سعودی عرب کا مشرقی شہر الاحساء قدیم مصری تمدن سے بھی تقریباً آٹھ ہزار برس پرانی تہذیب ہے۔ اس شہر الاحساء میں دریافت ہونے والے بعض آثار قدیمہ کے کاربن تجزیات اس کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ آٹھ ہزار برس سے پرانا تہذیبی شہر ہے- الحساء کا علاقہ سعودی عرب میں نخلستانوں کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہے یہاں کھجوروں کے سایہ دار درختوں کے جھنڈ، شفاف چشموں اور صدیوں پرانے رازوں کا گھر الاحساء نخلستان دنیا کے وسیع پیمانے پر قدرتی خزانوں میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہاں شہر میں داخل ہوتے ہی آپ کو نخلستان خطیر رقبے پر پھیلے نظر آئیں گے۔ صحراؤں کے دشت میں دنیا کے سب سے بڑے خود ساختہ نخلستان میں قدیم آبی گزرگاہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے سرسبز، زرخیز ماحول کو زندگی کا تحفہ فراہم کرنے میں کیسے کامیاب رہی۔ یہ بات یقیناً حیرت انگیز ہے۔ الحساء شہر میں داخل ہوتے ہی پورے خطے میں آپ کو درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ ملیں گے، اور نخلستان میں داخل ہوں تو درختوں کا جنگل نظر آتا ہے- الاحسا میں ۳۰ لاکھ سے زیادہ کھجوروں کے درخت ہیں اور یہ زیر زمین پانی کے ذخائر سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ سنہء ۲۰۲۰ میں الحساء کے نخلستان کو دنیا کے سب سے بڑے نخلستان Oasis کے طور پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ Genies Book of World Record میں شامل کرلیا گیا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی ویب سائٹ پر ’دنیا کا سب سے بڑا نخلستان الاحسا" موجود ہے۔ اس کے علاوہ الاحسا کو سنہء ۲۰۱۵ میں یونیسکو کے اچھوتے شہروں میں بھی شامل کیا گیا تھا کیونکہ الاحساء میں عوامی آرٹ اور دستی مصنوعات کا ہنر منفرد مانا گیا ہے، سنہء ۲۰۱۸ میں اونچے اونچے کھجور کے درختوں پر پھیلے ایک لامتناہی سلسلے کے نخلستان کو یونیسکو UNESCO نے عالمی ورثے World Heritage میں شامل کرلیا تھا۔ جبکہ سنہء ۲۰۱۹ میں الاحسا کو عرب کا سیاحتی دارالحکومت تسلیم کیا گیا تھا۔
الحساء کے کھجوروں کے نخلستان کو روایتی کاشتکاری کے طریقوں نے صدیوں پر محیط اس خطے کے سبز جواہرات کو محفوظ رکھنے میں بہت مدد کی ہے اور یہ طریقے آج بھی الحساء میں جدت کے ساتھ رائج ہیں۔ اس نخلستان کی طویل زندگی کا راز مقامی کسانوں کی طرف سے استعمال کیے جانے والے مختلف آبپاشی کے طریقے ہیں- زیر زمین موجود آبی ذخائر پانی کی بہت بڑی مقدار فراہم کرتے ہیں جس کے ذریعے آبپاشی کے بہت سے طریقے عمل میں لائے جاتے ہیں- زمانہ قدیم سے آج تک علاقے کے کسان روایتی آبپاشی کے طریقوں کا سہارا لیتے آئے ہیں۔ اس خطے کی زرخیز مٹی تحلیل شدہ ریت کی تہہ پر موجود ہے اور اس کی اونچائی سعودی عرب کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں کم ہے اس لیے اس علاقے میں زیر زمین پانی ہمیشہ موجود رہتا تھا۔بارش کا پانی بالآخر نزدیکی پہاڑوں کے نچلے حصے میں موجود تہوں کے درمیان خلا کو آہستہ آہستہ بھر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہاں پانی کا بہاؤ تیز ہے اور چونکہ پانی پہاڑوں کی تہوں میں موجود ہے اس لیے یہ چشموں کی شکل میں جاری رہتا ہے۔ آبپاشی اور پینے کے پانی کی کثرت سے دستیابی نے اس علاقے کو ایک زرعی مرکز میں بھی تبدیل کر دیا، یہاں کے آبی ذخائر نخلستان اور اس کی دلکش دولت کو زندہ رکھنے میں بنیادی کردار کے حامل ہیں۔
الحساء کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سال کے بارہ مہینے کاشتکاری کی جاتی ہے۔ الاحسا کے نخلستان کا رقبہ 85.4 مربع کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ جتنا یہ شہر قدیم ہے، اس میں تاریخ کے ہر دور میں بڑے پیمانے پر کاشتکاری ہوتی رہی ہے۔ یہاں انواع و اقسام کی کھیتی باڑی اور آبپاشی کے ترقی یافتہ طور طریقے بھی رائج ہیں۔ کھجوروں کے علاوہ یہاں کے سبز رنگ کے لیموں بھی سعودی عرب میں پسند کیے جاتے ہیں۔ ان کا ذائقہ، خوشبو اور ملائم چھلکا بے حد مشہور ہے۔ الاحساء کے لیموؤں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بارے میں مقامی شعراء نے گیت اور نغمے لکھے ہیں۔ الاحساء میں المشقر کا علاقہ جسے ایک تفریح گاہ بھی بنادیا گیا ہے ، اگر اس تفریح گاہ کے قریب پہنچیں تو لیموؤں کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ یہاں پچھلے سال حکومتی سطح پر ’لومی حساوی‘ کے عنوان سے لیموں
میلہ بھی منعقد ہوا تھا۔ الاحساء میں کھجوروں کے بعد لیموں دوسری بڑی پیداوار ہیں- یہاں کا کوئی زرعی فارم ایسا نہیں جس میں لیموں نہ اگتے ہوں۔ الحساء میں سات ہزار سے 10 ہزار تک لیموں کے درخت سالانہ لگائے جاتے ہیں-
سعودی عرب کے کھجوروں کی کاشت کا مجموعی دس فیصد حصہ الحساء میں کاشت ہوتا ہے، اس کے علاوہ سبز لیموں، رزالحساوی (مشہور لال چاول) انگور، نارنجی اور یہاں موسم سرما کے آغاز میں انار کے علاوہ بھی کئی پھل اور سبزیاں کاشت ہوتی ہیں- الحساء میں مقامی سطح پر لیموں اور کھجوروں سے تیار ہونے والی مصنوعات کی کئی فیکٹریاں بھی موجود ہیں۔ الحساء کا یہ نخلستان واقعی دیکھنے کے قابل ہے۔