سونامی جیسی ہولنا ک تباہی پر مسلم دنیا کی خاموشی ‘‘قابل رشک’’ ہے۔ افسو س یہ ہے کہ جب مغرب اور امریکا ہم پر ظلم کرتے ہیں تو ہم خوب واویلا مچاتے ہیں اور مچانا ہی چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انصاف کاتقاضا یہ ہے کہ ہمیں جہا ں ان کی کوئی خوبی نظر آئے اس کا بھی کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے۔ مسلمان ہمیشہ انصاف اور عدل کے ساتھ ہوتا ہے۔ نہ کہ اپنے گروہ ’ قوم ’ برادری یا تعصبات کے ساتھ۔اگر ہم دنیا کو یہ باور کرانا میں کامیاب ہو جائیں کہ ہم انصاف کے ساتھ ہیں اور ظلم کی ہر شکل کے خلاف ہیں ’ وہ جہاں بھی ہو’ تو زیاد ہ دیر نہ ہوگی کہ دنیا کا رویہ بد ل جائے گا۔(مدیر)
۴۔ جنوری کے اخبار میں ایک خبر پڑھ کر حیرانی ہوئی جو کہ انڈونیشیا،سری لنکا سمیت 10ممالک میں آنے والے سمندری طوفان سے متعلق تھی اور جس میں امریکی اور مغربی دنیا کے اقدامات کو جو وہ متاثرین کی امداد اور بحالی کے ضمن میں کر رہے ہیں، استہزائیہ انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ امریکا کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ ہیرو بننے کی کوشش کر رہاہے اور دنیا کے سامنے اپنی قامت بلند کرنا چاہتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سونامی طوفان ایک قدرتی آفت تھی جو کسی پیشگی اطلاع کے بغیر آئی ۔ مغربی دنیا کے ہزاروں شہری طوفان کے علاقوں میں تعطیلات منانے گئے ہوئے تھے، ان پر آنے والی افتاد نے مغربی حکومتوں اور عوام کو طوفان کے تباہ کن اثرات کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے کی تحریک کو دو چند کر دیا۔یہ حقیقت ہے کہ سری لنکا کی حکومت کا اصرار ہے کہ وہ صورتحال کو سنبھال لے گی حالانکہ وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے۔ بھارت اور انڈونیشیا کی حکومتوں نے بھی عالمی امداد کی کوئی اپیل نہیں کی۔بھارت کی حکومت نے اپنے بحری جہاز مالیپ کی امداد کو روانہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ صورتحال سے بخوبی نپٹ سکتا ہے۔ اس تناظر میں مغربی دنیا کے لیے آسان تھا کہ وہ متاثرہ شہریوں کو وہاں سے نکال کر خاموش ہو جاتی اور مقامی حکومتوں کو صورتحال سے نمٹنے دیتی مگر ایسا نہیں ہوا۔مغربی دنیا اس سانحے کی وسعت کا ادراک رکھتی ہے وہ تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی امتیازات سے بالاتر ہو کر انسانی جذبے کے تحت میدان عمل میں آگئی۔
مغربی دنیا میں اس سانحے پر ہیجان برپا ہو گیا ہے، وہاں کے ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اس خبر کو اول حیثیت دی جارہی ہے حالانکہ اس سانحے کو گزرے ہوئے 2ہفتے ہونے والے ہیں۔ ہزاروں مغربی رپورٹر متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر بیماریوں سے بھری ہوئی بستیوں کی خبریں عالمی برادری تک پہنچارہے ہیں۔ وہ امدادی کاموں پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا کے بڑے شہروں میں بچے، نوجوان اور بوڑھے کشکول اٹھائے متاثرین کی امداد کے لیے رقم جمع کر رہے ہیں۔
مغربی دنیا کی تاحال امداد ی رقم کا تخمینہ 2622ملین ڈالر ہے۔ جس مٰں سے 2258ملین ڈالر مختلف حکومتوں اور عالمی بینک نے فرا ہم کیے ہیں اور 364 ملین ڈالر انفرادی ذرائع سے حاصل ہوئے ہیں۔ ان میں سر فہرست آسٹریلیا کی حکومت ہے جس نے 745ملین ڈالر فراہم کیے ہیں۔بعد ازاں جرمنی اور جاپان ہیں جنہوں نے 500ملین ڈالر دیئے ہیں۔ امریکا نے 350ملین ، عالمی بینک نے 250ملین، ناروے نے 181ملین ، برطانیہ نے 96ملین، سویڈن نے 80ملین، ڈنمارک نے 76ملین، اسپین نے 68ملین، فرانس نے 66ملین، چین نے 60ملین اور جنوبی کوریا نے 50ملین ڈالر دیئے ہیں۔ نیوزی لینڈ نے زلزلے اور طوفان کی پیشگی اطلاع فراہم کرنے والا سسٹم نصب کرنے کے 350ملین ڈالر کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔ امیر ممالک پر مشتمل پیرس کلب نے متاثرہ ممالک کے قرضے معاف کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ پہلے مرحلے میں متاثرہ ممالک کو دیئے گئے 5بلین ڈالر کے قرضوں کی وصولی کو منجمند کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔بعدازاں ان کو معاف بھی کیا جا سکتا ہے۔حکومتی اداروں کی مالی امداد کے علاوہ مغربی دنیا کی تجارتی برادری نے بھی متاثرہ ممالک کی بحالی کے کام میں شرکت کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے 3.7ملین ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ گاڑیوں کے ٹائر بنانے والے فرانسیسی گروپ نے 2ملین ڈالر دیئے ہیں۔ فرانسیسی تجارتی کمپنیوں نے 8ملین یورو سے زیادہ رقم جمع کی ہے جو پینے کے پانی، ادویات اور خوراک کی فراہمی پر خرچ کی جائیگی۔ جرمن تجارتی برادری نے 10.6ملین ڈالر رقم دی ہے جو ادویات ، چادریں اور زخمیوں کو مغربی ممالک کے اسپتالوں تک لے جانے کیلیے مفت ہوائی سفر مہیا کرنے پر صرف ہوگی۔ برطانیہ کی ایک طبی فرم نے ملیریا، ٹائیفائڈ اور ہیپا ٹائٹس کے علاج کے لیے ایک ملین انجکشن متاثرہ علاقوں میں پہنچائے ہیں ۔ فرانسیسی تاجروں کا ایک وفد 10ٹن طبی سامان اور 5ٹن پانی صاف کرنے والے آلات لے کر سری لنکا پہنچا ہے۔ ناروے کی ٹرک بنانے والی فرم نے بڑی تعداد میں ٹرک مہیاکیے ہیں جن کو ریڈ کراس امدادی اشیا کو مختلف مقامات تک پہنچانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ برٹس پٹرولیم جنریٹروں کی فراہمی کے ساتھ سورج کی توانائی سے جلنے والے لیمپ بھیج چکی ہے۔ سویڈن کی کمپنی انڈونیشیا میں ذرائع مواصلا ت کے نظام کو بحال کرنے کے لیے لا تعداد موبائل فون بھجواچکی ہے اور اب خصوصی جی ایس ایم سٹیشن نصب کر رہی ہے۔ اٹلی کی کاروباری برادری نے ایک ملین یورو کی امدادی رقم فراہم کی ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ مسلم ممالک کی جانب سے سونامی طوفان کے متاثرین کی امداد کے لیے خاطر خواہ اقدامات منظر عام پر نہیں آئے۔ متعدد اسلامی ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، مگر اس موقع پر ان کی خاموشی ‘‘قابل رشک’’ ہے۔ نائیجیریا اور لاطینی امریکا کے ممالک کے پاس بھی تیل کی دولت ہے مگر انسانوں پر آنے والے ان مصائب کا انہیں زیادہ احساس نہیں۔
روس تیل اور گیس کی پیدوار میں دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے، لیکن اس نے بھی امدادی سامان بھجوانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پاکستان میں حکومتی اور عوامی سطح پر جو کچھ کیا گیا ہے، وہ اس سانحے کی نوعیت کے اعتبار سے کچھ زیادہ نہیں ۔
ضرورت ہے کہ حکومت ،رفاہی تنظیمیں اور سیاسی و سماجی حلقے سونامی سے متاثرین کی امداد کے لیے مزید فعال ہوں۔ (بشکریہ جنگ:11/1/05)