ایک سیمینار کی روداد
عالمی تجارتی تنظیم کا قیام جنوری ۱۹۹۵ میں عمل میں آیا تھا جس کے تحت پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں نے آزاد تجارت کیلئے معاہدے کیے تھے۔ اب جنوری ۲۰۰۵ سے اس تنظیم کی بیشتر دفعات رو بہ عمل ہو چکی ہیں۔ اس وقت اگرچہ عملاً ہم عالمی تجارت کے اس نئے نظام کا حصہ بن چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی تک ہمارے ذہنوں میں اس تنظیم کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں اور خدشات موجود ہیں۔ ان غلط فہمیوں اور خدشات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو ابھی تک پوری طرح علم ہی نہیں ہے کہ یہ تنظیم ہے کیا اور یہ کس طرح کام کرتی ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ ڈبلیو.ٹی.او. بھی دیگر عالمی تنظیموں کی طرح امریکہ و یورپ ایسے امیر ملکوں کی آلہ کار ہے۔
یہ تنظیم اصل میں کیا ہے اور ہماری معاشی زندگی پہ اس کے کیا اثرات ہوں گے اس حوالے سے۱۵ ِ فروری ۲۰۰۵ کو گجرات میں گورنمنٹ زمیندار کالج کے شعبۂ اقتصادیات نے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔اس میں ملکی اور عالمی سطح پہ معروف ماہرِ معاشیات اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے ڈائریکٹرڈاکٹراے. آر. کمال نے نہایت عالمانہ انداز سے اس موضوع کا احاطہ کیا اور پاکستان پہ اس تنظیم کے اثرات کا جائزہ لیا۔
اپنے لیکچر کے آغاز میں ڈاکٹر کمال نے معاشیات کے چند بنیادی اصولوں کا ذکر کیا جن کے تحت دو ملکوں کے درمیان آزاد تجارت سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہوتا ہے۔یہاں ڈاکٹر صاحب نے بڑے واضح انداز سے بتایا کہ اگرچہ تجارت سے ایک ملک کو مجموعی طور پر تو فائدہ ہوتا ہے لیکن ملک کے اندر رہنے والے کچھ لوگوں کواس کانقصان بھی ہوتاہے۔ پاکستان کے حوالے سے انھوں نے فرمایا کہ پاکستان کا صنعتکار طبقہ جو تجارت میں بہت سی پابندیوں کی وجہ سے عالمی مسابقت سے اب تک بچا ہوا تھا ، اب آزاد تجارت سے اس کو نقصان ہے۔ انھوں نے مثال دی کہ موٹر سائیکل بنانے والے پہلے بہت زیادہ منافع کما رہے تھے۔ پاکستان میں ستر ہزار سے اوپر ایک موٹر سائیکل بک رہا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بہت زیادہ کسٹم دیوٹی کی وجہ سے باہر سے موٹر سائیکل درآمد کرنا زیادہ مہنگا تھا۔ اب جب سے کسٹم ڈیوٹی کم ہوئی ہے اور نئی کمپنیاں میدان میں آ گئی ہیں موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں بیس سے تیس ہزار روپے تک کمی ہوئی ہے۔اس سے اگرچہ موٹر سائیکل بنانے والے پرانے صنعتکاروں کا منافع کم ہوا ہے لیکن عام آدمی کو فائدہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر ملک کو بھی فائدہ ہے۔
ان بنیادی اصولوں کو ڈبلیو.ٹی.او. پہ لاگو کرتے ہوئے انھوں نے بڑی خوبصورتی سے وضاحت کی کہ عام لوگوں کو اس تنظیم کے معاہدوں سے فائدہ ہی ہوگا یا کم از کم نقصان نہیں ہو گا۔ لیکن عام لوگوں کو نہ تو ان باتوں کا علم ہے اور نہ ان کی کوئی آواز ہے اس لئے اس تنظیم کے مثبت پہلوؤں کا ذکر کوئی نہیں کرتا۔ دوسری طرف صنعتکار جنھیں ڈبلیو.ٹی.او. کی وجہ سے بہت سی پریشانیاں لاحق ہیں ، ان کی بڑی مضبوط لابیاں ہیں اور وہ آواز بھی اٹھا سکتے ہیں اس لئے ہر جگہ اس تنظیم کے نقصانات ہی سامنے لائے جاتے ہیں۔
انھوں نے یہ بات واضح کی کہ پاکستان اب دنیا کے دیگر ۱۴۵ ملکوں کی طرح ڈبلیو.ٹی.او. پہ دستخط کر چکا ہے۔ یہ اب ایک حقیقت ہے اور ہمیں اپنے آپ کو اس چیلنج کے لئے تیار کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت سے محققین کی تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ آزاد تجارت کی اس تنظیم سے زیادہ فائدہ تو امیر ملکوں کو ہی ہوگا لیکن غریب ملکوں کے لئے بھی اس میں بہت سے مواقع ہیں۔ اب یہ ان پہ ہے کہ وہ ان مواقع سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ البتہ اس بات پہ محققین متفق ہیں کہ وہ ملک نقصان میں رہیں گے جو اس تنظیم سے باہر ہوں گے۔
ان چند بنیادی باتوں کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بڑے عام فہم انداز سے اس تنظیم کے اغراض و مقاصد، اس کے کام کرنے کے انداز، اس کے چیدہ چیدہ معاہدات اور ان کے پاکستان پہ اثرات کا جائزہ لیا۔
انھوں نے اپنے سامعین، جن میں کالج کے طلبہ کے علاوہ شہر کے معززین بھی شامل تھے، سے فرمایا کہ ڈبلیو.ٹی.او. کے بارے میں تین باتیں ذہن نشین کر لی جائیں جو یہ ہیں؛
(ا) یہ تنظیم مختلف ملکوں کے باہمی مذاکرات کے نتیجے میں وجود میں آئی،اور آئندہ بھی اس کا ہر کام مذاکرات کے ذریعے سے ہو گا۔اس تنظیم کے قیام کے لیے زیادہ تر مذاکرات ۱۹۸۶سے ۱۹۹۴ کے درمیان ہوئے جنھیں یورو گائے راؤنڈمذاکرات کہا جاتا ہے۔ آئندہ اس تنظیم کے تحت جو بھی فیصلے ہوں گے وہ یا تو اتفاقِ رائے سے ہوں گے یا کثرتِ رائے سے۔ کثرتِ رائے جاننے کے لیے ایک رکن ، ایک ووٹ کا اصول کار فرما ہو گا جس کا مطلب ہے ملک امیر ہو یا غریب اس کی حیثیت برابر ہے۔
(ب) ڈبلیو.ٹی.او. کی روح وہ بہت سے معاہدے ہیں جن پر دنیا کے بیشتر ممالک دستخط کر چکے ہیں۔ یہ معاہدے وہ اصول فراہم کرتے ہیں جن کے تحت دنیا میں تجارت ہوگی۔چاہے کوئی ترقی یافتہ ملک ہو یا ترقی پذیر وہ اپنی تجارتی پالیسیاں ان اصولوں کے تحت بنائے گا۔اس لیے کہتے ہیں کہ ڈبلیو.ٹی.او. rule-based ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر ملک اور اس کے تاجر اس بات سے با خبر ہوں گے کہ دوسرے ملک میں جو بھی تجارتی پالیسی بنے گی وہ کن اصولوں کے تحت بنے گی۔
(ج) تیسری اہم بات یہ ہے کہ دورانِ تجارت جھگڑے اور اختلافات یقینا پیدا ہوتے ہیں اورہوں گے۔ ڈبلیو.ٹی.او. کے تحت جھگڑے چکانے کا باقاعدہ ایک نظام وضع کیا گیا ہے جس میں فریقین کو اپنے مؤقف بیان کرنے اور اس کا دفاع کرنے کے برابر مواقع حاصل ہوں گے۔
ڈاکٹر کمال صاحب نے ڈبلیو.ٹی.او. کے ننظیمی ڈھانچے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی اعلیٰ اختیاراتی مجلس کا نام وزارتی کانفرنس(Ministerial Conference) ہے۔ وہ تمام ممالک اس کے ممبر ہیں جنھوں نے دستخط کیے ہیں۔ وزارتی کانفرنس کو ہر طرح کے فیصلے کرنے کا اختیار ہے ۔اس کا اجلاس دو سالوں میں کم از کم ایک دفعہ ضرور ہوتا ہے۔ روز مرہ کے معاملات ایک جنرل کونسل کے سپرد ہیں جس کی معاونت ڈِس پیوٹ سیٹلمنٹ باڈی اور ٹریڈ پالیسی ریویو باڈی کرتی ہیں۔اس کے بعدتین کونسلیں ہیں جو اشیا و خدمات کی تجارت اور علم و دانش کے حقِ تحفظ کے متعلق ہیں۔ ان کے علاوہ اور بہت سی کمیٹیاں ہیں۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ڈبلیو.ٹی.او. کے سب سے اہم پہلو یعنی اس کے مختلف معاہدات پہ روشنی ڈالی۔ ان میں سے چند چیدہ چیدہ معاہدات یہ ہیں؛
(ا) معاہدۂ عمومی برائے اشیا کی تجارت اور محاصلِ تجارت (GATT):
یہ ایک تفصیلی معاہدہ ہے جس کے تحت ہر ملک نے اپنے مخصوص معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی تجارت کو پابندیوں سے آزاد کرنا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ہر ملک اس بات کا پابند ہے کہ مختلف چیزوں پہ کسٹم ڈیوٹی ایک خاص شرح سے زیادہ نہیں لگائے گا۔ اس کے علاوہ ہر ملک درآمداوربرآمد کنندگان کو ضروری سہولیات فراہم کرے گا۔ زراعت، کپاس اور کپڑے کی تجارت کے حوالے سے خصوصی نکات بھی اس معاہدے کا حصہ ہیں۔ تجارت کے حوالے سے جن اہم اصولوں پہ اتفاق کیا گیا ہے وہ یہ ہیں کہ اوّل ایک ملک دیگر تمام ملکوں کو تجارت کی یکساں سہولیات دے گا۔ کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ مثلاً پاکستان جو سہولتیں سعودی عرب کے تاجروں کو دے گا وہی بھارت کے تاجروں کو بھی دے گا۔ اس طرح پاکستان کے تاجر وں سے بھی کوئی ملک امتیاز نہیں برتے گا، دوم تجارت کو زیادہ سے زیادہ آزاد کیا جائے گا، سوم کوئی بھی ملک اپنی تجارتی پالیسی میں طے شدہ اصولوں سے ہٹ کر کوئی تبدیلی نہیں کرے گا ، چہارم ہر ملک مقابلے کی فضا پیدا کرے گا اور برآمدکنندگان کو سبسڈی دینے یا ڈیمپنگ سے اجتناب کرے گا، پنجم بہت غریب ملکوں کو خصوصی مراعات دی جائیں گی اور ڈبلیو.ٹی.او. کے معاہدات پہ عمل درآمد کے لئے انھیں مناسب وقت دیا جائے گا۔
(ب) معاہدۂ عمومی برائے خدمات کی تجارت (GATS):
اقوام عالم نے پہلی بار ڈبلیو.ٹی.او. کے تحت اس طرح کا معاہدہ کیاہے۔اس معاہدے کے تحت بنکاری ، مواصلات، سفر، سیاحت، اور دیگر پیشہ ورانہ خدمات کی تجارت کے لئے بہت سے قوانین پہ اتفاق کیا گیا ہے۔
علم و دانش کے حقِ تحفظ کا معاہدہ (Agreement on Trade-Related Aspects of Intellectual Property Rights;TRIPS, ):
یہ معاہدہ بھی پہلی بار کیا گیا۔ علم، فن اور دانش آجکل تجارت کے اہم اجزا بنتے جا رہے ہیں۔بہت سی نئی ادویات جو سامنے آتی ہیں یا دیگر چیزیں جو ایجاد ہوتی ہیں ان کے پیچھے بہت زیادہ تحقیق اور جستجو موجود ہوتی ہے جن پہ بھاری اخراجات بھی اٹھ جاتے ہیں۔ اسی طرح فلم ’موسیقی ’ کتابوں اور کمپیوٹر پروگراموں کی اصل قیمت ان کے خالق کا علم و فن ہوتا ہے۔ چونکہ ملکی اور عالمی تجارت میں ان اشیا کا حصہ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اس لئے ان کے خالقین کے مفادات کا تحفظ بھی نا گزیر ہو چکا ہے۔ یہ نیا معاہدہ اسی مقصد کے لئے کیا گیا ہے۔چونکہ ترقی پذیر ملک تحقیق اور ایجادات کے میدان میں ترقی یافتہ ملکوں سے پیچھے ہیں اس لئے اس معاہدے میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ ترقی یافتہ ملک ترقی پذیر ملکوں کو ٹیکنالوجی کی منتقلی کی حوصلہ افزائی کریں گے۔
مندرجہ بالا بنیادی معاہدوں کے علاوہ اور بھی کئی معاہدات ڈبلیو.ٹی.او. کا حصہ ہیں اور جن کا ڈاکٹر کمال صاحب نے اجمالاً ذکر کیا۔ ان معاہدات کو بیان کرنے کے بعد انھوں نے ان کے پاکستان پہ اثرات پہ تفصیلی روشنی ڈالی۔
انھوں نے بتایاکہ پاکستان میں آئی.ایم.ایف. کی شرائط کی وجہ سے بہت سی چیزوں پر سے کسٹم ڈیوٹی پہلے ہی کافی کم ہو چکی ہے۔ڈبلیو.ٹی.او. کی وجہ سے یہ ہو گا کہ تجارت پر کسٹم ڈیوٹی سے ہٹ کر دیگر پابندیاں نہیں لگائی جا سکیں گی اور کسٹم ڈیوٹی کی شرحیں بھی مزید کم کی جائیں گی۔ اس سے ایسی صنعتوں کو نقصان ہو گا جن کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہو گی اور جو عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گی۔ ہو سکتا ہے کچھ صنعتیں بند بھی ہو جائیں۔ صنعتوں کے بند ہونے کے دو نتائج نکلیں گے؛ ایک تو مثبت کہ ملک کے وسائل کم صلاحیت والی صنعتوں سے نکل کر ایسی صنعتوں کی طرف جائیں گے جن میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہوگی اور جن میں پاکستان کو برتری حاصل ہے،دوسرا منفی کہ کچھ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ اگرچہ تجارتی اور پیداواری سرگرمیوں کے بڑھنے سے روزگار کے بے شمار نئے مواقع پیدا ہوں گے لیکن یہ نئے مواقع نئے اور جدید علوم اور فنی صلاحیت کے حامل لوگوں کو میسر ہوں گے۔جو لوگ پرانی صنعتوں سے بے روزگار ہوں گے ان کے پاس نئی ٹیکنالوجی کا علم کم ہی ہوگا۔ اس لئے بے روزگاری کا مسئلہ بہر حال رہے گا۔
دوسری طرف کمپیوٹر پروگرامز، بہت سی کتابیں اور ادویات جو آجکل ہمیں بہت سستی مل جاتی ہیں کیونکہ ہم ان کی نقل بنا لیتے ہیں، اب ہمیں مہنگے داموں ملیں گی۔ انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹ کے معاہدے کی وجہ سے پاکستان کی حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ادویات، کتابوں اور کمپیوٹر کی سی ڈیز کی نقل کو روکے۔ ظاہر ہے اس سے طلبہ ، ماہرینِ کمپیوٹر اور مریضوں کو مشکلات پیش آئیں گی اور ان کا بجٹ متاثر ہوگا۔
لیکن یہاں ڈاکٹر اے. آر. کمال نے یہ کہہ کر سامعین کے جذبۂ جہد کو ابھارا کہ یہ سب مسائل اصل میں ہمارے لئے چیلنج ہیں۔ اب ہم نے اپنے اندر تحقیق کی صلاحیت پیدا کرنی ہے ۔ ہمیں میڈیسن میں، انجنیئرنگ اور کمپیوٹر میں اور معاشیات سمیت دیگر میدانوں میں ایسے ماہرین پیدا کرنا ہیں کہ جن کی ایجادات اور نظریات سے نہ صرف ہم خود بلکہ دوسری دنیا بھی فائدہ اٹھائے۔ اسی طرح بے روزگاری کے مسئلے سے نبٹنے کیلئے ہمیں مزدوروں کو ٹریننگ دینا ہوگی۔
ڈبلیو.ٹی.او. کی وجہ سے ہمارے ملک کے صنعتکار اس بات پر مجبور ہوں گے کہ وہ اعلیٰ کوالٹی کی چیزیں بنائیں اور قیمتوں کو ٹھیک رکھیں۔ اس سے صارفین کو اعلیٰ معیار کی چیزیں کم قیمت پر میسر آئیں گی۔ چونکہ دنیا کے تمام ممالک اپنی سرحدوں کو تجارت کے لئے کھول دینے کے پابند ہیں اس لئے پاکستان کے برآمد کنندگان کے لئے بھی پوری دنیا کھلی ہوگی۔ اب یہ ان پر ہے کہ و ہ اپنے مال کی کھپت کے لئے کتنی سر گرمی سے منڈیاں تلاش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر اے. آر. کمال کے اس لیکچرمیں جہاں ان کے علم اور تجربے کی فراوانی تھی وہاں حب الوطنی کی گھلاوٹ بھی شامل تھی جس سے وہ اہلِ وطن کو آنے والے وقت سے نبرد آزما ہونے کے گُر بتا رہے تھے۔اس لیکچر کے بعد مقامی ہوٹل میں ان کے اعزاز میں ایک ظہرانے کا اہتمام بھی تھا۔ یہاں بھی انھوں نے لوگوں کے سوالوں کے جواب دیے اور ڈبلیو.ٹی.او. کے بہت سے گوشے واکیے۔ ڈبلیو.ٹی.او. کے علاوہ بھی پاکستان کے اقتصادی حالات پہ لوگوں نے سوالات کیے اور اپنے شعبے میں ڈاکٹر صاحب کی مہارت سے مستفیذ ہوئے۔
رپورٹ: پروفیسر عبیداللہ