اِذَا کَانَ یَوْمُ الْحَجِّ اَتیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَرَفَۃُ فَنَزَلَ بِھَا حَتّٰی اِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ اَمَرَ بِالْقَصْوَآءِ فَرُحِلَتْ لَہٗ فَاَتٰی بَطْنَ الْوَادِیْ فَخَطَبَ النَّاسَ خُطْبَتَہُ الَّتِیْ بَیْنَ فِیْھَا مَابَیْنَ۔
حج کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ تشریف لائے اور آپؐ نے وہاں قیام فرمایا۔ جب سورج ڈھلنے لگا تو آپؐ نے قصوا (اپنی اونٹنی) لانے کا حکم فرمایا۔ اونٹنی تیار کرکے حاضر کی گئی تو آپؐ (اس پر سوار ہو کر) بطن وادی میں تشریف فرما ہوئے ۔ اور اپنا وہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں دین کے اہم امور بیان فرمائے۔
فَحَمِدَ اللّٰہَ وَثْنٰی عَلَیْہِ قَائِلًا لَا ِالٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ صَدَقَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ۔
آپؐ نے خدا کی حمد وثنا کرتے ہوئے خطبے کی یوں ابتدا فرمائی: خدا کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے۔ وہ یکتا ہے۔ کوئی اس کا ساجھی نہیں۔ خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا، اس نے اپنے بندے (رسولؐ) کی مدد فرمائی اور تنہا اس کی ذات نے باطل کی ساری مجتمع قوتوں کو زیر کیا۔
اَیُّھَا النَّاسُ! اِسْمَعُوْ قَوْلِیْ فَاِنِّیْ لَا اَرَانِیْ وَ اِیَّاکُمْ اَنْ نَجْتَمِعَ فِیْ ھٰذَا الْمَجْلِسِ اَبَدًا بَعْدَ عَامِیْ ھٰذَا۔ اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍوَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُم فَلَیْسَ لِعَرْبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ فَضْلٌ وَّلاَ لِعَجْمِیٍّ عَلٰی عَرِبِیٍّ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی ابْیَض وَلاَ لِاَبْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ فَضْلٌ اِلَّا بِالتَّقْوٰی۔
لوگو! میر ی بات سنو، میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس میں یک جا ہو سکیں گے (اور غالباً اس سال کے بعد میں حج نہ کر سکوں گا) لوگو! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ‘‘انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا کہ تم الگ الگ پہچانے جا سکو۔ تم میں زیادہ عزت و کرامت والا خدا کی نظروں میں وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔’’ چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر۔ نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے۔ ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔
اَلنَّاسُ مِنْ اٰدَمَ وَ اٰدَمَ مِنْ تُراَبٍ اَلَا کُلُّ مَأْثَرَاۃٍ اَوْدَمٍ اَوْ مَالٍ یُدَّعٰی بِہٖ فَھُوَ تَحْتَ قَدَمِیَّ ھَاتَیْنِ اِلَّا سَدَانَہُ لْبَیْتِ وَسِقَایَۃُ الْحَاجِ ثُمَّ قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ لَا تَجِیْؤْا بِالدُّنْیَا تَحْمِلُوْنَھَا عَلٰی رِقَابِکُمْ وَیَجِئُی النَّاسُ بِالْاٰخِرَۃِ فَلاَ اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا۔
انسان سارے ہی آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی سے بنائے گئے۔ اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں۔ بس بیت اللہ کی تولیت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی خدمات علیٰ حالہٖ باقی رہیں گی۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا، قریش کے لوگو! ایسا نہ ہو کہ اللہ کے حضور تم اس طرح آؤ کہ تمھاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ لدا ہو اور دوسرے لوگ سامانِ آخرت لے کر پہنچیں۔ اور اگر ایسا ہوا تو میں خدا کے سامنے تمھارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔
مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذْھَبَ عَنْکُمْ نَخْوَۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَتَعَظُّمَھَا بِالْاٰبَاءِ اَیُّھَا النَّاُس اِنَّ دِمَائَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ اِلٰی اَنْ تَلْقَوْا رَبَّکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا وَکَحُرْمَۃِ شَھْرِ کُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدَکُمْ ھٰذَا وَاِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ فَیَسْئَلُکُمْ عَنْ اَعْمَالِکُمْ۔
قریش کے لوگو! خدا نے تمھاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمھارے فخر و مباہات کی کوئی گنجائش نہیں۔ لوگو! تمھارے خون و مال اور عزتیں ایک دوسرے پر قطعاً حرام کر دی گئی ہیں ہمیشہ کے لیے۔ ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسی اس دن کی اور اس ماہ مبارک (ذی الحجہ) کی خاص کر اس شہر میں ہے۔ تم سب خدا کے آگے جاؤ گے اور وہ تم سے تمھارے اعمال کی بازپرس فرمائے گا۔
اَلَا فَلاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ ضُلَالًا یُّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ فَمَنْ کَانَتْ عِنْدَہٗ اَمَانَۃٌ فَلْیَؤَدِّھَا اِلٰی مَنِ اءْتَمَنَہٗ عَلَیْھَا۔
دیکھو کہیں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ہی کشت و خون کرنے لگو۔
اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچادے۔
اَیُّھَا النَّاُس! کُلُّ مُسْلِمٍ اَخُوالْمُسْلِمٍ وَاِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ اِخْوَۃٌ اَرِقَآءَ کُمْ اَرِقَآء کُمْ اَطْعِمُوْ ھُمْ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ وَاکْسُوْھُمْ مِمَّا تَلْبَسُوْنَ۔
لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو۔ انھیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔
اَلَا کُلُّ شَیٍٔ مِنْ اَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَ مَیَّ مَوْضُوْع وَدِمَأُ الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعَۃُ وَاِنَّ اَوَّلَ دَمٍ اَضَعُ مِنْ دِمَآئِنَادَمُ ابْنِ الرَّبِیْعَۃِ بْنِ الْحَارِثِ وَکَانَ مُسْتَرْضَعًا فِیْ بَنِیْ سَعْدٍ فَقَتَلَہٗ ھُذَیْلٌ۔ وَرِبَا الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعٌ وَاَوَّلُ رِبًا اَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدُالْمُطْلِبِ فَاِنَّہُ مَوْضُوْعٌ کُلَّہٗ۔
دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں سے روند دیا۔ زمانۂ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں۔ پہلا انتقام جسے میں کالعدم قرار دیتا ہوں، میرے اپنے خاندان کا ہے۔ ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون جسے بنوہذیل نے مار ڈالا تھا، اب میں معاف کرتا ہوں۔ دورِ جاہلیت کا سود حیثیت نہیں رکھتا۔ پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے۔ اب یہ ختم ہو گیا۔
اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ ا اَعْطٰی کُلَّ ذِیْ حَقِّ حَقَّہٗ فَلاَ وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ۔
لوگو! خدا نے ہرحق دار کو اس کا حق خود دے دیا۔ اب کوئی کسی وارث کے حق کے لیے وصیت نہ کرے۔
اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَرُ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ۔
بچہ اس کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا۔ جس پر حرام کاری ثابت ہو، اس کی سزا پتھر ہے۔ حساب و کتاب خدا کے ہاں ہو گا۔
مَنِ ادَّعٰی اِلٰی غَیْرِ اَبِیْہِ اَوْتَوَلّٰی اِلٰی غَیْرِ مَوَالِیْہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ۔
جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی غلام اپنے آقا کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا آقا ظاہر کرے گا، اس پر خدا کی لعنت۔
اَلدَّیْنُ مَقْضِیٌّ وَالْعَارِیَۃُ مُرْدَأۃٌ وَالْمِنْحَۃُ مَرْدُودَۃٌ وَالزَّعِیْمُ غَارِمٌ۔
قرض قابل ادائیگی ہے۔ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے۔ تحفے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کوئی کسی کا ضامن بنے، وہ تاوان ادا کرے۔
وَلَا یَحِلُّ لِامْرِیٍٔ مِنْ اَخِیْہِ اِلَّا مَا اَعْطَاہُ عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ مِنْہُ فَلَا تَظْلِمُنَّ اَنْفُسَکُمْ۔
کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے، سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے۔ خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔
اَلَا لَا یَحِلُّ لِامْرَأۃٍ اَنْ تُعْطِیْ مِنْ مَالِ زَوْجِھَا شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِہٖ۔
عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی بغیراجازت کسی کو دے۔
اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَآئِکُمْ حَقًّا وَلَھُنَّ عَلَیْکُمْ حَقًّا لَکُمْ عَلَیْھِنَّ اَلَا یُوطِءْنَ فَرْشَکُمْ اَحَدًا تَکْرَھُوْنَہٗ وَعَلَیْھِنَّ اَنْ لَّا یَاتِیَِْن بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ فَاِنْ فَعَلَنَ فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذِنَ لَکُمْ اَنْ تَھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاَنْ تَضْرِبُوْا ضَرَبًا غَیْرَ مُبْرَحٍ فَاِنِ انْتَھَیْنَ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۔
دیکھو! تمھارے اوپر تمھاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح ان پر تمھارے حقوق واجب ہیں۔ عورتوں پر تمھارایہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور وہ کوئی خیانت نہ کریں، کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو خدا کی جانب سے اجازت ہے کہ تم انھیں معمولی جسمانی سزا دو۔ اور وہ باز آجائیں تو انھیں اچھی طرح کھلاؤ پہناؤ۔
وَاسْتَوْصُوْا بِاالنِّسَآءِ خَیْرًا فَاِنَّھُنَّ عَوَانٍ لَکُمْ لاَ یَمْلِکْنَ لِاَ نْفُسِھِنَّ شَیْئًا فَاتَّقُوْاللّٰہَ فِی النِّسَآءِ فَاِتَکُمْ اَخَذْتُمُوْھُنَّ بِاَمَانِ اللّٰہِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَھُنَّ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔
عورتوں سے بہتر سلوک کرو، کیونکہ وہ تو تمھاری پابند ہیں اور خود اپنے لیے وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ چنانچہ ان کے بارے میں خدا کا لحاظ رکھو کہ تم نے انھیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمھارے لیے حلال ہوئیں۔ لوگو! میری بات سمجھ لو، میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا۔
وَاِنِّی قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَّالَنْ تَضِلُّوْ بَعْدَہٗ اَبَدًا اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابَ اللّٰہِ وَاِیَّاکُمْ وَالْغُلُوْ فِیْ الدِّیْنِ فَاِنَّمَا اَھْلَکَ مَنْ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّیْنِ۔
میں تمھارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو گے اگر اس پر قائم رہے، وہ خدا کی کتاب ہے۔ اور ہاں دیکھو، دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہی باتوں کے سبب ہلاک کر دیے گئے۔
وَاِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ یَئِسَ مِنْ اَنْ یُّعْبَدَ فِیْ اَرْضِکُمْ ھٰذِہٖ اَبَدًا وَلٰکِنْ سَمَّکُوْنَ لَہٗ طَاعَۃٌ فِیْمَا تُحَقِّرُوْنَ مِنْ اَعْمَالِکُمْ فَسَیَرْضٰی بِہٖ فَاحْذَرُوْہُ عَلٰی دِیْنِکُمْ۔
شیطان کو اب اس بات کی کوئی توقع نہیں رہ گئی ہے کہ اب اس کی اس شہر میں عبادت کی جائے گی، لیکن اس بات کا امکان ہے کہ ایسے معاملات میں جنھیں تم کم اہمیت دیتے ہو اس کی بات مان لی جائے اور وہ اس پر راضی ہے۔ اس لیے تم اس سے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرنا۔
اَلَا فَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ وَصُوْمُوْا شَھْرَکُمْ وَاَدُّوا زَکٰوۃَ اَمْوَالِکُمْ طَیِّبَۃً بِھَا اَنْفُسُکُمْ وَتحُجُّوْا بَیْتَ رَبِّکُمْ وَاَطِیْعُوْا وَلَاۃَ اَمْرِکُمْ تَدْخُلُوْجَنَّۃَ رَبِّکُمْ۔
لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو۔ پانچ وقت کی نماز ادا کرو۔ مہینے بھر کے روزے رکھو۔ اپنے مالوں کی زکوٰۃ خوش دلی کے ساتھ دیتے رہو۔ اپنے خدا کے گھر کا حج کرو اور اپنے اہل امر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
اَلَا لَا یَجْنِیْ جَانٍ اِلَّا عَلٰی نَفْسِہٖ اَلَا لَا یَجْنِیْ جَانٍ عَلٰی وَلَدِہٖ وَلاَمُوْلُوْدُ عَلٰی وِالِدِہٖ۔
اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمہ دار ہو گا اور اب نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔
اَلاَ فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ اَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ۔
سنو، جو لوگ یہاں موجود ہیں انھیں چاہیے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتا دیں جو یہاں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔
وَاَنْتُمْ تُسْئَلُوْنَ عَنِّیْ فَمَا ذَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ۔
اور لوگو! تم سے میرے بارے میں (خدا کے ہاں) سوال کیا جائے گا۔ بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟
قَالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ قَدْ اَدَّیْتَ الْاَ مَانَۃَ وَبَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَنَصَحْتَ۔
لوگو ں نے جواب دیا کہ ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپؐ نے امانت (دین) پہنچا دی اور آپؐ نے حق رسالت ادا فرما دیا اور ہماری خیر خواہی فرمائی۔
فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاَصْبُعِہِ السَّبَّابَۃِ یَرْفَعُھَا اِلَی السَّمَآءِ وَیَنْکُتُھَا اِلَی النَّاِس اَللّٰھُمَّ اَشْھَدْ اَللّٰھُمَّ اَشْھَدْ اَللّٰھُمَّ اَشْھَدْ۔
یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: ‘‘خدایا گواہ رہنا! خدایا گواہ رہنا! خدایا گواہ رہنا۔’’