مسلم، کتاب الایمان کی ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ‘متی الساعہ’ یعنی قیامت کب آئے گی؟ کے جواب میں جو باتیں منقول ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ‘(الساعہ) فی خمس من الغیب لا یعلمھن الا اللہ’ یعنی وقوعِ قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں سے ہے، جنھیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔یہ پانچ چیزیں کون سی ہیں؟ اس کا جواب بھی اسی حدیث میں سورۂ لقمان کی آخری آیت کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری ہے:
‘‘قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش اتارتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہوتا ہے اور کسی کو بھی پتا نہیں کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا، اور نہ کسی کو یہ علم ہے کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ علیم و خبیر ہے۔’’ (لقمان۳۱:۳۴)
آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ درجِ ذیل چیزوں کا علم اللہ ہی کے پاس ہے:
۱۔ قیامت کب واقع ہو گی؟
۲۔ بارش کب ہو گی، کہاں ہو گی اور کتنی ہو گی؟
۳۔ ماؤں کے رحموں میں کیا ہے؟
۴۔ انسان کل کیا کرے گا؟
۵۔ کوئی شخص کس جگہ مرے گا؟
اس حدیث کی روشنی میں جب اس آیت کو دیکھا جاتا ہے ، تو عموماً ، دو اشکالات بیان کیے جاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ آیا یہ بات درست ہے کہ یہ پانچ چیزیں ہی بس وہ چیزیں ہیں، جنھیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ دوسرا اشکال یہ، کہ کیا یہ سب چیزیں آج کے انسان کے لیے بھی اسی طرح غیب کی چیزیں ہیں، جس طرح ماضی کے انسان کے لیے تھیں؟ کیونکہ اب تو سائنس کی ترقی نے انسان کی نگاہوں کو بہت تیز کر دیا ہے اور اس کے سامنے سے غیب کے بہت سے پردے اٹھا دیے ہیں۔ اب وہ جانتا ہے کہ بارش کب ہو گی اور کہاں ہو گی اور وہ جانتا ہے کہ رحمِ مادر میں لڑکا ہے یا لڑکی۔
چنانچہ یہ بات بے دھڑک کہہ دی جاتی ہے کہ یہ دعویٰ اس دور کے انسان کے سامنے تو درست تھا، آج کے انسان کے سامنے درست نہیں۔ لیکن اگر اسی آیت کی روشنی میں، جس کا حوالہ اس حدیث میں دیا گیا ہے، اس پر غور کیا جائے تو دونوں اشکالات بالکل رفع ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں احادیث پر غور و فکر کے معاملے میں عموماً یہ خامی پائی جاتی ہے کہ یہ غور و فکر قرآنِ مجید کی روشنی میں نہیں ہوتا، بلکہ اس کے برعکس آیات پر احادیث کی روشنی میں غور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ نزولِ قرآن کے بعد ہی آپؐ کے اقوال و اعمال، حدیث قرار پائے ہیں۔ احادیث میں جو نور پایا جاتا ہے، وہ درحقیقت وحی الٰہی ہی کا پرتو ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘فی خمس من الغیب لا یعلمھن الا اللہ’ کے بعد لفظ ‘خمس’کو واضح کرنے کے لیے جب قرآن مجید کی ایک آیت کا حوالہ دیا ہے، تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ آپ ؐیہ بتانا چاہتے ہیں کہ قیامت قرآنِ مجیدکی فلاں آیت میں مذکور غیب کی پانچ چیزوں میں سے ایک ہے۔ حدیث میں بیان کردہ الفاظ کے محذوفات اگر کھولے جائیں تو جملہ کچھ یوں بنے گا: ‘الساعہ فی خمس من امور الغیب، المذکور فی سورۃ لقمان، لا یعلمھن الا اللہ۔’ (قیامت سورۂ لقمان میں بیان کردہ ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے، جنھیں خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا)۔ ‘یعلمھن’ میں ‘ھن’ کی ضمیر غائب ‘المذکور فی سورہ لقمان’کی طرف راجع ہے۔لہٰذا، حدیث کے الفاظ کا یہ مطلب ہی نہیں ہے کہ غیب کی کل چیزیں پانچ ہیں اور انھیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ سے یہ نتیجہ نکالنا بالکل غلط ہے کہ قیامت اللہ کے علم میں پائی جانے والی غیب کی کل پانچ چیزوں میں سے ایک ہے۔
سورۂ لقمان کی زیر بحث آیت میں غیب کی ان پانچ چیزوں کا بیان جس طرح کیا گیا ہے، اس سے یہ بات تو لازم آتی ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی بھی ان کا علم نہیں رکھتا، لیکن یہ بات اس میں کہیں نہیں پائی جاتی کہ انسان کے لیے غیب کی کل چیزیں بس یہی ہیں۔ اس آیت میں جتنی چیزیں بیان کر دی گئی ہیں، ان کے بارے میں بھی وہی بات ہے، جو اللہ کے سارے غیب کے بارے میں ہے کہ اسے اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔ سورۂ لقمان میں یہ آیت اس لیے نہیں آئی کہ اللہ کے علم میں غیب کی کل جتنی چیزیں پائی جاتی ہیں، یہ ان کا احاطہ کر دے۔ آیت جس سیاق و سباق میں آئی ہے، اس میں اصل مسئلہ صرف یہ ہے کہ جب قیامت سے ڈرایا جاتا ہے ، تو وہ جھٹ سے یہ سوال کر دیتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ اگر آپؐ قیامت کے واقع ہونے کا وقت نہیں بتا سکتے ، تو گویا آپؐ کی ساری بات ہی بے کار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وقوعِ قیامت کے بارے میں یہ بتاتے ہوئے کہ اس کا وقت اللہ ہی جانتا ہے، انسان کی عام زندگی کی کچھ اور چیزیں بھی گنوائی ہیں، جن کا تجربہ اسے روزمرہ ہوتا رہتا ہے، اور ان سے یہ استدلال کیا ہے کہ کتنی ہی چیزیں ایسی ہیں، جن کے وقوع سے پہلے تمھیں ان کے وقوع کا وقت معلوم نہیں ہوتا۔ کیا تم بارش کے برسنے سے پہلے اس کا وقت جانتے ہو؟ کیا تم ماؤں کے جننے سے پہلے یہ جانتے ہو کہ ان کے رحموں میں کیا ہے؟ کیا تم میں سے کوئی ہے، جو یہ جانتا ہو کہ وہ کل کیا کرے گا؟ اور وہ کون ہے ، جو یہ بتا سکے کہ وہ کس جگہ مرے گا؟ یقیناتمھیں ان چیزوں کے وقوع سے پہلے ان کے بارے میں ایسا کوئی علم نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود تم ان سب کو مانتے ہو۔ اس لیے کہ تمھیں کسی چیز کے وقوع کا صحیح وقت معلوم نہ ہونا اس چیز کے وجود کی نفی نہیں کر دیتا۔ انسان اگر نہیں جانتا کہ بارش کس وقت ہو گی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ازافق تا افق چھائی ہوئی گھٹائیں بتا رہی ہوتی ہیں کہ بارش ہونے کو ہے۔ اگر انسان کو بارش کا وقت معلوم نہیں ہے ، تو کیا اسے بارش کے ان واضح آثار ہی کا انکار کر دینا چاہیے؟ اسی طرح اگر واضح آثار بتاتے ہیں کہ کوئی عورت جنے گی، لیکن انسان نہیں جانتا کہ وہ کس وقت جنے گی اور کیا جنے گی؟ تو کیا انسان کے لیے یہ بات درست ہو گی کہ وہ اس کے جننے کا صحیح وقت معلوم نہ ہونے کی بنا پر اس حقیقت ہی کا انکار کر دے کہ وہ مستقبل میں کسی وقت ضرور جنے گی یا وہ اس کے حاملہ ہونے ہی کا انکار کر دے؟ اس کے بعد انسان کے اپنے علم کا حال بتایا کہ وہ خود مستقبل میں جن افعال و اعمال کو انجام دیتا ہے، ان کے بارے میں بھی وہ کچھ نہیں جانتا اور مستقبل میں خود اس پر کیا گزرے گی، وہ اس سے بھی بالکل ناواقف ہوتا ہے، لہٰذا قیامت کے دلائل و شواہد آنکھوں کے سامنے ہونے کے بعد انسان کو اس کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔
اب ہم دوسرے اشکال کی طرف آتے ہیں، یعنی یہ کہ یہ سب چیزیں آج کے انسان کے لیے بھی کیا اسی طرح غیب کی چیزیں ہیں، جس طرح یہ ماضی کے انسان کے لیے تھیں؟ کیونکہ اب تو سائنس کی ترقی نے انسان کی نگاہوں کو بہت تیز کر دیا ہے اور اس کے غیب کے بہت سے معاملات آشکار ہو گئے ہیں۔ اب وہ جانتا ہے کہ بارش کب ہو گی اور کہاں ہو گی، وہ جانتا ہے کہ رحمِ مادر میں لڑکا ہے یا لڑکی، لہٰذا، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ دعویٰ اس دور کے انسان کے سامنے تو درست تھا، آج کے انسان کے سامنے درست نہیں۔
اس آیت میں بیان کردہ چیزوں کے بارے میں یہ اشکال بھی سراسر کم فہمی پر مبنی ہے۔ آثار سے جاننا علم غیب نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان زمانی اور مکانی دونوں ہی اعتبار سے، صرف اپنے سامنے کی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ وہ براہِ راست مستقبل میں یا پس دیوار جھانکنے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتا۔
وہ بتا سکتا ہے کہ بارش کب ہو گی، لیکن کس طرح؟ مستقبل میں جھانک کر نہیں، حال میں موجود احوال کا مطالعہ کرکے۔ جو قوانین قدرت اس کائنات میں اس وقت جاری و ساری ہیں اور جن کے بارے میں اس کا یہ گمان ہے کہ وہ آیندہ بھی اسی طرح جاری و ساری رہیں گے، ان کا مطالعہ کرکے وہ آیندہ کے بارے میں ایک اندازہ لگاتا ہے اور پھر اسے بیان کر دیتا ہے۔ یعنی یہ کہ اگر یہ سب احوال اسی طرح برقرار رہے، تو جاری و ساری قوانین کی ضرب، تقسیم اور جمع تفریق یہ بتاتی ہے کہ فلاں علاقے میں، فلاں وقت میں بارش ہو گی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ریل گاڑی میں بیٹھا ہوا ایک شخص اپنے ساتھ والے شخص سے کہتا ہے کہ اگر یہ گاڑی اسی رفتار سے چلتی رہی تو ایک گھنٹے کے بعد فلاں اسٹیشن پر پہنچ جائے گی۔ اس کی بات چونکہ اس کائنات میں جاری قوانین کے مطابق ہوتی ہے۔ لہٰذا، درست ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر ہمارے پاس اس بات کا علم ہو کہ فلاں سیارہ کس رفتار سے کس رخ پر جا رہا ہے، تو اس کائنات میں موجود ریاضیاتی قوانین کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سیارہ فلاں دن ، فلاں وقت پر، اس جگہ ہو گا، اس سیارے کے پاس سے گزر جائے گا یا اس سے ٹکرا جائے گا۔ یہ بات کہنے کے لیے ہم نے کوئی مستقبل میں جھانک کر اس سیارے کو اس سے ٹکراتا ہوا نہیں دیکھا ہوتا، بلکہ ہم حال میں بیٹھ کر اسے اس کی طرف جاتا ہوا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بالکل ، اسی طرح جیسے وہ آدمی جو گاڑی میں بیٹھا ہوا گاڑی کو ایک خاص رفتار سے کسی اسٹیشن کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا ہے۔
چنانچہ ہم مستقبل کے بارے میں جو بات بھی کہتے ہیں، حال میں موجود قوانینِ قدرت کے بارے میں اپنے علم کی بنا پر کہتے ہیں اور بات خواہ کتنی ہی حتمی کیوں نہ محسوس ہو، اپنی حقیقت میں سراسر ہماراقیاس ہوتی ہے، نہ کہ ہمارا مشاہدہ۔
رحمِ مادر میں بچے کی جنس کے بارے میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ بھی اب کوئی ایسی علم غیب کی چیز نہیں رہی، جسے خدا کے علاوہ کوئی جان ہی نہ سکتا ہو۔ جدید سائنس نے انسان کو اس جگہ پہنچا دیا ہے کہ وہ اب آسانی سے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ کئی ماہ بعد جنم لینے والا وجود، لڑکا ہے یا لڑکی۔ غور کیا جائے تو یہ اشکال بھی بس رواروی میں پیدا ہو گیا ہے۔ انسان کے پاس اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
اول بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ ‘ماؤں کے رحموں میں کیا ہے’، یہ نہیں کہا کہ ‘فلاں ماں کے رحم میں اس وقت لڑکا ہے یا لڑکی۔’ انسان نے خواہ مخواہ اس بات کو جنین کی جنس تک محدود کر دیا ہے ، حالانکہ ایک جنین صرف نر اور مادہ ہی نہیں ہوتا، اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ وہ کافر اور مسلمان بھی ہوتا ہے اور عمر اور ابوبکر بھی ہوتا ہے، فرعون اور ابوجہل بھی ہوتا ہے، کسان اور فلسفی بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اور نہ جانے کتنے پہلو ہوتے ہیں، جو مستقبل میں رونما ہوتے ہیں۔ خدا ہی ان سب کو جانتا ہے۔ لیکن چلیے، ہم صرف جنین کی جنس ہی کا پہلو لے لیتے ہیں اور اس کے بارے میں ذرا انسان کے کمالِ علم کو دیکھتے ہیں۔
ایک مثال پر غور کیجیے، دھواں یہ بتا دیتا ہے کہ آگ لگی ہوئی ہے۔ اگر دھوئیں کے ایک حصے کو لیبارٹری میں لے جا کر ٹیسٹ کریں تو سلگنے والے مادے کے بارے میں بہت کچھ جانا اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ یہی معاملہ رحمِ مادر میں بچے کا ہے۔ وہ زمانی و مکانی اوٹ میں پڑی ہوئی ایک چیز ہے۔ انسان براہِ راست اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا، ہاں کسی طرح سے اسے کچھ نشانیاں مل جائیں اور ان نشانیوں کا مطالعہ اسے کسی نتیجے تک پہنچا دے، تو وہ کچھ جان سکتا اور بیان کر سکتا ہے۔ یہ کسی شے کے بارے میں آثار کے ذریعے سے ایک قیاس کرنا ہے۔ یہ مستقبل کو جاننا نہیں ہے۔ سائنس کی یہ ترقی اس بات کی تذکیر ضرور کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات کچھ ایسے اصولوں پر بنائی ہے کہ ہم حال میں بیٹھ کر مستقبل کے بارے میں اور بہت فاصلے پر بیٹھ کر غیر موجود چیز کے بارے میں قیاس کر سکتے ہیں۔
اب اس مسئلے کو ایک اور پہلو سے دیکھیے، غیب کی بعض چیزیں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے اپنے نبیوں کو بتائی ہیں۔ بعض اوقات رویائے صادقہ کے ذریعے سے بعض چیزیں کسی نہ کسی حد تک انسان کو القا کی جاتی ہیں، لیکن نہ وہ وحی انسان کو عالم الغیب بناتی ہے اور نہ یہ القا، کیونکہ عالم الغیب ہونا ایک صفت ہے، جس کے حامل کے لیے عالم غیب بھی عالم الشہادۃ ہوتا ہے اور وہ پردۂ غیب کے حقائق کسی کے بتانے سے نہیں، بلکہ از خود جان سکتا ہے، بعض انسانوں کو اللہ تعالیٰ ایسی صلاحیتیں دے دیتا ہے یا وہ ایسے علوم حاصل کر لیتے ہیں، جن کے ذریعے سے وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ غیب کی چیزوں میں سے کچھ کے بارے میں کسی نہ کسی حد تک جان لیتے ہیں۔ یہ بھی عالم الغیب ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ درحقیقت کاہنوں کے لیے جنات کا سرقہ ہوتا ہے، جس کا قرآن مجید میں ذکر (سورہ جن،آیت ۹ میں) موجود ہے، یا یہ کسی خاص صلاحیت والے کا عمدہ قیاس ہوتا ہے اور بس، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ غیب کی بے شمار چیزوں میں سے خاص ان پانچ چیزوں ہی کا ذکر کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پانچ وہ بڑی بڑی اور نمایاں چیزیں ہیں، جن سے انسان بہت قریب کا تعلق رکھتا ہے۔ اور یہ باقی چیزوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔