‘‘میں نے بابا جی کوٹیکہ دے دیا ہے۔ یہ دوا بھی لکھ دی ہے۔ اِسی ترتیب سے دیتے رہیں۔ لگتا ہے کہ رات کو دوا نہیں دی گئی’’ حاکم علی کی بہو کو سمجھاتے ہوئے میں نے کہا۔اُس نے جواب دیا کہ ‘‘ڈاکڑ صاحب ایسی کوئی بات نہیں کہ رات دوا نہیں دی گئی ،کیونکہ میں ساری رات جاگتی رہی ہوں اور انکے ساتھ رہی ہوں اور اپنے ہاتھوں سے دوا د یتی رہی ہوں۔’’ اور مجھے اس بات میں کوئی شک نہ تھا ۔ جس طرح سے یہ عورت پچھلے چند سالوں سے اپنے سسر کی خدمت کر رہی تھی،میرے لیے حیران کن تھا۔
سیٹھ رحمان ، شہر کا ایک بڑا کاروباری تھا۔یہ تین بھائی تھے۔ اور حاکم علی ان کا باپ تھا ۔ یہ تینوں بھائی کروڑوں میں کھیلتے تھے۔یہ سب کچھ اس بابا حاکم علی کی محنت اور کاروباری مہارت کا نتیجہ تھا۔ بابا حاکم علی اپنے چھوٹے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتا تھا۔ عمر کا آخری حصہ تھا ۔جسمانی مشینری بڑھاپے کا شکا ر ہو چکی تھی اور کوئی نہ کوئی پرزہ خراب رہتاتھا۔ اور میں ان کا فیملی ڈاکڑ تھا۔ اور اپنی ‘‘ٹھوکاٹھاکی’’سے بابے کو سہارا دیے ہوئے تھا۔
بیماری اور تیمار داری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں ہزاروں مریض اور اُن سے کہیں زیادہ تیما ر دار دیکھ چکاہوں، لیکن جس قسم کی تیمارداری بابے حاکم علی کی یہ بہو کر رہی تھی،حقیقت ہے کہ میں نے زندگی بھر اس طرح کا تیماردار نہیں دیکھا تھا۔
تیمارداری بھی ایک پیشہ ہے۔ جسے عرف عام میں نرسنگ کہا جاتاہے۔ ڈاکڑ تو مریض کا معائنہ کرکے اس کے لیے دوا تجویز کرتاہے۔ لیکن اس دوا کو استعمال کرانا، مریض کی ضروریات کا خیال رکھنا اور اس کو تکلیف اور بیماری میں زیادہ سے زیادہ آرام و راحت پہنچانا ڈاکڑ کے کام سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اور یہی کام ایک نرس کرتی ہے۔ یا ہمارے معاشرے میں مریض کے لواحقین کرتے ہیں۔ حاکم علی خوش قسمت تھا کہ اسے مسز رحمان کی شکل میں ایک مخلص اور باہمت دیکھ بھال کرنے والی میسر تھی۔
مسز رحمان کو اس گھر میں آئے چھ سال ہو چکے تھے۔ ساس تو اس کی آمد سے قبل ہی راہی عدم ہو چکی تھی،اور سسر اس کے پاس رہتے تھے ۔ کبھی کبھار بڑے بیٹوں کے ہاں چلے جاتے، یا کبھی کبھار اپنی بیٹیوں کے ہاں جا قیام کرتے تھے۔ لیکن مستقل ٹھکانہ سیٹھ رحمان کے گھر میں ہی رہتا تھا۔ ‘‘مسز رحمان، یہ بابا جی تمہارے کیا لگتے ہیں۔’’ ایک دن میں نے مسز رحمان سے پوچھا۔ وجہ یہ تھی، کہ جس چاہت اورلگن سے وہ بابا جی کی خدمت کر رہی تھی،میرایہ خیال تھاکہ شاید یہ اس کے چچا ،ماموں ، خالو یا پھوپھاوغیرہ ہوں۔ وہ کہنے لگی ،‘‘ڈاکڑصاحب میری شادی غیروں میں ہوئی ہے۔ میرے والدین فیصل آبادمیں ہیں۔ شادی سے قبل ہماری اس فیملی سے کوئی جان پہچان نہ تھی’’۔ میں حیران ہوگیا۔ میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ یہ لڑکی غریب ہوگی ،اتفاق سے اتنے مال دار گھرانے میں شادی ہو گئی ہے تو اب خاوند کے باپ کی دل وجان سے خامت کر کے اس گھرانے میں جگہ بنانا چاہتی ہے۔ اس سوچ کے تحت میں نے پوچھا،کہ تمہارا باپ کیا کام کرتے ہیں ؟’’ کہنے لگی ،‘ ‘ ہماری فیصل آباد میں اپنی فیکٹری ہے۔سیٹھ رحمان اور بڑے بھائیوں کے ساتھ اباجی کا کاروباری میل ملاپ تھا، جس کو رشتہ داری میں بدل دیا گیا۔’’
رسولﷺنے ہمیں جو دین عطا کیا ہے، اُس کا سب سے ممتاز پہلو خاندانی نظام ہے۔ اسلامی تہذیب میں ،خاندانی نظام کو برقرار ومستحکم رکھنے پر زور دیا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں نہ توشیرخوار بچوں کے لیے نرسریاں بنا نی پڑتی ہیں اور نہ بڑے بوڑھوں کے لئے اولڈہاؤس تعمیر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنی اولاد تو بوڑھے والدین کی خدمت کرتی ہی ہے، دیگر رشتہ دار بھی بوڑھے رشتہ داروں کی خدمت کرنا ثواب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ساس کو ماں کا رتبہ دیا جاتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن گھروں میں ساس سسر کو یہ رتبہ دیا جاتا ہے وہاں سکون اور راحت کا دور دورہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کا پر سکون گھرانہ سیٹھ رحمان کا بھی تھا۔
حقیقت میں تو اس خاندان کودنیا دار خاندان ہی کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن شرافت ، دیانت اور مشرقی روایات واقدار کی پاسداری اور لحاظ اس میں بدرجہ اتم موجود تھا ۔ دنیا کی ہر آسائش اور سہولت انہیں میسرتھی۔ دولت کی ریل پیل تھی۔ لیکن کوئی معاشرتی اور سماجی برائی اس خاندان میں نام کو نہ تھی۔ بیمار سسر کے پاخانے سے آلودہ کپڑے اور بسترتک، مسزرحمان خود بدلواتی تھی۔ ‘‘ آپ بابا جی کی خدمت کے لیے ملازمہ یا کسی نرس کا بندوبست کیوں نہیں کر لیتے؟’’ ایک دن میں نے مسز رحمان سے کہا، اُس نے بڑی اخلاص بھری آواز میں کہا کہ‘‘ اباجی کے لیے ان ملازمین کے دلوں میں احترام ،ادب، اور محبت و اخلاص میں کہاں سے لاؤں گی؟ میں سوچتا رہا کہ اتنی چاہت اور اتنا جذبہ خدمت اس اللہ کی بندی نے کہاں سے پایا؟ چھ سالوں میں اُسکے ہاں چار بچے پیدا ہوئے۔ اُنکو سنبھالنا بذاتِ خود ایک بڑا کام ہے۔ پھر اتنے بڑے گھر کی دیکھ بھال اور آئے گئے مہمان کی میزبانی بھی اس کے ذمہ تھی۔ لیکن مجال ہے کہ کبھی اسکے چہرے پر تھکاوٹ یا اکتاہٹ کے آثارنظر آ ئے ہوں۔ جب بھی جانا ہوا ، اُسے چاک و چوبند اور خوش وخرم ہی پایا۔ گھر میں ملازمین بھی تھے، اُن سے کام لینا بھی ایک الگ سردردی ہوتی ہے،لیکن سسر کے سب کام وہ خودہی سر انجام دیتی رہی۔
باباجی کاہر کام جس شوق اور لگن سے وہ کر رہی تھی اس کی وجہ سے میں نے اسکا نام ہی جنت بی بی رکھ چھوڑا تھا کیونکہ جنت اصل میں ہے ہی خدمت کے سائے میں۔
بابا جی کا سفر زندگی ختم ہونے کو تھاتو انہیں ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ اس عرصہ کے دوران میں بھی مسز رحمان نے ہی ساری ذمہ داری سنبھالے رکھی کیونکہ سیٹھ صاحب خود تو اپنے کاروبار میں اُلجھے رہتے تھے۔۔ سیٹھ صاحب کی بہنیں بھی، گو اپنے باپ کی تیمارداری کے لئے آ جاتی تھیں،لیکن باباجی جو مانوسیت اور راحت مسز رحمان سے پاتے تھے، اپنی سگی بیٹیوں سے نہیں پاتے تھے ۔اور پھرجس طرح باباجی کی بیماری، ان کی دوا کی حقیقت ،دوا کے اوقات اور مقدار اور باباجی کی غذا میں پسندو ناپسندکے بارے میں مسزرحمان کو جومعلومات تھیں ، اُسکی کسی نند کو نہ تھیں ہسپتال سے واپسی پر اگرچہ وہ بابا جی کو زندہ واپس نہ لا سکی مگر اُس نے مجھے بتایاکہ‘‘ڈاکڑ صاحب، ساری ساری رات جاگ کر گزاری اور حد یہ ہے کہ باباجی کے زیر ناف بال تک بھی میں نے ہی صاف کئے تھے۔’’اور یہ خدمت کی انتہا تھی۔ اس سے آگے کے احوال سننے کا مجھ میں حوصلہ ہی نہ تھا۔ آج تک سوچتا ہوں کہ کوئی بہو اس حد تک بھی جا سکتی ہے؟خدمت کی ان حدود تک تو بیٹیوں یا بیٹوں کی رسائی بھی کم کم ہی ہوتی ہے۔