ایک وقت تھا کہ دنیا میں ہر قوم فقط اپنی زبان بولتی ’ اسی میں لکھتی پڑھتی او راپنا نِظام حکومت چلاتی تھی ۔ پھر سلطنتیں مختلف ملکوں اور براعظموں تک پھیلنے لگیں تو محکوم اپنے حاکموں کی زبان اپنانے لگے۔ مصراور ایشیائے کوچک میں پہلے یونانی زبان آئی اور پھر رومی سلطنت میں وسعت کے ساتھ ساتھ یہاں رومن کے پھریرے لہرائے ۔ ساتویں صدی عیسوی میں اسلامی فتوحات کے نتیجے میں مغربی ایشیا او رشمالی افریقہ کی زبان عربی قرار پائی اور مقامی زبانیں بتدریج نیست و نابود ہو گئیں ۔
سولہویں صدی عیسوی میں یورپی نو آبادیوں اور مقبوضات کا دور آیا اور یورپی زبانیں دنیا کے اکثر ممالک میں کاروبار حیات پر چھا گئیں ۔ پرتگالی ’ ہسپانوی ’ ولندیزی ’ فرانسیسی اور آخر میں انگریزی زبان بہت سے ملکوں میں آکر دفتری سنگھاسن پر براجمان ہو گئی ۔ براعظم افریقہ میں پرتگالی ’ ولندیزی ’ انگریزی اور فرانسیسی کا زیادہ زور رہا ’ شرق الہند میں ولندیزی اور برصغیر میں انگریزی کا راج رہا۔براعظم امریکہ اور آسٹریلیا پر ہسپانوی’ پرتگالی اور انگریزی نے قبضہ جما لیا۔
کم و بیش دو صدیوں کی غلامی کے بعد جب ایشیا او رافریقہ میں آزادی کی لہریں اٹھیں تو یورپی اقوام کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا تا ہم براعظم امریکہ اور آسٹریلیا کا معاملہ مختلف تھا کہ وہاں ان اقوام نے غیر مہذب مقامی آبادیوں کو نیست و نابود یا کاروبار زندگی ہی سے معطل کر کے رکھ دیا تھا اور یورپی قومیں وہاں نئی اقوام کی صورت میں ابھریں جن کی زبانیں یورپی ہی تھیں ۔
براعظم ایشیا میں مفتوحہ اقوام اپنے تہذیب وتمدن کے عروج کو پاکر زوال پذیر ہوئی تھیں ’ چنانچہ ان کی دفتری زبانیں تمام کاروبار مملکت کو انجام دے چکی تھیں ’ اس لیے آزادی کی تحریک میں ان کی زبانیں بھی دوش بدوش رہیں ۔
براعظم افریقہ میں وہ ممالک جہاں مسلمان موجود تھے ’ تہذیب سے آشنا رہے تھے ’ چنانچہ بہت جلد ان ممالک نے بھی غیر اقوام کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکا بلکہ افریقی ممالک نے تو عربی ہی کو اپنی دفتری زبان قرار دے کر فرانسیسی اور انگریزی کو نکال باہر کیا ۔
ایشیائی ممالک میں سے ایران او ر افغانستان میں فارسی ’ ترکیہ میں ترکی ’ عرب ممالک میں عربی ’ پاکستان میں اردو ’ بھارت میں ہندی ’ چین میں چینی ’ بھوٹان میں تبتی ’ نیپال میں نیپالی ’ برمامیں برمی ’ تھائی لینڈ میں تھائی اور سری لنکا او رمالدیپ میں سنہالی کی تحریکیں پروان چڑھیں ۔ ان میں سے اکثر ممالک نے غیر ملکی زبانوں کو اپنے دفتروں میں سے نکالنے میں کامیابی حاصل کر لی حتٰی کہ انڈونیشیا او ر ملائشیا نے بھی ملائی کو ’ جو محض دو ہزار الفاظ پر مشتمل تھی ’ ترقی دے کر دفتر ی زبان بنا لیا ’ لیکن ایشیا میں فلپائن کے علاوہ برصغیر کے دو ممالک اور ہیں جن کے دفاتر ابھی تک انگریزی سے نجات حاصل نہیں کر سکے ۔ یہ دو ممالک بھارت اور پاکستان ہیں جہاں بالترتیب ہندی ’ انگریزی اور اردو ’ انگریزی کی جنگ جاری ہے ’ حالانکہ بنگلہ دیش نے بھی پاکستان سے علیحدگی کے بعد انگریزی کو اپنے دفتری نظام سے نکا ل دیا ہے اور صرف بنگالی کو اپنی دفتر ی زبان ٹھہرایا ہے ۔
کمشنر زبان دفتری کینیڈانے ۱۹۸۲ء میں دنیا بھر کی دفتری زبانوں کا جو رنگین نقشہ شائع کیا ’ اس میں انگریزی کی سر خی ایشیا میں فلپائن ’ پاکستان اور بھارت کے چہرے پر سیاہی بن کر جھلک رہی ہے ۔
اس نقشے کے مطابق اس وقت دنیامیں صرف ۶۵ زبانیں ۱۴۵ ممالک کے دفتروں میں استعمال ہورہی تھیں ۔ ان میں تیرہ زبانیں اہم ہیں جن میں سے آٹھ مغربی ( انگریزی ’ فرانسیسی’ ہسپانوی’ پرتگالی ’ ولندیزی ’ ڈینش ’ سویڈش اور جرمن ) اور پانچ مشرقی ( عربی ’ چینی ’ فارسی ’ ترکی اور ملائی ) قابل ذکر ہیں جو دو یا دوسے زیادہ ممالک میں رائج ہیں ۔
سوئزر لینڈ اور سنگاپور میں چارچار اور یوگوسلاویہ میں تین زبانیں رائج ہیں ۔ روس ایسا ملک ہے جس کے وسیع وعریض یورپی اور ایشیائی علاقوں میں روسی زبان نافذ ہے ’ لیکن اس کی مغربی ریاستوں میں ان کی اپنی زبانیں رائج ہیں ۔
انگریزی اس وقت ۳۴ ممالک میں مستعمل ہے ۔ ان میں سے ۲۲ ممالک میں صرف انگریزی ’ تین میں انگریزی کے ساتھ فرانسیسی ’ دو ممالک میں انگریزی کے ساتھ ولندیزی او رسات میں انگریزی کے ساتھ ان کی قومی زبانیں بھی رائج ہیں ۔ ہسپانوی اس وقت ۱۸ ملکوں کی دفتری زبان ہے ۔ پرتگالی ۵ ممالک میں نافذ ہے ۔ ایشیائی زبانوں میں سے صرف عربی ایسی زبان ہے جو ۲۲ ممالک میں رائج ہے ۔
جِن ۲۲ ممالک میں صرف انگریزی بطور دفتری زبان رائج ہے ’ ان میں امریکہ ’ برطانیہ ’ آسٹریلیا ’ پاپوا نیو گنی ’ نیوزی لینڈ ’ سیرالیون ’ لائبیریا ’ گھانا ’ نائجیریا ’ یو گنڈا ’ زمبیا ’ ملاوی ’ زمبابوے ’ بوٹسوانا’ گایانا ’ جمیکا ’ بہاماز ’ فجی’ ماریشس’ ہانگ کانگ ’ بیلائز اور گیمبیا شامل ہیں ۔ سات ممالک جہاں انگریزی کے ساتھ ان کی قومی زبانیں بھی نافذ ہیں ’ ان میں آئر لینڈ ’ کینیا’ فلپائن ’ لیسو تھو ’ سوازی لینڈ’ بھارت اور پاکستان شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ سنگاپور میں انگریزی کے ساتھ ساتھ چینی ’ ملائی اور تامل زبانیں بھی رائج ہیں ۔ تین ممالک جہاں انگریزی اور فرانسیسی دونوں دفتری زبانوں کے طور پر رائج ہیں ’ کینیڈا ’ کیمرون اور فرانسیسی گی آنا ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کینیڈا پہلے ڈیڑھ دو صدیوں تک فرانس کے تسلط میں رہا ’ پھر جنگ ہفت سالہ میں برطانیہ نے اس پر قبضہ جما لیا ۔ اور کیمرون کو گزشتہ صدی کے اواخر میں فرانس اور برطانیہ نے باہم مل کر تقسیم کر لیا تھا اور ۱۹۶۰ء میں آزادی کے بعد دونوں حصے متحد ہوئے ۔ دوممالک جہاں انگریزی اور ولندیزی نافذ ہے ’ جنوبی افریقہ اور نمیبیا ہیں ۔
انگریزی کے بعد دوسری بڑ ی زبان فرانسیسی ہے جو ان تین مشترک ملکوں کے علاوہ ۲۲ دیگر ممالک میں رائج ہے ۔ ان میں سے پندرہ میں صرف فرانسیسی مستعمل ہے ۔ ان میں فرانس ’ مناکو ’ سنی گال ’ ہیٹی ’ مالی ’ گنی ’ نائیجر ’ بینن’ ٹوگو ’ برکینا فاسو ’ چاڈ ’ وسطی افریقی جمہوریہ ’ زائرے ’ کانگو اور گیبون شامل ہیں ۔ ۶ ممالک جہاں فرانسیسی کی ساتھ ساتھ ان ملکوں کی قومی زبانیں بھی رائج ہیں ’ ان میں مڈغاسکر’ ماریطانیہ ’ کیمرون ’ جزائر قمر ( کومورو) ’ جبوتی اور روانڈا شامل ہیں ۔ ایک ملک سوئزر لینڈ میں اطالوی اور جرمن کے ساتھ فرانسیسی بھی رائج ہے ۔
تیسری بڑی دفتری زبان ہسپانوی ہے جو سپین ’ میکسیکو ’ گوئٹے مالا’ ہونڈوراس ’ نکاراگوا ’ کوسٹاریکا ’ پانامہ ’ کیوبا ’ وینزویلا’ کولمبیا ’ ایکوے ڈور ’ پیرو ’ چلی ’ ارجنٹائن ’ یوروگوئے ’ پیراگوئے اور جمہوریہ ڈومینکن میں رائج ہے ۔ پرتگالی کے پانچ ممالک پرتگال ’ برازیل ’ موز مبیق ’ انگولا اور گنی بساؤ ہیں ۔
جرمن زبان متحدہ جرمنی کے علاوہ آسٹریا اور سوئزر لینڈ میں رائج ہے ۔ ولندیزی ’ نیدر لینڈ اور سرینام میں رائج ہے اور اس کے علاوہ دو ممالک میں انگریزی کے ساتھ بطور دفتر ی زبان بھی استعمال ہوتی ہے ۔
سویڈش ’ سویڈن اور فن لینڈ میں رائج ہے اور ڈینش ’ ڈنمارک اور گرین لینڈکی دفتر ی زبان ہے۔ اطالوی زبان اٹلی اورسوئزر لینڈ میں رائج ہے ۔ جہاں تک مشرقی زبانوں کا تعلق ہے ’ ان میں عربی ’ فارسی ترکی اور ملائی قابل ذکر ہیں ۔ عربی ۲۲ ممالک میں رائج ہے ۔ان میں سے ۱۹ میں صرف عربی دفتر ی زبان ہے ۔
یہ لبنان ’ شام ’ اردن ’ عراق ’ کویت ’ متحدہ عرب امارات ’ بحرین ’ قطر ’ عمان ’ فلسطین ’ متحدہ یمن ’ مراکش ’ مصر ’ مغربی صحرا ’ الجزائر ’ لیبیا ’ تیونس ، سعودی عرب اور سوڈان ہیں ۔ ان کے علاوہ دو ممالک ماریطانیہ اور جبوتی میں فرانسیسی بھی عربی کے ساتھ نافذ ہے ۔ مصر اور الجزائر وغیرہ میں اگرچہ فرانسیسی ذریعہ تعلیم اور عام زندگی میں رائج ہیں لیکن بطور دفتر ی زبان نہیں ۔ صومالیہ میں صومالی کے ساتھ عربی بھی سرکاری زبان ہے ۔
ترکی اس وقت جمہوریہ ترکی کے علاوہ قبرص میں بھی رائج ہے جہاں دوسری زبان یونانی ہے ۔ فارسی’ ایران کے علاوہ افغانستان میں بھی رائج ہے جہاں دوسری زبان پشتو ہے ۔ ملائی ملائشیااور انڈونیشیا اور برونائی میں نافذ ہے او راس کے ساتھ سنگاپور میں بھی رائج ہے ۔ انڈونیشیا میں ملائی کو بھاسا انڈ ونیشیا کہا جاتا ہے ۔
دنیا کے چالیس ممالک ایسے ہیں جن کی اپنی زبانیں ان کے دفاتر میں رائج ہیں ’ ان میں سے کچھ کا ذکر اوپر آچکاہے ۔ باقی ۲۶ ممالک جن میں ان کی اپنی زبانیں رائج ہیں ’ روس ’ منگولیا’ کمپوچیا ’ تھائی لینڈ ’ ویتنام ’ جاپان ’ لاؤس ’ برما’ بنگلہ دیش ’ نیپال ’ بھوٹان ’ کوریا ’ مالٹا ’ ناروے ’ پولینڈ ’ چیکو سلواکیہ ’ ہنگری ’ رومانیہ ’ البانیہ ’ بلغاریہ ’ یونان ’ صومالیہ ’ تنزانیہ ’ اسرائیل ’ مالدیپ اور برونڈ ی ہیں۔
اس تناظر میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے اکثرممالک نے اپنی قومی زبانوں کو دفتروں میں رائج کر رکھا ہے اور ایشیا میں فلپائن ’ بھارت اور پاکستان کے سوا کوئی چوتھا ملک ایسا نظر نہیں آتا جہاں انگریزی دفتروں میں راج کررہی ہو ۔ پھر دنیا بھر میں انگریزی کا دفتر ی زبان کی حیثیت سے تناسب دیگر یورپی زبانوں سے بھی کم ہے جبکہ روس’ چین اور جاپان اپنی قومی زبانوں ہی کو دفتروں میں رائج کر کے ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک ہم اس طوق غلامی کو پہنے رہیں گے ۔ (بشکریہ: ماہنامہ اردو ڈائجسٹ)