رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو سال تک مدینہ منورہ میں حج نہیں کیا۔ پھر سن دس ہجری میں اعلان ہوا کہ رسولؐ اللہ اس سال حج کرنے جا رہے ہیں تو مدینہ منورہ میں کثیر اژدھام ہوگیا۔ جو شخص سواری پر یا پیدل آنے کی طاقت رکھتا تھا، وہ آگیا۔ لوگ اس لیے آئے کہ آپؐکی معیت میں چلیں گے۔ ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ رسولؐ اللہ کی اقتدا میں حج اور آپؐ کی طرح مناسک ادا کرے۔ آپؐ نے حج میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘اہل مدینہ کا میقات ذوالحلیفہ ہے۔ دوسرے راستے والوں کا میقات جحفہ ہے اور عراق کے باشندوں کا میقات ذاتِ عراق ہے اور اہل نجد کا میقات قرن اور یمن والوں کا یلملم ہے۔’’ راوی نے بیان کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار پانچ ذی قعدہ کو گھر سے باہر نکلے۔
ہم آپؐ کی معیت میں روانہ ہوئے۔ ہمارے ساتھ بچے اور عورتیں بھی تھیں۔ جب ہم ذوالحلیفہ آئے، اسماءؓ بنت عمیس کے ہاں محمد پیدا ہوا، اس نے آپؐ کی طرف پیغام بھیجا کہ میں کیا کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ‘‘غسل کرے اور مضبوطی کے ساتھ کپڑا باندھے اور احرام باندھے۔’’ پس رسولِ اکرم ؐ نے نہایت خاموشی کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھائی، پھر آپؐقصوا نامی اونٹنی پر سوار ہوئے، جب وہ بیداء پہاڑی پر چڑھ گئی تو آپؐ نے اور آپؐ کے صحابہؓ نے حج کے لیے لبیک کہا اور ایک روایت میں حج افراد کا لفظ ہے……میں نے آپؐ کے سامنے تابحدنظر اژدھام دیکھا۔ کچھ سوار اور کچھ پیدل تھے۔آپؐ کے دائیں، بائیں اور پیچھے بھی اسی طرح کا اژدھام تھا اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے، آپؐ پر قرآن پاک نازل ہو رہا تھا اور آپؐ اس کے معانی کو خوب سمجھتے تھے اور جو عمل آپؐ کر رہے تھے، ہم نے بھی آپؐ کی اقتدا کی۔ آپؐ نے اونچی آواز کے ساتھ لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ والملک لا شریک لککہا تو لوگوں نے بھی بآوازِ بلند یہ کلمات کہے۔
صحابہ کرامؓ نے لبیک کہنے میں (لبیک ذالمعارج لبیک ذوالفواضل)(بلندیوں اور فضیلتوں والے میں حاضر ہوں) کا اضافہ کیا، آپؐ نے انکار نہیں کیا۔
رسول ؐ اللہ لبیک پکارتے رہے …… ہم لبیک اللھم لبیک بالحج کے کلمات بلند آواز سے کہتے رہے۔ہمارا ارادہ صرف حج کا تھا، عمرے کا نہ تھا (ایک روایت میں ہے کہ حج کے دنوں میں ہم عمرہ کرنے کو جانتے ہی نہ تھے اور دوسری روایت میں ہے کہ نبی اکرمؐ کے صحابہ کرامؓ نے صرف حج کا احرام باندھا اور حضرت عائشہؓ نے عمرے کا احرام باندھا۔ حضرت عائشہؓ جب مقامِ سرف میں پہنچیں تو ان کو ایام آگئے)۔
بیت اللہ کا طواف:
تو جب ہم آپؐ کے ساتھ چار ذی الحجہ کو بیت اللہ آئے اور (ایک روایت میں ہے) ہم چاشت کے وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، نبی کریمؐ نے مسجد الحرام کے دروازے پر اپنی سواری کو بٹھایا اور مسجد میں داخل ہو کر رکن یمنی اور حجر اسود کا بوسہ لیا (اور ایک روایت میں حجر اسود کا لفظ آتا ہے) پھر دائیں طرف سے چلے، تین چکر تیز اور چار چکر آرام سے چلے۔
پھر آپؐ مقام ابراہیم ؑکی طرف گئے۔ آپؐ نے بلند آواز کے ساتھ لوگوں کو سناتے ہوئے واتخذ مقامِ ابراہیم مصلے کی آیت تلاوت فرمائی۔ پھر مقام ابراہیم ؑکے سامنے دو نفل ادا کیے، ان میں قل ھواللہ احد قل یایھاالکفرون سورتیں تلاوت فرمائیں اور ایک روایت میں قل یایھا الکفرون اور قل ھواللہ احد کا ذکر ہے) پھر آپؐ زمزم کی جانب گئے، وہاں سے پانی پیا اور سر پر بھی گرایا، پھر حجر اسود کی طرف واپس لوٹے تو اس کا بوسہ لیا۔
پھر دروازے سے اور ایک روایت میں صفا کے دروازے سے صفا کی جانب نکلے۔ جب صفا کے قریب پہنچے تو آپؐ نے ان الصفا والمروۃ من شعائر اللّٰہ آیت تلاوت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ‘‘میں اس سے ابتدا کرتا ہوں جس سے اللہ نے ابتدا کی ہے۔’’ (اور ایک روایت میں صیغہ جمع ہے) ہم اس سے ابتدا کرتے ہیں جس سے اللہ نے ابتدا کی ہے، تو آپؐ اولاً صفا پر چڑھے، بیت اللہ کا مشاہدہ کرتے ہی منہ اس کی جانب کیا۔ اللہ کی توحید بیان کی، اس کی تکبیر و تحمید کرتے رہے اور یہ کلمات کہے: لَا ِالٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ صَدَقَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ۔
کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا، اپنے بندے کو کامیاب کیا اور اکیلے نے سب جماعتوں کو مغلوب کر دیا۔ پھر آپ ؐ نے دعا فرمائی اور ان کلمات کو تین بار دہرایا۔
پھر آپؐ اتر کر مروہ کی جانب چلنے لگے۔ جب آپؐ کے پاؤں وادی کے درمیان میں پہنچے تو آپؐ نے دوڑنا شروع کیا۔ جب آپؐ کے سامنے چڑھائی آئی تو آپؐ حسب سابق چلنے لگے اور مروہ پر چڑھ گئے، بیت اللہ کا مشاہدہ کیا اور جو اعمال صفا پر کیے، وہی مروہ پر بھی کیے۔
حج کے احرام کو فسخ کرکے عمرے کے احرام باندھنے کا حکم دینا:
جب آپؐ کا آخری چکر تھا اور ایک روایت میں جب آپؐ کا ساتواں چکر مروہ پر تھا تو آپؐ نے فرمایا: ‘‘اگر میں اس چیز کو پہلے معلوم کر لیتا جس کا مجھے بعد میں علم ہوا ہے تو میں قربانی ساتھ نہ لے جاتا اور عمرہ کر لیتا۔ پس تم میں سے جس کے ساتھ قربانی نہیں ہے ، وہ عمرہ کرکے حلال ہو جائے’’ (اور ایک روایت میں ہے) آپؐ نے فرمایا کہ تم بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرکے حلال ہو جاؤ، سر کے بال ترشواؤ اور حلال رہو، پھر یوم الترویہ، آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھو اور تم نے حج مفرد کو عمرہ بنانا ہو گا۔’’
مروہ سے نیچے کھڑے سراقہؓ بن مالک نے دریافت کیا : ‘‘یارسولؐ اللہ! کیا ہمارے لیے عمرہ کرنا اور ایک روایت میں ہمارا تمتع کرنا اس سال کے ساتھ خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے اجازت ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسری میں داخل کرتے ہوئے فرمایا کہ قیامت تک کے لیے عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔ آپؐ نے تین بار فرمایا، نہیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حج، عمرہ اکٹھے ہو گئے ہیں۔
عرض کیا یا رسولؐ اللہ! ہمیں ہمارے دین کے متعلق اس طرح آگاہ فرمائیں کہ گویا ہم ابھی پیدا ہوئے ہیں۔ آپؐ فرمائیں کہ آج جو ہم عمل کر رہے ہیں، کیا ہمارا عمل پہلے لکھا جا چکا ہے؟ تقدیر میں قلمیں چل چکی ہیں یا ہمارا عمل کرنے کے بعد مستقبل میں لکھا جاتا ہے؟
آپؐ نے فرمایا: ‘‘آپ کا عمل تقدیر کی نوشت کے مطابق ہے۔’’
عرض کیا: ‘‘پھر عمل و سعی کس لیے؟’’
آپؐ نے فرمایا: ‘‘عمل کرتے رہو، ہر شخص جس کے لیے سرشت کیا گیا ہے، اسی کی توفیق دی جائے گی۔’’
ہمیں حکم دیا گیا کہ جب ہم حلال ہو جائیں تو قربانی کریں۔ ایک قربانی میں ایک جماعت شریک ہو سکتی ہے، چنانچہ ایک اونٹ میں سات افراد شریک ہوں اور جس کے پاس قربانی نہیں ہے، وہ تین روزے رکھے، راوی نے دریافت کیا کہ ہمارا حلال ہونا کیسا ہے۔ آپؐ نے فرمایا : ‘‘مکمل حلال ہونا۔’’
حضرت علیؓ کی یمن سے آمد:
اور حضرت علیؓ یمن سے (جہاں وہ صدقات کے اکٹھا کرنے پر مامور تھے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قربانیاں لائے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ فاطمہؓ نے بالوں میں کنگھی کر رکھی ہے، سرمہ لگا رکھا ہے اور رنگدار کپڑے پہن رکھے ہیں۔ حضرت علیؓ نے ان کا یہ حال دیکھا تو اسے ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ تجھے ایسا کرنے کا کس نے حکم دیا ہے؟ فاطمہؓ نے جواب دیا، میرے ابا نے مجھے اس کا حکم دیا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ حضرت علیؓ عراق میں مقیم ہونے کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ میں فاطمہؓ پر خفگی کے عالم میں رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ فاطمہؓ توسج دھج کے بیٹھی ہے، اس نے جواب دیا کہ میرے ابا نے مجھے حکم دیا ہے، میں اس بات کو غلط سمجھتا ہوں اور آپؐ سے فتویٰ حاصل کرنے آیا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ فاطمہؓ سچ کہتی ہے وہ سچی ہے، وہ سچی ہے۔ میں نے ہی اس کو اس کا حکم دیا تھا۔
آپؐ نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا آپ نے کس نیت سے حج کا احرام باندھا؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا، میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میرا احرام رسولِ اکرمؐ کے احرام کی مانند ہے۔ آپؐ نے فرمایا: میرے ساتھ تو میری قربانی ہے پس تجھے محرم رہنا ہو گا، تو ابھی حلال نہیں ہو سکتا۔’’
جو قربانیاں حضرت علیؓ یمن سے اور نبی کریمؐ مدینہ منورہ سے ساتھ لائے تھے، ان کی تعداد ایک سو تھی۔ راوی بیان کرتا ہے کہ نبی کریمؐ اور جن کے پاس قربانی تھی، کے علاوہ سب لوگ حلال ہو گئے اور انھوں نے بال کٹوائے۔
۸ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر منیٰ کی طرف روانگی:
جب ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ تھی تو مکہ مکرمہ کو الوداع کہا۔ بطحا سے حج کا احرام باندھ کر منیٰ کی جانب روانہ ہوئے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عائشہؓ کے ہاں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ رو رہی ہیں۔ آپؐ نے دریافت کیا: ‘‘کیا بات ہے؟’’ عائشہ نے جواب دیا: ‘‘مجھے ایام آگئے ہیں۔ بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی، اب لوگ حج کرنے جا رہے ہیں۔’’
آپؐ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ‘‘ایام کا آجانا ایک ایسا امر ہے جس کو اللہ نے آدم کی بیٹیوں پر مسلط کر دیا۔ پس غسل کرکے حج کرو اور حجاج جو عمل کر رہے ہیں، تمھیں بھی ان کے کرنے کی اجازت ہے۔ البتہ نہ تجھے بیت اللہ کا طواف کرنا ہو گا اور نہ ہی نماز ادا کرنی ہو گی۔’’
چنانچہ حضرت عائشہؓ نے حج کے تمام مناسک ادا کیے لیکن بیت اللہ کا طواف نہ کیا۔ رسول اکرمؐ سواری پر سوار ہوئے۔ آپؐ نے منیٰ میں اور ایک روایت میں ہے، ہمیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء، فجر کی نماز پڑھائی۔ فجر کے بعد آپؐ کچھ عرصہ رکے۔ جب سورج نکل آیا تو آپؐ نکلے اور آپ ؐ نے بالوں کے خیمے کے متعلق حکم دیا۔ چنانچہ آپؐ کے لیے نمرہ میں خیمہ لگا دیا گیا۔
عرفات کی جانب روانگی:
جب آپؐ منیٰ سے روانہ ہوئے تو قریش کو یقین تھا کہ آپؐ مزدلفہ مشعر الحرام میں رک جائیں گے، وہیں آپؐ کا ٹھہرنا ہو گا، جیسا کہ قریش جاہلیت میں وہاں ٹھہرتے تھے، لیکن رسولؐ اللہ وہاں سے آگے چل دیے، یہاں تک کہ عرفہ میں پہنچ گئے۔ وہاں آپؐ نے دیکھا کہ نمرہ میں آپؐ کے لیے خیمہ لگایا گیا ہے۔ آپؐ نے وہاں نزول فرمایا۔ سورج کے زوال کے بعد آپؐ نے حکم دیا کہ قصوا اونٹنی پر پالان رکھا جائے، چنانچہ اس کو آپؐ کے لیے تیار کیا گیا۔ آپؐ اس پر سوار ہو کر بطن وادی میں پہنچے۔
عرفات کا خطبہ:
آپؐ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ‘‘تمھارے خون اور تمھارے مال تم پر حرام ہیں جیسا کہ تمھارے اس دن کو حرمت حاصل ہے۔ خبردار! جاہلیت کی تمام چیزوں کو میرے قدموں کے نیچے ختم کر دیا گیا ہے اور جاہلیت کے خون بھی ختم کر دیے گئے ہیں اور اپنے خونوں میں سے جس خون کو سب سے پہلے میں معاف کرتا ہوں، وہ ابن ربیعہ بن حارث کا خون ہے جو بنو سعد قبیلے میں دودھ پلایا گیا تھا۔ بنو ہذیل نے اس کو قتل کر دیا تھا۔ نیز جاہلی دور کے تمام سودوں کو ختم کرتا ہوں اور سب سے اول میں عباس بن عبدالمطلب کے سود کو ختم کرتا ہوں۔ پس تم عورتوں کے بارے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، تم نے ان کو اللہ کی امانت کے ساتھ اپنے قبضے میں کیا ہے اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمے کے ساتھ حلال گردانا ہے۔ پس تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنے دیں جس کو تم برا جانتے ہو۔ تمھارے ذمے ان کی خوراک، لباس کا بہتر انتظام کرنا ہے اور میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے۔ وہ کتاب اللہ ہے اور تم سے میرے متعلق سوال ہو گا تو تم کیا جواب دو گے؟’’ سب نے کہا ، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ نے اپنے رب کے پیغامات کو پہنچایا، اپنی ذمے داری کو ادا کیا اور اپنی امت کی خیر خواہی کی اور اپنے اوپر عائد کردہ حقوق کو پورا کر دیا، تو آپؐ نے اپنی شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے اشارہ کیا: ‘‘اے اللہ! گواہ ہو جا، اے اللہ! گواہ ہو جا۔’’
عرفہ میں وقوف کرنا:
پھر بلالؓ نے ایک اذان کہی ، پھر تکبیر کہی تو آپؐ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر بلالؓ نے عصر کی اقامت کہی تو آپؐ نے عصر کی نماز پڑھائی، ان کے درمیان سنتیں نہیں پڑھیں۔ پھر حضوراکرمؐ قصویٰ پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ آپؐ وقوف کی جگہ میں پہنچے۔ آپؐ نے اپنی اونٹنی کے بطن کو جبل الرحمت کے نیچے کنکروں کی طرف اور جبل مشاۃ کو اپنے سامنے کیا اور قبلہ رخ ہو کر سورج کے غروب تک وقوف فرما رہے اور فرمایا: ‘‘میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور عرفہ کی تمام کی تمام وادی وقوف کی جگہ ہے۔’’ اس کے بعد آپؐ نے حضرت اسامہؓ بن زید کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔
عرفات سے واپسی:
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفات سے واپس لوٹے تو آپؐ بڑے سکون و اطمینان سے تھے، آپؐ نے اونٹنی کی لگام کو کھینچ رکھا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا سر آپؐ کے پالان کے درمیان لگ رہا تھا اور آپؐ اپنے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی سے آسمان کی جانب اشارہ کر تے ہوئے فرما رہے تھے۔ ‘‘لوگو! سکون و اطمینان اختیار کرو، سکون و اطمینان اختیار کرو۔’’ جب بھی آپؐ کسی ریت کے تودے پر سے گزرتے تو لگام ذرا ڈھیلی کر دیتے تاکہ اونٹنی اس پر چڑھ جائے۔ یہاں تک کہ آپؐ مزدلفہ پہنچ گئے، وہاں آپؐ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو تکبیروں کے ساتھ پڑھائیں اور ان کے درمیان نفل نہیں پڑھے۔ پھر رسول اکرمؐ صبح صادق تک لیٹے رہے، جوں ہی صبح صادق نمودار ہوئی، آپؐ نے فجر کی نماز اذان اور تکبیر کے ساتھ پڑھائی۔
مشعر الحرام پر وقوف:
پھر آپؐ قصواء پر سوار ہو کر مشعر الحرام پر چڑھ گئے، وہاں قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔ اللہ کی حمد، تکبیرو تہلیل، توحید کے کلمات کہے، آپؐ وہاں وقوف فرما رہے، یہاں تک کہ روشنی نمایاں ہو گئی اور فرمایا: ‘‘میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور مزدلفہ تمام وقوف کی جگہ ہے۔’’
رمئ جمار کے لیے واپسی:
آپ سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے چل پڑے۔ آپؐ سکون کے ساتھ آ رہے تھے۔ فضل ؓ بن عباس آپؐ کے پیچھے سوار تھے۔ وہ خوب صورت گورے رنگ والا تھا۔ اس کے بال بھی خوب صورت تھے۔ جب رسولِ کریم گزر رہے تھے، تو آپؐ کے قریب عورتوں کی سواریاں بھی گزر رہی تھیں۔ فضلؓان کی جانب دیکھنے لگا تو آپؐ نے اپنا ہاتھ فضلؓ کے چہرے پر رکھ دیا ۔ فضلؓ نے اپنا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا۔ نبی کریمؐ نے دوسری جانب سے اپنا ہاتھ فضلؓ کے چہرے پر رکھا۔یہاں تک کہ وادی میں پہنچے، تو آپؐ نے اونٹنی کو ذرا تیز چلایا۔
جمرۂ کبریٰ پر رمی:
پھر آپؐ درمیانی راستے پر چلے جو جمرۂ کبریٰ پر پہنچتا ہے۔ یہاں تک کہ آپؐ اس جمرے پر آئے جو درخت کے پاس ہے تو آپؐ نے اس کو چاشت کے وقت سات کنکر مارے۔ ہر کنکر کے ساتھ اللہ اکبر کہتے۔ یاد رہے، کنکر لوبیا کے دانے کے تقریباً برابر تھے۔ آپؐ نے بطن وادی سے کنکر مارے۔ آپؐ سواری پر تھے اور فرما رہے تھے کہ مناسک حج معلوم کرو، شاید میں اس سال کے بعد حج پر نہ آؤں۔ راوی نے بیان کیا کہ آپؐ نے دسویں کے بعد تمام ایام تشریق میں رمی جمار کی لیکن زوالِ شمس کے بعد جب جمرہ عقبہ کو کنکر مار رہے تھے تو آپؐ کو سراقہؓ ملا۔ اس نے دریافت کیا، یا رسولؐ اللہ! کیا یہ ہمارے لیے خاص ہے؟ فرمایا۔ ‘‘نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے۔’’
قربانی اور حجامت:
پھر آپؐ مذبح تشریف لے گئے، آپؐ نے وہاں اپنے ہاتھ کے ساتھ تریسٹھ قربانیاں ذبح کیں، پھر حضرت علیؓ نے باقی ماندہ قربانیوں کو ذبح کیا۔ آپؐ نے ان کو قربانیوں میں شریک کیا اور ہر اونٹ سے گوشت کا ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا، چنانچہ انھیں ایک ہانڈی میں ڈالا گیا، ان کا سالن پکایا گیا۔ دونوں نے گوشت کھایا اور شورباپیا …… رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی دی اور دوسری روایت میں ہے راوی نے بیان کیا، ہم نے اونٹ کی قربانی دی (اور ایک اور روایت میں ہے) آپؐ نے اونٹ اور گائے میں سات آدمیوں کو شریک ہونے کی اجازت دی اور پانچویں روایت میں راوی نے بیان کیا کہ ہم سات آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک تھے۔ ایک آدمی نے دریافت کیا: ‘‘جناب، کیا گائے کی قربانی میں بھی اشتراک ہو سکتا ہے؟’’
آپؐ نے فرمایا: ‘‘وہ بھی اونٹ کی مانند ہے۔’’ اور ایک روایت میں ہے۔ جابرؓ نے بیان کیا کہ ہم قربانیوں کے گوشت کو صرف منیٰ کے تین دن کھاتے تھے، پھر آپؐ نے ہمیں رخصت عنایت فرمائی اور فرمایا کھاؤ اور ذخیرہ کرو۔ راوی بیان کرتا ہے کہ ہم قربانی کا گوشت کھاتے رہے اور ہم نے اس کو محفوظ رکھا۔ یہاں تک کہ جب ہم مدینے واپس آئے تو ہمارے ساتھ قربانیوں کا گوشت تھا۔
رسول اکرمؐ نے جانور ذبح کرنے کے بعد سر منڈایا اور لوگوں کے سوالات کا جواب دینے کے لیے منیٰ میں بیٹھ گئے۔ اس دن آپؐ سے جس نے بھی سوال کیا کہ میں نے فلاں فلاں کام فلاں فلاں کام سے پہلے کر لیا ہے، تو آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ کچھ اندیشہ نہیں، کچھ اندیشہ نہیں۔ یہاں تک کہ آپؐ کے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے کہا کہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے حجامت بنوالی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کچھ ڈر نہیں۔ پھر ایک دوسرا انسان آیا۔ اس نے کہا، میں نے رمی سے پہلے حجامت بنوالی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کچھ خوف نہیں۔ پھر ایک دوسرا آیا، اس نے کہا میں نے رمی سے پہلے طواف کر لیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کچھ خطرہ نہیں۔ ایک دوسرے نے کہا، میں نے ذبح کرنے سے پہلے طواف کر لیا ہے۔ فرمایا کچھ پروا نہیں۔ پھر ایک اور آیا، اس نے کہا کہ میں نے رمی سے پہلے قربانی ذبح کر دی ہے۔آپؐ نے فرمایا۔ اب رمی کرلو، کچھ ڈر نہیں۔ اس کے بعد نبی کریم ؐ نے فرمایا۔ ‘‘میں نے یہاں قربانی ذبح کی ہے اور تمام منیٰ ذبح کی جگہ ہے اور مکے کی تمام گھاٹیاں راستے ہیں اور ذبح کی جگہ ہیں۔ پس تم اپنے گھروں میں قربانیوں کو ذبح کرو۔’’
دسویں ذی الحجہ کا خطبہ:
ذی الحج کی دسویں تاریخ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ‘‘لوگو! کون سا دن زیادہ حرمت والا ہے؟’’صحابہؓ نے عرض کیا: ‘‘ہمارا یہ دن بہت حرمت والا ہے۔’’ پھر آپؐ نے فرمایا: ‘‘کون سا مہینہ زیادہ عظمتوں والا ہے؟’’ صحابہؓ نے جواب دیا: ‘‘یہ مہینہ زیادہ عظمت والا ہے۔’’ آپؐ نے فرمایا: ‘‘تمھارے خون، تمھارے اموال تم پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح تمھارے اس دن کو، تمھارے اس شہر کو، تمھارے اس مہینے کو حرمت حاصل ہے۔ کیا میں نے اللہ کے احکام پہنچا دیے؟’’ سب نے اثبات میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘اے اللہ! گواہ بن جا۔’’
پھر رسولؐ اللہ سوار ہوئے تو آپؐ نے بیت اللہ کا طواف بھی کیا، لیکن صفا مروہ کے درمیان طواف نہیں کیا۔
‘‘آپؐ نے مکہ میں ظہر کی نماز پڑھائی، پھر بنو عبدالمطلب کے پاس پہنچے۔ دیکھا کہ وہ زمزم سے پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہے ہیں۔ تو آپؐ نے انھیں کہا اے بنو عبدالمطلب! تم ہی پانی نکالو۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تم پر غالب آجائیں گے اور پھر تم پانی نکالنے کی سعادت سے محروم ہو جاؤ گے تو میں تمھارے ساتھ بنفس نفیس شریک ہو کر پانی نکالتا۔’’ اس کے بعد انھوں نے آپؐ کی خدمت میں پانی کا ڈول پیش کیا۔ آپؐ نے اس سے پانی پیا۔
حضرت عائشہؓ ایام سے ہو گئیں تو انھوں نے بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے تمام مناسک ادا کیے۔ جب وہ پاک ہو گئیں تو انھوں نے کعبے اور صفا و مروہ کا طواف کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘عائشہؓ! اب تو اپنے حج اور عمرہ سے حلال ہو گئی ہے۔’’ اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: ‘‘یا رسولؐ اللہ! لوگ تو حج، عمرہ دونوں کا ثواب حاصل کریں گے اور میں صرف حج کا ثواب حاصل کر سکی ہوں۔’’ آپؐ نے فرمایا: ‘‘تجھے ان کے برابر ثواب ہے۔’’ عائشہؓ نے عرض کیا کہ میں اپنے دل میں سوچ رہی ہوں کہ میں نے کیا حج کیا جبکہ میں بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی ہوں۔ آپؐ نے عائشہؓ کے بھائی عبدالرحمنؓ سے کہا کہ اس کا تنعیم سے احرام بندھوا کر عمرہ کراؤ! چنانچہ عائشہؓ نے حج کے بعد عمرہ ادا کیا پھر وہ آئیں جس رات آپ وادی محصب میں تھے۔
جابرؓ نے بیان کیا کہ رسولؐ اللہ نے حجۃ الوداع میں سواری پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ حجرِ اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کیا۔ آپؐ اونٹنی پر اس لیے سوار تھے کہ آپؐ لوگوں سے اونچے ہوں گے تو لوگ آپؐ کو دیکھ سکیں گے اور آپؐ سے مسائل پوچھنے میں آسانی ہو گی، کیونکہ لوگوں کا اژدھام بہت تھا۔ ایک عورت نے اپنے بچے کو رسولِ اکرمؐ کی جانب اٹھاتے ہوئے سوال کیا۔‘‘یا رسول ؐاللہ!’’ اس بچے کا بھی حج ہے؟’’
فرمایا: ‘‘ہاں اور ثواب تجھے ملے گا۔’’