عمر……۱۰۹ سال
قد…… ۶ فٹ تین انچ۔ لاٹھی ٹیکتے ہوئے چلتے ہیں، مگر کمر جھکی نہیں۔ یہ ہیں میرے محلہ (آستانہ نقشبندی داروغہ والا) کے بابا مالی جنھوں نے تین صدیاں دیکھی ہیں۔
بابا مالی کا اصل نام حسن محمد ہے۔ وہ پٹیالہ کے نواحی قصبہ سنور کے رہنے والے ہیں۔ اس اعتبار سے ہی انھیں بابا مالی سنوریا بھی کہاجاتا ہے۔ ان کے والد محمد رمضان کاشت کاری کرتے تھے۔ آرائیں برادری سے تعلق ہے اور سنور میں اپنی زمین تھی۔ رہائش کے لیے پٹیالہ کے ایک فیشن ایبل علاقے میں بھی مکان بنا رکھا تھا۔ ‘‘وہاں گلبرگ کی طرح کی کوٹھیاں تھیں۔ ہماری کوٹھی کا نمبر تین اور گلی کا نمبر ایک تھا۔’’ بابا مالی نے یادداشت پر زور دیتے ہوئے بتایا۔
بابا مالی ۶ بھائی تھے۔ ایک بھائی ۱۹۱۴ء میں پورے ہندوستان میں پھیلنے والے طاعون کے مرض میں انتقال کر گیا تھا۔ کریم الدین اس کا نام تھا اور وفات کے وقت اس کی عمر تین ساڑھے تین سال تھی۔ یہ اپنے چھ بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ ‘‘یہ آپ کو بابا مالی کیوں کہتے ہیں؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘میں بچپن سے ہی پھولوں اور پھل دار درختوں میں دل چسپی لیتا تھا۔ اسکول وغیرہ جانے کا بھی تکلف نہیں کیا۔ میں نے گلاب اور آم کی کئی قسمیں ‘‘ایجاد’’ کی تھیں۔ پاکستان بن جانے کے بعد یہاں (لاہور) آئے تو یہی مشغلہ جاری رہا۔ گورنمنٹ پریس اور سینٹرل جیل کے پریس کے مالی کی حیثیت سے ۱۶ سال کام کیا۔ پھر حکومت نے معمر گداگروں کی پناہ گاہ بنائی تھی اس میں بھی۵ سال کام کرتا رہا۔ جیل کی ملازمت کے دوران ایسے آم کے پودے تیار کیے جو گملوں میں اگائے جاتے تھے اور پھر گملوں میں ہی ان پر ‘‘بور’’ آجاتا تھا۔ پھر انھیں زمین میں لگایا جاتا اور وہ پھل دینے لگتے۔ جیل کے افسروں کی کوٹھیوں میں رنگ برنگ اور ہر موسم کے پھول کھلائے، خاص طور پر گلاب کے کئی رنگ نکالے۔ بس یوں میں کاکا مالی(بچپن کا نام) سے اب ‘‘بابا مالی’’ ہو گیا ہوں۔ افسروں کے کہنے پر میں اسلام آباد بھی گیا اور وہاں بعض اعلیٰ سرکاری افسروں کی کوٹھیوں میں پھول اور آم لگائے۔
بابا مالی کو اپنا سن پیدائش یاد نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب طاعون کے مرض نے پورے انڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو ان کی عمر ۱۹ سال کے لگ بھگ تھی۔ اس مرض کے دوران بہت سے لوگ لقمۂ اجل بن گئے جن میں خود بابا مالی کا چھوٹا بھائی شامل ہے۔ وہ بتاتے ہیں : ‘‘ہم گاؤں کے پانچ چھ نوجوان ہر وقت قبرستان میں ہی ڈیرہ ڈالے رہتے تھے۔ قبریں تیار کرتے رہتے دن رات جنازے آتے۔ نماز جنازہ ادا ہوتی اور تدفین کی جاتی۔ ہم نے سیکڑوں افراد کو قبروں میں اتارا۔ کہا جاتا تھا کہ طاعون کا مرض ایک سے دوسرے تک پھیلتا ہے، مگر ہم محفوظ رہے۔ شاید اللہ تعالیٰ ہم سے اپنے بندوں کی تدفین کا کام لے رہا تھا اس لیے ! طاعون کا مرض ۱۴۔۱۹۱۳ء میں پھیلا تھا۔ اس طرح بابا مالی کا سن پیدائش ۹۵۔۱۸۹۴ء بنتا ہے۔ گویا وہ ۱۹ ویں صدی میں پیدا ہوئے۔ ۲۰ ویں صدی کھلی آنکھوں سے دیکھی اور ۲۱ویں صدی سے گزر رہے ہیں۔ یوں بابا مالی تین صدیوں کا نظارہ کر چکے ہیں۔
‘‘آپ نے ریل گاڑی میں کب پہلا سفر کیا؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘ہم سنور سے باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ ۱۹۴۷ء میں جب پاکستان بنا تو ہم نے پاکستان کا سفر اختیار کیا۔ سنور کے مسلمان پاکستان کے حامی تھے۔ جلوس نکالا کرتے تھے۔ جب تقسیم کا اعلان ہوا تو سکھوں سے ، جو نواحی ریاستوں سے آئے تھے، جھڑپیں بھی ہوئیں۔ کئی مسلمان قتل ہوئے، مگر ہم مسلمانوں نے ان کا بدلہ ضرور لیا۔ اب ہمارا شہر ہندوستان کا حصہ بن چکا تھا۔ چنانچہ قافلہ پاکستان کے لیے روانہ ہوا۔ پٹیالہ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو وہاں دیکھا کہ مسلمانوں کی ایک پوری ٹرین سکھوں نے قتل کر دی ہے۔ ہمارے سب لوگ مسلح تھے۔ وہاں کئی اور دیہات اور قصبوں کے مسلمان بھی جمع تھے۔اتفاقاً ہندو شرنارتھیوں سے بھری ہوئی ایک ٹرین پٹیالہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی۔ مسلمان جو اپنوں کے قتل پر بپھرے ہوئے تھے اس ٹرین پر حملہ آور ہوئے اور ٹرین میں سوار سارے ہندوؤں کو قتل کر دیا۔ پھر ہم دوسری ٹرین میں بیٹھ کر پاکستان آئے۔ راستے میں ہماری ٹرین پر کسی کو حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
بابا مالی کی صحت ٹھیک ہے۔ ان کے سر کے اور داڑھی کے بال پوری طرح سفید ہو جانے کے بعد سیاہ ہو رہے ہیں۔ تقریباً نصف سے زیادہ سر کے اور داڑھی کے بال سیاہ ہو چکے ہیں۔ دانت بھی دوبارہ اگ رہے ہیں، مگر ان کی یادداشت کمزور پڑ چکی ہے۔ اپنی جوانی کے دور کے بارے میں مختلف سوالوں کے جواب میں وہ ‘‘کچھ یاد نہیں’’ کہتے رہے۔ اپنی یاد داشت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا : ‘‘اب مہنگائی بہت ہو گئی ہے۔ اس وقت ایک روپے کا ایک سیر دیسی گھی آتا تھا اور ڈالڈا کا ۵ سیر کا ڈبا تو ڈھائی تین رپے میں مل جاتا تھا، مگر لوگ ڈالڈا کم ہی کھاتے تھے۔ چینی روپے کی ۶ سیر تھی۔ گڑ روپے کا ۲۰ سیر اور دیسی شکر ۱۶ سیر ملتی تھی۔ چاول بھی باسمتی روپے کا ۱۶ سیر تھا۔ موٹے چاول اور بھی سستے تھے۔ اچھی ریشمی پگڑی جو امارت کی نشانی سمجھی جاتی تھی، دو ڈھائی روپے میں ملتی تھی۔ ۷۶ کی ململ کی پگڑی جو اس دور میں بڑی مشہور تھی، آٹھ دس آنے میں مل جاتی تھی۔
بابا مالی کے دو بیٹے محمد یوسف اور محمد رشید ہیں، شادی شدہ اور پوتوں نواسوں والے ہیں۔ دوبیٹیاں ہیں، دونوں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ بابا جی کے ۶ پوتے اور ۱۴ پوتیاں ہیں۔ ۷ پڑپوتے اور بارہ پڑپوتیاں ہیں۔ ۱۹ نواسے نواسیاں ہیں۔ مگر بابا مالی کو کسی کا نام یاد نہیں۔ وہ بتاتے ہیں: اب دماغ کام نہیں کرتا۔ صبح کی نماز کے بعد ورد کرتا ہوں۔ اس میں بھی بھول چوک ہو جاتی ہے۔
بابا جی بڑے پکے نمازی ہیں۔ ظہر اور عصر کی نماز قریبی مسجد میں با جماعت ادا کرتے ہیں، مگر باقی تینوں نمازیں گھر پر پڑھتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ بتاتے ہیں کہ شام کے ساتھ ان کی نظر کمزور پڑ جاتی ہے اور وہ کم نظری کے باعث مسجد نہیں جا سکتے۔
بابا مالی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کو یاد کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لام لگی تو مہنگائی بڑھ گئی۔ گندم بھی مہنگی ہو گئی اور دوسری چیزیں بھی، مگر انھیں کوئی تفصیل یاد نہیں۔ کوئٹہ کا زلزلہ (۱۹۳۵ء) بھی انھیں یاد ہے، لیکن خبروں کی حد تک۔ پاکستان بننے کے بعد وہ جب لاہور آئے تو پتا چلا کہ کسی سینما ہاؤس میں کوئٹہ کے زلزلے کی فلم آئی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے بیٹوں کو لے کر زندگی کی پہلی اور آخری فلم دیکھنے گئے۔ دو آنے ٹکٹ تھا۔ ‘‘بس کوئٹہ تباہ ہو گیا تھا۔ گہرے گہرے گڑھے پڑ گئے تھے۔ ان میں عمارتیں غرق ہو گئی تھیں۔ اللہ اللہ!’’ بابا جی نے فلم کے بارے میں بتایا۔
بابا مالی نے دوبار حج کیا ہے۔ پہلی بار وہ اپنی اہلیہ سمیت ۱۹۸۳ء میں حج پر گئے تھے۔ دوسری بار ۱۹۸۹ء میں۔ اس بار وہ اکیلے ہی گئے، کیونکہ ان کی زندگی کی ساتھی اپنے آخری سفر پر روانہ ہو چکی تھی۔ اب انھیں حج کے دونوں ن سفروں کی کچھ زیادہ باتیں یاد نہیں، تاہم انھوں نے بتایا کہ ‘‘حج کے دوران(یہ معلوم نہیں کہ پہلی بار یا دوسری بار) ایک روز ظہر کی نماز کے بعد انھوں نے امام حرم کو دیکھا۔ ان کے آگے، پیچھے، دائیں ، بائیں محافظ پولیس والے تھے ، مگر میں نے آگے بڑھ کر صاحب کو سلام لیا۔ انھوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا پھر گلے لگا لیا۔ میرے کندھے پر شاباش دی، جو آج بھی میں اپنے کندھے پر محسوس کرتا ہوں۔ پھر عصر کی نماز کے وقت بھی ایسا ہی کیا۔ میں بہت خوش تھا۔ میں نے دومرتبہ امام حرم سے مصافحہ اور معانقہ کیا تھا۔’’ حج اور روضۂ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی۔
حج کی باتیں کرتے ہوئے بابا مالی نے جیب سے ایک چھوٹا سا چاقو اور تسبیح نکالی ‘‘یہ چاقو میں نے باغبان پورہ سے حج پر جانے سے قبل لیا تھا اور تسبیح بھی۔ اس وقت سے یہ میرے پاس ہیں۔ میں ہر وقت انھیں اپنی جیب میں رکھتا ہوں۔’’ پھر انھوں نے جیب سے ایک ڈبیا سی نکالی اور کھول کر دکھائی اور بولے : ‘‘یہ مدینہ منورہ کی مٹی ہے۔ یہ میں اپنے پاس رکھتا ہوں۔ میں وہاں سے توڑا (چھوٹی بوری)بھر کر مٹی لایا تھا۔ محلے میں کوئی فوت ہو جائے تو ایک مٹھی بھر مٹی بھجواتا ہوں تاکہ مرحوم کی قبر میں چھڑک دی جائے۔ مدینہ شریف کی مٹی شاید بخشش کا ذریعہ بن جائے۔ ’’ حج کی باتیں کرتے ہوئے بابا مالی نے بتایا کہ میں تو بس صرف یہ دعا کرتا رہتا تھا:
خالی نہ جاواں تیرے دربار وچوں
صدقہ تیرے پاک حبیبؐ دا!
(اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے مجھے اپنے دربار سے خالی ہاتھ واپس نہ بھیجنا)
(بہ شکریہ عبداللطیف ابوشامل)