اردوکے بارے میں پہلے ہی عرض کردوں یہ کسی زبان کا نام نہیں، یہ ایک تہذیب کا نام ہے۔ لوگ اسے قومی زبان کہتے ہیں، میں سوچتا ہوں میں اسے قومی تمدن کیوں نہ کہوں،اسے قومی شائستگی کا نام کیوں نہ دوں۔یہ کسی جھگڑے میں پڑنے والی شے نہیں۔ اردو کی خوبی یہی ہے کہ یہ کسی فساد کا سبب بن جائے تو اپنی خوبیاں کھو بیٹھے۔ اب رہ گئے وہ دوسرے لب و لہجے، حروف اور الفاظ جنہیں زبان کہا جاتا ہے، وہ جہاں رہیں خوش رہیں، آباد رہیں اور پھولیں پھلیں۔ میں تو اول روز سے کہتا رہا ہوں کہ دنیا کی ہر زبان تعظیم اور احترام کی مستحق ہے۔ میرا یہی عقیدہ لفظ کے بارے میں ہے۔ لفظ نہایت محترم ہوتا ہے چاہے کسی بھی علاقے اور خطے کا ہو۔ لفظ کے بارے میں میری اس رائے کا قصہ دلچسپ ہے۔ ایک روز میں ریل گاڑی میں بیٹھا۔ برابر کی نشست خالی تھی ا س پر ایک کتابچہ سا پڑا تھا۔میں نے اٹھا کر دیکھا۔ کسی آسمانی صحیفے کے منتخب اقتباس لکھے تھے۔پہلا ہی فقرہ میرے ذہن پر نقش ہوگیا اور آج تک ہے۔ لکھا تھا: جب کائنات نہ تھی، لفظ تھا۔ ہوگا، اور وہ بھی سپاٹ نہ ہوگا، ذرا سا ترنّم بھی رہا ہوگا، تبھی تو ایسی کائنات بنی جس میں شگوفے پھوٹتے ہیں، اور گھاس پر سرسراتی ہوا گنگناتی ہے، بارش کی جھڑی لگتی ہے اور پرندے سُر بکھیرتے ہیں۔
یہ سارے خیالات کہاں سے میرے ذہن میں در آئے۔ اس کا بھی قصہ ہے۔ ہوا یہ کہ صبح اٹھ کر اپنا کمپیوٹر کھولا۔ دیکھنا چاہتا تھا کہ شاید کسی کا کوئی پیغام ہو۔ دیکھا کہ اورنگ آباد کی ایک بہت پیاری لڑکی شاد زہرہ نقوی نے پھول بوٹوں سے آراستہ ایک پوسٹر بھیجا تھا جی خوش ہوا۔پوسٹر کے بیچ ایک دعائیہ کلمہ لکھا تھا۔ اسے پڑھنا غضب ہوگیا۔ لکھا تھا: اللہ کرے آپ ہمیشہ ہنستے رہو۔ یہ کیا ہوگیا اردو کے لب و لہجے کو کس کی نظر کھا گئی۔ اورنگ آباد کی اس بچّی کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ ہندوستان میں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ہندی کے زیر اثر زبان پر ایسے تاریک سائے پڑ رہے ہیں۔ یہ پاکستان اور اہل پاکستان کو کیا ہوا جو اپنے فقرے کو آپ سے شروع کرکے تم پر ختم کرنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ہمارے گھر آؤ یا آپ جی لگا کر پڑھا کرو۔ایک بیمہ کمپنی کے اشتہار میں کہا گیا کہ آپ اپنے بچے کی فیس کہاں سے اداکروگے؟ یہ زبان کی بے حرمتی ہے، جس تہذیب پر ہم بجا طور پر ناز کرتے چلے آئے ہیں اس کا دیکھتے دیکھتے کیا حشر ہورہا ہے۔ بات صرف آپ اور تم کی نہیں، بات پورے رویّے کی ہورہی ہے۔پوری زبان بگڑ رہی ہے۔ورنہ زبان پر بدلتے وقت کا چھینٹا تو ہمیشہ ہی پڑتا رہا ہے۔ ابھی کچھ روز ہوئے لندن کے ایک مشاعرے میں ہندوستان سے آئے ہوئے ایک شاعر نے کہا کہ لفظ محبت زبر سے ہے لیکن چونکہ ہر ایک محبت پر پیش لگانے لگا ہے اس لئے میں بھی مجبور ہوں۔ اب ان سے کون عرض کرے کہ زندہ زبانوں کی یہی شان ہے، وقت کے ساتھ ذرا سی چال تو بدلتی ہے اور یہ دنیا کی ہر زبان کا چلن ہے۔ لیکن زبان کا حلیہ ہی بدل جائے اور اس کا فطری حسن زائل ہونے لگے، یہ بات جی کو دُکھاتی ہے۔
کچھ عرصہ ہوا میں نے کہیں لفظ ڈاڑھی لکھا اور دو مرتبہ لکھا۔ اس لفظ کی یہی شان ہے، ڈاڑھ سے قرب نے رخساروں پر اگی شے کو ڈاڑھی کا نام دے دیا ہوگا۔ لفظ یوں ہی وجود میں آیا کرتے ہیں۔ میرا لکھا ہوا لفظ کہیں ادارت کے مرحلے سے گزرا اور کسی نے اپنی دانست میں اصلاح کرتے ہوئے ڈاڑھی کو دال سے داڑھی بنا دیا۔اب مسئلہ اعتبار کا ہے۔ جن لوگوں کو میری تحریر پر اعتبار ہے وہ آئند ہ ڈاڑھی کو داڑھی لکھیں گے اور سند کے طور پر میرا نام پیش کردیں گے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ذمہ داری بڑی گراں قدر شے ہے۔ ذرا سی تحقیق کرلی جائے تو کچھ نہیں بگڑتا۔ بات میں صداقت کا قرینہ شامل ہو تو بات جی کو بھاتی ہے۔
جب میں کہتا ہوں کہ اردو ایک تہذیب کا نام ہے تو میرا اشارہ دکن، لکھنو یا دلّی کی طرف ہر گز نہیں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ جملے کو آپ سے شروع کرنا اور تم پر ختم کرنا کسی گاؤں، قصبے اور بستی میں بھی کبھی جائز نہ تھا۔ اس کے علاوہ ایک بات اور۔ اردو کی نفاست ہی اس کا حسن ہے۔ اس سے لوگ آئیے، جائیے، اٹھئے اور بیٹھئے کیوں نکال رہے ہیں۔ ابھی گلزار صاحب نے ہندوستان میں اردو کے تعلق سے تقریر کرتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کی اردو میں پایا جانے والا فرق واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ’آپ یہ کام کریں‘ نہیں کہا جاتا بلکہ وہاں ’آپ یہ کام کیجئے‘ کہا جاتا ہے۔ خدا کرے گلزار صاحب نے سچ کہا ہو ورنہ آئیے کے
بجائے آئیں او رجائیے کے بجائے جائیں کہنا عام چلن بن چکا ہے۔ پاکستان پر ہندوستان کی چھاپ لگنا سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا پاکستان والے کثرت سے بھارت کا ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے تجزیہ کار معاملے کو مُدّا کہنے لگے ہیں۔ متفق ہونے کو سہمت ہونا کہتے ہوئے کیا یوں نہیں لگتا جیسے کھانے میں کنکر آجائے۔ ایک اورترکیب بلا تکلف سیکھ لی ہے او روہ ہے: اس معاملے کو لے کر۔یا اس مسئلے کو لے کر ایک کانفرنس ہورہی ہے۔ ہندی کا اثر قبول کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ اردو کی ساری بنیاد ہندی قواعد پر رکھی ہے لیکن اردو کی اینٹ میں ہندی کا روڑا تو نہ لگایا جائے۔اردو اپنے اردو پن سے پہچانی جائے تو کانوں کو کیسا بھلا لگے۔
آخر میں ایک اور سانحہ۔ انگریزی خواں نسل کے منہ سے خ کی آواز نکلنی بند ہو رہی ہے۔ خوش کو حوش اور خیر کو حیر کہنے لگے ہیں۔ ٹی وی پر ایک فضا ئی کمپنی کا اشتہار چلتا ہے جس میں ایک پاکستانی خاتون کی آواز شامل ہے جن کے منہ سے خ کی آواز نہیں نکلتی اور جس ظالم نے خاتون کو کاپی لکھ کر دی ہے اس میں خوشی، خوش اخلاق اور اسی قسم کے لفظوں کی بھرمار ہے۔ان خاتون سے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے: تو اگر اسی میں حوش ہے، تو حوشی سے کر جفائیں۔
بڑی بھولی سی دھیمی سی زبان ہے، اس کی مدھم پڑتی لو کے گرد دونوں ہاتھوں کی فصیل بنا نی ہو گی۔