قسط ۔۱
قرآن مجید اصلاً کوئی سائنس کی کتاب نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد سائنس کی Promotion ہے ۔ اس کا بنیادی پیغام آیندہ آنے والی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کی یاد دہانی اور منادی ہے ۔ وہ اس حقیقت کی طرف مختلف اسالیب میں توجہ دلاتا ہے ۔ اسی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے خود انسان کے اندر موجود نشانیوں اور کائنات میں پھیلے ہوئے مختلف مظاہر پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔
قرآن مجید تقریباً پندرہ سو سال پہلے نازل ہوا ۔ اس کے نزول کا مقصد موجودہ عارضی زندگی میں انسان کی بحیثیت فرد اورمعاشرہ رہنمائی کرنا ہے۔انسان کو چونکہ ہمیشہ ہی سے ہدایت کی ضرورت رہی ہے اور رہے گے ، اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے اس آخری پیغام کو ہمیشہ کے لیے ہر قسم کی تحریف سے محفوظ کر لیا ہے :
‘‘ بے شک ہم نے ہی اس پیغام کو نازل کیا اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے ۔ ’’ ( الحجر ۱۵:۹)
اگرچہ قرآن مجید کے قاری کو اس میں حیرت انگیز طور پر متعدد ایسی آیات ملیں گی جو کسی نہ کسی طرح سائنسی مظاہر سے متعلق ہیں ، تاہم ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید اصلاً کوئی سائنس کی کتاب نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد سائنس کی Promotion ہے ۔ اس کا بنیادی پیغام آیندہ آنے والی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کی یاد دہانی اور منادی ہے ۔ وہ اس حقیقت کی طرف مختلف اسالیب میں توجہ دلاتا ہے ۔ اسی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے خود انسان کے اندر موجود نشانیوں اور کائنات میں پھیلے ہوئے مختلف مظاہر پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ۔ ان سائنسی مظاہر کے متعلق قرآن مجید کا بیان مختصر اور جامع ہے ۔ یہ اپنے ماننے والوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ ان اشاروں کو مشعل راہ بنا کر تحقیق کریں اور حقائق کی تہ تک پہنچیں۔ یہ عمل نہ صرف ان کے آخرت کے متعلق موروثی عقیدے کو یقین میں بدلنے کا ذریعہ بن سکتا ہے ، بلکہ علم اور ایجادات کی دنیا میں بھی انہیں سب سے زیادہ ممتاز بنا سکتا ہے ۔
ابتداً عرب کے مسلمانوں نے قرآن کی اسی ہدایت پر عمل کیا اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ۔ جدید سائنسی علوم کے بانی مسلمان ہی ہیں ۔ انہی سے اہل یورپ نے یہ علم سیکھا اور اسے آگے بڑھایا اور اس طرح وہ دنیا کے لیڈر بن گئے ۔
اکیسویں صدی میں انسانی علم کی سطح بہت بلند ہو چکی ہے ۔ جدید سائنس نے ایسے ایسے انکشافات کیے ہیں جن کے متعلق پہلے انسان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ لیکن حیرت انگیز طو رپر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب تک کے تمام دریافت شدہ مسلمہ حقائق بغیر کسی استثنا کے قرآن مجید میں درج بیانات کے عین مطابق ہیں ۔ اسی حقیقت کو مشہور فرنچ سرجن سائنس دان موریس بکائی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب The Bible, The Quran and Science میں بیان کیا ہے ۔ ان کے مطابق جدید سائنس نے قرآن مجید کی بیشتر ایسی آیات کو سمجھنا آسان کر دیا ہے جن کی تشریح سائنسی علوم کی کمی کی وجہ سے ،پہلے ممکن نہ تھی ۔
رحم مادر میں تخلیق کے مدارج
رحم مادر میں بچے کی تخلیق کے مدارج (Embryology ) کا علم جس تفصیل اور صحت کے ساتھ اب ہمیں حاصل ہے ، وہ پہلے ممکن نہ تھا ، کیونکہ رحم مادر کے اندر کا عمل فلمانے والے مائیکروسکوپک کیمرے ایجاد ہی نہیں ہوئے تھے ، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کیمروں کی مدد سے جو حقائق سامنے آرہے ہیں ، وہ قرآنی بیانات کے عین مطابق ہیں ۔ دنیا کے مشہور ترین Embryologist ڈاکٹر کیتھ مور کے مطابق قرآن مجید اس علم میں وقت سے بہت آگے ہے ۔
قرآن مجید Embryo کے دوسرے مرحلے کو ‘‘علقہ ’’ یعنی جونک کہتا ہے ۔ اس بیان کی حقیقت پہلے کسی بھی انسان کی سمجھ سے باہر تھی ۔ دو مسلما ن ڈاکٹروں نے اس علم کے ماہر ترین انسان ڈاکٹر کیتھ مور سے رابطہ کیا اور تحقیق پر آمادہ کیا ، تاکہ حقیقت سامنے آ سکے ، تحقیق کے نتیجے میں ڈاکٹر کیتھ مور پر حیرت ناک انکشاف ہوا کہ واقعی حمل کے تقریباً چوتھے ہفتے میں Embroy کی شکل ہو بہو جونک جیسی ہوتی ہے اور وہ جونک ہی کی طرح Uterusکی دیوار سے چپک کر ماں سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے ۔ ڈاکٹر کیتھ مور نے کینیڈین ٹیلی ویثرن پر انٹرویو میں اپنی ریسرچ کی تفصیل بتائی اور کہا :
‘‘ آج سے پہلے کسی انسان کو اس حقیقت کا علم ہونا قطعاً نا ممکن ہے کیونکہ Micer Lenses ایجاد ہی اب ہوئے ہیں ۔ چنانچہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس کا علم ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔ چودہ سو سال پرانی کتاب میں اس کے ذکر کی صرف اور صرف ایک ہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کو اس نے Reveal کیا ہے جو ہر چیز کا خود بنانے والا ہے ۔ ’’
ڈاکٹر مور نے اپنی کتاب''The Developing Human'' 3rd Edition انیس سو بیاسی میں Embroy کی اس Stage ‘‘علقہ ’’ کو بیا ن کیا ہے اور جونک اور علقہ کی تصاویر ساتھ ساتھ دی ہیں جنہیں دیکھ کر پہچاننا محال ہے کہ ان میں Embroy کون سا ہے اور جونک کن سی ہے ۔ دیکھیے قرآن مجید دوسری زندگی پر دلیل دیتے ہوئے کس خوبی سے Embroy کے مراحل بیان کر رہا ہے : ‘‘ اے لوگو ! اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو دیکھو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ، پھر پانی کے ایک قطرے سے ، پھر جونک سے ، پھر لوتھڑے سے ، (جس میں سے ) کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص ۔ ایسا ہم نے اس لیے کیا تاکہ تم پر اپنی قدرت اور حکمت اچھی طرح واضح کر دیں اور ہم رحموں میں ٹھیرا دیتے ہیں ، جو چاہتے ہیں اور ایک مدت معین کے لیے ۔ پھر ہم تم کو ایک بچے کی شکل میں برآمد کرتے ہیں ، پھر ایک وقت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو ۔ اور تم میں سے بعض پہلے مر جاتے ہیں اور بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں ، حتی کہ وہ کچھ جاننے کے بعد کچھ بھی نہیں جانتے ۔ ’’ ( الحج ۲۲:۵)
‘‘ اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ، ہم نے پانی کی ایک بوند کو جونک کی شکل میں ایک محفوظ مستقر میں رکھا ، پھر ہم نے پانی کی بوند کو جونک کی شکل دی ، پھر جونک کو گوشت کا لوتھڑا بنایا ۔ پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں ۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے ، اللہ بہترین پیدا کرنے والا ، پھر ان سب کے بعد لازماً مرنا ہے ۔ پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے ۔ ’’ (المومنون ۲۳: ۱۲۔ ۱۶)
‘‘ پڑھ اپنے مالک کے نام سے جس نے تخلیق کیا انسان کو ایک جونک کی سی چیز سے ۔ ’’ (العلق ۹۶: ۱۔۲)
قرآن مجید ایک ایسے زمانے میں نازل ہوا جب انسان کی افزائش نسل سے متعلق معلومات نہایت محدود تھیں ۔ قرون وسطٰی میں اور جدید زمانے تک بھی اس موضوع کو ہر قسم کی بے سروپا کہانیاں گھیرے ہوئے تھیں ۔ اس ضمن میں صحیح معلومات کا آغاز خوردبین کی ایجاد کے بعد شروع ہوا ۔ لہذا علم جنین ( Embryology ) کے بنیادی تصورات سے متعلق معلومات نزول قرآن اور اس کی بعد کی صدیوں تک نامعلوم تھیں ، مگر حیرت انگیز طو ر پر قرآن افزائش نسل کے مراحل کو نہ صرف الفاظ میں واضح بیا ن کرتا ہے بلکہ کسی ایک مقام پر بھی ان کے غیر صحیح ہونے کا امکان نہیں۔ قرآن میں ان مدارج سے متعلق ہر بات آسان لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے ، جو آسانی سے انسان کی سمجھ میں آنے والی ہے اور صدیوں بعد دریافت ہونے والے حقائق سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے ۔ مثلاً بار آوری کا عمل رقیق مادے کی نہایت قلیل مقدار سے انجام پانا ، مرد کے مادہ منویہ کا بچے کی جنس کا ذمہ دار ہونا ، بار آور شدہ بیضہ کا استقرار تین پردوں کے اندر ہونا اور رحم کے اندر Embryo کا ارتقا۔ ڈاکٹر موریس بکائی کے بقول چودہ سو سال پرانی کتاب کے ان بیانات اور جدید سائنس سے حاصل شدہ ان حقائق میں مطابقت کے نتیجے میں آدمی مکمل طور پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔ (جاری ہے)