اسلامی فرائض میں حج تمام عمر میں صرف ایک بار فرض ہے، لیکن صحابۂ کرامؓ نے بالعموم زندگی میں کئی بار حج کیا۔ بعض کا تو معمول تھا کہ وہ ہر سال یہ فریضہ ادا کرتے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت طلب کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘‘بہترین جہاد حج مبرور ہے۔’’
اس کے بعد ام المومنین حضرت عائشہؓ کی زندگی بھر یہ کوشش رہی کہ کوئی حج چھوٹنے نہ پائے۔
حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘جب تم لوگوں کو جہاد سے فراغت حاصل ہو، تو حج کے لیے کجاوے کس لو، کیونکہ حج بھی ایک جہاد ہے۔’’
ایک مرتبہ فرمایا: ‘‘جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے، میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگا دوں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں۔’’
حضرت عبداللہؓ ابن عمر سخت سے سخت خطرے کی حالت میں بھی حج کو قضا نہیں فرماتے تھے۔ حجاج اور حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ کے درمیان جنگ شروع ہوئی اور شامی افواج نے مکے کا محاصرہ کر لیا تو اس حالت میں بھی سفرِ حج کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ صاحبزادے نے روکا تو بولے:
‘‘ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ موجود ہے۔ آپؐ حج کے لیے چلے تو کفار نے روک دیا، اگر مجھے بھی روکا جائے گا تو میں بھی وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔’’
صحابہ کرامؓ جس ذوق و شوق سے حج کرتے تھے، اس کا موثر منظر حجۃ الوداع میں نظر آیا۔ حضورؐ نے اعلانِ حج کیا، تو چاروں طرف سے صحابہؓ مدینے میں جمع ہوگئے، عورتیں تک شریک سفر تھیں۔ حضورؐ مقام بیداء پر پہنچے تو صحابہؓ کے اژدہام کا یہ عالم تھا کہ دائیں بائیں، آگے پیچھے دور دور تک آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے۔
خلفائے راشدین اپنے زمانہ خلافت میں بالالتزام حج کرتے تھے اور خود امیر الحج ہوتے تھے۔حضرت عثمانؓ کی مدت خلافت دس برس ہے، اس مدت میں انھوں نے متواتر دس حج کیے۔ آخری سال جب لوگوں نے ان کا محاصرہ کر لیا، تو خود نہ جا سکے اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو امیر الحج بنا کر بھیجا۔
اسلام نے رہبانیت کو باطل اور اپنی جانوں پر قوتِ برداشت سے باہر ریاضت و مشقت کو ناپسندیدہ قرار دیا، تاہم بعض صحابہ ؓ فریضۂ حج ادا کرنے میں طرح طرح کا التزام کرتے تھے۔ ایک صحابیہؓ نے خانہ کعبہ تک پیدل جانے کی نذر مانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کروایا، تو آپؐ نے فرمایا:
‘‘پا پیادہ بھی چلیں اور سوار بھی ہو لیں۔’’
آپؐ نے ایک بوڑھے صحابیؓ کو دیکھا کہ اپنے بیٹوں کے سہارے پیدل چل رہے ہیں۔ پوچھا: ‘‘کیا معاملہ ہے؟’’ معلوم ہوا پا پیادہ حج کرنے کی منت مانی ہے۔ آپؐ نے انھیں سوار ہونے کا حکم دیا اور فرمایا:
‘‘خدا اس جان کو عذاب میں ڈالنے سے بے نیاز ہے۔’’
اگر کسی عذر کی بنا پر حج کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہوتا، تو صحابہ کرامؓ کو سخت صدمہ ہوتا تھا۔ حجتہ الوداع میں حضرت عائشہؓ کو ضرورتِ نسوانی سے معذوری ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا ، تو دیکھا رو رہی ہیں۔ فرمایا: ‘‘کیا ماجرا ہے؟’’
بولیں:‘‘کاش! میں اس سال حج نہ کرتی۔’’
فرمایا: ‘‘سبحان اللہ! یہ تو فطری چیز ہے، تمام مناسک ادا کرو، صرف خانۂ کعبہ کا طواف نہ کرو۔’’
ایک صحابیہؓ کی والدہ فوت ہو چکی تھیں، وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:
‘‘میری ماں نے کبھی حج نہیں کیا، کیا میں ان کی جانب سے اس فرض کو ادا کردوں؟’’
آپؐ نے ان کو بھی اجازت دے دی۔