قوموں کے عروج و زوال کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور عبرت انگیز بھی جب کوئی قوم بام عروج پر پہنچتی ہے تو پھر ہر راستہ اسی کے کوچے سے ہو کر گزرنے لگتا ہے اورکمزور اقوام انفرادی اور اجتماعی ہر معاملے میں طاقتور قوم کی طرف چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اسی تیزی سے رخ کرنے لگتی ہیں جس تیزی سے پہاڑ سے اترنے والے ندی نالے دریا میں شامل ہونے کے لیے بے تاب ہوا کرتے ہیں۔
‘‘طاقت’’ میں بڑی طاقت ہے ،اتنی طاقت کہ اقوام عالم کے قبلے کارخ بھی اس طاقت اور عروج کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔طاقت اور کمزوری کی نفسیات بھی ہمیشہ ایک سی رہتی ہے۔ طاقتور ہرزمانے میں ایک سا رویہ اختیار کرتا ہے اورکمزور سے بھی ایک سی حرکات صادر ہوتی ہیں۔ زمان ومکان کی تبدیلی سے ان رویوں اور حرکات کے نام اور شکلیں تو تبدیل ہو تی رہتی ہیں لیکن ان کی ماہیت ایک سی رہتی ہے۔جب مسلمان اوج ثریاپر فائز تھے تو قوموں کی تقدیر انہی سے وابستہ تھی۔ اس وقت انہی کا نظام مقدس، انہی کی تہذیب پاکیزہ ، انہی کی ثقافت محترم، اور انہی کا ہر عمل قابل تقلید تھا اور آج بالکل اسی طرح مغرب کی ہر بات ‘مقد س ’اور ہر عمل‘ صحیفہ ربانی ’ہے ۔اس کی نقالی فخر اور اس کی تقلید باعث اعزاز ہے ۔ایسا کیوں ہے؟ سادہ سا جواب ہے کہ ہم غریب ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ غربت بھی عجب چیز ہے غریب چاہے فرد ہو یا قوم اس سے اس دنیا میں ایک سا سلوک ہوتا ہے ۔جس طرح افلاس غریب بچوں کو بھی سنجیدگی بخش دیتی ہے اور وہ بیچارے سہمے سہمے سے رہا کرتے ہیں شرارت نہیں کیاکرتے اس طرح غریب اقوام بھی سہمی سہمی سی رہتی ہیں کہ مبادا آقا ؤں کے حضور کوئی بات گستاخی تصور نہ ہو۔غریب ملکوں کے افراد امیر ملکوں میں رہتے تو ہیں لیکن اسی طرح ، جس طرح ہمارے معاشرے کے بڑے گھرانوں میں فاقہ کش رشتہ دار پلتے ہیں۔کشکول زدہ ہاتھ کی عزت نفس کس طرح محفوظ رہ سکتی ہے ؟قرض دینے والاقرض دے گا تو نہ صرف اسے خیرات قرار دے گا بلکہ ساتھ ہی اپنی شرائط بھی منوائے گا۔اور ہم کتنے بھولے ہیں کہ جھولی پھیلا کر بھی عزت نفس کی امید باقی رکھتے ہیں۔ہاتھ کسی کے آگے سوال کے لیے اٹھ جائے اور جھولی کسی در پرخیرات کے لیے پھیل جائے تو پھر عزت کی امید رکھنا عبث ہے ۔البتہ ایک در ضرور ایسا ہے کہ جہاں جھولی پھیلانے سے عزت نفس بڑھ جایا کرتی ہے اورجہاں سوال کرنے والا عزیز ہوجایاکرتاہے لیکن شرط یہ ہے کہ پھر جھولی صرف اسی کے آگے پھیلے اورسوال صرف اسی سے کیا جائے لیکن اس کے لیے ہم تیار نہیں۔ بہر حال بات تھی غربت کی تو جناب! غربت جسموں کو مفلوج اور سوچوں کو غلام بنا کے رکھ دیتی ہے۔ اس کا مظاہر ہ یوں تو ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن زبان کا معاملہ سب سے عجب ہے ۔ آقاؤں کی زبان چونکہ انگریز ی ہے اس لیے ہم نے بھی عزت پانے کاآسان راستہ یہی سمجھا ہے کہ انگریز ی بولی جائے ۔ بھلاکوا ہنس کی چال چل کرکبھی ہنس بناکرتا ہے ؟کوے نے تو کوا ہی رہنا ہے ۔ نصف صدی سے ہم اپنی توانائیاں اس میدان میں کھپا رہے ہیں لیکن ابھی تک وہیں کے وہیں ہیں۔اس کی بجائے اگر ہم نے یہی توانا ئی حقیقی علم اور سائنس کے حصول میں صرف کی ہوتی تو آج نقشہ کچھ اور ہوتا۔ کتنے ہی ذہین نوجوان محض اس لیے پیچھے رہ جاتے ہیں کہ وہ انگریزی نہیں بول پاتے ۔ وہ اس لیے رد کر دیے جاتے ہیں کہ ذہانت کے خود ساختہ معیار پر پورے نہیں اترتے کیونکہ ہم نے ذہانت اورعلم کے جانچنے کا معیار انگریز ی بولنے کو بنا لیاہے ۔ انگریزی زبان کا علم او ر اس کا جاننا اور چیز ہے اور اس کا بولنا اورچیز ہے ۔ہم نے بولنا مطلوب بنا لیا ہے اور علم کوپس پشت ڈال دیا ہے ۔ایک صاحب علم نے ایک سکول کے پرنسپل سے پوچھا کہ فلا ں صاحب کو انگریزی کا استاد مقرر کیا گیا ہے اس کی اس مضمون میں استعداد کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بہت اچھی انگریز ی بولتا ہے ۔ اس صاحب علم نے کہا کہ بہت اچھی انگریزی تومیرا خانساماں بھی بول لیتا ہے کیا اسے بھی تمہارے سکول میں استاد بنا دیا جائے ؟یہی صورت حال ہمار ی ہے اب طالب علموں کی ذہانت اور لیاقت جانچنے کا واحد معیار انگریزی زبان بولنا رہ گیا ہے اور یہ کسی قوم کے ذہنی افلاس کی انتہا ہو ا کر تی ہے۔زبان کا بولنا اور چیز ہے اور علم کے حصول کے لیے اس زبان کا سمجھنا اور سیکھنا اور چیز ہے ،دوسری چیز عین مطلوب ہے جبکہ پہلی چیز ایک ایسا بوجھ ہے جس تلے بہت سی ذہانتیں دب کرختم ہوجاتی ہیں۔
ہماری غلامی اور افلاس کا یہ حال ہے کہ اچھے بھلے سمجھدار اور دین دار کہلانے والے حضرات بھی بہت خوش ہو کر کہا کرتے ہیں کہ دیکھو فلاں کتنا ذہین ہے، کتنی اچھی انگریزی بولتا ہے ! زبان کوئی مجرد یا ہوامیں معلق شے نہیں ہوتی ہر زبان کے ساتھ اس قوم کی تہذیب اور روایات وابستہ ہوتی ہیں جب اس زبان کو سر پر سوار کیا جائے تو اس کی روایات اور تہذیب بھی چپکے سے در آیا کرتی ہے یہی کچھ انگریزی زبان کے معاملے میں ہواہے ۔ اگر ہم نے انگریزی کو علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے لیے بطور زینہ اپنایا ہوتا تو صورت حال کچھ اور ہوتی پھر یہ ہمارے پاؤں تلے ہوتی اب یہ ہمارے سر پر سوار ہے بس فرق اتنا ہی ہے ۔ لیکن غلام ذہنوں کے لیے یہ فرق کوئی خاص فرق نہیں ہو اکرتا۔ہمارے تعلیمی اداروں میں اردو کا جو حشر ہو رہا ہے اسے آنے والا مورخ ہمارے ذہنی افلاس کی بہت نمایاں علامت کے طور پر درج کرے گا۔اگر ہمارے بچے انگریزی میں مہارت تامہ حاصل کرپاتے تو پھر بھی غنیمت تھی مگر آج تک ایسانہیں ہوا ،جبکہ دوسری طرف وہ بیچارے اردو بھی صحیح طور پر سیکھ نہیں پاتے۔ آج کا گریجوایٹ اقبال کو سمجھنے سے قاصر ہے وہ اس سے آگے بڑھ کر شاہ ولی اللہ اور دیگر اکابرکو کیا سمجھے گا؟ہم اردو سے نہیں کٹ رہے بلکہ اپنی تاریخ سے کٹ رہے ہیں اور جو قوم اپنی تاریخ سے کٹ جاتی ہے وہ قوموں کے بازار میں کوڑا کرکٹ بن کر رہ جاتی ہے کیا ہمارا حال آج ایسا ہی نہیں؟ جو چاہتا ہے ٹشو پیپر کی طرح ہمیں استعمال کرتا ہے اور پھر جہا ں چاہتا ہے اورجب چاہتا ہے ہمیں پھینک کر اپنی راہ لیتا ہے۔
قو م و ملت سے محبت رکھنے والے افراد و اداروں سے ہماری درد مندانہ درخواست ہے کہ خدارا اردو کو اس کا صحیح مقام دیجیے۔ ہم انگریزی کے خلاف نہیں ،بلکہ حامی ہیں کہ اسے ضرور سیکھا جائے بلکہ بھر پور طریقے سے سیکھا جائے مگر اردوکو قربان کر کے نہیں۔یہ سودا بہت مہنگا ہے۔اورتاریخ جب اس کا حساب چکائے گی تو ہم بہت بے بس ہو ں گے ۔علم وسائنس کے حصول کے لیے انگریزی کو مطلوب بنائیے نہ کہ بولنے کے لیے محبوب۔خدارا اس باریک فرق کو سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔ فارسی سے رابطے کاٹ کر ہم پہلے ہی اپنے بچوں کو گلستاں بوستاں کی خوبصورت اخلاقیات سے محروم کر چکے ہیں اب اردو سے کاٹ کر رہی سہی کسر بھی پوری ہوا چاہتی ہے ۔ انگریزی بولنے سے انگریزی تہذیب اور روایات تو ضرور آئیں گی ،علم نہیں۔ علم شاید ہمار ا مطلوب ہی نہیں رہا اس لیے بظاہردیندار، پڑھے لکھے ،قوم و ملت کے درد کا دعوی رکھنے والے بلکہ ماہر تعلیم کہلانے والے حضرات بھی بچوں کو انگریزی بولتا دیکھ کر خوش ہوجایا کرتے ہیں اس خوشی پر بھی ہمیں اعتراض نہ ہوتا اگر ان حضرات کو اردو کے لٹنے کاغم ہوتا کاش یہ جان جائیں کہ اردو کی قربانی محض ایک زبان کی قربانی نہیں بلکہ دینی اخلاقیات اور مشرقی روایات کی قربانی ہے ۔
ہمارے دکھوں کا علاج انگریزی بولنا نہیں بلکہ طاقت اور قوت کا حصول ہے اور طاقت و قوت کا حصول طاقتور کی نقالی سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے انہی راستوں سے گزرنا پڑتا ہے جن راستوں پر موجودہ طاقتور کے قدم گامزن رہے ہوں اور یہ راستہ صرف اور صرف علوم وفنون کا حصول ہے۔ اورظاہر ہے کہ علوم و فنون میں ترقی کے لیے انگریزی بولنا شرط نہیں بلکہ اسے علمی سطح پربقدر ضرورت سیکھنا شرط ہے ۔ آخرچینی ، جاپانی ، فرانسیسی اور جرمن اپنی زبانیں بول کر بلکہ ان میں پڑھ کر قوت و اقتدار کے مالک بن سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ لیکن برا ہو ذہنی غلامی کا جس نے یہ دن دکھائے ہیں۔وہ دن ہماری آزادی کا حقیقی دن ہو گا جس دن ہم اپنی زبان کوفخر سے بولیں گے فخر سے پڑھیں گے اور فخر سے سیکھیں گے اورصرف انگریزی نہیں بلکہ ہر وہ زبان جو ترقی کے رستے میں ہماری معاون ہو اسے صرف بقدر ضرورت سیکھنے پر اکتفا کریں گے ۔