سونامی TSUNAMIجاپانی زبان کا لفظ ہے۔ TSUکا مطلب بندرگاہ اورNAMIکامطلب سمندر ہے۔ اس اعتبار سے سونامی ایسے پانی کو کہتے ہیں جو سمندر اور بندرگا ہ کی تمیز مٹا دیتا ہے
ہم نہ تو سائنسی اور تکنیکی ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور نہ ہی علمی اور تحقیقی مواد سے شعور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ:
‘‘برق گرتی ہے تو ان پڑھ مسلمانوں پر..’’
ایشیائی ممالک میں ۲۶ دسمبر کو آنے والے زلزلے اور سونامی لہروں کی وجہ سے اب تک تین لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ سمندری علوم کے ماہرین اس آفت کی وجہ سمندر کی تہہ میں آنے والے زلزلے کو قرار دے رہے ہیں جبکہ اہل فکر،اہل نظر اور روحانی علوم کے ماہرین اس عمل کو قہر خداوندی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا اب ایسے مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اگر توبہ واستغفار نہ کی گئی تو بہت جلد مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سونامی کے بارے میں سائنسی توجیہہ پیش کرنے والوں کے پاس تو ابلاغ کے ایسے ذرائع موجود ہیں جن سے وہ اپنی تحقیق کو فوری طور پر دنیا بھر میں پہنچا دیتے ہیں،لیکن روحانی علوم جاننے والوں کی اکثریت ابلاغ کے موثر ذرائع تک پوری رسائی نہیں رکھتی اس لیے ان کے نقطہ نظر اور تعلیمات کی تشہیر نئی نسل میں آسانی سے نہیں ہورہی۔ مواصلاتی بُعدکی بنیاد پر اخلاقی معاملات کی اہمیت اور ان پر عمل نہ کرنے کے اثرات سے معاشرے کی اکثریت کو آگاہی نہیں۔ یہ بحث اپنی جگہ یقینا انتہائی اہم اور دلچسپ ہے۔ لیکن اس بحث میں پڑنے سے پہلے سونامی کی وجہ اور اس کے اثرات کا جائزہ ضروری ہے۔
سونامی TSUNAMIجاپانی زبان کا لفظ ہے۔ TSUکا مطلب بندرگاہ اورNAMIکامطلب سمندر ہے۔ اس اعتبار سے سونامی ایسے پانی کو کہتے ہیں جو سمندر اور بندرگا ہ کی تمیز مٹا دیتا ہے۔ یہ غیر معمولی سمندری لہر اگر پوری قوت سے ساحل تک پہنچ جائے تو سینکڑوں میل تک خشکی پر موجود ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سونامی لہر 100کلومیڑ سے ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہے۔
26دسمبر کو انڈونیشیا کے جزیرہ نما سماٹرا کے قریب آنے والے اس زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر آٹھ اعشاریہ نو بتائی جاتی ہے۔
سونامی کا آغاز اس وقت ہوا جب انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا کے ساحل کے قریب تقریباً دس کلومیٹر کی گہرائی میں سمندر کی تہہ میں انتہائی طاقت ور زلزلہ آیا۔ زلزلے کی شدت سے سمندر کی تہہ میں ایک ہزار میل طویل شگاف پڑگیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس زلزلے سے زمین کا ‘‘قطر’’ بھی متاثر ہوا ہے لیکن ابھی تک اس کی تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں۔ 1964کے بعد آنے والے زلزلوں میں یہ طاقتور ترین زلزلہ قرار دیا گیا ہے۔
سمندری ماہرین کے مطابق اس زلزلے سے سماٹرا کے قریبی سمندر کی تہہ میں جہاں آسٹریلین اور یوروشین پلیٹ ملتی ہیں’وہ یک لخت ٹوٹ گئی جس سے آسٹریلین پلیٹ زمین میں دھنس گئی اور یوریشین پلیٹ اوپر اٹھ گئی۔ اس عمل کے نتیجے میں تباہ کن لہروں کا رخ ایشیائی ممالک کی طرف ہو گیا ۔
سونامی لہر 15منٹ بعد سماٹرا ساحل پر پہنچ گئی ۔ یہ لہر ڈیڑھ گھنٹے بعد تھائی لینڈ پہنچی۔ ساڑھے تین گھنٹے بعد مالدیپ اور پھر بھارت سے ہوتی ہوئی سات گھنٹے بعد چار ہزار پانچ سو کلومیٹرکاسفر کر کے صومالیہ پہنچ گئی ۔ ایک اندازے کے مطابق سونامی لہر نے اوسطاً آٹھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کیا۔ اس لہر کی اونچائی مختلف جگہوں پر چار فٹ سے 50فٹ تک تھی۔اس لہر کے راستے میں آنے والے ماہی گیروں ،کشتیوں اور بحری جہازوں کو پہنچنے والے نقصانات کا تو ابھی اندازہ نہیں لگایا جاسکا لیکن جن اموات کا تخمینہ لگایا گیا ہے’ وہ ان ساحلی بستیوں اور شہروں کی ہیں’ جہاں زندگی معمول کے مطابق جاری تھی۔
اس زلزلے سے سمندر میں جو لہریں اٹھیں وہ چھ ہزار کلو میٹر تک چاروں طرف مار کر گئیں۔ سونا می لہر کی راہ میں آنے والے اکثر شہر، بستیاں اور آبادیاں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ دس ممالک اور درجنوں جزائر بری طرح متاثر ہوئے ایک اندازے کے مطابق اگر یہ زلزلہ خشکی کے کسی آباد حصے میں آتا تو کم از کم دس لاکھ لوگ مارے جاتے۔
سونامی سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں انڈونیشیا،سری لنکا،بھارت،تھائی لینڈ، مالدیپ، میانمر(برما) اور ایک حد تک بنگلہ دیش شامل ہیں ۔ ان ممالک کی کوسٹ لائن بیس ہزار کلومیٹر سے زیادہ تباہ ہو چکی ہے یہاں کوسٹل ہائی وے اور ساحلی پٹی کو اب از سر نو تعمیر کرنا ہوگا۔
انڈونیشیا کے مغربی جزیرے سماٹرامیں زلزلے کے پہلے ہی جھٹکے کے دوران اکثر عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔ اس کے بعد دس میٹر بلند طوفانی سمندری لہروں نے شمالی سماٹرا اور آچے صوبوں میں تباہی مچادی۔ سمندر کے کنارے آباد بہت سی بستیاں نابود ہو گئیں، آچے صوبے کا یہ شہر ایک بڑے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا۔ ہر طرف انسانی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔
سری لنکا کی مشرقی ساحلی پٹی کا بڑا حصہ سونامی کی بلند موجوں کی نذر ہوگیا۔ جافنا کے علاوہ بٹی کولوا’ ستور اور ٹرنکو مالی کے ساحلوں سے چھ میٹر بلند طوفانی لہریں ٹکرائیں۔ بھارت کا تقریبا دوہزار کلومیٹر طویل حصہ جنوبی ساحل طوفانی موجوں سے تباہ ہوگیا۔ سب سے زیادہ تامل ناڈو کا صوبہ متاثر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اندھرا پردیش، کیرالہ اور پانڈی چری کے علاقے بھی تباہی کی زد میں رہے۔
اطلاعات کے مطابق سونامی سے مالدیپ کے دارالحکومت مالے کا دو تہائی حصہ زیر آب گیا ۔ نشیبی جزائر ڈوب گئے اور ملک کے دو سو جزائر کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ مالدیپ کے دارالحکومت مالے کو ایک مصنوعی بند کے ذریعے محفوظ بنایا گیا ہے۔ یہ بند بھی شہر بچانے میں ناکام ثابت ہوا (یادرہے کہ مالدیپ کے جزائر سطح سمندر سے نیچے واقع ہیں)۔
تھائی لینڈ میں تباہی کی منظر کشی کرتے ہوئے ایک سیاح نے جو سونامی کی تباہی سے محفوظ رہا بتایا کہ میرے ہوٹل کے دروازے کو جیسے کوئی دھڑ دھڑ پیٹ رہا تھا ۔کچھ ہی لمحوں بعد یہ اچانک خود بخود کھل گیا اور دوسرے ہی لمحے پانی کے ایک زبردست ریلے نے ہمیں بستر سے دور پھینک دیا۔ پھر یہ پانی کھڑکی کے راستے دوسری طرف جانے لگا۔ ہم تیزی سے ہوٹل کی چھت پر پہنچ گئے لیکن کچھ ہی دیر میں اتنا بڑھ گیاکہ ہم ڈوبنے لگے ۔ بڑی مشکلوں سے ایک درخت کی شاخ پکڑ کر ہم نے اپنی جان بچائی۔یہ سارا تفریحی مرکز پانی میں غائب ہوچکا تھا۔ اس علاقے میں سینکڑوں غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت کی خبر یں ملی ہیں۔ جس کی اکثریت غوطہ خوری یا غسل آفتابی کے لیے باہر موجود تھی۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے کئی سو سیاح بھی کرسمس منانے یہاں آئے تھے وہ بھی اس جزیرے میں ہلاک ہوئے۔ تھائی لینڈ کے جزیرے پھوکیٹ پر تفریح کے لیے آئے ہوئے سیاحوں میں ایک دس سالہ بچی نے اپنی علمی ذہانت کی بنا پر دو سو سیاحوں کی جان بچانے میں مثالی مددکی۔ یہ بچی اپنے والدین کے ہمراہ اس جزیرے کے تفریحی ساحل پر نہانے کی تیاری کر رہی تھی کہ اس نے دیکھا کہ اچانک ساحل سے پانی دور چلا گیا اور بہت سی مچھلیاں زمین پر تڑپ رہی ہیں اور کچھ فاصلے پر سمندری کشتیاں الٹنے لگی ہیں وہ بھاگ کر والدین کے پاس آئی اور کہا کہ ‘‘سونامی’’ آرہا ہے اس کے والدین نے پوچھا کہ تم یہ کیسے کہہ رہی ہو، اس نے کہا کہ میں نے انٹر نیٹ پر سونامی کے حوالے سے جو کچھ پڑھا ہے اس کی علامات میں نے ساحل پر دیکھی ہیں۔ یہ سنتے ہی انہوں نے ہوٹل کی کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو واقعی ایسی ہی صورت حال تھی۔ یہ لوگ بھاگ کر ہوٹل کی انتظامیہ کے پاس گئے اور انہیں اس صورتحال سے آگاہ کیا۔اس وقت ہوٹل میں دو سو مہمان مقیم تھے۔یہ لوگ بھاگ کر ہوٹل کی چھت پر چڑھ گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد سونامی نے ساری زندگی الٹ کر رکھ دی۔ان دو سولوگوں کی جان ایک بچی کے تعلیمی شعور کی وجہ سے بچی۔
ترقی یافتہ ملکوں نے سونامی کے خطرات سے پیشگی آگاہ کرنے کا نظام قائم کیا ہوا ہے اور لوگوں کو اس بارے میں شعوری تعلیم بھی دی جاتی ہے لیکن بحر ہند، بحیرہ عرب اور خلیج کے سمندر میں جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی رہتی ہے’میں سونامی کی اطلاع کا کوئی نظام یا طریقہ کار نہیں ہے۔ ہمارے خطے میں اب تک اس حوالے سے نہ تو حکومتی سطح پر اور نہ ہی علمی اعتبار سے شعور پیدا کیا گیا ہے۔ تصور تو کیجیے کہ اگر خدا نخواستہ کراچی، جدہ ، کویت اورنہر سوویز کو سونامی کا سامنا ہو تو صورت حال کس قدر خوفناک ہوگی۔ ہم تو ہر مصیبت یا مشکل کو بقول اقبالؒ:
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر کہہ کر چپ ہو جاتے ہیں۔
لیکن حقیقت احوال یہ ہے کہ ہم نہ تو سائنسی اور تکنیکی ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور نہ ہی علمی اور تحقیقی مواد سے شعور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ:
‘‘برق گرتی ہے تو ان پڑھ مسلمانوں پر...’’
بشکریہ نوائے وقت