امریکی دانشور اور مصنف سیموئیل پی ہٹنگٹن نے اپنی کتاب ‘‘تہذیبوں کا تصادم’’ (Clashof Civilization) لکھنے سے پہلے اپنے ایک ہم وطن دانشور ہنری کسنجر کا ایک قول پڑھ رکھا تھا جو اس نے سرد جنگ کے زمانے میں لکھا تھا کہ ‘‘اکیسویں صدی میں بین الاقوامی نظام چھ طاقتوں پر استوار ہو گا یعنی امریکا، یورپ، چین، روس اور ممکن ہے کہ انڈیا۔’’ مصنف نے جب قلم اٹھایا تو سرد جنگ ختم ہو چکی تھی اور اکھاڑے میں صرف امریکا دندناتا رہ گیا تھا۔ اب مقابلہ تو بہرحال کسی نہ کسی سے کرانا تھا، اس لیے مصنف نے ‘‘طاقتوں’’کا لفظ مصلحتاً کاٹ کر لفظ ‘‘تہذیبیں’’ رکھ دیا اور مذکورہ چھ تہذیبوں کو پٹی پٹائی ثابت کرنے کے لیے اس نے کہا کہ:
ان چھپن ریاستوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو بیشک الگ الگ تاریخ، جغرافیہ، زبان، ثقافت اور تمدنی روایات رکھتی ہیں، لیکن اسلام کی رسی میں بندھ کر بلائے جان بن سکتی ہیں۔ پس چونکہ مسلمان دنیا کو ‘‘درالامن’’ اور ‘‘دارالحرب’’ میں بانٹتے ہیں، اس لیے امریکی دانشوروں کو بھی دنیا کو ‘‘امن کے علاقوں’’ اور ‘‘حرب و ضرب کے علاقوں’’ میں تقسیم کر لینا چاہیے۔
مصنف بڑا دانا اور زیرک ہے۔ گزشتہ تین ہزار سال کے دوران میں ابھرنے اور ڈوبنے والی تہذبیوں کے عروج و زوال کی تاریخ اور ان کی باہمی کشمکش کی داستان پر اس کی نظر بہت گہری ہے، اسی لیے وہ دور اندیش بھی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ انسانی تاریخ میں کوئی ایسا خالی وقت نہیں آیا جب دو تہذیبیں ایک دوسرے سے متصادم نہ رہی ہوں اور طاقتور تہذیب نے کمزور تہذیب کو ملیا میٹ نہ کیا ہو اور طاقتور سے طاقتور تہذیب خواہ کتنی بھی بلندی پر گئی ہو، ایک نہ ایک دن گری ضرور ہے۔ پس مغربی تہذیب بھی ایک نہ ایک دن ضرور گرے گی، لیکن اس تہذیب کو موجودہ عروج مسلسل ساڑھے پانچ صدیوں کی سخت کاوشوں کے بعد حاصل ہوا ہے، اس لیے اسے زوال آتے آتے بھی پوری ایک صدی لگ جائے گی۔ چنانچہ اکیسویں صدی پر تو لازماً مغرب کی برتری قائم رہے گی اور اگر وہ بائیسویں صدی میں خود کو برقرار رکھنا چاہے تو اس کی بنیادی ذمہ داری مغربی تہذیب کے موجودہ اجارہ دار امریکا پر عائد ہوتی ہے۔ امریکا مغربی تہذیب کے تحفظ اور اس کے عرصۂ زوال کو زیادہ سے زیادہ طول دینے کے لیے مندرجہ ذیل آٹھ تدابیر پر سختی سے عمل کرے:
(۱) یورپ کے ساتھ سیاسی، معاشی اور عسکری روابط کو وسعت دے۔
(۲) دوسرے ملکوں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی پالیسیوں کو مربوط بنائے۔
(۳) یورپی یونین اور نیٹو کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے۔
(۴) لاطینی امریکا کو جدیدیت کے رنگ میں رنگا جائے اور اس میں شامل ملکوں کو یورپی ممالک کے قریب لا کر ان میں سیاسی و معاشی اتحاد پیدا کیا جائے۔
(۵) مسلم ملکوں اور چین کی روایتی اور غیر روایتی فوجی طاقت کی ترقی میں ہر ممکن طریقے سے رکاوٹیں ڈالی جائیں۔
(۶) جاپان کے مغرب سے دور ہونے اور چین سے قریب ہونے کے رجحان کو سختی سے روکا جائے۔
(۷) روس کو آرتھوڈوکس عیسائیت کی مرکزی ریاست تسلیم کر لینا چاہیے۔
(۸) دوسری تہذیبوں پر امریکی تہذیب کی فوجی اور تکنیکی برتری کو برقرار رکھا جائے اور فوجی مقابلے کی دوڑ میں کسی اور تہذیب کو اپنے سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔
امریکا کے اس محب وطن دانشور نے یہ آٹھ تجاویز دے کر ، گویا امریکی عوام اور حکومت کے سامنے اکیسویں صدی کا لائحہ عمل پیش کر دیا ہے، جس سے اتفاق کرنا کسی کے لیے ضروری نہیں۔ اتفاق نہ سہی، مگر رنجش ضرور پیدا ہوتی ہے، خصوصاً اس وقت جب وہ دانشوری کی کرسی سے اتر کر پادری کا روپ دھا رلیتا ہے اور لفظ ‘‘تہذیب’’ کو مذہب کے ہم معنی قرار دے کر اعدادوشمار کی صورت میں یا طنزیہ پیرائے میں اسلام اور مسلمانوں پر نکتہ چینی کرتا ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے:
عیسائیت کا فروغ صرف تبدیلی مذہب سے ہوتا ہے، جبکہ اسلام دوہری وجوہ سے پھیلتا ہے: تبدیلی مذہب سے بھی اور زیادہ شرح پیدائش کی وجہ سے بھی، جو کثرت ازدواج کا نتیجہ ہے اس حساب سے ۲۰۲۵ء تک مسلمانوں کی آبادی پوری دنیا میں سب مذاہب سے زیادہ ہو جائے گی۔
فاضل مصنف نے بڑی قابلیت سے چار سو صفحات کی کتاب میں فروغ اسلام کی تیسری وجہ کی طرف اشارہ تک نہیں ہونے دیا۔ یہ اعتراف کرنے پر تو وہ مجبور تھا کہ جو مذہب مغرب میں سب سے زیادہ پھیل رہا ہے، وہ اسلام ہے۔ یہ نہیں بتایا کہ اہل مغرب اگر اسلام قبول کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن اور نری مادیت سے گھبرا کر جب کسی بہتر، سادہ اور قابل عمل عقیدے کی جستجو کرتے ہیں تو وہ اسلام کے سوا انھیں کہیں اور نظر نہیں آتا۔
مصنف اسلامی نظام ریاست کو مغربی طرزِ حکومت سے نیچا دکھانے کے لیے الٹی دلیل دیتے ہوئے لکھتا ہے:
پوری انسانی تاریخ میں مذہب اور ریاست علیحدہ ہوا کرتے تھے۔ چرچ اور ریاست کی دوئی مغربی تہذیب کی اہم خصوصیت ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ اسلام مذہب اور ریاست کی یکجائی پر زور دیتا ہے۔
وہ اپنے ہم خیال ایک دوسرے مغربی مفکر، پائپیس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے مسلمانوں کو تلقین کرتا ہے:
اسلام کے پاس کوئی دوسرا انتخاب نہیں ہے۔ جدیدیت کے حصول کے لیے مغربیت کو اختیار کرنا پڑے گا۔ اسلام جدیدیت کا کوئی متبادل پیش نہیں کرتا۔ سیکولرازم سے بچنا ناممکن ہے۔ جب جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو اختیار کیا جاتا ہے تو اس فلسفے کو بھی ماننا پڑتا ہے جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے جڑا ہوا ہے۔ حکومتی اور سیاسی اداروں کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ اگر مغربی تہذیب سے کچھ سیکھنا ہے تو اس کے غلبے اور برتری کو بھی ماننا پڑے گا۔ یورپی زبانوں اور مغربی تعلیمی اداروں سے گریز ممکن نہیں۔ جب تک مسلمان مغربی ماڈل کو واضح طور پر اور صدقِ دل سے قبول نہیں کریں گے وہ نہ تو ٹیکنالوجی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ شاہراہِ ترقی پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
مسلمانانِ عالم کے لیے ایسا درشت اور توہین آمیز لب و لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت اہل مغرب کو اس لیے پیش آتی ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی نفسیات ساڑھے پانچ سو سال کے دوران میں شدید قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا ایسے مریض کی سی ہو کے رہ گئی ہے جس پر اب کوئی میڈیسن اثر نہیں کرتی …… دنیا جہان سے بیزار، افیونی طبیعت، کاہل، سست الوجود، اپنے حال میں مست، اپنی تقدیر پر شاکر، جو ہونا ہے ہو کر رہے گا، وحد ت الوجود کا ایسا قائل کہ اپنے ارادے سے پلک جھپکنے کو بھی گناہ خیال کرے۔ مصنف اپنی مغربی تہذیب کا عرصۂ زوال ایک صدی بتاتا ہے، جبکہ مسلم نفسیات کو زوال پذیری کے جھٹکے سہتے سہتے ساڑھے پانچ سو سال ہو گئے ہیں۔
وہ کون سی حد فاصل ہے جہاں سے امت مسلمہ کا زوال اور ان کے مدمقابل مغربی طاقتوں کا عروج شروع ہوا؟ تواریخ میں وہ سال فتح قسطنطنیہ کا سال یعنی ۱۴۵۳ء لکھا ہے۔ کیوں لکھا ہے؟ اس کا جواب اس مضمون کے مطالب سے باہر ہے۔ صرف اتنا جاننا کافی ہے کہ اسی سال سے جدیدیت کا آغاز ہوا تھا۔ مفتوح قوم نے اپنی شکست کے اسباب کا صحیح تجزیہ کیا۔ غیر ضروری مابعد الطبیعات، غلط مذہب اور پاپائیت کے سخت گیر احتسابی نظام کو مسترد کرکے عقلیت اور تجربیت کا راستہ اختیار کیا۔ پہلے احیائے علوم اور اس کے کچھ عرصہ بعد اصلاحِ مذہب کی کامیاب تحریکوں نے اس کے راستے کو آسان، منزل کو واضح اور ترقی کی رفتار کو تیز کر دیا۔ چار سو سال کی مسلسل اور سخت جانفشانی کے بعد بیسویں صدی مکمل طور پر اہل مغرب کی صدی تھی۔ ذہن و نفس کی دنیا پر وہ سگمنڈ فرائیڈ کے ذریعے، حیاتیات کے شعبے میں ڈارون کی وساطت سے اور طبعی کائنات پر وہ آئن سٹائن کے بدست، بلاشرکت غیرے حکمرانی کرتے رہے۔ جوہری توانائی کا انکشاف، جس کے نتیجے میں ایٹم بم، ٹیلی ویژن، مواصلاتی سیارے، چاند کی تسخیر، مریخ کی مٹی کھرچ کر کیمیائی تجزیے کے لیے زمین کی لیبارٹری میں لانا، کمپیوٹر اور لا تعداد گھریلو و دفتری اشیا کی محیر العقول ایجادات صرف اور صرف اہل مغرب کی تحقیق و محنت کے ثمرات ہیں، جن سے مسلمانانِ عالم اپنے اسلاف کی میراث سمجھ کر استفادہ کر رہے ہیں اور بے چاری مسلم نفسیات حیرت کدے کے ایک گوشے میں کھڑی، حیران و پریشان، ہمہ وقت گنگناتی رہتی ہے: محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔
ادھر مغرب میں تو سیکولرازم کی اسکرین کے پیچھے عیسائیت صیہونیت کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر روز افزوں ترقی کے مراحل یکے بعد دیگرے طے کرتی گئی اور ادھر مسلم نفسیات حیرتی بن کر اپنے باطن کے نہاں خانے میں خلوت نشین ہو گئی۔ ترکِ دنیا میں عافیت جانی۔ دین کو دنیا سے الگ کرکے موت کو زندگی پر فائق کر لیا۔ اللہ اکبر کی جگہ اللہ ہو اللہ ہوسے کرامات ہونے لگیں۔ بھولی بسری یادیں اس کا سرمایۂ حیات بن کر اسے نوسٹیلجیا کا نفسیاتی مریض بنا گئیں۔ خلافت ِ راشدہ اور خلافت ِ امیہ تو دور کی بات ہے، خلافت ِ بنو عباسیہ کو بھی ختم ہوئے دو سو برس ہو چکے تھے۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد عالم ِ اسلام میں بڑی عظیم الشان سلطنتیں قائم ہوئیں، لیکن کسی ایک سلطنت نے بھی بے چاری مسلم نفسیات کا درد نہ جانا۔ خلافت ِ عثمانیہ، ایرانی صفوی سلطنت، ہندوستان میں مغلیہ سلطنت۔ ایسا نہیں تھا کہ مسلمان سلاطین، بادشاہ اور شہنشاہ مغرب میں ترقی ٔ علوم سے بے خبر تھے۔ یہ بھی ناممکن تھا کہ مسلمان بادشاہوں کو وینس اور جینوا کے باشندوں کی ترقی علوم اور عروجِ دنیا کا علم نہ ہو، جس کی بدولت انھوں نے اسلحہ سازی میں نمایاں کارنامے انجام دیے۔ مسلمان سلاطین پرتگالیوں کی اس مہارت سے بھی ناواقف نہ تھے جو انھوں نے جہاز رانی اور جہاز سازی میں حاصل کی تھی اور جس کی وجہ سے وہ دنیا کے تمام سمندروں پر حکمرانی کر رہے تھے، ان میں وہ سمندر بھی شامل تھے جو حج کے راستے میں پڑتے تھے۔
ہاں ہمیں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ مسلمان بادشاہوں نے عالیشان مقبرے بنوائے، بڑے پختہ قلعے تعمیر کروائے، عظیم الشان مسجدیں بنوائیں، مسجدوں سے متصل مدرسے اور مکتب کھولے اور ان کے سارے اخراجات اپنی گرہ سے پورے کیے۔ مسلم نفسیات کو پوری پوری تلقین کی کہ نمازیں پڑھا کرو، روزے رکھا کرو، زکوٰۃ دیا کرو، حج کیا کرو، قرآن کے گھوٹے لگایا کرو، حدیثیں رٹا کرو، لیکن خبردار اوکسفورڈ کی طرف نہ دیکھنا، کیمبرج یونیورسٹی پر نگاہ کی تو کفر و الحاد کی ناپاک روشنی سے تم اندھے ہو جاؤ گے، پیرس یونیورسٹی کی طرف نہ دیکھو، جامعۃ الازہر میں جاؤ، جامعہ زیتون میں جاؤ۔ چنانچہ مسلم نفسیات کی پیچیدہ ڈوری میں ایک اور گرہ لگ گئی۔ تحقیق و تخلیق کے دروازے اس پر بند ہو گئے۔ معقولات کی کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی کفر قرار پائی، منقولات اور تقلید کی دہلیز پر کھیلتے رہنا مسلم نفسیات کا مقدر ٹھہرا۔ ساڑھے پانچ سو سال تک مسلسل حال پر قناعت کیے رہنا یہ مسلم نفسیات ہی کا حوصلہ ہے، مسلم نفسیات کس قدر سخت جان ہے!
مسلم نفسیات اگر مغرب کو اپنا حریف خیال کرتی ہے تو مغرب کا حال اس عرصے میں یہ رہا کہ وہ تحریک ِ احیائے علوم، اس کے بعد اصلاحِ مذہب، اس کے بعد عظیم انقلاب، پھر انقلاب ِ فرانس، پھر انقلابِ صنعت، پھر انقلابِ روس، پھر پہلی جنگ عظیم، پھر خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے، پھر دوسری جنگ عظیم کے انقلابات سے گزرتا ہوا، پہلے برٹش ایمپائر کی صورت میں اور اب امریکی استعمار کی صورت میں، پنجۂ یہود بن کر مسلم معیشت، مسلم تہذیب اور مسلم وجود کی گردن پر اپنے دانت گاڑے ہوئے ہے۔ اس نے مسلم ملکوں کی پوری پوری آبادی اور ان کے پورے پورے وسائل و ذرائع پر قابض و متصرف رہ کراور انھیں بھاری شرح پر قرضے اور اقتصادی امداد دے دے کر ان کی روح اور نفسیات کو گروی رکھ لیا ہے۔
صدیوں سے موجود احساسِ کمتری اور مقروض کا احساسِ لاچارگی بھی مسلم نفسیات کی جڑوں میں بیٹھ گیا ہے۔ جب آدمی کسی بڑی بیماری میں مبتلا ہو کر ڈھے جاتا ہے تواسے کئی طرح کی چھوٹی چھوٹی بیماریاں بھی چمٹ جاتی ہیں۔ ڈیپریشن اور ٹینشن اور جانے کیا کیا الا بلا۔ حصولِ آزادی بیماریوں کو جھٹک دینے کا اچھا موقع تھا، لیکن مسلم ملکوں میں فوجی یا سول حکمرانوں نے مغرب کے گماشتوں کا کردار ادا کیا۔ انہی کی طرح عوام کے حقوق غصب کیے، بد عنوانیوں اور بے انصافیوں کو پروان چڑھایا۔ عوام، جنھوں نے آزادی کی تحریکوں میں قربانیاں دی تھیں، یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہمارے حکمرانوں سے انگریز یا فرنچ یا ڈچ ہی اچھے تھے کہ کم از کم ان کے گورنروں کے ہاں شرفا کی بیٹیاں تو برآمد نہیں ہوتی تھیں۔ اپنے گھر کے اندرونی مسائل سے مسلم نفسیات میں اجتماعی شیزوفرینا کے آثار پیدا ہو گئے۔ مسلم معاشروں کو چپ لگ گئی اور قوتِ مزاحمت ٹھٹھر کر رہ گئی۔ حکمران ٹولے ان کے ساتھ جو سلوک چاہیں، کریں، وہ خاموشی سے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہتے ہیں۔
مسلم نفسیات کسی قدر دزدیدہ بھی واقع ہوئی ہے۔ تہذیبوں کے تصادم میں اس خوف سے کہ مقابل تہذیب کو ہماری خامیاں اور کمزوریاں معلوم نہ ہونے پائیں، مسلمان سچ کو چھپاتے اور جھوٹ کو نمایاں کرتے ہیں اور اس مقصد سے اپنی تاریخ کے حقائق کو مسخ کرلینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ فلاں بادشاہ پنج وقتہ نمازی تھا، اسے تو اچھالیں گے اور وہ اپنے باپ بھائیوں کا قاتل تھا، اس کی پردہ پوشی کریں گے۔ اسی لیے مسلمان تلخ حقائق کا سامنا کرنے سے گھبرانے کے عادی ہو گئے ہیں، لیکن یہ عادت انھیں بہت مہنگی پڑ رہی ہے، کیونکہ ان کی نفسیات کی گہرائیوں میں جا کر گھر کر لیتی ہے اور مسلمانوں کی قوتِ عمل کو گھن کی طرح چاٹتی رہتی ہے۔ اپنی ہی پیدا کردہ خامیوں اور غلطیوں کو دوسروں کی سازش قرار دینے کا عمل اسی پردہ پوشی کی عادت سے پیدا ہوتا ہے۔
ان تمام چھوٹی بڑی بیماریوں نے جمع ہو کر مسلم نفسیات کو، دوسری عمل پسند تہذیبوں کے مقابلے میں، ڈے ڈریمر (دن میں خواب دیکھنے والا) بنا دیا ہے۔ مسلمان ہر وقت ایک خواب کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔ مستقبل قریب میں خلافت ِ راشدہ کے نمونے پر اسلامی نظام کے قیام کی تمنا، نا آسودہ آرزو۔ خلافت ِ راشدہ سے کم کا کوئی نظام مسلمان کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ اتنی بڑی آسمانی نوعیت کا خواب ہر وقت، ہر لمحے مسلم نفسیات کے اندر پیدا ہوتا رہتا ہے، ٹوٹتا رہتا ہے، پیدا ہوتا رہتا ہے، ٹوٹتا رہتا ہے اور یوں مسلم وجود اور مسلم ذہانت شق ہو کر رہ گئی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کیا مسلم نفسیات دوسری تہذیبوں سے کشمکش کرتے وقت ہمیشہ کے لیے کچلی جائے گی؟ کیا مریض کے بحال ہونے کی کوئی امید ہے؟ ہاں! امید ہی نہیں، پورا یقین ہے۔ مسلم نفسیات کے اجتماعی لا شعور کی آخری گہرائیوں کے رگ و ریشے میں وہ ایک چیز جو پیوست ہے اور جس نے اسے دوسری تہذیبوں سے منفرد و ممتاز اور زیادہ طاقتور بنا رکھا ہے، وہ ہے اس کا عقیدہ۔ مسلمانوں کے عقیدے کے حوالے سے مجھے ابن رشد کا ایک قول یاد آ رہا ہے۔ اس نے کہا تھا:
مسلمانوں کا وجود علم الحقائق حواس، مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر نہیں، عقیدے کی بنیاد پر استوار ہے۔ ایک حقیقت وہ ہے جس کا علم عقل کے ذریعے فلسفیوں اور سائنس دانوں کو حاصل ہوتا ہے اور دوسری حقیقت وہ ہے کہ جس کا علم وحی کے ذریعے انبیا کو اور عقیدے کے ذریعے عام انسانوں کو حاصل ہے۔
ابن رشد نے کس تدبر سے وحی الٰہی کو عقیدے کی اساس پر عام انسانوں تک پہنچا دیا ہے۔ یہ عقیدہ کہ لاریب فیہ یہ کہ اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں، یہ کہ محمدؐ آخری رسول ہیں، یہ کہ بالآخر انسان کے اعمال کا حساب کتاب ضرور ہو گا۔ توحید، رسالت اور آخرت پر مبنی یہ عقیدہ۔ یہ مرد بیمار کو بحال کرنے کا ٹانک ہے، اک نسخہ ٔ اکسیر ہے، جس دن بھی اسے استعمال کرے گا وہ اٹھ کھڑا ہو گا۔
اپنے اس عقیدے کی بنیاد پر پہلے بھی مسلمان بار بار نشاۃِ اسلامیہ یا احیائے اسلام کی خاطر اٹھے، بڑے بڑے مجددین اور مصلحین ان کی رہنمائی کے لیے دستیاب رہے، لیکن کبھی کوئی تحریک اس لیے کامیاب نہ ہو سکی کہ انھوں نے اپنے عقیدے کی طاقت کو علم کی طاقت سے آمیز نہیں کیا۔
مستقبل میں احیائے اسلام کی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک عقیدے کو علم کی طاقت سے ہم آہنگ نہ کیا جائے۔ عقیدہ مقصد ہے اور علم ذریعہ۔ عقیدہ ایمان ہے، علم عمل ہے، ایک وسیلہ ہے، ایک ہتھیار ہے۔ مغرب میں جتنے بھی غیر مسلم اسلام قبول کر رہے ہیں، وہ اسلام کے عقیدے کی بنا پر کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے علم کی بنا پر نہیں۔ اگر نشاۃِ ثانیہ لانا مقصودِ مومن ہے تو اس کے لیے پہلے مغرب کی طرح مسلم دنیا کو تحریک احیائے علوم کی دشواریوں سے گزرنا پڑے گا، جو برس دو برس کی نہیں، دو چار صدیوں کی کہانی ہو گی، لیکن خبردار ہوشیار، مغرب کی تحریک احیائے علوم، جو اسے معراجِ کمال تک لے آئی ہے، آج اس کے زوال کی نشاندہی بھی کر رہی ہے۔ وہ غلط مذہب کے خلاف شدید ردِ عمل کے طور پر پیدا ہوئی تھی۔ اس لیے اس نے وحی الٰہی کو نظر انداز کیا اور عقلِ محض کو اپنے سارے علوم کی بنیاد قرار دیا۔ چنانچہ آج کے مغربی دانشور برملا اعتراف کر رہے ہیں کہ مغربی تہذیب اخلاقی اقدار سے ناآشنا ہو چکی ہے۔ وہ مادہ پرستی، خود پرستی اور بے ضمیری کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو کر کسی مسیحاکی تلاش میں ہے جو ملتا ہے تو اسلام کے عقائد میں۔
آج مسلم نفسیات کو ، مسلم امہ کو ، سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے احیائے علوم کی تحریک کا برپا ہونا، جو وحی الٰہی اور عقل کی آمیزش سے منظم کی جائے۔ اس کے لیے ہمیں عقل کے بارے میں اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کرنی ہو گی جو صدیوں سے مسلم نفسیات کی جڑوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ امام غزالی جیسا عظیم مفکر جب تصوف کے عشق میں مبتلا ہوا تو ریاضی اور سائنس کا دشمن ہو گیا ۔ اسی طرح بابائے تاریخ اور مشہور فاضل عمرانیات ابن خلدون اپنی تاریخ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
ہم نے سنا ہے کہ فرنگیوں کے ملک ، بحیرۂ روم کے شمالی ساحلی علاقوں میں علوم طبیعی کا بڑا چرچا ہے۔ اس کی تعلیم مختلف درجوں میں بتکرار دی جاتی ہے اور ان علوم کی تفسیر و تشریح مفصل کی جاتی ہے۔ ان علوم کے جاننے والے بہت زیادہ ہیں اور طلبا کی تعداد بھی بے شمار ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ علوم کیا ہیں اور کیسے ہیں۔ لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ طبیعات کے مسائل دین اسلام اور ہمارے دینی معاملات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کی کوئی اہمیت ہے۔ اس لیے ان علوم طبیعی سے ہمارا دور رہنا ہی بہتر ہے۔
لیکن افسوس کہ آج کے سنگین حالات کا چیلنج قبول کرنے کے لیے امام غزالی اور ابن خلدون کے بتائے ہوئے بعض راستوں پر نہیں چلا جا سکتا۔ ہمیں اپنی راہیں اپنے عقائد کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے پیش آمدہ حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی عقل و دانائی سے خود تراشنا ہوں گی۔ مردِ بیمار کو جلد بستر مرگ سے اٹھانے کے لیے عقیدے کا نسخۂ اکسیر پلانا ہو گا۔ علومِ طبیعی کی بیساکھیاں اس کے دونوں ہاتھوں میں تھما کر تجدید و احیائے اسلام کی منزل کی طرف جانے والا روشن راستہ دکھلا کر، تہذیبوں کے میدان کارزار میں فکری و علمی اجتہاد کی قوت سے جہادی جذبے سے کام لینا ہوگا۔ ۲۰۱۵ء تک سب سے بڑی اسلامی مملکت کا شیرازہ بکھرنے کی پیش گوئی کرنے والے امریکی تھنک ٹینک کا جواب دینے کے لیے ایک اسلامی و پاکستانی ‘‘تھنک ٹینک’’ قائم کرنا ہو گا۔
یہ تھنک ٹینک کون قائم کرے؟ میں کہتا ہوں، ہر وہ انجمن یا ادارہ یا مجلس یا اکادمی جو آئے دن تقریبات اور چائے پارٹیوں کے ہنگامے برپا کرتی رہتی ہے، مثلاً آپ کی یہ ‘‘انجمن ترقی مسلم نفسیات’’۔ آپ چاہیں توآپ کا یہ اجلاس ختم ہوتے ہی ‘‘انجمن احیائے علوم’’ کی صورت میں ڈھل سکتا ہے۔ جارج بش کے سینے سے نکلی ہوئی زہرناک گولی ‘‘کروسیڈ’’ مسلم نفسیات کے سینے میں گڑ گئی ہے۔ اسے نکالنے کی ذمہ داری مسلم ماہرین نفسیات ہی پر عائد ہوتی ہے۔ ہفتے میں ایک شام مسلم امہ کو پیش آمدہ مسائل پر گفتگو کیجیے۔ بحث مباحثہ کیجیے۔ مضامین پڑھیے۔ تحقیقی مقالات لکھیے اور لکھوائیے۔ حریفوں کو مسکت اور مدلل جواب دیجیے۔ آج سے سو سال پہلے جب ہم افرنگ کی غلامی، صرف غلامی میں آئے تھے تو حالی بلبلا اٹھا تھا:
اے خاصۂ خاصانِ رسل، وقت دعا ہے
امت پہ تری وقت، عجب آن پڑا ہے
لیکن آج رسولؐ کی امت پر جو وقت آن پڑا ہے، وہ حالی کے وقتوں سے کہیں زیادہ سخت، شدید اور بھاری ہے اور یقینا یہ وقت ِدعا نہیں، وقت ِعمل ہے۔
(بشکریہ: سہ ماہی مجلہ ‘‘پیغام آشنا’’۔ اسلام آباد)