام کر رہا ہے وہ اس کو جانتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے۔ وہ نہ صرف اعمال سے واقف ہے بلکہ ان کے پس منظر میں جو محرکات ہوتے ہیں ان سے بھی با خبر ہے ۔ اور پھر یہ کہ اس کے ہاں ذرے ذرے کا اجر محفوظ رہتا ہے ۔ وہاں نہ عمل ضائع جاتا ہے اور نہ کسی کا عمل کسی کے کھاتے میں درج ہوتا ہے۔ اس کے کارکنوں سے نہ غلطی ہوتی ہے اور نہ وہ کسی کی ناجائز حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کا حق مارتے ہیں۔
محرکات چونکہ نتائج کے اعتبار سے معاشرے پر دور رس اور گونا گوں اثرات کے حامل ہوتے ہیں اسی لیے دین نے محرکات کی درستی پر بہت زور دیا ہے ۔انسانوں میں گلے شکوے شکایات اور پھر اس سے آگے بڑھ کر بغض ، نفرت اور تعصب اسی بنا پر پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ فرض کر رہے ہوتے ہیں کہ جن کے لیے ہم نے اچھائی کا رویہ اختیا ر کیا ہے وہ بھی ایسا ہی رویہ اختیا ر کریں اور اگر وہ نہ کریں جو کہ عموما نہیں ہوتا تو شکایت پیدا ہوتی ہے جو کہ بڑ ھ کر بہت سے روپ دھار لیتی ہے۔لیکن جب انسانوں کی رضا کے لیے عمل کیا ہی نہیں گیا ہوتا تو پھر ان سے نہ صلے کی تمنا ہوتی ہے نہ انعام کی جس سے معاشرہ بہت سے مفاسد سے محفوظ رہتا ہے۔تاریخ اسلام میں اس بات کی بہت خوبصورت مثالیں موجود ہیں کہ لوگوں نے محض اللہ کے لیے عمل کیا اور کر کے بھول بھی گئے کیونکہ انہیں یہ یقین ہوتا تھاکہ جس کے لیے عمل کیا ہے وہ کبھی نہیں بھولتا۔ قادسیہ کی جنگ میں جس سپاہی نے سپہ سالار کا سر کاٹ کر لاکھوں کی مالیت کا تاج مال غنیمت میں جمع کروایا وہ آج تک تاریخ میں گمنام ہے ۔ جب سپہ سالار نے پوچھا کہ اپنا نام توبتاتے جاؤ تووہ یہ کہہ کر چل دیا کہ امیر! جس کے لیے میں نے یہ عمل کیا ہے وہ میرا نام جانتا ہے۔
آج مسلم معاشروں میں ابتری ،بے چینی اور فساد کی ایک بڑ ی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان بھی گھر سے لے کر معاشرے تک اسی بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ ہم نے اگر فلاں عمل نہ کیا تو لوگ کیا کہیں گے اور اگر فلاں کر لیا تو لوگ کیا کہیں گے ۔ نتیجتا مسلمان برے عمل سے اس لیے باز رہتا ہے کہ لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جب نہ دیکھیں تو پھروہ کیوں باز رہے گا؟ اور نیک عمل اس لیے کررہے ہوتے ہیں کہ لوگ ، رشتہ دار ، برادری اور دوست اچھا کہیں گے اور جب مطلوبہ مقدار میں ستائش نہیں ملتی تو نیک عمل ہی کو خیر باد کہہ دیا جاتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اگر اللہ کے لیے برے عمل سے باز رہے گا تو وہ پھر ہر جگہ رہے گا ، ہر وقت رہے گا اور ہر حال میں رہے گا کیونکہ اسے معلوم ہو گا کہ جس کے لیے میں باز رہ رہا ہوں وہ ہر جگہ ہے، ہر وقت ہے، ہر حال میں ہے اور سب کو دیکھتا ہے، سب کچھ دیکھتا ہے ،دلوں کے حال کو بھی جانتا ہے حتی کہ دلوں میں جو گمان گزرتے ہیں وہ ان سے بھی واقف ہے ۔ ایسے شخص کو برائی ، بد دیانتی اور بد عنوانی سے بچانے کے لیے نہ کسی قانون کی ضرورت ہے نہ کسی نگرانی کی ۔ اس کے لیے نہ کسی کمیشن کی ضرورت ہے نہ کمیٹی کی ۔ اسے تو بہر حال برائی سے بچنا ہے کیونکہ یہ اس کے مالک کا حکم اور اس کے بند ہ ہونے کاتقاضا ہے۔اسی طرح، اسے نیکی بہر حال کرنی ہے خواہ کوئی اسے دیکھے ، نہ دیکھے او ر خواہ کہیں سے صلہ ، انعام یا ستائش ملے یا نہ ملے۔ اسی لیے آج اس امر کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشروں میں محرکات کو بدلنے اور تصحیح نیت کی تحریک برپاکی جائے ۔اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک شکل کے اعتبار سے نہ سہی لیکن نتائج کے اعتبارسے بڑے بڑے انقلابیوں کے دعووں سے بھی بڑا انقلاب برپا کر سکتی ہے۔مسلمانوں کے دلوں میں ایک‘‘ زند ہ اللہ’’ کا تصور اتارنے کی ضرورت ہے جو دیکھتا بھی ہے ،سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے ۔ مسلمانوں کا تعلق ایک‘‘ زندہ اللہ’’ سے ہو گا تو پھر ہی وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین ورنہ دیگر اعمال کا کیا کہنا ان کی نمازیں اور قربانیاں بھی اللہ کے لیے نہ رہیں گی جیسا کہ آج ہو رہا ہے ۔ایک ‘‘زند ہ اللہ’’ کے تصور کے بغیر وہ کو ن سا انقلاب ہے جو کامیاب ہو گا؟جب لوگوں کا اللہ ‘زند ہ ’ہو گا تو پھر یہ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ لوگ کہیں گے کہ اگر ہم نے یہ کیا تو اللہ کیا کہے گا اور اگر نہ کیا تو اللہ کیا کہے گا ۔ ہم سب کو بہر حال اپنے آپ سے یہ سوال کرناہے کہ ہم فلاں نیکی نہیں کرتے، اللہ کیا کہے گا اور ہم فلاں گنا ہ کرتے ہیں، اللہ کیا کہے گا۔یہی بات اپنے بچوں کو سکھانی ہے اسی کا تذکرہ اپنے دوستوں میں کرنا ہے اور اسی کی تعلیم معاشرے کو دینی ہے۔ حقیقت یہ ہے جس دن مسلم معاشروں سے یہ آواز آنا شروع ہو گئی کہ‘‘ اللہ کیا کہے گا’’ وہ ایک ایسے انقلاب کی ابتدا ہو گی جو پائیدار بھی ہو گا اور دیرپا بھی۔اور سوئے حرم ایسے ہی انقلا ب کا داعی اور حدی خواں ہے۔