کئی سال کی بات ہے، بندہ کے ایک عزیز عبدالرشید نے جو بورے والا کے مضافات میں رہتے ہیں اور اچھے خاصے تنومند جوان آدمی ہیں، اپنا واقعہ سنایا کہ میری ایک ٹانگ میں رینگھن کا درد شروع ہو گیا (جسے وجع الورک، عرق النساء، لنگری کا درداور ڈاکٹر شائی ٹیکا بھی کہتے ہیں) گولیاں، انجکشن، مالشیں، پتے باندھنا وغیرہ کوئی علاج کامیاب نہ ہوا حتیٰ کہ میں نے فصد بھی کھلوائی مگر آرام نہ ہوا۔ اچانک ایک دن ہمارے موضع میں ایک منحنی سا شخص ، چھوٹی سی داڑھی، سر پر لمبے لمبے بال، تسبیح اور صندوقچی لیے وارد ہوا اور مشہور کر دیا کہ میں سید اور عامل ہوں۔ سرگودھا سے آیا ہوں۔ شاید اپنے کسی معتقد کے گھر آیا ہو۔ بہرحال مرد کم اور عورتیں زیادہ، اپنی اپنی مشکلات کے دور کروانے کے لیے حاضر خدمت ہونے لگیں۔ جب کچھ زیادہ ہی چرچا ہونے لگا تو میں نے خیال کیا کہ اسی کے پاس جا کر معلوم کروں، شاید مجھے مرض کی بجائے کوئی اور ہی چکر نہ ہو۔ میں نے یہ تو پہلے ہی سن رکھا تھا کہ ہر مصیبت زدہ کو وہ ‘‘تعویذ’’، ‘‘جادو’’ اور ‘‘سایہ’’ (جنات) کی کارستانی ہی بتاتے ہیں، اور اپنی خدمت میں وہ (غالباً نقدی کے علاوہ) کپڑا، گوشت وغیرہ کی صورت میں کرواتے ہیں، (گوشت غالباً اپنے ساتھ میزبانوں کی ہانڈی کا انتظام کرنے کے لیے شامل فرماتے تھے) خیر میں وہاں پہنچا اور اپنا قصہ بیان کیا تو فرمانے لگے تنہائی میں بتاؤں گا۔ کچھ دیر کے بعد لوگ چلے گئے تو میں نے پھر یاد دہانی کروائی، فرمایا تمھارے ہاں کوئی ایسی جگہ (مکان وغیرہ) ہے جہاں رہائش نہ ہو۔ میں نے کہاہاں بکریوں کا باڑہ ہے۔ فرمایا ٹھیک ہے وہاں چلو اور ہاں تھوڑی سی روئی ساتھ لے لینا! میں اندر روئی لینے چلا گیا اور پھر ہم دونوں باڑہ میں پہنچ گئے۔ میں نے کنڈاکھولا اندر گئے تو پوچھا کوئی چارپائی بھی یہاں موجود ہے؟ میں نے کہا ہاں! کہا نکالو! میں نے چارپائی نکال کر صحن میں بچھا دی۔ پھر مجھے حکم دیا کہ اس پر لیٹ جاؤ اور آنکھیں بند کر لو! (میرا نام ولدیت وغیرہ تو پہلے ہی پوچھ رکھا تھا) میں ابھی کلام پڑھ کر تم پر دم کروں گا اور جو خرابی اندر ہو گی وہ باہر آجائے گی۔ یہ کہہ کر وہ روئی میرے سینے پر رکھ دی۔ مجھے کچھ شبہ سا ہوا کہ آنکھیں بند کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ آخر جو کچھ ہو گا وہ مجھے انھوں نے دکھانا ہی ہے یا پھر شاید اس نے کوئی چکر نہ چلانا ہو، لہٰذا میں نے لیٹ کر آنکھیں بظاہرتو بند کر لیں مگر ایک آنکھ کے کونے سے دیکھتا رہا۔ خیر شاہ صاحب نے کچھ منہ ہی منہ میں پڑھنا شروع کر دیا ، اور چارپائی کے گرد چکر لگانے بھی شروع کر دیے، یوں تو وہ کھڑے ہو کر پڑھتے اور چکر لگاتے تھے، مگر یہ بات میں نے نوٹ کی کہ میرے سینے کے برابر آکر جھکے، اور میرے سینہ پر اس جگہ پھونک سی ماری جہاں روئی رکھی ہوئی تھی۔ اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک چھوٹی سی ڈلی ان کے منہ سے نکل کر پھونک کے ساتھ ہی روئی پر گری۔ میں نے خیال کیا کہ روٹی یا گوشت کا کوئی ریزہ دانتوں میں رہ گیا ہو گا وہ گرا ہے، مگر جب میں نے یہ دیکھا کہ چند منٹ بعد اس روئی سے دھواں نکلنے لگا ہے، تو فوراً مجھے اس عامل کی ساری سکیم سمجھ میں آگئی، کہ جب میں روئی لینے اندر مکان میں گیا تھا، اس وقت اس نے اپنی صندوقچی میں سے ڈبیہ میں سے فاسفورس کی ڈلی توڑ کر منہ میں رکھ لی، اور اب یہاں اکیلے معمول بنا کر مجھے الو بنانا چاہتا ہے۔ دو تین منٹ بعد جب دھواں زیادہ ہی نکلنے لگا، تو شاہ صاحب نے بلند آواز میں مجھے کہا ‘‘جوان! آنکھیں کھول کردیکھو، کتنا زبردست کالا جادو تم پر کیا گیا ہے! تمھاری قسمت اچھی تھی کہ میں عین وقت پر پہنچ گیا، ورنہ تمھارا ‘‘ککھ’’ بھی نہ رہتا۔ دیکھو! تمھارے سینہ میں سے کالا علم نکل رہا ہے۔’’ مجھے یہ فراڈ دیکھ کر غصہ آیا اور میں نے اٹھ کر اس کا بازو پکڑ لیا۔ وہ تو تھا ہی سرکنڈوں کا گھوڑا پھر مجرم ضمیر جب میں نے اسے کہا کہ ابھی صندوقچی کھول اور وہ پانی والی ڈبیہ میں جو چیز ہے وہ مجھے نکال کر دکھا! تو تو مجھے مراثی معلوم ہوتا ہے، کیا ایسے فراڈ سید کیا کرتے ہیں؟ یہ سن کر اس کا رنگ فق ہو گیا اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا، جوان، خدا کی قسم تجھے اور کچھ بھی نہیں۔ ‘‘رینگھن وا’’ ہے اس کا دوائی سے علاج کروا لو، اور اللہ کا واسطہ، بولنا مت، اور میری روزی میں لات نہ مارنا، آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔
اسی بستی میں اس نے ایک مریضہ کو جوٹی بی کی آخری سٹیج پر تھی، حسب معمول ‘‘تعویذ ڈالے’’ بتلائے، عورتوں نے تو حسب معمول اسے تسلیم کر لیا، مگر مردوں میں سے کسی کو شک ہو گیا، تو شاہ صاحب نے فرمایا میں تعویذنکال کر دکھلا دوں گا۔ چنانچہ مریضہ کی والدہ وغیرہ کا نام پوچھ کر مزید ‘‘حساب کتاب’’ کرکے فرمایا صحن کی یہ جگہ دو فٹ کھودو! وہ کھودی تو کچھ نہ نکلا تو کہا ایک فٹ اور کھودو۔ مگر کچھ نہ نکلا تو پھر حساب کیا، اور ایک ہاتھ ہٹ کر پھر کھدوائی کروائی وہاں سے بھی کچھ نہ ملا، تو فرمایا بڑی چھاننی لاؤ! وہ لینے گئے ، تو انھوں نے پرانی سی لوہے کی پتریوں پر ایک پرانا سا کاغذ لپیٹا ہوا، جس پر مریضہ کا نام اور اس کی والدہ کا نام اور کچھ ہندسے وغیرہ اور اوٹ پٹانگ شکلیں اور الفاظ لکھ کر، پرانے سے سرخ رنگ کے دھاگے سے باندھ کر سامان پہلے ہی تیار کر رکھا تھا، اس گڑھے میں بڑی چابکدستی سے دبا دیا، اور پھر چھاننا آگیا اور یہ ‘‘تعویذات’’ بھی برآمد ہو گئے۔ اور عامل صاحب کی چاندی بن گئی۔ پرانی پتریاں ، پرانا کاغذ اور اسی گھر کی مٹی، عرصہ سے ڈالے ہوئے تعویذوں کا ثبوت بن گئی۔ نفسیاتی طور پر مریضہ کو اس خیال سے کہ میری تکلیف کی اصل وجہ تو دور ہو گئی، ہفتہ عشرہ ذرا افاقہ محسوس ہوا، اور وہ چائے پینے لگی، شاید کوئی انڈہ وغیرہ بھی کھا لیتی تھی، مگر دسویں دن اچانک ہی فوت ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ شاہ صاحب تو پہلے ہی رفو چکر ہو چکے تھے۔