۳ مارچ ۲۰۰۵ء کے اخبار میں خبر دیکھی کہ بغداد میں سابق عراقی صدر صدام حسین پر مقدمہ چلانے والے خصوصی ٹریبونل کے جج بروائز محمد مروان اور ان کے بیٹے الریان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ جج کا بیٹا اسی عدالت میں کلرک تھا۔
اس خبر میں کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی کیونکہ غاصب اور ظالم امریکی و اتحادی فوجوں کے خلاف تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق حریت پسند عراقیوں کے خود کش بم دھماکوں سے افسوس ناک انسانی ہلاکتیں معمول بن گئی ہیں، تاہم اس میں چونکا دینے والی بات مقتول عراقی جج کا نام ‘‘بروائز’’ تھا۔ خبر تفصیل سے پڑھی تو معلوم ہوا کہ جج کرد تھا۔ اس سے ساری بات کھل گئی۔
دراصل کرد ی زبان پر فارسی زبان کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ جو کردستان کے مقامات اور وہاں کے باشندوں کے ناموں سے بہت واضح ہیں جبکہ لفظ کردستان کے معنی ہیں ‘‘کردوں کی جگہ’’ اور یہ عراق، ایران، ترکی اور شام کی متصل سرحدوں کے آر پار پھیلا ہوا وسیع علاقہ ہے۔ کردوں اور کردستان کے بے شمار الفاظ فارسی الاصل ہیں۔ مذکورہ نام ‘‘بروائز’’ ہی کو لیجیے۔ یہ نام اصل میں ‘‘پرویز’’ ہے جو عربی میں جا کر اسی طرح ‘‘برویز’’ بن جاتا ہے جیسے ‘‘پاکستان’’ کو عربی میں ‘‘باکستان’’ بولا جاتا ہے، کیونکہ عربی میں حرف ‘‘پ’’ نہیں ہے لہٰذا عرب باشندے ‘‘پ’’ کے صوتی لحاظ سے قریب ترین حرف ‘‘ب’’ سے گزارا کر لیتے ہیں۔ عراق کی سرکاری زبان عربی ہے اور کردی علاقائی زبان ہے، چنانچہ جب کردی نام عربی کے راستے انگریزی میں پہنچا تو وہ Barwizeبن گیا اور عالمی خبر رساں اداروں کے ذریعے سے یہ نام جب اردو صحافت کے ہتھے چڑھا تو اس نے ‘‘بروائز’’ کی شکل اختیار کر لی۔ ‘‘پرویز’’ سے ‘‘بروائز’’ تک کا لفظی سفر واحد مثال نہیں۔ ایسے دلچسپ لفظی تغیرات اور بہت سے ہیں! چند ایک اور ملاحظہ کیجیے:
کاریگر…… کریکر: لفظ ‘‘کاریگر’’ بھی فارسی اور کردی زبانوں میں مشترک ہے۔ ملا عبدالسلام کاریگر کردوں کی ایک تنظیم انصار الاسلام کا رہنما ہے جو ان دنوں ناروے میں پناہ گزین ہے۔(ناروے کی حکومت کو شاباش ملنی چاہیے کہ اس نے دہشت گردی کے نام پر عالم اسلام کے خلاف امریکی و برطانوی صلیبی جنگ میں اس طرح معاون بننے سے انکار کر دیا جس طرح کئی مسلم و غیر مسلم حکومتیں آنکھیں بند کرکے امریکہ کی مطیع بن چکی ہیں، چنانچہ ملا کاریگر کو ناروے کی حکومت اور آزاد عدلیہ کا بدستور تحفظ حاصل ہے، حالانکہ امریکہ بارہا اس کو حوالے کرنے کا مطالبہ کر چکا ہے) ملا کاریگر کا نام بھی لسانی تغیر کا شکار ہو کر عربی میں کریکر (تلفظ ‘‘کری کر’’) بنا جو انگریزی(Karikar)کے واسطے سے اردو اخبارات تک پہنچا تو کریکر (پٹاخہ) بن گیا کیونکہ اردو میں KarikarاورCracker دونوں کو اعراب کے بغیر ایک ہی طرح لکھا جاتا ہے۔
زبیری …… زیباری: ڈیڑھ دو ماہ پہلے اس وقت کے عراقی وزیر خارجہ ہوشیار زبیری پاکستان کے دورے پر آئے تو اردو اخبارات میں ان کا نام ‘‘ہوشیار زیباری’’ چھپا، حالانکہ جہاں لفظ ‘‘ہوشیار’’ کردی اور فارسی وغیرہ میں مشترک ہے، اسم نسبتی ‘‘زبیری’’ عربی الاصل ہے جو صحابی رسول اور آپؐ کی پھوپھی کے بیٹے حضرت زبیرؓ یا شہر زبیر (عراق) کی نسبت سے عام ہوا ہے مگر برا ہو انگریزی واسطے کا کہ اچھا بھلا اسلامی نام اردو میں آ کر مسخ ہو کے رہ گیا۔
کیقباد…… کیکوباد: فارسی الاصل نام ‘‘کیقباد’’ دراصل ‘‘کے’’ اور ‘‘قباد’’ کا مرکب ہے۔ ‘‘قباد’’ قدیم ایران کا ایک بادشاہ تھا اور ‘‘کے’’ کا مطلب ہے ‘‘بادشاہ’’۔ گویا کیقباد کے معنی ہیں ‘‘شاہ قباد’’ علامہ اقبال کی مشہور نظم ‘‘جوابِ شکوہ’’ کا ایک شعر ہے
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
یہاں لفظ ‘‘کئی ’’ لفظ ‘‘کے’’ سے اسم نسبتی ہے یعنی ‘‘کئی’’ کے معنی ہیں بادشاہی یا شاہی۔ گویا ‘‘کئی’’ اور ‘‘کیقباد’’ کی اصل ایک ہے۔ غالباً ۱۹۹۷ء کے عام انتخابات میں کیقباد نامی ایک صاحب ایک اقلیتی نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے جو پارسی تھے مگر ان کا نام انگریزی سے اردو میں ڈھل کر ‘‘کیکوباد’’ چھپا تھا۔ یاد رہے معز الدین کیقباد خاندان غلاماں (۱۲۰۶ء تا ۱۲۹۰ء) کا آخری حکمران تھا جو غیاث الدین بلبن (۸۸۔ ۱۲۶۶ء) کے بعد ہندوستان کے پایہ تخت پر بیٹھا تھا۔
گل بدن …… گل بدین: گل بدن یا گلبدن فارسی نام ہے۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر (۳۰۔۱۵۲۶ء) کی بیٹی اور نصیر الدین ہمایوں کی بہن کا نام گلبدن بیگم تھا جو ایک عالمہ فاضلہ تھی اور اس کی تصنیف ‘‘ہمایوں نامہ’’ بہت مشہور ہے۔ افغانی جہادی رہنما گلبدن حکمت یار کا نام ادنیٰ تصرف سے ‘‘گلبدین’’ ہو چکا ہے اور اس قدرت شہرت پا چکا ہے کہ اب شاید خود گلبدن حکمت یار کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ غالباً افغانی باشندے ‘‘بدن’’ کا تلفظ حرف دال کے نیچے زیر کے ساتھ کرتے ہیں جس کے باعث ‘‘بدن’’ تبدیل ہو کر ‘‘بدین’’ بن گیا۔ یاد رہے گلبدن کے معنی ہیں ‘‘جس کا جسم پھول جیسا ہو۔’’
مثنی …… متھنا: بغداد کے پاس ایک متروک فضائی اڈا ‘‘مثنیٰ’’ نامی ہے جو عہد فاروقی میں فتوحات عراق کے سلسلے کی ایک جنگ ‘‘معرکہ بویب’’ کے ہیرو صحابی رسول حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے۔ ان دنوں عراق پر مسلط غاصب امریکیوں نے اسے عراقی فوج کے لیے بھرتی کا مرکز بنا رکھا ہے۔ وہاں جو لوگ بھرتی ہونے آتے ہیں وہ حریت پسند عراقیوں کے نزدیک ظالم امریکی سامراج کے دست و بازو بننے کے لیے آتے ہیں، چنانچہ ۲ مارچ ۲۰۰۵ء کو المثنیٰ ایئر پورٹ کے گیٹ پر ایک تیز رفتار سفید ٹویوٹا کرولا آ کر رکی جہاں بھرتی کے خواہش مندوں کی قطار لگی تھی اور اس کے خود کش بمبار ڈرائیور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ جس سے ۷ ،افراد ہلاک اور ۳۰ زخمی ہوئے۔ اس مرکز پر ایک ڈیڑھ ماہ پہلے بھی خود کش بم دھماکہ ہوا تھا جس سے ۵۱ افراد ہلاک ہوئے تھے۔یہ عربی سے انگریزی میں اور انگریزی سے اردو ترجمے کا شاخسانہ ہے کہ اخبارات میں اس بھرتی مرکز کا نام مثنی کے بجائے متھنایا متھانہ چھپتا رہا ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ مثنیٰ کو انگریزی میں Mathannaلکھا جاتا ہے کیونکہ عربی حرف ‘‘ث’’ کے لیے انگریزی میں "th"استعمال ہوتا ہے۔ یوں صحابی رسول سے منسوب عراقی فضائی اڈے کا نام بگڑ کر کچھ سے کچھ ہو گیا۔
صور…… ٹائر: صور، لبنان کا ایک مشہور تاریخی ساحلی شہر ہے بلکہ اس کے شمال میں ایک اور تاریخی شہر صیدا (Sidon)واقع ہے۔ ان دونوں لبنانی شہروں کا ذکر مولانا الطاف حسین حالی نے صلیبی جنگوں کے دوران میں مسلمانوں کی کم ہمتی اور باہمی نفاق کے حوالے سے کیا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر یورپی صلیبی حملہ آوروں نے ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ مولانا حالی کہتے تھے
کیا صور و صیدا کو برباد اس نے
بگاڑا دمشق اور بغداد اس نے
صور انگریزی میں Tyreکہلاتا ہے۔ اسی لیے لا علمی میں اردو مترجمین اسے ‘‘ٹائر’’ ہی لکھ ڈالتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریزی لفظ Tyre بھی اردو میں ‘ٹائر ’ہی لکھا جاتا ہے جو پہیوں پر چڑھایا جاتا ہے۔ یاد رہے صور اور صیدا کے شہر فینیقیوں نے آباد کیے تھے اور ان کا ذکر بائبل میں بھی آتا ہے۔
ابو ظبی …… ابو ظہبی: ابو ظبی ہمارے دوست اسلامی ملک متحدہ عرب امارات کی سب سے بڑی امارت (ریاست) ہے جہاں لاکھوں پاکستانی کارکن برسرروزگار ہیں لیکن کتنے پاکستان ہیں جو اس عربی نام ‘‘ابوظبی’’ کو درست لکھتے ہیں۔ اکثر لوگ اسے خواہ مخواہ بگاڑ کر ابو ظہبی بولتے ہیں۔ یہ سراسر بے خبری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابو ظبی کو انگریزی میں Abu Dhabiلکھا جاتا ہے کیونکہ عربی لفظ ‘‘ظ’’ کے لیے انگریزی میں اکثر "dh"استعمال ہوتا ہے، چنانچہ پاکستانی بھائی لفظ ‘ظبی’’ کو بگاڑ کر ‘‘ظہبی’’ بنا لیتے ہیں جو صریحاً غلط ہے۔ یاد رہے ‘‘ظبی’’ کے معنی ہیں ‘‘ہرن’’ یوں ‘‘ابو ظبی’’ لغوی طور پر ‘‘ہرنوں والا’’ یا ‘‘ہرنوں کا دیس’’ ہوا۔
شارقہ…… شارجہ: متحدہ عرب امارات کی سات ریاستوں میں سے ایک شارقہ کہلاتی ہے کیونکہ وہ دبئی اور ابو ظبی کے مشرق میں واقع ہے، لیکن چونکہ شارقہ کو انگریزی میں Sharjaلکھا جاتا ہے اس لیے پاکستان میں ہر خاص و عام کی زبان پر شارجہ چڑھا ہوا ہے حتیٰ کہ کسی کاروباری ادارے کو بتایا جائے کہ یہ صحیح نام شارقہ ہے تو وہ کاروباری تقاضے سے ‘‘شارجہ’’ لکھنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
رام اللہ …… رملہ: رام اللہ (Ramalla) اور رملہ (Ramla)فلسطین کے دو شہر ہیں۔ اول الذکر نے گزشتہ چند برسوں میں یاسر عرفات مرحوم کا صدر دفتر ہونے کی وجہ سے زیادہ شہرت پائی جبکہ آخر الذکر یعنی رملہ ایک قدیم تاریخی شہر ہے جو اسرائیل کے اندر القدس (یروشلم) اور تل ابیب کے مابین واقع ہے۔ اس کے برعکس رام اللہ بیت المقدس کے شمال میں مقبوضہ غرب اردن (مغربی کنارہ) کے اندر ہے جب اردو اخبارات و جرائد میں رام اللہ کو غلط طور پر رملہ لکھا جاتا رہا اور کسی نے درست نام رام اللہ لکھ دیا تو بعض بے خبر قارئین نے رام اللہ کا تعلق ہندوؤں کے دیوتا ‘‘رام’’ سے جوڑ دیا۔ اس پر ایک اخبار نے وضاحت کی کہ اگرچہ درست نام رام اللہ ہے مگر قارئین کے احتجاج کے پیش نظر آئندہ ہم اسے رملہ ہی لکھیں گے۔ اسی کو رجعت قہقری یعنی الٹی واپسی کہتے ہیں۔
العزیز…… الازغ: میں جب اطلس القرآن (اردو) کی اضافی توضیحات و تشریحات لکھ رہا تھا تو میں نے دریائے فرات کے ضمن میں بیروت کی چھپی ہوئی اطلس العالم کے حوالے سے ایک ترکی شہر کا نام الازغ لکھ دیا۔ ہمارے فاضل دوست، معروف استاد اور صحافی ڈاکٹر امین اللہ وثیر (سابق ڈائریکٹر ریلیجس افیئرز۔ اسلام آباد) نے اطلس القرآن دیکھنے کے بعد توجہ دلائی کہ اس شہر کا درست نام العزیز ہے کیونکہ وہ ۱۹۶۹ء میں قیصری (ترکی) سے تہران (ایران) آتے ہوئے اس شہر سے گزرے تھے۔ دراصل یہ شہر عثمانی خلیفہ عبدالعزیز (۸۶۔۱۸۶۲ء) نے ایک فوجی چھاؤنی کے طور پر بسایا تھا۔ جب تک ترکی زبان کا رسم الخط عربی رہا، یہ نام درست رہا مگر جب اتاترک مصطفی کمال پاشا (متوفی ۱۹۳۸ء) نے خلافت ختم کرکے ترکی زبان پر لاطینی رسم الخط ٹھونس دیا تو اچھا خاصا اسلامی نام العزیز(Al-Aziz)بگڑ کر Alazizیا Alazigہو گیا اور عربی اٹلس مرتب کرنے والوں نے رومن تلفظ کی بنا پر اسے الازغ بنا دیا۔
عشق آباد …… اشک آباد: یہ شہر دسمبر ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین (روس) کے ٹوٹنے سے آزاد ہونے والی وسط ایشیائی ریاست ترکمانستان کا دارالحکومت ہے۔ اسے ہمارے اردو اخبارات اشک آباد لکھتے رہے (بلکہ بعض تو اب بھی اشک آباد ہی لکھتے ہیں) مگر نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں جب نو آزاد ایشیائی ریاستوں، پاکستان، افغانستان، ایران اور ترکی پر مشتمل تنظیم ‘‘ایکو’’ کی بنیاد ڈالی گئی تھی تو ایک با خبر صحافی نے ترکمانستان سے واپس آ کر لکھا تھا کہ اس کا درست نام عشق آباد ہے، کیونکہ ترکمانوں نے ‘‘عشق’’ کے معنی ‘‘محبت’’ ہی بتائے تھے۔ یوں عشق آباد ‘‘شہر محبت’’ ہے لہٰذا اسے اشک آباد (آنسوؤں کا شہر) لکھنا غلط ہے۔
دارالحکومت …… دارالخلافہ: دارالحکومت عشق آباد کے ذکر کی نسبت سے یہ وضاحت بھی یہاں ضروری معلوم ہوتی ہے کہ موجودہ زمانے کے دارالحکومتوں کے لیے ‘‘دارالخلافہ’’ کی اصطلاح استعمال کرنا سراسر غلط ہے کیونکہ ‘‘دارالخلافہ’’ کے معنی ہیں ‘‘خلافت کا گھر’’ یا ‘‘خلافت کا مرکز’’۔ تاریخ اسلام میں پہلا دارالخلافہ مدینہ منورہ تھا اور آخری دارالخلافہ استنبول (قسطنطنیہ) تھا۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت ِ عثمانیہ کے اختتام کے بعد اب دنیا کے کسی شہر کو دارالخلافہ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن یار لوگ اسلام آباد، دہلی، ماسکو اور ہر دارالحکومت کو دھڑلے سے دارالخلافہ لکھ ڈالتے ہیں۔ اور تو اور گزشتہ دنوں ایک صاحب چندی گڑھ سے ہو کر آئے تو انھوں نے اسے بھارتی پنجاب اور ہریانہ کا ‘‘دارالخلافہ’’ لکھ ڈالا۔
آذر بائیجان کا کالا باغ: ایران کے شمالی ہمسایہ اور کوہ قاف کے اسلامی ملک آذربائیجان کے صدر الہام علی ۱۳ اپریل ۲۰۰۵ء کو اسلام آباد تشریف لائے ۔ ان کا نام پہلے روز ایک قومی اخبار نے الام علیوف اور اگلے دن الہام علیوف لکھا۔ یہ روسی استعمار کا تاریخی جبر تھا کہ وسط ایشیا اور خطۂ کو ہ قاف (قفقاز) کے مسلمانوں کے نام ‘‘اوف’’ (برائے مذکر) اور ‘‘اوفا’’ (برائے مونث) کے لاحقوں کے ساتھ سرکاری طور پر بگاڑ ے گئے اور ان اسلامی ممالک کی آزادی کے بعد بھی روسی اور لاطینی رسم الخط میں مسلمانوں کے ناموں کے بگاڑ کا یہ جبر چل رہا ہے مگر پاکستان کے اخبارات بالخصوص اردو اخبارات کو کس نے پابند کیا ہے کہ وہ اسلام کریم (صدر ازبکستان)، عسکر آقائی (سابق صدر کرغیزستان) اور سفر مراد نیاز (صدر ترکمانستان) جیسے اسلامی ناموں کو اسلام کریموف، عسکر عکایوف اور سپر مرادنیازوف لکھتے چلے جائیں۔
صدر الہام علی اور وزیراعظم شوکت عزیز کی ملاقات میں کشمیر اور نگورنوقرہ باغ کے مسائل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا گیا۔ مگر اردو اخبارات نے ‘‘نگورنو قرہ باغ’’ کو ‘‘نگورنو کارا باخ’’لکھا۔ یہ ‘‘قرہ باغ’’ ترکی نام ہے جس کے معنی ہیں ‘‘کالا باغ’’ کیونکہ ترکی میں ‘‘قرہ’’ کے معنی ہیں ‘‘سیاہ’’۔ ‘‘نگورنوقرہ باغ’’ دراصل آذربائیجان کا علاقہ ہے جس پر پچھلے دس بارہ برسوں سے ہمسایہ مسیحی ملک آرمینیا نے قبضہ کر رکھا ہے کیونکہ وہاں ارمنی مسیحیوں کی اکثریت ہے۔ یاد رہے نگورنوقرہ باغ چاروں طرف سے آذربائیجان میں گھرا ہوا ہے۔