محسن انسانیت ﷺ کی پیدائش ربیع الاول میں ہوئی۔جس کے معنی ہیں موسم بہار کی پہلی بارش۔ جس طرح بارش سے مردہ زمین سر سبز و شاداب ہو جاتی ہے اسی طرح آپؐ کی تشریف آوری سے مردہ دلوں کوتر و تازگی نصیب ہوئی ۔ظلم و جور کرنے والے عدل و انصاف کے داعی اورکفر و شرک کی تاریکی میں غرق رہنے والے شمع توحید کے پروانے بن گئے ۔
سوموار کو آپ کی پیدائش کے بارے میں مورخین کا عام طور پر اتفاق ہے لیکن ربیع الاول کی کس تاریخ کو آپ پیدا ہوئے اس بارے میں محققین میں اختلاف ہے ۔ ابو الفدا نے تاریخ ۱۰ ’ ربیع الاول بتائی ہے۔ طبری اور ابن خلدون نے ۱۲ ’ ربیع الاول لکھی ہے ۔ ادریس کاندھلوی صاحب نے زرقانی کے حوالے سے ۸ ’ ربیع الاول بتائی ہے ۔ سلمان منصور پوری نے ماہر ین فلکیات کے حسابی دلائل کو مد نظر رکھ کر ۹’ ربیع الاول لکھی ہے ۔ مورخین کا ایک تاریخ پر اجماع ثابت نہیں ہے اس میں کیا حکمت ہے یہ بھی ایک سوال ہے جو حل طلب ہے ۔
صحابہ کرامؓ کو آپؐ سے جو محبت و عقید ت تھی و ہ اظہر من الشمس ہے ۔ صحابہ آپ کی اطاعت و اتباع پر مر مٹنے والے لوگ تھے حتی کہ انہوں نے آپؐ سے کہا کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم آپؐ کو سجد ہ کریں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر اللہ کے سوا کسی اور کو سجد ہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو کہتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجد ہ کیا کریں۔ لیکن اس سب محبت’ عقیدت اور آپؐ کی ہر ہر ادا پر مر مٹنے کے باوجود کسی صحابی سے یہ سوال منقول نہیں ہے کہ حضور ؐ ہم آپؐ کی پیدائش کے دن کو کیسے منایا کریں۔اور نہ ہی خلفائے راشدین کے دور میں ایسی کوئی کاوش نظر آتی ہے ۔ شاید اس لیے کہ یہ سب حضرات اس بات کو سمجھتے تھے کہ سیرت منانے کی نہیں بلکہ عمل کرنے کی چیز ہے ۔ یا پھر شاید کوئی اور وجہ تھی جس کے باعث صحابہ کی زندگی اس استفسار اور کاوش سے خالی نظر آتی ہے ۔ بہر حال ایسا کیوں تھا یہ بھی ایک سوال ہے جو حل طلب ہے۔ ( مرسلہ ’ عطا محمد جنجوعہ ۔ سرگودھا)