۱۸۵۷ء کی جنگ ِ آزادی کا آغاز ہوا تو ریاست باند ہ میں بعض نادان مسلمان جو ش میں آ کرہو ش کھو بیٹھے اور انگریزوں کے بے گناہ بچوں اور عورتوں پر دست درازی کی کوشش کرنے لگے۔ ایسے میں ایک مرد ِ اخلاص اپنے ہی بھائیوں کے خلاف میدان میں اترے اور علی الاعلان ان پر یہ واضح کرنے لگے کہ یہ حرکت ہمارے دین کی تعلیمات سے متصادم ہے۔اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رات کی تاریکی میں ۷۵ کے قریب انگریز عورتیں ، بچے اور بوڑھے پناہ لینے آپ کے مکان پر آ گئے۔ آپ نے انہیں اپنے مدرسے میں ٹھہرایا اور سب عملے او رطلبہ کو ہدایت کی کہ یہ پناہ گزیں ہیں ان کی ہر طرح سے حفاظت کرو او ران کی ضروریات کا خیال رکھو۔ حالات بحال ہونے پر یہ سب لوگ بخیر و عافیت اپنے اپنے گھروں میں پہنچ گئے۔ اس دوران میں اس مرد ِ درویش کو اپنوں کے جو طعنے سننے او رمخالفت برد اشت کر نی پڑی و ہ ایک الگ داستان ہے۔کچھ عرصے بعد انگریز کمشنر کا خط آپ کی خدمت میں پہنچا جس میں لکھا تھا کہ چونکہ غد ر میں آپ نے سرکارِ انگریزی کی خیر خواہی فرمائی ہے اس لیے آپ ایک لاکھ روپیہ سالانہ کی جائداد کے مستحق قرار پائے ہیں۔تشریف لا کر وصول فرمائیں۔ مگر آپ نہ خود گئے اور نہ ہی اس خط کا کوئی جواب بھیجا۔ انتظار کے بعد وہ انگریز کمشنر خود حاضر خدمت ہوا او راصرار کیا کہ آپ یہ ضرور قبول فرما لیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے یہ سب کچھ سرکار انگریزی کے لیے نہیں بلکہ اپنے دین کے لیے کیا تھا۔ اور صلے کی تمنا بھی اسُی سے ہے جس کے لیے ہم نے یہ سب کچھ کیا تھا نہ کہ تم سے۔ اس لیے تم ہماری ذات کو اس سے معاف ہی رکھو۔
دین محمدی سے وفا کے یہ پیکر مولانا اشرف علی تھانوی اور شیخ الہند محمود الحسن جیسے لوگوں کے بھی استاد تھے اور استاد بھی ایسے کہ جنہیں للہیت اور اخلاص کی قدر اتنی عزیز تھی کہ کسی شاگر د سے معمولی خدمت لینا بھی خلافِ اخلاص تصور کرتے تھے۔آپ نے ایک خط لکھا اور اپنے خادم کے انتظار میں تھے کہ اس سے ڈاک میں ڈلوایا جائے کہ اتنے میں ایک شاگر د نے کہا لائیے یہ خط میں ڈال آؤں۔ آپ نے فرمایا میں تم سے یہ کام نہیں لے سکتاکیونکہ تمہار ا میرے ساتھ تعلق تعلیم کا ہے۔ حقِ استاد ی سمجھ کر تم یہ خط ڈاک میں ڈالو گے، میرے نزدیک یہ بھی ایک قسم، رشوت کی ہے۔اس کے بعد لوجہ اللہ تعلیم کا خلوص باقی نہ رہے گا۔ لہذا میں تم سے یہ معمولی کام لے کر اپنا ثواب کیوں ضائع کر وں؟۔
تاریخ اگرچہ انہیں امام القراء کے نام سے یاد کرتی ہے مگر فقہ اور حدیث میں بھی بہر حال ان کے مقام و مرتبے کو تسلیم کرتی ہے۔ لیکن شاید یہ بات تاریخ کی نگاہوں سے اوجھل رہ گئی کہ ان کا اخلاص اور للہیت اصل میں و ہ در نایاب تھا کہ جس کا مثیل مورخین کو کم کم ہی نظر آتا ہے۔مولانا حالی نے اپنے اس جلیل القد ر استاد کی وفات پر ایک پر سوز مضمون تحریر فرمایا جس کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے کہ‘‘ ان کا مثل آئندہ زمانے میں پیدا ہونا محالات عادیہ میں سے معلوم ہوتا ہے۔ فما کان قیس ھلکہ ھلک واحد۔ و لکنہ بنیان قوم تھدما۔ قیس کا مرنا ایک آدمی کا مرنا نہ سمجھو بلکہ وہ قوم کی بنیاد تھی جو گر گئی’’۔ قومو ں کی بقا اور عروج کی بنیادیں ایسے ہی اخلاص اور کردار پر استوا ر ہوا کرتی ہیں کہ جس کی روشن مثال یہ مرد ِ اخلاص یعنی قاری عبدالرحمن پانی پتی رحمہ اللہ تھے۔