فکر ونظر
مجھے اپنا بچہ واپس مل گیا۔۔۔!!
خاندانی نظام کو میڈیا نے کس طرح تہ و بالا کردیا ہے۔۔۔ ایک فکرانگیز تحریر
مونسہ بشری عابدی
دو چیزیں خواتین میں فطری طور سے پائی جاتی ہیں۔ ایک قصے کہانیوں سے دلچسپی اور دوسرے حسین نظر آنے کا شوق۔ لیکن جو عورتیں عمر کی ایک حد یعنی ۳۰؍۳۵ سال کو پار کر لینے کے بعد بھی اس میں مبتلا نظر آئیں تو انھیں نارمل نہیں سمجھا جاسکتا۔ جو خواتین خوبصورت نہیں ہوتیں وہ بھی خوبصورت چہروں کو دیکھ کر تسکین حاصل کرتی ہیں اور جو خوبصورت ہوں وہ خود کو مزید نکھارنے کی فکر میں لگ جاتی ہیں۔ آج کل ٹی وی سیریلوں کی بھرمار خواتین کی انھی نفسیاتی کمزوریوں کو نظر میں رکھ کر کی جا رہی ہے۔حالانکہ بحیثیت شریکِ حیات‘ خواتین کے لیے خوبصورتی کا رول محدود ہوتا ہے اور بحیثیت ماں کے تو اس کا دخل اور بھی کم ہوجاتا ہے۔ آپ نے وہ قصہ سنا ہوگا جس میں ایک بچہ کی ماں گم ہوجاتی ہے‘ حلیہ پوچھنے پر بچہ لوگوں کو بتاتا ہے کہ اس کی ماں دنیا کی حسین ترین عورت ہے۔ تلاش کرنے کے بعد جب اس کی ماں مل جاتی ہے تو لوگ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ وہ ایک معمولی سے بھی کم درجہ کی شکل و صورت رکھنے والی عورت ہے۔ مگر کیا وہ اسے اس نظر سے دیکھ سکتے ہیں جس نظر سے بچہ دیکھتا ہے؟
مغربی تہذیب نے ہمارے سماج پر جو زیادتیاں کی ہیں ان میں سے سے ایک اہم زیادتی یہ ہے کہ اسے ’’ماں‘‘ سے محروم کیا جا رہا ہے۔ خواتین کو پہلے ’’پروفیشنل‘‘ اور پھر تیزی سے ’’سیکس سمبل‘‘ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اس لیے وہ بیوی یا ماں ہوتے ہوئے بھی صرف خوبصورت بنی رہنے کی فکر کرتی ہیں‘ خوب سیرت نہیں۔ پرسنیلٹی ڈویلپمنٹ کے نام پر بھی جو پروگرام یا ورکشاپ ہوتے ہیں ان میں صرف شوہر اور بچوں کو ہینڈل کرنے کے گر سکھائے جاتے ہیں‘ ایک اچھی بیوی یا اچھی ماں بننے کے نہیں۔ یا پھر ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ جذبہ حاصل کرکے عورتوں کی تگ و دو زیادہ سے زیادہ گھر کو سنوارنے اور طرح طرح کے پکوان بنانے میں صرف ہو رہی ہے۔ اچھے انسان بنانے یا اچھے سماج کی تشکیل میں اس کا رول ختم ہوتا جا رہا ہے۔
ہمارے خیال میں یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ زندگی کی دیگر بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کے مقابلہ میں ان دنوں بچوں کی تربیت کہیں زیادہ مشکل کام ہوگیا ہے۔ ابھی ایک نسل پہلے تک ہم والدین کے ایثار و قربانی‘ صبروتحمل اور مسلسل جدوجہد کے واقعات سنتے تھے تو اسی کے ساتھ ان کی کامیابیوں کا باب بھی جڑا ہوتا تھا‘ مگر آج کچھ والدین اسی نوعیت بلکہ شاید اس سے کچھ زیادہ ہی ایثار و قربانی کے مرحلوں سے بھی گزر جائیں تو انھیں وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ وہ اتنے خوش قسمت نہیں کہ بچے ان کی مہربانیوں یا جن پریشانیوں سے گزر کر ان کی پرورش انھوں نے کی ہے‘ ان کا اعتراف کرلیں یا کسی بھی حد تک ممنون ہوجائیں۔ وہ تو اسے والدین کا فرض قرار دے کر نظرانداز کردیتے ہیں۔ کل وہ روکھی سوکھی کھا کر بھی والدین کے شکرگزار ہوا کرتے تھے مگر آج ضرورت زندگی کے معاملہ میں ان کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے تو اس کے لیے والدین کو ذمہ دار قرار دے کر بغاوت پر بھی اتر آتے ہیں۔ کل وہ پھٹے پرانے پیوند لگے کپڑوں میں بھی عید منا لیا کرتے تھے مگر آج نئے کپڑے نہ ملنے پر بچوں کی خودکشی کے واقعات بھی ہونے لگے ہیں۔ کل وہ والدین سے اسکول و کالج کے حالات بخوشی بیان کیا کرتے تھے مگر آج یہ سب صرف دوستوں سے ہی بیان کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بچوں اور والدین کے تعلقات میں گرم جوشی کا عنصر کیوں ختم ہوتا جا رہا ہے؟ غور کیجیے شاید آپ بھی اسی جواب تک پہنچیں کہ ’’میڈیا‘‘ جس نے سارے انسانی رشتوں کو متاثر کر کے رکھ دیا ہے اور خاندانی نظام تو جیسے پوری طرح اس کی زد میں ہے۔ ایسے میں اگر گھر کو بنانے والی مٹی یعنی ماں ہی ٹی وی سیریلوں‘ فلموں یا مختلف پروگراموں میں مگن ہوکر رہ جائے تو پھر سوچئے انجام کیا ہوگا۔ خاندان کا دوپہر کا وقت جو خواتین دین کا علم سیکھنے‘ رشتہ داروں اور اعزاء سے ملاقات کرنے‘ بیماروں کی عیادت اور ضرورت مندوں کی خبرگیری میں صرف کرتی تھیں اب صرف ٹی وی کی نذر ہوجایا کرتا ہے بلکہ پتھر کی سلوں پر مسالہ پیسنے کے بجائے مکسر کے استعمال‘ اپنے ہاتھ سے کپڑے دھونے کے بجائے واشنگ مشین‘ گھر میں سلائی کے بجائے ٹیلروں کے پاس کپڑے سلوانے یا ریڈی میڈ کپڑوں کے استعمال‘ دوکانوں سے تیار مسالے‘ یہاں تک کہ پسے ہوئے ادرک اور لہسن کے پیکٹ مل جانے اور juicer یا کھانے کی تیاری کے لیے food processors کے استعمال سے جو وقت بچ جاتا ہے وہ ٹی وی کی خدمت میں ہی گزرتا ہے۔
رشتہ داروں اور احباب کی ضرورت اس لیے نہیں رہی کہ ہم نے ٹی وی کے کرداروں سے اپنا تعلق جوڑ لیا ہے۔ وہ کردار جو عام طور پر کاروباری گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے درمیان دولت و جائداد کے لیے جھگڑے چلتے رہتے ہیں یا وہ جو خاندانی سیاست کو انتہائی گھناؤنے انداز میں فروغ دینے کا کام کرتے ہیں‘ وہی جو کنوارے ہی نہیں شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی معاشقے لڑاتے ہیں اور جنسی آوارگی میں مست رہتے ہیں۔ وہ جو کم لباسی‘ بے حجابی‘ بداخلاقی‘ خود غرضی اور خصوصاً والدین کے بالمقابل بغاوت کا رویہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں وہ جو اپنی مطلب براری کے لیے دوسروں کے استحصال کے گر بڑی چابکدستی سے استعمال کرتے ہیں‘ آج ہمارے گھروں میں رچ بس گئے ہیں۔
ان گھروں میں جہاں دادی اور نانی کے لیے جگہ نہیں رہی‘ وہاں ان کے لیے بڑی گنجائش ہے۔ ہم انھی کے درمیان جیتے اور ایک ہفتہ تک ان ہی کے دکھ درد میں شریک رہتے ہیں۔ بلکہ بچے بور نہ ہوجائیں اس لیے انھیں بھی شریک کرلیتے ہیں۔ ان کے ننھے معصوم ذہنوں پر ان ہی فرضی قصوں اور پیچ در پیچ الجھے ہوئے مسائل کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔
بچپن میں بہت تھوڑی سی دیر کے لیے بھی امّی جب کسی کتاب کے مطالعہ میں زیادہ محو ہوجاتیں تو ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے ہم کتنے بے تکے سوال کرنے لگتے تھے۔ انھیں بے شک مطالعہ کا شوق تھا جو اکثر ہم سب کے اسکول چلے جانے کے بعد پورا کرتی تھیں‘ مگر انھیں کبھی کبھی کتابوں میں کھویا دیکھ کر ہمیں سچ مچ دکھ ہوتا تھا اس لیے نہیں کہ مطالعہ کی اہمیت سے واقف نہ تھے بلکہ امّی کی محویت ہم پر گراں گزرتی تھی۔
آج بھی کچھ لکھتے وقت اگر بچہ اسکول سے گھر آجائے یا اس کی آنکھ کھل جائے‘ تو قلم اسی احساس کے تحت خود بخود رک جاتا ہے۔ مگر امیوں کی بہت بڑی اکثریت جب ٹی وی سیریلوں‘ فلموں‘ قصوں‘ کہانیوں میں گم ہوجاتی ہو گی تو اندازہ کرسکتے ہیں کہ بچوں کے دل پر کیا بیتتی ہوگی؟ شاید اسی لیے زیادہ حساس ماؤں نے انھیں بھی ان دلچسپیوں میں شریک کرلیا ہے‘ تاکہ وقت سے پہلے ان کا بچپن ان سے چھین لیا جائے۔ کیا آپ نے کسی مالی کو اپنے ہی باغ کے پودوں کو مسلتے دیکھا ہے؟ مگر ہم والدین ہوتے ہوئے بھی اپنے بچوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں۔ سمجھ دار گھرانوں میں ٹی وی خبروں اور معلوماتی پروگراموں کے لیے آتا ہے مگر وہ انھیں گھٹیا تفریحی پروگراموں تک پہنچا دیتا ہے جو وہ شاید پہلے کبھی نہیں دیکھتے ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ ہماری قوت ارادی اتنی کمزور کیوں ہے؟ اور ہمارا ذوق اس قدر بھونڈا کیوں ہوتا جا رہا ہے کہ تفریح کے نام پر کچھ بھی دکھایا جائے ہم اس میں مشغول ہوتے چلے جائیں۔ یہ تسلیم کہ تفریح بھی انسان کی ضرورت ہے مگر کیا اس کا کوئی معیار یا کوئی حد نہیں ہونی چاہیے؟ یہ کیا کہ تفریح ذوق سلیم کو برباد کر کے رکھ دے‘ تفریح کے نام پر بیہودگی کو برداشت کرتے چلے جائیں۔ ایک مختلف بلکہ انسانیت دشمن تہذیب slow poison کی طرح ہمارے رگ و پے میں سرایت کرتی چلی جائے یہاں تک کہ ہم اپنی قدروں اور روایات کو فراموش کر بیٹھے۔ ہمارے گھر کا نظام درہم برہم ہونے لگے‘ ہمارے رشتوں اور تعلقات میں دراڑ پیدا ہوجائے۔ ہمارے گھر کے اصول و ضوابط ٹوٹ پھوٹ کر رہ جائیں اور ہمارے بچے تک ہمارے لیے اجنبی ہونے لگیں اور تفریح کی لت انھیں زندگی میں کامیابی کی ڈگر سے ہٹا کر رکھ دے۔ معمولات میں تفریح کا تناسب کھانے میں نمک کی طرح ہونا چاہیے۔ جس طرح نمک اگر ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو سارے کھانے کی لذت کو ختم کردیتا ہے اسی طرح تفریح ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو تخریب بن کر رہ جاتی ہے۔
بہت سے خوش حال مسلم گھرانوں میں آپ
نے دیکھا ہوگا کہ کھانا لگا ہوا ہے۔ اللہ کی نعمتیں دسترخوان پر چنی ہوئی ہیں ‘ مگر نظر کے سامنے کوئی نیم عریاں‘ کوئی سرکش‘ کوئی بدتہذیب‘ کوئی بے حیا شبیہ ٹی وی پر موجود ہے۔ نوالہ منہ میں ہے مگر پتہ نہیں کس چیز کا؟ سبزی کھا رہے ہیں یا گوشت؟ یا نہیں تو کم از کم کون سی سبزی یا کس چیز کا گوشت؟ اذان کی آواز آجائے تو والیوم کچھ کم‘ مگر پھر نماز کے بجائے وہی تفریح جاری۔ جس بچہ کا امتحان یا ٹیسٹ ہے اسے ڈانٹ پڑ رہی ہے ’’کتنی مرتبہ کہا اندر بیڈروم میں بیٹھ کر پڑھو‘ تم پھر یہاں چلے آئے!‘‘ ملازمہ گھر کے کام سمیٹ رہی ہے اور بیگم صاحبہ ٹی وی پوری آواز میں آن کر کے سنگارمیز کے سامنے اپنے میک اپ میں مصروف ہیں۔ درمیان میں بچہ کی آواز آئی: ’’ممی بائے‘‘۔ ’’او کے بیٹا بائے بائے‘‘۔ مگر انھیں اسکول جاتے ہوئے بچہ کی جانب نگاہ اٹھانے کی فرصت بھی نہیں‘ ہونٹوں پر کوئی فلمی نغمہ‘ کمرے میں تیز پرفیوم کی خوشبو اور۔۔۔ اور جانے دیجیے اس سے زیادہ کیا عرض کریں؟
ایک ماں کو اپنے بچہ کی لاپرواہی اور سرد مہری کی شکایت تھی۔ وہ کہتیں میں گھر میں رہوں یا باہر‘ بچہ ٹی وی میں مگن رہتا ہے۔ کوئی مہمان آئے یا جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بیمار ہوں تو بستر کے قریب نہیں پھٹکتا۔ اچھی سے اچھی ڈش بناؤ مگر ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا کھاتا ہے۔ میں یہ سننے کے لیے ترس جاتی ہوں کہ کھانا اسے پسند آیا کہ نہیں۔ گھر کے معمولات سے اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ کافی غوروفکر کے بعد انھوں نے ٹی وی کو نکال باہر کردیا۔ اس کے بعد وہ اپنے بچے میں ہونے والی تبدیلیوں پر حیران تھیں۔ وہ بڑا پُرمحبت اور ملنسار ہوتا جا رہا تھا۔ گھر کے تمام معاملات میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ ٹی وی دوبارہ نہ خریدیں گی ۔
اب وہ اس کو پیغمبروں‘ صحابہ کرام‘شہداء و صالحین اور اُمت کے سرکردہ رہنماؤں کے واقعات سناتی ہیں۔ اسلامی تاریخ کے اہم اور کردار ساز واقعات بیان کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ تعلیمی تاش اور بزنس گیم بلکہ کبھی کبھی گھر کے ہال میں ہلکے پھلکے قسم کا ٹینس بھی کھیل لیتی ہیں۔ کھانا دونوں ساتھ کھاتے ہیں‘ نمازیں ساتھ پڑھتے ہیں۔ ہفتہ کے آخری دن گھر کے سب لوگ ساتھ تفریح کے لیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’مجھے اپنا بچہ واپس مل گیا ہے‘ اب مجھے
ٹی وی بالکل نہیں چاہیے!‘‘***