بحر ہند کے ایک جزیرے میں

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : فروری2015

سفر نامہ قسط ۔سوم
بحر ہند کے ایک جزیرے میں
صاحبزادہ انوار احمد بگوی
شہر کی سڑکیں
سڑکیں صاف اور عام طور پر کھلی ہیں۔ صبح اور شام ان پر جہاں پبلک ٹرانسپورٹ اور رکشا کا رش ہوتا ہے فٹ پاتھوں پر آنے جا نے والوں کا بھی بہت ہجوم ہوتا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد عورتوں کی نظر آتی ہے جو عام طور پر سادہ میک اپ میں ٹراؤزرو جینز پوش ہوتی ہیں ۔ جمپر، ساڑھی یا گھگھرا بھی نظر آتا ہے ۔ کہیں شلوار اور چہرہ ڈھکے سیاہ برقعہ بھی دکھائی دیتا ہے مگر عورتوں کا لباس عام طو رپر ایسا نہیں ہوتا جسے غیر مہذب کہا جاسکے۔ مگر ایک بات ہے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں کا لباس بہت ہی سادہ ہے۔ اکثر لوگ بازار میں ہوائی چپل پہنتے اور دھوتی باندھتے ہیں ۔ تاہم کسی جگہ EVE TEASING محسوس نہیں ہوئی۔ لوگوں کے قد چھوٹے اور رنگ گندمی یا سیاہی مائل ہیں۔ سڑکوں کے چوراہوں پر شیشے کے کین میں بند بدھا کی سفید مورتی رکھی ہوتی ہے ۔ کئی جگہوں پر مورتی کے سامنے کھانے کا سامان ، مٹھائی، ارغوانی پھول اور تھالی میں چند سکے پڑے ہوتے ہیں۔ راہ گیروں کو مورتی کے سامنے جھکتے اور اس کا خاص دھیان رکھتے نہیں پایا۔ شہر میں بھکشو بھی کم نظر آتے ہیں۔ ایک بھکشو سر منڈا، پاؤں میں چپل ، آنکھوں پر نفیس چشمہ، ہاتھ میں لیپ ٹاپ اور بہت صاف استری شدہ کلف لگا لباس پہنے نظر آیا۔ سڑک پر کوئی رکشا، کار ، ٹیکسی یا بس ایسی نہیں تھی جو دھواں چھوڑ رہی ہو یا پٹاخے مار رہی ہو۔ رکشا جسے مقامی زبان میں ’’ٹُک ٹُک‘‘ کہتے ہیں بہت آرام دہ اور موزوں سواری ہے۔ رکشے والے بول چال کے انگریزی الفاظ جانتے ہیں اور بخوبی استعمال کرتے ہیں۔ اکثررکشے میٹر سے آراستہ ہوتے ہیں ، مول تول کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ 
شہر میں گدھا گھوڑا گاڑی بالکل نظر نہیںآئی جیسا لاہور، کراچی ، پشاور، راولپنڈی میں نظر آتی ہے۔ دو ایک جگہ البتہ عملہ صفائی کے پاس ہتھ ریڑھی تھی جس میں وہ کچر اکٹھا کررہے تھے۔ ہر جگہ عملہ یو نی فارم میں تھا۔ شہر اگرچہ صاف ہے لیکن کوڑے یا کچرا دان کم دکھائی دیئے۔ ممکن ہے اس کی وجہ شہریوں کی سوجھ بوجھ اور ان کا تعاون ہو جو کوڑا کرکٹ سنبھال کر رکھتے یا کسی مقررہ جگہ پر پھینکتے ہوں۔ کسی بھی شہر کی صفائی شہریوں کی آگاہی اور ان کی عملی تربیت کے بغیر ممکن نہیں ۔ مین سڑک سے ہٹ کر شہر کی چھوٹی سڑکیں پرا نی اور نا ہموار ہیں تاہم اس لیو ل کے گڑھے نہ تھے جن کے ہم اپنے وطن میں عادی ہیں۔ ہماری جدید آبادیوں اور بڑی سڑکوں سے فٹ پاتھ غائب ہورہے ہیں کولمبو میں فٹ پاتھوں کا رواج ہے اور پیدل چلنے والے اس رعایت سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ بڑی سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کے لیے چوکوں سے ہٹ کر بھی سڑک پار کرنے کے لیے سٹاپ بنائے گئے ہیں۔ لائٹ ہونے پر تمام ٹرانسپورٹ از خود رک جاتی ہے تاکہ پیدل چلنے والے سڑک عبو ر کرلیں۔
نیشنل میوزیم 
کولمبو میں سری لنکا کا نیشنل میوزیم شہر کے مرکز میں واقع ہے۔ ایک وسیع پارک کے ارد گرد مختلف ادارے بنائے گئے ہیں جن میں نیشنل لائبریری، ہسپتال، بچوں کے لیے پارک ،میوزیم وغیرہ شامل ہیں۔ میوزیم ایک بڑی عمارت میں واقع ہے جو اندر اور باہر سے پر شکوہ ہے۔ اس میں سری لنکا کا تہذیبی اور مذہبی اثاثہ اور اس کا ماضی محفوظ ہے۔ اصل میں یہ تاریخ کا سفر ہے جو زیادہ تر پتھروں سے آراستہ ہے۔ تمام آثار اور نقوش پتھروں میں گھڑے ہوئے ہیں۔ جیسے یہ سب کچھ یہ سارا حُسن فطرت نے بے جان اور بے آواز پتھروں میں چھپا رکھا تھا۔ انسان نے اپنی محنت اور اپنی لگن سے پتھروں کے اندر سے یہ سب کچھ کھود نکالا۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر پتھر نہ ہوتے تو بدھ مت باقی نہ بچتا۔ 
سری لنکا کی تاریخ و تمدن، تہذیب و ثقافت کو تصاویر ، مجسموں ، برتنوں، سکّوں، آلات اور پارچہ جات سے اجاگر کیا گیا ہے۔ بڑے بڑے ہال۔ گیلریاں در گیلریاں۔ چپ چاپ پتھر۔ میوزم کے اند ربہت حبس تھا اگرچہ جگہ جگہ پنکھے چل رہے تھے تاکہ ہوا چلتی رہے۔ پینے کا پانی موجود نہ تھا۔ زیادہ تر مقامی لوگ تھے جو غالباً ملک کے دوسرے حصوں سے آئے ہوئے تھے۔ ڈیوٹی پر مامور عملے کی بعض خواتین اونگھ رہی تھیں ۔ یوں ایسے بوجھل ماحول سے مجتبیٰ بھی جلد اکتا گیا۔ پتھروں سے کیا لینا۔
پتھروں میں ماضی کی عجیب داستانیں پنہاں تھیں۔ کہیں پانی نتھارنے کا قدیم طریقہ، کہیں نسل انسانی کے تسلسل کا علامتی اظہار ۔ بدھا تو خیر پوری فضا پر چھایا ہوا تھا ۔قدیم دور کے پہناوے، زیور، جوتے ، نشست گاہیں،ملبوسات ، استعمال کی اشیاء، عبادت کے اسلوب، بدھا کی زندگی کا گویا ایک ایک لمحہ منجمد کر دیا گیا تھا۔ قومی میوزیم کی پشت پر نیچرل ہسٹری کا میوزیم ہے۔ اس میں مختلف جانوروں کے ڈھانچے ، تصویریں اور فوسل رکھے ہوئے تھے۔ ایک تو حبس بے تحاشا دوسرے جگہ تنگ و تاریک عملہ البتہ جاگ رہا تھا۔ یہ میوزیم ایک اچھی کوشش تھی مگر اتنا جاذب، اپ ٹو ڈیٹ نہ تھا او رسری لنکا کے حوالے سے بہت مختصر تھا۔ چنانچہ ماضی سے جلد حال میں لوٹ آئے۔
LAKSARA ایک سرکاری ادارہ ہے جو اعلیٰ معیار کی مصنوعات خصوصاً دستکاریوں کو بیچتا ہے ۔ عمارت کے صدر دروازے پر چوب دار انگریزی دور کی یونیفارم میں ملبوس تھے اور اسی انداز میں آنے والوں کو رنش بجا لاتے تھے۔ یہ دو منزلہ عمارت لکڑی ، پتھر، پلاسٹک ، کپڑے کی نفیس اور اعلیٰ دستکاریوں سے بھری ہوئی تھی۔ چیزیں بہت اعلیٰ مگر دام بہت زیادہ۔ لکڑی کے کھلتے کنول پر بدھا کا مجسمہ کھدا ہوا تھا۔ بہت باریک اور خوبصورت کام، اونچائی 5 فٹ اور گھیرا 2 فٹ مگر قیمت 30 لاکھ روپے۔ ایک حصہ میں کاری گر اور ملاح دکھائے گئے تھے جو سمندر سے موتی نکالتے اور انہیں صاف اور پالش کرکے بازار میں لاتے تھے۔ بچوں کے لیے سونیر کارڈ خریدے۔ باقی چیزیں صرف دیکھنے پہ اکتفا کیا ۔ نکلتے ہوئے وزیٹر بک پر اپنے تاثرات لکھے اور سنٹر کی تعریف کی۔ 
کھانے 
ہوٹل کے نزدیک گلی میں ایک انڈین ریسٹورنٹ واقع تھا۔ ہوٹل یا دیگرجگہوں کے کھانے کے مقابلے میں یہاں کا کھانا ہمارے دیسی ذوق کے مطابق تھا چنانچہ بارہا رات کا کھانا انڈین ریسٹورنٹ میں کھایا۔ یہاں ہندو ستانی بلکہ تھالی کھانا کھانے کا موقع ملا۔ یہ کھانا انڈین ڈراموں میں نظر آتا ہے۔ سٹیل کی 7 ، 8 چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں مختلف قسم کے کھانے یا سا لن ہوتے ہیں: دال ، سبزی ، بھجیا، چٹنی۔ اچار، دہی ، ایک بڑی گول تھالی یا ٹرے میں کیلے کے بڑے چھلکے بچھائے جاتے ہیں۔ اس پر ابلے ہوئے چاول دھرے ہوتے ہیں۔ تھالی کے ساتھ ایک عدد منی سی چپاتی بھی ہوتی ہے۔ اصل تھالی خور تمام کولیاں چاولوں کی ڈھیری پر انڈیل لیتے ہیں۔ سارے کھانے کو ہاتھوں سے ملغوبہ بنا لیتے ہیں ۔ پھر ہاتھ سے ہی لپیٹ کر نوالہ منہ تک لے جاتے ہیں۔ سپیشل تھالی میں سبزیوں کے ساتھ ایک کولی چکن سالن بھی تھا۔ کھانے کے لیے چمچ مانگنا پڑا۔ پانی پینے کے گلاس بھی سٹیل کے تھے۔ 
سری لنکا کی ایک سپیشل ڈش دوسا ہے۔ یہ دراصل چاول کی روٹی ہے جسے آلو کی بھجیا کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ گرم روٹی اور مسالے دار بھجیا مزے کا ہوتا ہے۔ سری لنکن ڈشوں میں ایک ویرا نامی ہے۔ اس نمکین ڈش میں ناریل کا کھوپرا باریک سویاں اور مسالہ شامل ہوتے ہیں۔ مقامی کھانے زیادہ مرغن ہوتے ہیں اور نہ زیادہ چٹخارے دار۔ گرم مسالوں اور مرچوں کے باوجود ہمارے کھانوں کی طرح تیز نہیں ہوتے ۔ سالن کا رنگ بھی اتنا جاذب نہیں ہوتا۔ پاکستانی مسلمانوں کے کھانے رنگ روپ، خوشبو، ذائقہ اور مزے میں واقعی منفرد ہیں۔ 
جس ملک میں چاول کی سالانہ دو فصلیں ہوتی ہوں وہاں سب سے پسندیدہ غذا چاول ہی ہوسکتی ہے۔ ہوٹلوں میں اور ڈشیں بھی ملتی ہیں مگر بہت مہنگی۔ مثلاً گندم کے آٹے کی عام چپاتی جو سائز میں پاکستانی روٹی کا تہائی یا جوچوتھا ئی بنتی ہے ایک سو لنکن روپے اور چپڑی روٹی جسے پراٹھا سمجھا جاتا تھا ڈیڑھ سو روپے کی۔ظاہر ہے سری لنکا میں گندم کاشت ہوتی ہے اور نہ مقامی ڈیری پراڈکٹ۔ آسٹریلیا وغیرہ سے درآمد کی جاتی ہیں ۔ چنانچہ دودھ بھی بہت مہنگا ہے۔ 
نایاب کچھووں کی پرورش گاہ 
ساحل سمندر کے ساتھ جاتی ہوئی سڑک کے راستے پر HIKADUA نامی شہر تک جانے کا پروگرام بنایا ۔ چنانچہ KANGRO CAB نامی ٹیکسی سروس کی ایڈوانس بکنگ کروائی۔ ہیکادوا ایک تفریحی ساحل ہے جو کولمبوسے 250 کلومیٹر کی مسافت پر جنوب کی سمت واقع ہے۔ ڈرائیور مقررہ وقت سے پہلے ہوٹل کے دروازے پر موجود تھا۔ نئی صاف ستھری ٹیکسی، انگریزی صحیح اور صاف بولنے والا صحت مند، خوش اخلاق ڈرائیور جس کا نام تھا GUNARATHANA ۔ ہوٹل کے پچھواڑ سے چند قدم کے فاصلے پر سمندرواقع ہے۔ سمندر کے کنارے پر ریل کی دو طرفہ پٹڑی بچھی ہے ۔ لائن کے ساتھ ایک سڑک ہے جو بے روک ٹوک برابر رواں ہے۔ سڑک کے ساتھ آبادی، مکانات، دیہات کولو پیتا، بمبالاپتیا ، ویلا وتا، بن طوطہ گزرے۔ ہر طرف ہریالی۔درخت۔پُرسکون فضا۔ لوگ بڑے شہروں کی طرح کسی جلدی میں نظر نہیں آتے تھے۔ 
شہر کے مضافات میں ساحل کی جانب ہوٹلوں اور رہائش گاہوں کی بھرمار ہے۔ دیہات اور شہر کے لوگوں کی صحت، پہناوے اور سواری میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ رہائشی مضافات اوسط معیار کے ہیں ۔ سر راہ پگوڑا، بدھا کے سفید مجسمے ، بازار، سکول آتے ۔ ایک جگہ مسجد نظر آئی اور چرچ بھی ۔ ہندو مندر دکھائی نہیں دیا۔ بن طوطہ نامی گاؤں کے باہر کچھوا پرورش گاہ (HATCHERY) ہے ۔ دو تین افراد پر عملہ مشتمل ہے۔ ایک کمرہ پر مشتمل دفتر ہے۔ اس کے ساتھ سیمنٹ کے چھوٹے چھوٹے تالاب ہیں جن میں تازہ پانی بھرا ہوا ہے ۔ ان تالابوں میں مختلف عمروں کے چھوٹے بڑے کچھوے ڈالے گئے ہیں ۔ ایک تالاب میں چند بڑے کچھوے تھے۔ یہ کچھوے پیدائشی طور پر معذور تھے۔کسی کا اگلا پاؤں سالم نہ تھا اور کوئی کسی اور عذر میں مبتلا تھا۔ عذر کی بنا پر یہ کچھوے بڑے سمندر میں زیادہ دیر نہیں بچ سکتے تھے جہاں زندہ رہنے کے لیے Fittest یعنی پور ا صحت مند ہوناضروری ہے۔ ازراہِ حیوانی ہمدردی ان معذوروں کو یہاں پناہ دی گئی ہے۔ باقی تالابوں کے کچھوے ایک عمر کے بعد سمندر میں چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ سرکاری کارندے مقامی لوگوں سے 12 روپے فی انڈا کے حساب سے خریدتے ہیں۔ دو ماہ تک ان انڈوں کو ریت کے اندر رکھا جاتا ہے۔ جب مقررہ مدت کے بعد انڈوں سے کچھوے نکل آتے ہیں تو ان کو پانی کے تالابوں میں ڈال دیتے ہیں۔
اس علاقے میں جا بجا دکانیں اور صنعت گھر ہیں جہاں جناتی کرداروں کے MASK بنتے اور بکتے ہیں۔
مچھلی سری لنکا کی خوراک کا حصہ بھی ہے اور آمدن کا ذریعہ بھی۔ یہ مچھلی سمندر سے حاصل کی جاتی ہے۔ سمندر کے کنارے ایک جگہ بہت سارے لوگ دکھائی دیئے ۔ کچھ پانی کے اندر اور کچھ پانی کے باہر۔ دراصل کئی روز پہلے پھینکے ہوئے مچھلی جال کو وہ سب لوگ پکڑے ہوئے تھے۔ جال کے رسے بہت موٹے اور مضبوط تھے جنہیں کئی لوگ مل کر آہستہ آہستہ کنارے کی جانب کھینچ رہے تھے۔ 
ہکادوا ۔۔۔مونگوں کی بستی 
ہکاوا ساحل سمندر پر ایک صاف ستھرا قصبہ ہے جو بڑی شاہراہ کے ساتھ آباد ہے۔ ساحل کی جانب تو ہوٹل، موٹل اور ریستوران ہیں جن کا عقب سمندر کی جانب کھلتا ہے اور بیچ (Beach) کے ساتھ ملحق ہے۔یہ ساحل نہانے کے لیے موزوں ہے۔ یہاں زیادہ تر مغربی سیاح آتے ہیں جو دن بھر پانی میں اچھلتے کودتے ، لہروں پر سرفنگ کرتے اور پانی کے کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔ سنو لانے کے لیے سن باتھ (غسل آفتابی) لیتے ہیں۔ ہر عمر کے اور ہر مغربی ملک کے گورے جو ایشا کی تمازت، پر سکون ساحل اور نسبتاً سستی سہولیات میں TAN ہوتے ہیں۔ گورے اپنے کلچر اور مزاج کے مطابق کم لباس میں ہوتے ہیں البتہ ان عورتوں کے مردوں کو زیادہ گرمی نہیں لگتی اس لیے وہ قدرے مہذب پہناوے میں ہوتے ہیں۔ سمندر کے پانی کی اٹھلاتی او رمچلتی لہروں پر سرفنگ ایک مزیدار شغل ہے ۔ گورے سمندر کے کنارے ایسے مقامات پر ہفتوں پڑاؤ ڈالے رکھتے ہیں۔ انہیں یہاں مرضی کا لباس پہننے ، پینے اور شب و روز گزارنے پر کوئی قد عن نہیں ہے۔ دراصل سری لنکا کی سب سے بڑی صنعت اور ذریعہ آمدن ٹورازم ہے۔ بیرونی ٹورسٹوں کو متوجہ کرنے کے لیے حکومت اور عوام گوروں کی مرضی اور پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ 
سری لنکا کا یہ ساحل CORAL REEF کے لیے مشہور ہے۔ کورل دراصل ایک سمندری جاندار کا نام ہے جسے گھونگا یا مونگا کہتے ہیں۔یہ اپنے لعاب سے زیر آب چٹانیں بناتا ہے جن کے رنگ خوبصورت اور SHADES بہت شوخ اور روشن ہوتے ہیں۔ ان مونگا چٹانوں میں ان کے رنگ کی مناسبت سے رنگا رنگ مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ سیاحوں کی دلبستگی کے لیے یہاں ایسی کشتیاں کرائے پر ملتی ہیں جن پر سیاح سوار ہوکر سمندر میں جاتے ہیں کشتی کے پیندے کے درمیان ایک مضبوط شیشہ لگا ہوتا ہے جس سے آر پار دیکھا جاسکتا ہے۔ سیاح کشتی میں سوار ہونے سے پہلے پنک رنگ کی لائف جیکٹ پہنتے ہیں۔ کشتی کا نوجوان ملاح اپنی آنکھوں اور منہ پر ربڑ کا ماسک اور عینک چڑھاتا اور پانی میں کود کر کشتی کے نیچے جاتا ہے جہاں وہ ہاتھوں سے شیشے کی نچلی سطح کو صاف کرتا ہے تاکہ پانی کے اندر بہتر نظارہ دکھائی دے سکے۔ ساحل سے تھوڑی دور جاکر کشتی کو آہستہ کرتا ہے۔ پانی کے نیچے رنگ برنگی مچھلیاں آجاتی ہیں۔ کھانے کے ٹکڑے پھینکیں تو مچھلیوں کے غول جھپٹتے اور اچھلتے ہیں۔ پیندے کے شیشے سے سمندر کی تہہ میں رنگا رنگ کورل چٹانیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ مختصر سیر GLASS BOTTOM BOAT RIDEکہلاتی ہے ۔ ہم نے سمندر کے کنارے ریت پر چہل قدمی کی اور لہروں کوقدم بوسی کا موقع دیا ۔ مجتبیٰ اور عائشہ بحر ہند کی مچلتی لہروں سے ٹکرائے اور خوب گیلے ہوئے۔ اس خوشگوار تمازت میں خنکی کا مطلق احساس نہ ہوا۔ مجتبیٰ نے ساحل سمندر پر قسم قسم کی سیپیاں ، رنگ رنگ کے شیل ، چھوٹے چھوٹے پتھر اور کنکر چنے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ سب بحر ہند کے ہیں جو سونامی دیکھ چکے ہیں! 
دیہی سری لنکا 
’’ہکاڈوا‘‘ سے واپسی پر ہم نے ساحل کے ساتھ والی سڑک چھوڑ دی اور Express way کے راستے کولمبو لوٹے۔ ظاہر ہے راستے میں بڑے شہر اور قصبے نہ تھے ۔ البتہ چٹانوں اور کھلیانوں سے گزرتا راستہ بہت خوبصورت اور پُر کشش تھا۔ دونوں طرف گھنا سبزہ بلکہ گہری سبزروئیدگی۔ انناس، ناریل، آم اور دیگر فروٹ کے درخت، سبز جھاڑیاں ، قسم قسم کے پودے ، دھان کے کھیت۔ جہاں دھان کی پنیری لگی ہوئی ہے اور کسان پانی سے بھرے کھیتوں میں دھان کے پودے لگا رہے ہیں۔ یہ سال کی دوسری فصل ہے۔ ربیع اور خریف دونوں موسموں میں دھان ہی بڑی فصل ہے جو سری لنکا والوں کی STAPLE FOOD ہے۔ گائے ، بھینس، بکری ، بھیڑ کے لیے خود رو گھاس فراوانی سے مل جاتی ہے مگر جانورکم اور چھوٹے جسم کے ہیں۔ راستے کے بورڈوں سے اندازہ ہوا کہ یہاں لوکل سیلف گورنمنٹ سسٹم رائج ہے اس کے تحت لوکل کونسلز کے باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں اور منتخب شدہ قیادت ہی مقامی مسائل کو حل کر تی ہے۔ ان کو نسلز کے ضلعی اور ڈویژنل سیکریٹریٹ بنے ہوئے ہیں۔ دیہی سڑکیں خراب اور خستہ حال تھیں ۔ عورتوں کا لباس دیہاتوں میں ہر جگہ یکساں دکھائی دیا۔ 
راستے میں مکانوں کی چھتیں ٹین کی مگر اچھے بنے ہوئے ۔ پہاڑ، ٹیلے، گھاٹیاں ،میدان مگر سر سبز۔ یہ راستہ لمبا ضرورتھا مگر خوبصورت اور قدرتی مناظر سے بھرپور ۔ ٹیکسی ڈرائیور بہت مددگار ہر جگہ کوشش کہ سیاح زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہوں۔ ہماری دعوت کے باوجود اس نے کھانا وہی کھایا جو اپنے گھر سے ساتھ لایا تھا۔ ڈرائیور مذہباً بدھ تھا۔ واپسی پر نکلتے ہوئے Express way پر 350 روپے کا ٹول ٹیکس ادا کیا۔ جاتے ہوئے ہکاڈوا روڈ پر کسی جگہ پولیس کا کوئی بیریر نظر آیا اور نہ ہی کسی جگہ سڑک پر ٹول ٹیکس ادا کرنا پڑا ۔ سڑک کنارے کسی جگہ پولیس یا ٹریفک کا سپاہی دکھائی نہیں دیا۔ 
(جاری ہے)