کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ سپر طاقتیں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے کے بجائے شراب نوشی کے خلاف جنگ برپا کریں تا کہ خود ان کے معاشروں میں امن و سکون آئے۔ اگر وہ ایسا کریں تو اس سفر میں قرآن انہیں زادِ راہ فراہم کرسکتا ہے۔
شراب نوشی کی خباثت پراہل مذاہب کا توہمیشہ سے اتفاق رہا ہے ۔لیکن اب’ بالآخر’ حالات و واقعات نے اہل مغرب کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجید گی سے لیں۔اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ برطانیہ اور شمالی امریکا میں ہر بیس میں سے ایک نوجوان اس کی زلف کا بری طرح اسیر ہے۔برطانیہ میں نہ صرف یہ کہ شرح اموات کی بڑ ہوتری اور بے وقت اموات اس کے ‘‘فیض’’کا نتیجہ ہیں بلکہ ایک ملین سے زائد بچے بھی اپنے والدین کی اس ‘‘محبت اور شوق’’ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریاں اورحادثات کا تو خیر ذکر ہی کیا وہ بھی ایک اندازے کے مطابق قومی خزانے پر بیس ملین پونڈ سالانہ سے کم کا بوجھ نہیں ڈال رہے ۔
انہی تلخ حقائق کے پس منظر میں پچھلے دنوں جب برمنگھم میں یہ تجویز سامنے آئی کہ تفریحی مقامات کو الکحل فری زون قرار دیا جانا چاہیے تو اس کو بڑ ی سطح پر پذیرائی ملی۔یہ پذیرائی اس بات کی غماز ہے کہ لوگو ں میں اب یہ احساس اجاگر ہو گیا ہے کہ اب وقت ہے کہ اس سے چھٹکار ا حاصل کر لیا جائے ۔ لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا اور جو کچھ بھی کیا گیا یا کیا ِجار ہا ہے میرے خیال میں اس کی حیثیت ریت کی دیوار سے زیاد ہ نہیں۔مسائل سے اسی وقت نبٹا جا سکتا ہے جب ان کا سرا ہاتھ آئے یا جڑ تک رسائی ہو ۔ جڑ کو دیمک لگی ہو تو پتوں اور شاخوں پر سپرے کتنے دن موثر ہو پائے گی؟دلوں کے اند ر سے شراب کی محبت کا خاتمہ اور اس کی محبت اور مزے کا متبادل فراہم کرنا ہی اصل اور دیرپا حل ہے اور یہ حل سوائے اسلام کے کہیں اور نظر نہ آتا۔اور میرا یہ بیان محض عقید ت نہیں بلکہ حقیقت ہے جس کی پیچھے تاریخ کی مہرِ تصدیق ثبت ہے۔
ہر مورخ اس بات پر گواہ ہے کہ چود ہ سو سال پیشترکی عرب سوسائٹی آج کی نسبت کہیں زیاد ہ بری طرح شراب کی رسیا تھی مگر جب مذہب اور عقید ے نے اس کی متبادل محبت اور قوت فراہم کی تو لوگوں نے شراب کے جام خود گلیوں بازاروں میں تو ڑ ڈالے ۔اور پھر اس کے قریب جاناتوکجا اس کا ذکر بھی انہیں نا گوار محسوس ہونے لگا۔تاریخ کا یہ آزمود ہ نسخہ آج بھی موجود ہے آزمائش شرط ہے۔اس کے لیے مسلمان ہونا بھی شرط نہیں بس قرآن کی حکمت کو سمجھ کر اپنا لینا ہی کافی ہے ۔ قرآن کتنی خوبصورتی سے اس حقیقت کی توجہ مبذول کروا رہا ہے کہ مانا اس میں کچھ فوائد بھی ہیں مگر اس کے نقصانات بہر حال بہت زیاد ہ ہیں۔یہ وہ پیمانہ ہے کہ جسے آج بھی جھٹلانا ممکن نہیں۔افراد ’ خاندان’ اور معاشرے کے بگاڑ و فساد سے لے کر جرائم کی دنیا تک ’امرا ض و اموات سے لے کر معاشی تباہی اور اخلاقی اقدار کے زوال تک سب کچھ اسی قرآنی حکمت کی تائید کرتے نظر آ رہے ہیں۔اس لیے اصل حل یہی ہے کہ ہم بھی اس کی تائید کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔وقتی طو رپر الکحل فری زون بنانے کے بجائے ایک دیرپا منصوبے کے تحت معاشرے کی ذہنی تربیت کریں اور اس تربیت میں اگر روشنی اسلام سے میسر آتی ہو تو اسے بھی ہاتھوں ہاتھ لے لینا چاہیے ۔لیکن یہ اسی وقت ہو گا جب مغربی معاشر ہ اس برائی کے خاتمے میں واقعتا سنجید ہ ہو جائے گا۔ اور جب سنجید ہ ہو جائے گا تو مجھے امید ہے کہ پھر نام نہاد دہشت گر دی کے خلاف جنگ کا رخ یقینا اس ام الخبائث کی طرف ہو جائے گا کہ جہاں اس جنگ کی اصل ضرورت ہے ۔مغر بی معاشرے کے ذمہ دار حلقوں میں ابھرنے والے احساس نے اک امید کا دیا روشن کیا توہے اللہ کر ے یہ روشن ہی رہے۔ آمین